Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیسے نبھائیں کماؤ بیوی سے

مرزا محمود بیگ

کیسے نبھائیں کماؤ بیوی سے

مرزا محمود بیگ

MORE BYمرزا محمود بیگ

    لڑکے لڑکی کا جب بیاہ ہوتاہے تو سب دوست رشتے داراور ہمدرد ایک ہی دعا مانگتے ہیں کہ ان کے دل ملے رہیں اور زندگی بھر آپس میں نبھاؤ رہے۔ شادی نام ہے نبھاؤ کا۔ اگر نبھاؤ نہ ہو تو شادی نہیں بربادی ہے۔ روز روز کی کل کل سے زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ دنیا دونوں کے لیے دوزخ ہوجاتی ہے۔ زندگی سے اتنےتنگ ہوجاتے ہیں کہ زندگی کے مقابلے میں موت اچھی معلوم ہوتی ہے اور کچھ تو اتنے بیزار ہوتے ہیں کہ خودکشی کرکے چھٹکارا پاتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ نبھاؤ کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور لڑکے لڑکی کو آپس میں نباہ قائم رکھنے کی نصیحتیں کی جاتی ہیں۔

    ایک زمانہ تھا کہ یہ نباہ بہت آسان تھا۔ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا، مرد کی حکومت تھی۔ جب غاروں میں جنگلوں میں، پہاڑوں میں رہتا تھا تو مرد جنگل کےجانوروں کا شکار کرتا تھا۔ عورت کھالوں کے کپڑے بناتی تھی۔ عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرنا، ان کے لیے خوراک مہیا کرنا، کام مرد کا تھا اس لیے حکم بھی اسی کاچلتا تھا۔

    جب جنگل نہ رہے، جنگلی جانور نہ رہے۔ گاؤں بسے اور شہر بسے، شکار کی جگہ کھیتی باڑی نے لی۔ تب بھی جفاکشی کے کام مرد کے تھے۔ ہل چلانا، بیج بونا، کنواں چلانا۔ پانی دینا۔ فصل کاٹنا۔ اناج منڈی میں لے جانا، روٹی کپڑے کے لیے پیسے کمانا۔ یہ سب کام مرد کے تھے اور اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو گھر چل نہیں سکتا۔ اس لیے جب کھیت پر اس کی بیوی روٹی ساگ اور لسّی پہنچاتی تھی یا گھر میں اس کے سامنے دودھ، مکھن، پراٹھے، رابڑی رکھتی تھی تو وہ موچھوں پر تاؤ دیتا جاتا تھا اور کھاتا جاتا تھا۔ بیوی الگ بیٹھی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھی اور دل ہی دل میں دعا مانگتی تھی کہ اس کا سہاگ بنارہے۔ اس کا کماؤ جیتا رہے۔ وہ اس کی خدمت کرکے اس دنیا میں بھی سکھی رہے اور اس دنیا میں بھی۔

    زمانہ اور آگے بڑھا۔ کھیتی کیاری رہی۔ مگر اب کارخانے، ملیں، دکانیں، دفتر بہت ہوگئے۔ مرد اب بھی کماؤ تھا۔ مہینہ بھر محنت کرتا۔ تنخواہ لاتا۔ بیوی کے ہاتھ میں دیتا اور پھر سارے مہینے پیٹ بھر روٹی کھانے اچھے کپڑے پہننے اور آرام سے زندگی بسر کرنے کو اپنا حق سمجھتا۔

    بیوی بھی جانتی تھی کہ کماؤ کون ہے اور خدمت کس کا فرض ہے۔ اگر میاں دیر سے آتا یہ بیٹھی انتظار کرتی۔ وہ بہت کہتا۔ اجی تم کھا لیا کرونا۔ مگر جواب ملتا، کیسے کھالوں تمہیں نہ دیکھ لوں تو حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔

    یہ حضرت دل ہی دل میں خوش ہوتے کہ کتنی قدر ہے ان کی اور پھر ان کی بیوی جلدی سے چولہا جلا کے ان کے لیے گرم گرم پھلکے اتارتی اور زیادہ زیادہ گھی لگاکر ان کو دیتی جاتی تو ان کی نگاہوں سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ بیوی کی کتنی قدر کرتے ہیں اور اس سے کتنی محبت کرتے ہیں اور جب وہ نہایت محبت کے لہجے میں کہتی۔ اجی ابھی کھایا ہی کیا ہے۔ لو یہ ایک پھُلکا اور گرم گرم لے لو۔ دن بھر کام میں خون پسینہ ایک ہوتا ہے۔ آخر کھاؤگےنہیں تو۔ ۔ ۔

    خوشی کے مارے ان کی بھوک اور کھلتی اور یہ ایک پھُلکا ہی نہیں بلکہ دو تین تر ترے پھُلکے اور کھاتے اور سچے دل سےکہتے، اجی تم سچ مچ میں دیوی ہو۔ میری قسمت ہی اچھی تھی تھی کہ تم۔ ۔ ۔

    دیوی کا لفظ سننا تھا کہ خوشی کے مارے ان کی باچھیں کھل گئیں اور انھوں نے شرماکر کہا اجی بس رہنے بھی دو۔ بھاگ تو میرے ہی اچھے تھے اور اسی لیے میں کروے چوتھ کا برت پابندی سے رکھتی ہوں کہ اگلے جنم میں بھی۔ ۔ ۔

    اب آپ ہی بتائیے جہاں یہ باتیں ہوں وہاں نبھاؤ کیسے مشکل ہو سکتا ہے۔ ایک کماؤ ہے، اَن داتا ہے۔ دوسری دیوی ہے۔ خدمت کرنے میں پوری ہے۔ دونوں کے لیے چین ہی چین لکھا ہے۔

    مگر زمانے کو بھی قرار نہیں۔ اسکول کھلے، کالج کھلے، لڑکوں نے پڑھا، لڑکیوں نے پڑھا۔ پھر دونوں سے حکومت کرنے والے چنے جانے لگے اور ووٹ مرد اور عورت دونوں کی برابر۔ جب ووٹ برابر تو حقوق برابر۔ جب حقوق برابر تو نوکریاں برابر۔ کام برابر۔ مرد کماتے ہیں تو عورتیں کیوں نہ کمائیں۔ اور مہنگائی کی وجہ سے نئی نئی ضرورتوں کی وجہ سے جب مرد نے دیکھا کہ اس کی تنخواہ کافی نہیں تو اس نے ایسی لڑکی کو پسند کیا جو خود بھی کماتی ہو اور تنخواہ لاتی ہو تاکہ دونوں کی تنخواہ مل کر اچھا گھر لیا جاسکے نوکر رکھا جاسکے۔ ریڈیو، ریفریجریٹر وغیرہ زندگی کی ضرورتیں پوری کی جاسکیں۔

    کماؤ بیوی سے شادی کرکے روپے پیسے کی ریل پیل ضرور ہوگئی مگر ایک آدھ بات حکومت کرنے کے عادی مرد کو ذرا کھٹکی۔ پہلے جب مرد دفتر جانے کے لیے تیار ہوتا تھا تو اس کی خدمت گزار بیوی تولیہ صابن کاخیال رکھتی تھی۔ اِدھر یہ سنا کہ آئے ادھر گرم گرم ناشتہ ان کے سامنے رکھا۔ کپڑوں پر استری کی۔ چلتے چلتے ان کو نہایت اچھا پان بناکر دیا۔ دفتر سے جب یہ لوٹے ابھی کپڑے بدلنے نہ پائے تھے کہ گرمیوں میں شربت، جاڑوں میں چائے سامنے لا رکھی۔ اور پھر وہی گرم پھُلکے اور خدمت۔

    اب معاملہ دوسرا تھا۔ ادھر یہ تیار ہو رہے ہیں، ادھر بیوی نے ڈریسنگ ٹیبل سے آواز دی۔ ’’اجی ذرا چائے کا پانی رکھ دینا اور آج ذرادیر ہوگئی ہے ذرا لگے ہاتھوں چائے بنا ڈالو۔‘‘ ان کے کان کھڑے ہوئے۔ انھوں نے غور سے بیوی کی طرف دیکھا اور چپ چپاتے صرف چائے ہی نہیں بنائی بلکہ پورا ناشتہ تیار کرڈالا۔ شام کو یہ لوٹے تو گھر سونا۔ بیوی ابھی دفتر سے واپس نہیں آئی ہیں۔ انھوں نے چائے تیار کی۔ کچھ بسکٹ وغیرہ کااتنظام کیا۔ ابھی شروع نہیں کیا تھا کہ بیوی آگئیں اور بہت خوشی اور محبت سے بولیں، کامریڈ میں سوچتی آرہی تھی کہ اگر اس وقت گھر جاکر چائے بنانی پڑی تو میں تو بس لیٹ جاؤں گی۔ اتنی تھک گئی ہوں مگر کیا اچھی چائے بنائی ہے آپ نے۔ نہیں بسکٹ تو آپ ہی کھائیے۔ میں تو چائے کی ایک پیالی اور لوں گی۔ آج رینوکا نے کھانا کیا ہے، اگر بسکٹ کھاؤں گی بھوک ماری جائے گی۔ اچھا لو میں چلی۔ ٹاٹا۔ اور ہاں رات کا پکا ہوا سالن ڈولی میں رکھا ہے۔ وہ لے لینا۔ اگر چاہو تو ایک آدھ انڈا تل لینا۔ ٹاٹا۔

    لیجیے صاحب وہ تو ٹاٹا کرکے چلتی بنی۔ اب یہ آہستہ آہستہ چائے پیتے جارہے ہیں اور اپنی حالت پر غور کرتے جارہے ہیں۔

    ایک لمحے کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے گا مگر پھر ایک دم سنبھلتے ہیں اور نبھاؤ کا وعدہ یاد آتا ہے۔ جب خدمت گزار بیوی سے نبھاؤ کیا تھا۔ اب کماؤ بیوی سے نبھاؤ کرنا ہے کیسے کریں۔

    اگر یہ ذرا سمجھ سے کام لیں تو کماؤ بیوی سے نبھاؤ بہت آسان ہے۔ فقط ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے پُرانے وہم ان کے دماغ میں عورت کی خدمت اور مرد کی حکومت کے بارے میں ہیں ان کو ذہن سے نکال دیں۔ زمانے کو سمجھیں، وقت کو پہچانیں۔ اور تعلیم نے، نئی سماج نے، نئے طریقوں نے، مرد عورت کو جو نیا مرتبہ دیا ہے اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد نبھاؤ کی کوشش کریں تو وہی محبت وہی پیار قائم رہے گا جو پرانے زمانے میں تھا۔

    اگر یہ کماؤ بیوی کو اب بھی وہی پرانی بیوی سمجھیں گے جو ان کی آنکھ کے اشارے پر چلتی تھی، مصیبتیں اپنے پر جھیلتی تھی اور ان کے سکھ دکھ کا خیال رکھتی تھی۔ ان کی خدمت ہی اپنا دھرم سمجھتی تھی۔ اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ ان کا حکم ماننے میں صَرف کرتی تھی۔ تو ان کو بڑی مایوسی ہوگی۔

    اگر یہ کماؤ بیوی کے نئے طور طریق سے دل میں یہ شبہ پیدا ہونےدیں گے کہ پچھلے زمانے کی عورتوں پرمردوں نے جو ظلم کیا ہے وہ اب اس کے چن چن کر بدلے لے رہی ہے۔ خواہ مخواہ ان سے کام لے کر اپنے کماؤ ہونے کا احساس دلارہی ہے، اپنا رعب ڈال رہی ہے تو یہ بھی ان کی بڑی غلطی ہوگی۔

    یہ ٹھیک ہے کہ ان کی کماؤ بیوی ان کی پہلے جیسی خدمت گزار حکم ماننے والی نہیں ہے۔ اور اگر وہ چاہے بھی تو وہ نہیں ہوسکتی۔ اب وہ ان کی ساتھی ہے اور یہ ناطہ محض بیوی کے ناطے سے بہتر ہے۔ وہ صرف گھر کی آمدنی بڑھانے میں ہی ان کا ہاتھ نہیں بٹاتی بلکہ وہ ان کے فکر اور فیصلے میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ پہلے زمانے کی خدمت گزار بیوی سب فیصلے ان پر چھوڑتی تھی۔ کیوں کہ بھلا حاکم مرد کو فیصلہ کرنے میں محکوم بیوی کیسے مدد دے سکتی ہے اور وہ جس کے بارے میں یہ خیال کرلیا گیا ہو کہ اس کی عقل گُدّی کے پیچھے ہوتی ہے۔ اب یہ حال نہیں ہے۔ اب دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ دکھ سکھ میں ہی نہیں بلکہ فیصلہ اور مشورے میں بھی۔

    ایسے بھی مرد ہیں جو ابھی تک پرانے وہموں سے نہیں نکلے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ ان کی کماؤ بیوی کے اب بھی وہی فرض ہیں جو سارے وقت گھر میں رہنے والی بیوی کے ہوتے تھے۔ وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ جب صبح سویرے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے سوکر اٹھیں تو ان کی بیوی خود اپنی تیاری کرنے کے علاوہ ناشتہ تیار کرے اور توس میں مکھن بھی اپنے ہی ہاتھ سے لگا کر دے۔ جب شام کو یہ گھر آئیں تو ان کی بیوی جو چند منٹ پہلے گھر پہنچی ہے۔ انھیں چائےبناکر دے، رات کا کانا بنائے انھیں کھلائے اور ان کی سیوا کا دم بھرے کہ ان کو وہی پرانا مرتبہ دے حاکم کا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ان کو شکایت ہوتی ہے۔ ’’کمانا کیا شروع کردیا ہے سر ہی چڑھ گئیں۔ لیجیے صاحب اب یہ آزاد ہیں۔ بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے۔ عورت عورت ہے مرد مرد ہے۔ عورت کی مکتی ہوتی ہے، مرد کی خدمت کرکے۔ جہاں عورت پہلے خالی وقت گھر میں گزارتی تھی۔ اب کماتی ہے۔ مگر اس کے اور فرائض اپنی جگہ ہیں۔ ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ عورتیں برابری کا دعویٰ کریں۔‘‘

    ان کو اپنی بیوی سے محبت ہے۔ پیار ہے مگر ان کا دل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ ان کی جب شادی ہوئی تھی ان کی دلہن نے ان کے پاؤں دھوئے تھے اور چرن امرت پیا تھا۔ یہ اب بھی گھر کے راجا ہیں۔ جب گھر میں داخل ہوتے ہیں سینہ پھلاتے ہیں۔ گردن اکڑا لیتے ہیں۔ ٹھوڑی ذرا آگے نکال لیتے ہیں بالکل اس مرغے کی طرح جو مٹک مٹک کر چلتا ہے اور سب مرغیوں کو جتا دیتا ہے کہ خود وہ ایک مرغ ہے اور باقی سب محض مرغیاں ہیں۔ ان کی بیوی بھی ایک کمزور، پابند، محکوم چہیتی ہے ایسا خیال ان کو ورثہ میں ملا ہے۔ بھلا یہ اب بیوی کو ساتھ کیسے مان لیں۔ کماؤ ہو یا بے کماؤ۔

    مگر ان کو یہ نہیں معلوم کہ کماؤ بیوی کے ساتھ نبھاؤ کرنےکے لیے ان کو اپنے پرانے خیال چھوڑنے پڑیں گے، نہیں تو دونوں کو تکلیف ہوگی۔ ان کی کماؤ بیوی اگر طبیعت کی خاموش ہے اور شوہر سے جھگڑنا برا سمجھتی ہے تو وہ ۴۸ گھنٹے کے کام ۲۴ گھنٹے میں کرنے کی کوشش کرے گی، اف نہ کرے گی مگر کب تک۔ آخر قدرت کے قانون اس کے دل و دماغ اور جسم پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور بہت جلدی وہ دن آئے گا جب یہ تھک جائے گی، بیمار ہوگی، مرجائے گی۔ بھلایہ کیسا نبھاؤ ہوا، کہ نبھانے میں جان گئی۔

    اگر وہ خاموش نہیں ہے، اگر وہ بھی منہ بھی زبان رکھتی ہے، اتنی دبی دبائی نہیں ہے بلکہ جو دل میں آیا کہہ دیتی ہے تو پھر گھر میں وہ مزے دار چت پٹ ہوگی کہ انسان دیکھا کرے، بلکہ سنا کرے۔ ہر بات پر تُو تُو میَں میَں۔ اور خدانخواستہ بچے ہوئے تو بس کچھ نہ پوچھو۔ یہ نبھاؤ نہیں لڑائی ہے۔ اور لڑائیاں ہوتی ہیں چار سال کی۔ چھ سال کی، مگر یہ عمر بھر کی لڑائی ہے۔ اور یہ زندگی نہیں عذاب ہے۔

    شادی کرنا شاید اب آسان ہے۔ مگر شادی نبھانا مشکل ہے۔ جب تک میاں بیوی اور خاص طور پر کماؤ میاں اور کماؤ بیوی دونوں یہ فیصلہ نہ کرلیں کہ ہمیں نبھانا ہے۔ زندگی ایک گاڑی ہے جس میں یہ دونوں جوتے گئے۔ جُوا دونوں کی گردن پر ہے۔ اگر ایک بھی پیچھے رہ گیا یا پیچھے کردیا گیا تو گاڑی رک جائے گی اور اگر دونوں بیلوں نے ایک دوسرے کو سینگ مارنا شرورع کیے تو نہ بیلوں کی خیر ہے، نہ گاڑی کی۔ یا یوں سمجھیے کہ گاڑی ایک کشتی ہے جس کو میاں بیوی دونوں مل کر کھیتے ہیں۔ اگر چپو ایک ہی طرف سے چلایا گیا تو دوسری طرف کا کھینے والا خالی رکے یا خالی ہاتھ کردیا گیا تو کشتی ایک طرف کو مڑ جائے گی اور بھنور میں پڑجائے گی۔ اور اگر کشتی کھینے والوں نے اپنے چپوؤں کو کشتی کھینے کے لیے نہیں آپس میں لڑنے کے لیے استعمال کیا تو پہلے کشتی ڈگمگائے گی اور پھر دونوں کو ساتھ لے کر ڈوب جائے گی۔

    گھر اس ہی وقت تک گھر ہے، زندگی اس ہی وقت تک زندگی ہے۔ جب تک میاں بیوی مل کر ایک دوسرے کوسمجھ کر، ایک دوسرے کے ساتھی بن کر رہیں۔ ہر زمانےکی ضرورتیں الگ ہوتی ہیں۔ ہر زمانے کامزاج الگ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر کماؤ بیوی یہ سمجھے کہ وہ کماتی ہے اس لیے ایسا انوکھا کام کرتی ہے جوعورت ذات نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اس لیے اب اس کی خدمت ہونی چاہیے تو بڑے سخت دھوکے میں ہے۔ پہلے زمانے کی عورت مانا کہ دفتر کی نوکری نہیں کرتی تھی مگر محنت مشقت کے کام آج کل کی کماؤ بیوی سے زیادہ کرتی تھی۔ صبح کے تڑکے سےپہلے یہ گھمر گھمر چکی چلاتی تھی۔ پھر دہی ہلوتی تھی کہ دوپہر کی روٹی کے لیے مکھن اور لسی تیار ہوسکے۔ گھر صاف کرنا، روٹی بنانا اور پھر پانی کی چھاگل لے کر کنویں سے پانی لانا، چلچلاتی دھوپ میں کھیت پر روٹی لے جانا، واپس آن کر سُوت کاتنا اور رات کے لیے روٹی بنانا۔ یہ سب کام کرتی تھی مگر اعلان نہیں کرتی تھی۔ ایک آدھ دفعہ پِٹ بھی لیتی تھی اور اسے بھی شوہر کی محبت کاایک اظہار سمجھ کر خوش ہولیتی تھی۔

    وہی عورت اب چکی نہیں پیستی۔ دہی نہیں بلوتی۔ کنوئیں پر سے پانی نہیں لاتی، بلکہ کارخانےمیں کام کرتی ہے یا دفتر میں کام کرتی ہے۔ تو شوہر کا ہاتھ بٹانے کایہ محض نیا طریقہ ہے اور انوکھی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے نئی آزادی اور نئے حقوق حاصل ہوں۔

    مرد کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اب اَن پڑھ اجڈ بیوی کے ساتھ واسطہ نہیں ہے۔ ایسا ساتھی جو گھر میں اپنے سلیقے سے بھی اور اپنی خوش مذاقی، خوش گوئی سے بھی لطف پیدا کرتاہے اور صرف اتنا چاہتا ہے کہ اسے ساتھی سمجھا جائے۔

    اگر کماؤ میاں اور کماؤ بیوی صرف اتنی سی بات سمجھ لیں تو زندگی میں ان کے لیے بھی چین ہی چین لکھا ہے۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے۔ کماؤ دو۔

    مأخذ:

    آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح (Pg. 83)

      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے