Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنتری نئے سال کی

ابن انشا

جنتری نئے سال کی

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج۔

    یعنی بلبل بولتا تھا یا بولتی تھی تو لوگ جان لیتے تھے کہ بہار آگئی ہے۔ ہم نئے سال کی آمد کی فال جنتریوں سے لیتے ہیں۔ ابھی سال کا آغاز دور ہوتا ہے کہ بڑی بڑی مشہور عالم، مفید عالم جنتریاں دکانوں پر آن موجود ہوتی ہیں۔ بعض لوگ جنتری نہیں خریدتے۔ خدا جانے سال کیسے گزارتے ہیں۔ اپنی قسمت کا حال، اپنے خوابوں کی تعبیر، اپنا ستارہ (چاند سورج وغیرہ بھی) کیسے معلوم کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جنتری اپنی ذات سے قاموس ہوتی ہے۔

    ایک جنتری خرید لو اور دنیا بھر کی کتابوں سے بے نیاز ہو جاؤ۔ فہرست تعطیلات اس میں، نماز عید اور نماز جنازہ پڑھنے کی تراکیب، جانوروں کی بولیاں، دائمی کیلنڈر، محبت کے تعویذ، انبیائے کرام کی عمریں، اولیائے کرام کی کرامتیں، لکڑی کی پیمائش کے طریقے، کون سادن کس کام کے لیے موزوں ہے۔ فہرست عرس ہائے بزرگان دین، صابن سازی کے گر، شیخ سعدی کے اقوال، چینی کے برتن توڑنے اور شیشے کے برتن جوڑنے کے نسخے، اعضاء پھڑکنے کے نتائج، کرہ ارض کی آبادی، تاریخ وفات نکالنے کے طریقے۔ یہ محض چند مضامین کا حال ہے۔ کوزے میں دریا بند ہوتا ہے اور دریا میں کوزہ۔ یوں تو سبھی جنتریاں مفید مضامین کی پوٹ ہوتی ہیں، جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے لیکن روشن ضمیر جنتری (جیبی) کو خاص شہرت حاصل ہے، اس وقت ہمارے سامنے اسی کا تازہ ترین ایڈیشن ہے۔ ایک باب اس میں ہے ’’کون سا دن کون سے کام کے لیے موزوں ہے۔‘‘

    ہفتہ، سفر کرنے، بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے۔

    اتوار، شادی کرنے، افسروں سے ملاقات کرنے کے لیے۔

    بدھ، ۔نیا لباس پہننے، غسل صحت کے لیے۔

    جمعرات، حجامت بنانے، دعوت احباب کے لیے۔

    جمعہ، غسل اور شادی وغیرہ کرنے کے لیے۔

    ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ اندھا دھند جس دن جو کام چاہیں کردیتے ہیں۔ یہ جنتری سب کے پاس ہو تو زندگی میں انضباط آ جائے۔ ہفتے کا دن آیا اور سبھی لوگ سوٹ کیس اٹھاکر سفر پر نکل گئے۔ جو نہ جا سکے وہ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے پہنچ گئے۔ اس سے غرض نہیں کہ اسکول کھلے ہیں یا نہیں یا کسی کے بچے ہیں بھی یا نہیں۔ جدھر دیکھو بھیڑ لگی ہے۔ اتوار کو ہر گھر کے سامنے چھولداریاں تنی ہیں اور ڈھولک بج رہی ہے۔ لوگ سہرے باندھنے کے بعد جنتری ہاتھ میں لیے افسروں سے ملاقات کرنے چلے جا رہے ہیں۔ بدھ کو سبھی حماموں میں پہنچ گئے اور جمعرات کو سبھی نے حجامت بنوائی، اور دوستوں کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں آکر دعوت کھا جائیو۔ جمعہ کو نکاح ثانی کا نمبر ہے۔ جو لوگ اس منزل سے گزر چکے ہیں وہ دن بھر نل کے نیچے بیٹھ کر نہائیں کہ ستاروں کا یہی حکم ہے۔

    ہم جو خواب دیکھتے ہیں وہ بالعموم عام قسم کے ہوتے ہیں اور صبح تک یاد بھی نہیں رہتے۔ جنتری سے معلوم ہوا کہ خوابوں میں بھی بڑے تنوع کی گنجائش ہے۔ خواب میں پھانسی پانے کا مطلب ہے بلند رتبہ حاصل ہونا۔ افسوس کہ ہم نے خواب تو کیا اصل زندگی میں بھی پھانسی کبھی نہ پائی۔ بلند مرتبہ نہ مل سکنے کی اصل وجہ اب معلوم ہوئی۔ من نہ کردم شما حذر بکنید۔ اسی طرح گھوڑا دیکھنے کا مطلب ہے دولت حاصل کرنا۔ قیاس کہتا ہے کہ مطلب وکٹوریہ کے گھوڑے سے نہیں، ریس کے گھوڑے سے ہے۔ خچر دیکھنے سے مراد ہے سفر پیش آنا۔ جو لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں ان کو ہوائی جہاز دیکھنا چاہیے۔ بلی کا پنجہ مارنا بیماری کے آنے کی علامت ہے۔ سانپ کا گوشت کھانا دشمن کا مال حاصل ہونے کی۔ خواب میں کان میں چیونٹی گھس آئے تو سمجھیے موت قریب ہے۔ (خواب کے علاوہ گھس آئے تو چنداں حرج نہیں، سرسوں کا تیل ڈالیے نکل آئے گی۔) اپنے سر کو گدھے کا سر دیکھنے کا مطلب ہے عقل کا جاتے رہنا۔ یہ تعبیر ہم خود سوچ سکتے تھے۔ کوئی آدمی اپنے سر کو گدھے کا سر (خواب میں بھی) دیکھے گا، اس کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے؟ خواب میں مردے سے مصافحہ کرنے کی تعبیر ہے درازی عمر، خدا جانے یہاں عمرفانی سے مراد ہے یا عمر جاودانی سے۔

    ایک باب اس میں جسم کے اعضا کے پھڑکنے اوران کے عواقب کے بارے میں بھی ہے۔ آنکھ پھڑکنا تو ایک عام بات ہے۔ رخسار، شانہ راست، گوش چپ، انگشت چہارم، زبان، گلہ، گردن بجانب چپ، ٹھوڑی، بغل راست وغیرہ، ان پچاسی اعضا میں سے ہیں جن کے پھڑکنے پر نظر رکھنی چاہیے۔ ان میں بعض کے نتائج ایسے ہیں کہ ہم نقل کردیں تو فحاشی کی زد میں آجائیں۔ ایک دو امور البتہ فاضل مرتبین نظر انداز کر گئے۔ نگہ انتخاب کی پسلی پھڑک اٹھنا استادوں کے کلام میں آیا ہے۔ اس کا نتیجہ نہیں دیا گیا۔ ہماری رگ حمیت بھی کبھی کبھی پھڑک اٹھتی ہے۔ اس کے عواقب کی طرف بھی یہ جنتری رہنمائی نہیں کرتی۔ یہ نقائص رفع ہونے چاہئیں۔ یہ معلومات تو شائد کہیں اور بھی مل جائیں لیکن اس جنتری کا مغز محبت کے عملیات اور تعویذات ہیں جو حکمی تاثیر رکھتے ہیں۔ قیس میاں کی نظر سے کوئی ایسی جنتری گزری ہوتی تو جنگلوں میں مارے مارے نہ پھرتے۔ ایک نسخہ حاضر ہے۔

    ’’محبت کے مارے کو چاہیے کہ ۱۲مارچ کو بوقت ایک گھڑی بعد طلوع آفتاب مشرق کی طرف منہ کر کے نقش ذیل کو نام مطلوب بمع والدہ مطلوب الو کے خون سے لکھ کر اپنے داہنے بازو پر باندھے اور مطلوب کو ۲۰ مارچ بوقت صبح ایک گھڑی ۴۵ پل پر بعد طلوع آفتاب اپنا سایہ دے۔ مطلوب فوراً مشتاق ہو جائے گا۔

    ۹۱، ۱ ام وم ۱۰ ع ۱ اع ۱۱

    نام مطلوب مع والدہ مطلوب، اپنانام مع نام والدہ

    یہاں بعض باتیں جی میں آتی ہیں۔ اگر مطلوب یا محبوب بات نہیں کرتا تو اس کی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے نام کیسے معلوم کیے جائیں؟ پھر الو کیسے پکڑا جائے اور ۲۰ مارچ کو بوقت صبح عین ایک گھڑی ۴۵ پل بعد طلوع آفتاب مطلوب کو کیسے مجبور کیا جائے کہ طالب کے سایے میں آئے۔ ان باتوں کا جنتری میں کوئی ذکر نہیں۔ ہاں جنتری کے پبلشر نے جنتر منتر مکمل نامی جو کتاب بقیمت چھ روپے شائع کی ہے۔ اس میں ان کی تفصیل ملے گی۔

    جو لوگ ہماری طرح تن آسان ہیں، محبت میں اتنا کشٹ نہیں اٹھا سکتے، ان کے لیے مرتب جنتری نے کچھ آسان تر عمل بھی دیے ہیں جن کی بدولت محبوب قدموں پر تو آکر خیر نہیں گرتا لیکن مائل ضرور ہو جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تعویذ ہے جسے ہر روز کاغذ کے چالیس ٹکڑوں پر لکھ کر اور نیچے طالب و مطلوب کے نام درج کرکے آٹے کی گولیوں میں لپیٹ کر دریا میں ڈالنا چاہیے۔ اور چالیس دن تک یہی کرنا چاہیے۔ ہم نے حساب لگایا ہے۔ از راہ کفایت آدھے تو لے کی گولی بھی بنائی جائے تو ایک پاؤ روزانہ یعنی دس سیر آٹے میں محبوب کو راضی کیا جا سکتا ہے۔ جو حضرت اس میں بھی خست کریں اور اپنی محبت کو بالکل پاک رکھنا چاہیں، وہ ایک اور عمل کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ جب بھی محبوب سامنے آئے، آہستہ سے دل میں بسم اللہ الصمد، دس بار پڑھیں اور آخر میں محبوب کی طرف منہ کرکے پھونک ماریں۔ اس طرح کہ منہ کی ہوا اس کے کپڑوں کو چھو سکے۔ پندرہ بیس مرتبہ ایسا کرنے سے اس کے دل میں قرار واقعی محبت پیدا ہو جائے گی۔

    یہ عمل بظاہر تو آسان معلوم ہوتا ہے لیکن عملاً ایسا آسان بھی نہیں۔ اول تو محبوب کو اتنی دیر سامنے کھڑا رہنے پر مجبور کرنا کہ آپ دس بارعمل پڑھ کر پھونکیں مارسکیں اور وہ بھاگے نہیں، اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ پھر آپ جوپھونکیں ماریں گے، اس بناپر محبوب کیا رائے قائم کرے گا، اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ زیادہ شوقین مزاج ان دونوں سے قطع نظر کرکے ’’محبت کا سرمہ‘‘ استعمال کرسکتے ہیں جس کا بنانا تھوڑی محنت تو ضرور لے گا لیکن اس کا جادو بھی عالمگیر ہے۔ یعنی صرف محبوب ہی پر کاری اثر نہیں کرتا بلکہ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ یہ سرمہ ڈال کر ’’جس کی طرف بھی صبح سویرے دیکھے وہی محبت میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘

    یہ سرمہ بنانے کے لیے حاجتمند کو ۱۹فروری کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس روز وہ ’’بوقت طلوع آفتاب پرانی داتن کو جلا کر اس کی راکھ میں چمگادڑ کا خون ملائے اور اس سے یہ نقش بوقت صبح ایک گھڑی ۵اپل بعد طلوع آفتاب لکھے اور اس پر سورۃ فلق گیارہ سوبارپڑھے۔ پھر نئے چراغ میں روغن کنجد (تل کا تیل) ڈال کر جلائے اور اس کی سیاہی آنکھوں میں ڈالے۔‘‘ حسب ہدایت ایک صاحب نے یہ سرمہ دنبالہ دار لگایا تھا۔ اتنا ہم نے بھی دیکھا کہ محبوب انہیں دیکھتے ہی ہنس دیا۔ آگے کا حال ہمیں معلوم نہیں۔

    یہی نہیں، صابن اور تیل تیار کرنے، بوٹ پالش بنانے، کھٹمل اور مچھر مارنے اور مشہور عام ادویہ کی نقلیں تیار کرنے کی ترکیبیں بھی اس میں درج ہیں۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ اردو میں کوئی انسائیکلوپیڈیا نہیں۔ معلومات کی کتاب نہیں۔ انسائیکلوپیڈیا کیا ہوتی ہے۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔ ہم نے انسائیکلوپیڈیا برٹینکا وغیرہ دیکھی ہیں۔ الم غلم مضامین کا طومار ہے۔ اہل دل کے مطلب کی ایک بات بھی نہیں۔ نہ نسخے نہ تعویذ۔ نہ عرسوں کی تاریخیں نہ محبت کے عملیات، نہ خواب نہ خوابوں کی تعبیریں۔ ہمارا یہ دستور ہوگیا ہے کہ باہر کی چیز کو ہمیشہ اچھا جانیں گے، اپنے ہاں کے سونے کو بھی مٹی گردانیں گے۔

    مأخذ:

    خمار گندم (Pg. 27)

    • مصنف: ابن انشا
      • ناشر: لاہور اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 2005

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے