Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلب

MORE BYشفیق الرحمان

    یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں ہر شام کلب جایا کرتا تھا۔ شام کو بلیرڈ روم کا افتتاح ہو رہا ہے۔ چند شوقین انگریز ممبروں نے خاص طور پر چندہ اکٹھا کیا۔۔۔ ایک نہایت قیمتی بلیرڈ کی میز منگائی گئی۔ کلب کے سب سے معزز اور پرانے ممبر رسم افتتاح ادا کر رہے ہیں۔

    پہلے ایک مختصر سی تقریر ہوئی۔ پھر میز کی سبز مخمل پر چھوٹی سی گیند رکھ دی گئی اور ان بزرگوار کے ہاتھ میں کیو دیا گیا کہ گیند سے چھودیں، لیکن انہوں نے اپنے طرے کو چند مرتبہ لہرایا۔ مونچھوں پر ہاتھ پھیرا۔ چند قدم پیچھے ہٹے اور پھر دفعتاً کسی بیل کے جوش و خروش کے ساتھ حملہ آور ہوئے۔ سب نے دیکھا کہ میز کا قیمتی کپڑا نصف سے زیادہ پھٹ چکا ہے اور کیو اندر دھنس گیا ہے۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک بچہ بولا، ’’ابا جان! آپ خاموش کیوں ہیں؟ آپ (OPENING CEREMONY) کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے اس ڈنڈے کی نوک سے میز OPEN کر تو دیا ہے۔ اور کیا چاہیے؟‘‘

    ایک جگہ غدر مچا ہوا ہے۔ بچے چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں۔ بالکل ہی نزدیک چند معمر حضرات اس سنجیدگی سے اخبار پڑھ رہے ہیں جیسے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ایک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ایک بچہ گراموفون پر ریکارڈ رکھتا ہے، لیکن ریکارڈ بجایا نہیں جاتا صرف گھمایا جا رہا ہے۔ ایک اور بچہ باجے کے گرد بھاگ بھاگ کر گھومتے ہوئے ریکارڈ کے الفاظ پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب بچے تالیاں بجا رہے ہیں۔ ایک بچہ اپنے کوٹ کے کالر میں گوبھی کا چھوٹا سا پھول لگا کر آیا ہے۔ چند بچوں نے کلب کے سارے کیلنڈر الٹ پلٹ کر دینا، غلط تاریخیں لگا دینا اور کلاکوں کی سوئیاں اوپر نیچے کر دینا اپنا فرض تصور کر رکھا ہے۔ ایک بچہ ایک تنہا کمرے میں بیٹھا بڑی سنجیدگی سے گا رہا ہے۔۔۔

    شباب آیا کسی بت پر فدا ہونے کا وقت آیا۔

    ایک بچہ باہر گیٹ کے پاس خوانچے والے سے محو گفتگو ہے،

    ’’تمہارے پاس شکر قندیاں ہیں؟‘‘

    ’’نہیں شکرقندیاں تو نہیں ہیں۔‘‘

    ’’کھیرے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں، مگر سنگترے ہیں۔‘‘

    ’’اور ککڑیاں؟‘‘

    ’’ککڑیاں نہیں، مگر کیلے ہیں۔‘‘

    ’’اور گنڈیریاں؟‘‘

    ’’نہیں، لیکن سیب ہیں۔‘‘

    ’’تو کہہ کیوں نہیں دیتے کہ تمہارے پاس فروٹ بالکل نہیں ہیں۔‘‘

    چند بچے بیٹھے بڑوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ایک بچہ کہہ رہا ہے کہ ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر انہیں کوئی لطیفہ سناؤ تو سن چکنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ پھر کیا ہوا؟ دوسرا بچہ کہہ رہا ہے کہ چند سال پہلے اس کے ابا اسے ایک آنہ دے کر فرمایا کرتے تھے کہ جاؤ بیٹا عیش کرو۔

    ’’اب بتائیے ایک آنے میں کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

    ایک بچے کو دکاندار نے ایک روپے ریزگاری دیتے وقت جلدی میں سترہ آنے دے دیے ہیں۔ مگر بچے کو یقین ہے کہ اس سودے میں بھی اس نے کچھ بچا لیا ہوگا، آخر کو دکان دار تھا۔ ایک کمرے میں کچھ حضرات اور ان کے لخت جگر اور نور چشم بیٹھے ہیں۔ ایک صاحب اپنی کھینچی ہوئی تصویریں دکھا رہے ہیں۔ ان کے بچے نے اچھل کر ایک تصویر چھین لی اور نعرہ لگایا، ’’اباجان! یہ آدمی ماموں جان سے کتنا ملتا ہے۔‘‘

    ’’بالکل نہیں ملتا۔‘‘

    ’’کتنا تو ملتا ہے۔۔۔ فقط اس کے کان ذرا لمبے ہیں اور ناک ذرا چھوٹی ہے۔ بس۔‘‘

    ’’بیٹے۔ نہیں ملتا۔‘‘

    ’’نہیں اباجان۔۔۔ آپ غور سے دیکھیے۔ بس اس کے ہونٹ ذرا موٹے ہیں۔ آنکھیں ذرا بھینگی ہیں اور ماتھا ذرا چھوٹا ہے۔۔۔ باقی تو ہوبہو ماموں جان سے ملتا ہے۔ اور یہ آدمی کرسی پر کیوں نہیں بیٹھا۔۔۔ پیدل کیوں کھڑا ہے؟‘‘

    ان کی ایک تصویر ہل گئی ہے، مگر وہ صاحب فرما رہے ہیں کہ ان کا کیمرہ ہرگز نہیں ہلا۔

    ’’آپ کا کیمرہ نہیں ہلا تو بیک گراؤنڈ ہل گیا ہوگا۔ یا یہ عمارت ہل گئی ہوگی۔‘‘ ایک بچہ کہتا ہے۔

    ’’عمارت کس طرح ہل سکتی ہے؟‘‘ ایک اور بچہ پوچھتا ہے۔

    ’’زلزلے سے سب کچھ ہل سکتا ہے۔‘‘ ایک برخوردار بیان دیتے ہیں۔

    ’’ابا جان!‘‘ ایک طرف سے آواز آتی ہے۔

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘ اس کے والد بڑی محبت سے کہتے ہیں۔

    ’’آپ کے ماتھے پر یہ جو جھریاں ہیں ان پر استری نہیں ہو سکتی کیا؟‘‘

    ایک اور صاحب مغربی مصنفوں کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اوہینری کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایک برخوردار پوچھتے ہیں، ’’ابا جان! یہ اوہنری کچھ یوں معلوم نہیں ہوتا جیسے ابے اوہنری؟‘‘

    کسی نے ایک بڑا سا سگریٹ لائٹر نکالا۔ اس پر ایک صاحب زادے چلائے، ’’ابا جان اتنا بڑا سگریٹ لائٹر آپ نے کبھی دیکھا؟ ضرور یہ حقے کے لیے ہوگا۔‘‘

    ’’اور یہ دونوں شادہ شدی معلوم ہوتے ہیں۔ شاید بیاں میوی ہیں؟‘‘ ایک بچے نے تصویر ہاتھ میں لے کر کہا۔

    ’’ہاں۔ یہ خرید و فروخت کرنے جا رہے تھے کہ میں نے تصویر اتار لی۔‘‘ والد ماجد بولے۔

    ’’ابا جان! لوگ خرید و فروخت کرتے وقت اپنے گھر سے چیزیں لے جا کر بازار میں فروخت بھی کرتے ہوں گے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    اتنے میں ایک بیرے نے آکر ایک صاحب سے دریافت کیا، ’’آپ کھانا یہیں کھائیں گے؟‘‘

    ’’ہاں! مگر انگریزی کھانا نہیں کھاؤں گا۔‘‘

    ’’اردو کھانا کھاؤں گا۔‘‘ ایک بچے نے لقمہ دیا۔

    ’’کیسے بیہودہ بیرے ہیں۔‘‘

    ’’اباجان! ہو دہ آدمی بھی تو ہوتے ہوں گے جو نہایت اچھے ہوں گے۔‘‘

    ایک گوشے میں چند بچے کتابیں کھولے بیٹھے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ ہو رہا ہے۔

    ’’پانی پت کی لڑائی میں مرہٹوں کا کیا نکل گیا؟‘‘ ایک نے پوچھا۔

    ’’بھرکس۔‘‘

    ’’اور علاؤ الدین خلجی کے زمانے میں کیا چیز عام تھی؟‘‘

    ’’طوائف الملوکی۔‘‘

    ’’اکبر نے رشوت کا کیا کر دیا؟‘‘

    ’’قلع قمع۔‘‘

    ’’بڑے ذہین لڑکے ہیں۔‘‘ ایک بزرگ فرماتے ہیں، ’’کیوں میاں صاحب زادے امتحان میں کتنے نمبر لوگے؟‘‘

    ’’جی میں یونیورسٹی میں سیکنڈ آؤں گا۔‘‘

    ’’سیکنڈ کیوں؟ فرسٹ کیوں نہیں؟‘‘

    ’’جی فرسٹ ایک اور لڑکا آئے گا جو میرا ہم جماعت ہے۔‘‘

    ایک بزرگ رات بھر عبادت کرتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے جو حساب پڑھ رہے ہیں کہتے ہیں، ’’ابا جان! آپ اللہ میاں، اللہ میاں اتنی مرتبہ کیوں دہراتے ہیں؟ یوں کیوں نہیں کرتے کہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ دیا کریں، ’’اللہ میاں ضرب ایک لاکھ۔‘‘ انہوں نے سلیٹ پر لکھ کر بھی دکھایا۔۔۔ (اللہ میاںx۱۰۰۰۰۰) ’’بس اس کے بعد آرام سے سو جایا کریں۔‘‘

    اور بزرگ ہیں کہ اپنے نور چشموں، راحت جانوں کی باتیں سن سن کر فخر سے پھولے نہیں سماتے۔

    ’’ابا جان، بادلوں کی بجلی اور پنکھے کی بجلی میں کیا فرق ہے؟‘‘

    ’’میں نے سائنس نہیں پڑھی تھی۔‘‘

    ’’ابا جان! خطِ استوا تو کافی بڑی ساری چیز ہوگی۔ دور سے نظر آتی ہوگی؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘

    ’’ابا جان اسکیموتو خوب آئس کریم بنا بنا کر کھاتے ہوں گے؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔ مجھے جغرافیہ پڑھے دیر ہوگئی ہے۔‘‘

    ’’ابا جان! توپ کس طرح چلاتے ہیں؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘

    ’’ابا جان۔ اگر۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔ بیٹا۔‘‘

    ’’اچھا۔ جانے دیجیے۔‘‘

    ’’جانے کیوں دیجیے؟ (چلا کر) تم سوال پوچھنے سے کیوں ہچکچاتے ہو؟ اگر سوال نہیں پوچھوگے تو سیکھوگے خاک۔ تمہارے علم میں کیونکر اضافہ ہوگا۔‘‘

    چند بچے سوئیوں اور میخوں سے مسلح ہوکر چپکے چپکے موٹروں کی طرف جا رہے ہیں۔ میں بے تحاشا بھاگتا ہوں۔ اپنی سائیکل بچانے جس میں صبح صبح پنکچر لگوایا تھا۔

    آج رات خاص تقریب ہے۔ ایک بہت بڑے عامل اپنے کمالات کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔

    ’’میں اپنے دل کی حرکت بند کردوں گا۔ یہ عطیہ مجھے تبت کی پہاڑیوں میں ایک سنیاسی سے ملا تھا۔ ایسے درویش سے جن کی عمر چھ سو برس تھی، جن کی میں نے بیس سال خدمت کی تھی۔‘‘ وہ ہال کمرے کے وسط میں کھڑے ہو کر چھت پر نظریں گاڑ دیتے ہیں۔ اور بت بن جاتے ہیں۔ کمرے میں مکمل خاموشی ہے۔ وہ زیر لب بڑبڑانے لگتے ہیں۔ پھر ان کے دیدے مٹکنے لگتے ہیں۔ الفاظ اونچے ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک بالکل عجیب و غریب عبارت پڑھ رہے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے وہ سکتے میں آجاتے ہیں اور دھڑام سے غش کھا کر گر پڑتے ہیں۔ پھر اٹھ کر ایک صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں اور دونوں ہاتھ پھیلا کر مری ہوئی آواز میں کہتے ہیں، ’’خواتین و حضرات! میرے قلب کی حرکت تھم گئی ہے۔ آپ میری نبضیں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ سب نے ان کی نبضیں ٹٹولیں۔ بالکل ساکن تھیں۔

    کلب کے سکریٹری جو ایڈیشنل جج تھے، ہیڈ بیرے پر خفا ہو رہے تھے کہ ٹینس کے میدان کی گھاس کیوں نہیں کاٹی گئی۔

    ’’رولر کیوں نہیں پھیرا گیا؟ اتنے آدمی کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ دوبیل کیوں رکھے ہیں؟ رولر کے لیے ایک بیل کافی ہے۔ دوسرا کیا کرتا ہے؟‘‘

    ’’دوسرا ایڈیشنل بیل ہے۔‘‘ جواب ملا۔

    بیرا تنخواہ میں اضافہ چاہتا ہے۔ ’’اس وقت جب کہ دنیا کے ہر گوشے میں بیداری پھیل رہی ہے اور مزدور طبقے کو سب آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں، اتنی تھوڑی تنخواہ بالکل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ میری تنخواہ زیادہ ہونی چاہیے، ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’اچھا دیکھیں گے۔ چیئرمین صاحب سے کہیں گے۔‘‘

    ’’آپ ہمیشہ یہی کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں میری تنخواہ بڑھنی چاہیے۔ ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’کچھ دیر انتظار کرو۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ میری تنخواہ بڑھنی چاہیے، ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’ورنہ۔ ورنہ کیا کروگے؟‘‘

    ’’ورنہ۔ (سر کھجاتے ہوئے) ورنہ پرشین، گلف یا مڈل ایسٹ کی طرف نکل جاؤں گا۔‘‘

    وہ دیر تک بڑبڑاتا رہا۔ مجھے دیکھ کر اس نے اپنا دکھڑا رونا شرع کر دیا کہ چیئرمین ایسے ہیں، سکریٹری ایسے ہیں، ممبر ایسے ہیں۔ اس قسم کے مہمانوں کو ساتھ لاتے ہیں۔ ’’اب آج جو یہ جادوگر صاحب تشریف لائے ہیں۔ یہ اپنی طرف سے بڑا کمال دکھا رہے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کی بغلوں میں دو ٹینس کی گیندیں دبی ہوئی ہیں۔ جب کندھے دباتے ہیں تو بازوؤں میں خون جانا بند ہو جاتا ہے اور نبضیں بند ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کون نہیں کر سکتا۔‘‘

    ساتھ کے کمرے میں چیزیں پکائی جا رہی ہیں اور بیرے ممبروں پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ میں بھی ممبر ہوں، لہٰذا میں یہ سب سننا نہیں چاہتا۔

    ’’ذرا میری برساتی تو اٹھا لانا۔‘‘ میں اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہتا ہوں۔

    ’’کس رنگ کی ہے؟‘‘

    ’’سبز رنگ کی۔‘‘

    ’’سبزرنگ کی؟ (کچھ دیر سوچ کر) اوہ آپ کا مطلب ہے گرین برساتی۔ اچھا لاتا ہوں۔‘‘

    چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔ میں کلب کے باغ میں ٹہل رہا ہوں۔ ایک خوشنما کنج سے کچھ آوازیں آرہی ہیں۔ میں دبے پاؤں جاکر دیکھتا ہوں۔ بنچ پر ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ سامنے ایک گھٹنا گھاس پر ٹیکے ایک لڑکا ہے۔ اس کاایک ہاتھ اپنے دل پر ہے اور دوسرا ہوامیں لہرا رہاہے۔ نہایت رومان انگیز فضا ہے۔

    ’’میں شادی کا وعدہ تو نہیں کرتی۔ صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ آپ سیمی فائینلز میں آگئے ہیں۔‘‘

    ’’اپنے پرانے رفیق سے ایسی بے رخی؟‘‘

    ’’پرانے رفیق۔ چہ خوب۔۔۔ پرانے رفیق کیا، آپ میرے نئے رفیق بھی نہیں ہیں۔‘‘

    ’’لیکن تمہیں مجھ سے محبت توہے۔‘‘

    ’’یہ آپ کو کس نے بتایا؟ محبت تو ایک طرف رہی مجھے آپ سے باقاعدہ نفرت بھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’میں تمہیں کس طرح یقین دلاؤں کہ جب میں تمہارے انار کے دانوں جیسے دانت، چیری جیسے ہونٹ، سیب جیسے گال۔۔۔‘‘

    ’’یہ کسی لڑکی کا ذکر ہو رہا ہے یا فروٹ سلاد کا۔‘‘

    ’’کیا بتاؤں؟ بس سمجھ لو کہ مجھے اظہار محبت کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔‘‘

    ’’تو کیا میں ڈکشنری ہوں؟‘‘

    ’’آج میں تمہارا فیصلہ سن کر ہی جاؤں گا۔‘‘

    ’’مجھے ڈر ہے کہ میرا فیصلہ آپ کے نظام اعصابی کے لیے مضر ثابت ہوگا۔ لو سن لو۔۔۔ ہماری راہیں بالکل الگ الگ ہیں۔‘‘

    ’’بے شک ہماری راہیں الگ الگ ہیں۔۔۔ تم اپنی راہ پر جاؤ اور میں۔۔۔ میں تمہاری راہ پر جاؤں۔ تم نہیں سمجھتیں کہ تم میری بیکار زندگی میں کتنی خوشگوار تبدیلیاں لے آئی ہو۔۔۔ پہلے میری زندگی کے افق پر سیاہ بادل چھائے رہتے تھے۔ بجلیاں کڑکتی تھیں، آندھیاں چلتی تھیں، طوفان آتے تھے۔ تمہارے آنے پر گھٹائیں چھنٹ گئیں، فضا نکھر گئی، سورج نکل آیا، ہوا کے لطیف خنک جھونکے چلنے لگے۔‘‘

    ’’یہ اظہار محبت ہے یا موسم کی رپورٹ؟ آخر میں آپ کو کس طرح یقین دلاؤں کہ میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی۔‘‘

    ’’اچھا! کیا تم چند وجوہات بتا سکتی ہو کہ تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کر سکتیں؟‘‘

    ’’پہلی وجہ یہ کہ آپ مجھے پسند نہیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ آپ مجھے پسند نہیں۔۔۔ تیسری وجہ یہ کہ آپ مجھے پسند نہیں۔‘‘

    ’’اور جو یہ میں اتنے عرصے سے تمہاری نازبرداریاں کرتا رہا ہوں۔ پورے چار سال سے تمہارے پیچھے پیچھے پھرتا رہا ہوں۔ یہ۔۔۔‘‘

    ’’اس کے لیے آپ کیا چاہتے ہیں؟ پنشن؟‘‘

    ’’کیا تمہیں سچ مچ میرا خیال نہیں۔ کیا تمہیں میں کبھی یاد نہیں آتا؟‘‘

    ’’صرف ایک دن یاد آئے تھے۔‘‘

    ’’کس دن؟‘‘

    ’’اس دن میں چڑیا گھر گئی ہوئی تھی۔‘‘

    جب وہ واپس جا رہے تھے تو لڑکی کہہ رہی تھی، ’’آپ تو سچ مچ ناراض ہوگئے، میں تو مذاق کر رہی تھی۔‘‘ اور لڑکا کہہ رہا تھا، ’’تم جیسی لڑکی سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ انسان کسی مگرمچھ سے شادی کر لے۔‘‘

    نوجوانوں کے جھرمٹ میں انہی حضرت کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے۔

    ’’وہ اس قدر ٹھس طبیعت ہے کہ جب صرف میرے متعلق باتیں کر رہا ہو تب بھی مجھے اکتا دیتا ہے۔‘‘

    ’’اور خودپسند اتنا ہے کہ جب اس کا ایکسرے لیا گیا تو اس نے جلدی سے بال درست کیے اور مسکرانے لگا۔ بعد میں اصرار کیا کہ ایکس رے کو ری ٹچ بھی کیا جائے۔ اے لو وہ آ رہا ہے۔‘‘

    ’’آؤ بھئی۔ تمہاری ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہم سب تمہاری تعریفیں کر رہے تھے۔ لاؤ تمہاری ہتھیلی دیکھیں۔ ارے، یہ لکیریں تو کہتی ہیں کہ تم محبت میں کامیاب رہوگے۔‘‘

    ’’کون سی محبت میں؟ کوئی ایک محبت ہو تو معلوم بھی ہو۔‘‘

    ’’مبارک باد قبول ہو۔‘‘

    ’’کس بات کی؟‘‘

    ’’تمہاری شادی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’نہیں میری شادی تو نہیں ہو رہی۔‘‘

    ’’تو پھر تو اور بھی مبارک باد۔‘‘

    ’’دراصل میری مالی حالت اجازت نہیں دیتی کہ میں شادی کے متعلق سوچوں بھی۔ جب مستقل آمدنی کی صورت پیدا ہوگی، تب سوچیں گے۔‘‘

    ’’تم ضرورت سے زیادہ محتاط ہو۔ میرے خیال میں تم پنشن ملنے کے بعد شادی کرنا۔‘‘

    ’’در اصل شادی ایک لفظ نہیں پورا فقرہ ہے۔‘‘

    ’’جانتے ہو محبت کرنے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے؟‘‘

    ’’کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ان کی شادی ہو جاتی ہے۔‘‘

    ’’شادی کے لیے تو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔‘‘

    ’’شادی کے لیے صرف دو کی ضرورت ہے۔۔۔ ایک نوعمر لڑکی۔۔۔ اور ایک بے صبر ماں۔‘‘

    ’’لیکن کورٹ شپ کس قدر پرلطف وقفہ ہوتا ہے؟‘‘

    ’’کورٹ شپ وہ وقفہ ہے جب لڑکا لڑکی کا تعاقب کرتا ہے، حتی کہ وہ اسے پکڑ لیتی ہے۔‘‘

    ’’تم اس لڑکی کا ذکر کیوں نہیں کرتے جس سے ابھی ابھی مل کر آئے ہو۔۔۔ کیا بنا؟‘‘

    ’’بننا کیا تھا؟‘‘

    ’’شاید یہ پہلی نگاہ کی محبت ہے۔‘‘

    ’’ہاں تھی تو پہلی نگاہ کی محبت۔۔۔ لیکن بعد میں میں نے دوسری اور تیسری نگاہ بھی ڈال لی تھی۔‘‘

    ’’ویسے وہ لڑکی ہے خوب۔‘‘

    ’’ہاں، ہو بہو اپنے والد کا فوٹو گراف ہے اور اپنی والدہ کا فونو گراف۔‘‘

    ’’کئی سال سے اپنی عمر اٹھارہ برس بتا رہی ہے۔‘‘

    ’’جانتے ہو عورت کی عمر کے چھ حصے ہوتے ہیں۔ بچی۔۔۔ لڑکی۔۔۔ نوعمر خاتون۔۔۔ پھر نوعمر خاتون۔۔۔ پھر نوعمر خاتون۔۔۔ پھر نوعمر خاتون۔‘‘

    لڑکیوں کے جھرمٹ میں اس لڑکی کی تعریفیں ہو رہی تھیں کہ چھچھوری ہے، بددماغ ہے، چغلیاں کرتی رہتی ہے۔

    ’’لیکن ہر پارٹی میں اسے بلایا جاتا ہے اور ہرجگہ اس کی تعریفیں ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’وہ اس لیے کہ اس کی آواز اتنی تیز ہے کہ جب وہ بول رہی ہو تو کسی اور کی بات سنائی نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ اس کے سامنے ریڈیو کی آواز بھی دب جاتی ہے۔ وہ آگئی۔‘‘

    ’’آؤ بہن، سنا ہے تمہاری منگنی ہونے والی ہے۔‘‘

    ’’جی نہیں! میری منگنی نہیں ہو رہی۔۔۔ لیکن اس افواہ کا شکریہ۔‘‘

    ’’لاؤ تمہاری ہتھیلی دیکھیں۔ تمہاری قسمت میں دس مرتبہ فلرٹ کرنا لکھا ہے (باچھیں کھل گئیں) چارمرتبہ تمہیں محبت ہوگی (مسکراہٹ کم ہوگئی۔) اور صرف ایک شادی ہوگی۔‘‘ (چہرہ اتر گیا)

    ’’اوہ۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’نہیں کچھ نہیں۔‘‘

    ’’کیا تم کبھی اپنے خوابوں کے شہزادے سے بھی ملیں۔ دنیا کے اس منفرد شخص سے، جس سے مل کر تمہیں یہ محسوس ہوا ہو کہ تم اور وہ محض ایک دوسرے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں کئی مرتبہ۔‘‘

    کلب میں تقریریں ہوں گی۔ میں کچھ دیر سے پہنچا ہوں۔ بڑی رونق ہے، تالیاں بج رہی ہیں۔ ایک صاحب نے ابھی ابھی تقریر ختم کی ہے۔ بہت سی خواتین آگئیں اور ہمیں اگلی کرسیاں خالی کرنی پڑیں۔ مجھے آخری قطار میں جگہ ملی۔۔۔ لوگ متواتر باتیں کر رہے تھے اور سٹیج وہاں سے کافی دور بھی تھی اس لیے تقریر صاف سنائی نہ دیتی تھی۔ ایک خاتون تقریر فرما رہی تھیں۔ تقریر کچھ یوں سنائی دے رہی تھی۔۔۔

    ’’آج کا دن کتنا مبارک ہے کہ میاؤں۔۔۔ سب خواتین میاؤں میاؤں۔۔۔ عظیم الشان اجتماع۔۔۔ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے۔ نہایت مسرت کا مقام ہے۔ وہ دن گئے کہ خواتین میاؤں۔۔۔ مرد میاؤں۔۔۔ اور دونوں میاؤں میاؤں میاؤں۔۔۔ میں آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ صاف صاف سنائے دیتی ہوں۔۔۔ عورت کا درجہ میاؤں۔۔۔ اور اگر خدا نخواستہ میاؤں میاؤں۔۔۔ تو پھر نہ صرف میاؤں۔۔۔ بلکہ میاؤں میاؤں میاؤں۔ (تالیاں) وہ دن دور نہیں ہے۔۔۔ نسوانی وقار۔۔۔ نسوانی دنیا۔۔۔ نسوانی میاؤں۔۔۔ اور اگر خدا نے چاہا تو بہت جلد میاؤں میاؤں۔ (تالیاں) مگر مجھے ڈرہے کہ مردوں کی بے جا ضد۔ ہٹ دھرمی۔ اکھڑپن۔ اور میاؤں میاؤں۔ مگر ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ (تالیاں) ماشاء اللہ میاؤں میاؤں۔۔۔ انشاء اللہ میاؤں میاؤں۔۔۔ سبحان اللہ میاؤں۔۔۔ جزاک اللہ میاؤں۔۔۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ میں التجا کرتی ہوں کہ سب کی سب میاؤں میاؤں متحد ہوکر۔۔۔ ہم خیال ہوکر۔ میاؤں میاؤں۔ ہم ثابت کردیں گی۔ پیاری بہنو۔۔۔ میاؤں میاؤں۔‘‘ (تالیاں)

    حاضرین زور زور سے باتیں کر رہے ہیں۔ بیرے آرہے ہیں۔ بیرے جا رہے ہیں۔ بچے شور مچارہے ہیں۔ اب ایک حضرت تقریر فرما رہے ہیں۔ بری خونخوار مونچھوں اور بھاری پاٹ دار آواز کے مالک۔ وہ کچھ یوں تقریر کر رہے ہیں،

    ’’مجھے بڑا افسوس ہے کہ بھوں بھوں۔۔۔ ضد سے کام نہیں چلے گا۔ باہمی مفاہمت باہمی تبادلۂ بھوں بھوں۔ ایک دوسرے کی بھوں بھوں۔ اور پھر آپس میں مل کر بھوں بھوں بھوں۔ (تالیاں) ہم سب شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ ہمیں موقعہ ملنا چاہیے۔ مرد اتنے ہٹ دھرم ہرگز نہیں ہیں۔ میری مانیے تو بھوں بھوں۔ (تالیاں) دیکھیے نا کتنے سال گزر چکے ہیں۔۔۔ میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ عورت بھوں بھوں۔۔۔ اور مرد بھوں بھوں بھوں۔۔۔ ہرجائی پن۔۔۔ تتلیاں۔۔۔ فیشن۔۔۔ اور بھوں بھوں۔ (تالیاں) یہ لاینحل بھوں بھوں۔ عورتیں اب تک اپنی حفاظت۔ مردوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ عورتیں کب بھوں بھوں۔ (تالیاں) جب وہ وقت آیا تو سب سے پہلے میں بھوں بھوں۔ (تالیاں) اس کے بعد سارے مرد بھوں بھوں۔ (تالیاں) یہ مساوات کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ کوئی آج کی بات نہیں۔ حالانکہ بھوں۔ لیکن بھوں۔ لہذا بھوں۔ خیر بھوں۔ تو پھر بھوں بھوں بھوں۔ (تالیاں)

    ایک کمرے میں دو پختہ عمر کے معزز حضرات بیٹھے ہیں۔

    ’’جلالی صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میرے خیال میں تو وہ بے حد وسیع القلب اور وسیع الدماغ اور وسیع الخیال انسان ہیں۔‘‘

    ’’درست ہے۔ بے حد نیک اور بامروت شخص ہیں۔ ایسے راست گو اور نیک خصلت انسان بہت کم ملتے ہیں۔‘‘

    ’’اور پھر ان کے چہرے کی نورانی مسکراہٹ کیسی ہے، جیسے ولی اللہ ہوں۔‘‘

    ’’اس روز آپ کے ہاں اتفاق سے ملاقات ہوگئی۔ شاید وہ آپ کے عزیز دوستوں میں سے ہیں۔‘‘

    ’’جی نہیں۔۔۔ ہم دوست تو نہیں ہیں۔ بس واقف ہیں۔‘‘

    ’’میں ان کو آپ کا عزیز سمجھتا رہا ہوں، اس دن اکٹھے دیکھا تھا۔‘‘

    ’’نہیں وہ میرے عزیز نہیں ہیں۔ اس روز اتفاق سے مل گئے تھے۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا رہا کہ وہ آپ کے واقف ہیں۔‘‘

    ’’جی نہیں! خیر تو وہ آپ کے عزیز نہیں ہیں۔‘‘

    ’’ان کے متعلق کچھ افواہیں سننے میں آتی رہتی ہیں۔۔۔ خدا جانے جھوٹ ہیں یا سچ۔‘‘

    ’’میں نے بھی بہت سی باتیں سنی ہیں۔‘‘

    ’’اتنے سارے آدمی جھوٹ تو کیا بولتے ہوں گے، کچھ صداقت تو ہوگی ان افواہوں میں۔‘‘

    ’’میرے خیال میں تو یہ افواہیں درست ہیں۔‘‘

    ’’اگرسچ پوچھیے تو وہ نہایت ہی نامعقول شخص ہے۔‘‘

    ’’بالکل بجا فرماتے ہیں آپ۔۔۔ اور ساتھ ہی اول درجے کا رشوت خور اور چغل خور ہے۔‘‘

    ’’میرے خیال میں اس قدر بیہودہ اور شرارتی انسان کلب بھر میں نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’واقعی بے حد مردود اور خبیث شخص ہے۔‘‘

    چند حضرات بیٹھے دوسرے ممالک کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ کافی سیاحت کر چکے ہیں۔ میں اجنبی ممالک کے متعلق بہت سی باتیں جاننا چاہتا ہوں۔

    ’’مشرقِ وسطیٰ کی نمایاں خصوصیات کیا ہیں؟‘‘

    ’’وہاں پھل بہت سستے ہیں۔ خصوصاً کھجوریں تو بہت ارزاں اور مزیدار ہیں۔‘‘

    ’’سنا ہے وہ بے حد پراسرار اور رومان انگیز جگہ ہے۔ پرانے شہروں میں اب بھی الف لیلہ کا سا ماحول ہے۔‘‘

    ’’وہاں سردے بہت اچھے ہوتے اور انگور تو نہایت ہی عمدہ ہوتے ہیں۔ سستے اور لذیذ۔ دو آنے دے کر پورا ٹوکرا لے لو۔‘‘

    ’’اور مصر کیسا ملک ہے؟ فرعونوں کے مقبرے، اہرام، ابوالہول۔۔۔ ان کے متعلق بتائیے۔‘‘

    ’’ان تاریخی مقامات پر خوانچے والے بہت پھرتے ہیں اور مسافروں کو خوب لوٹتے ہیں۔ ہرچیز کی چوگنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ادھر اونٹ والے ہرمسافر سے یہی کہتے ہیں کہ قاہرہ چلیے۔ یہاں سے دس میل ہے، لیکن آپ سے خاص رعایت ہے۔ آپ کے لیے صرف پانچ میل۔‘‘

    ’’اور شام و فلسطین؟ سنا ہے کہ وہاں جا کر انجیل کے سارے واقعات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔‘‘

    ’’وہاں کاشتکاری بالکل نئے طریقوں سے کی جاتی ہے۔ چاروں طرف مشینیں ہی مشینیں نظر آتی ہیں۔ مشینوں کو بھی مشینیں چلاتی ہیں۔‘‘

    ’’ترکی میں آپ نے کیا دیکھا؟‘‘

    ’’وہاں کھانے پینے کا انتظام بہت اچھا ہے۔ دنیا کے بہترین ہوٹل ٹرکی میں ہیں۔‘‘

    ’’اور ایران تو بہت ہی خوشنما جگہ ہوگی۔ سعدی اور حافظ کا وطن۔۔۔ موسیقی۔۔۔ پھول۔۔۔ رنگینیاں۔‘‘

    ’’وہاں بادام اور کشمش نہایت اعلیٰ درجہ کے ملتے ہیں اور اس قدر رازاں کہ یقین نہیں آتا۔‘‘

    ’’اور مراقش۔‘‘

    ’’اگر کسی کو کباب کھانے ہوں تو سیدھا مراقش چلائے جائے۔ شامی کباب، چپلی کباب، سیخ کباب۔‘‘

    کچھ دیر کے بعد کمرے میں ہم صرف تین رہ جاتے ہیں۔ سیاح جس کا نام شاید کلیم ہے، میں، اور ایک اور حضرت جو سیاح صاحب پر ناک بھوں چڑھاتے رہے ہیں۔ آخر وہ بھی اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد پردے کے پیچھے سے انہی حضرت کی آواز آتی ہے، ’’وہ خبیث سیاح چلا گیا یانہیں؟‘‘ میں گھبرا جاتا ہوں اور جلدی سے جواب دیتا ہوں، ’’جی ہاں وہ خبیث سیاح تو کب کا چلاگیا۔ اس وقت تو یہاں کلیم صاحب بیٹھے ہیں۔‘‘

    دوسرے کمرے میں سائنس کے پروفیسر ایک بزرگ سے کہہ رہے تھے، ’’گائے کا دودھ ایک دم سوکھ گیا ہے، شاید کسی کی نظر لگ گئی۔ اور میرا لڑکا امتحان میں لگاتار فیل ہو رہا ہے۔ ان دونوں کے لیے تعویذ درکار ہیں۔۔۔ آپ پیر صاحب قبلہ سے تعویذ بنوادیں گے نا؟‘‘

    ’’ضرور۔‘‘

    ’’تو پھر بھولیے مت۔ دونوں تعویذ جلد بھجوائیے۔ گائے کا تعویذ۔۔۔ اور میرے لڑکے کا تعویذ۔‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ایک صاحب جو سن رہے ہیں اور غالباً نشے میں ہیں، نزدیک آکر تاکید کرتے ہیں، ’’اور دیکھیے اس بات کا خیال ضرور رکھیے کہ تعویذ بدل نہ جائیں۔ کہیں گائے امتحان میں پاس ہو جائے اور خدا نخواستہ لڑکا۔۔۔‘‘

    دومعمر حضرات بیٹھے پی رہے ہیں۔

    ’’وہ سست الوجود شخص دوپہر سے بے کار بیٹھا ہے۔ وہ جو اس کھڑکی میں سے نظر آ رہا ہے۔ شاید اسے دنیا میں کوئی کام نہیں۔‘‘

    ’’آپ کو کیا پتہ یہ دوپہر سے بیکار بیٹھا ہے؟‘‘

    ’’اس لیے میں خود دوپہر سے اسے دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’یہ آپ کاجام صحت ہے CHEERS‘‘

    ’’چیرز۔‘‘

    ’’میں نے لوگوں کے جام صحت اس قدر پئے ہیں کہ اپنی صحت خراب کر لی ہے۔‘‘

    ’’تعجب ہے کہ لوگ دوسروں کی صحت کو محض پیتے کیوں ہیں، کھاتے کیوں نہیں؟ مثلاً اب میں ایک کیک لے کر کہوں۔ یہ رہی تمہاری صحت۔ یہ رہا تمہارا کیکِ صحت۔۔۔ اور کھانا شروع کردوں۔‘‘

    ’’یہ ریڈیو پر کیا اوٹ پٹانگ موسیقی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’غالباً پکا گانا ہے۔ آپ کو فنون لطیفہ سے دلچسپی نہیں کیا؟‘‘

    ’’جی ہے تو سہی۔ میں ہمیشہ فنون لطیفہ کی عزت کرتا ہوں، لیکن فنون لطیفہ کو بھی تو کچھ میرا خیال ہونا چاہیے۔ مجھے رقص پسند ہے۔ گھوڑا گلی۔۔۔ اور جھیکا گلی۔ دونوں قسم کے رقص پسند ہیں۔‘‘

    ’’غالباً آپ کی مراد کتھا کلی رقص سے ہے۔ خیر اسے چھوڑئیے، اب مصوری کے متعلق۔۔۔‘‘

    ’’مصوری کے متعلق یہ ہے کہ مجھے ان چیزوں سے بڑی چڑ ہے جن سے میں ناواقف ہوں۔‘‘

    ’’مصوری کے بارے میں میں بھی اتنا کم جانتا ہوں کہ اس پر بحث کرتے ہوئے مجھے غصہ تک نہیں آتا۔‘‘

    اتنے میں بیرہ آتا ہے، ’’ڈاکٹر صاحب آپ کو سلام بولتے ہیں۔‘‘

    ’’ان سے کہنا و علیکم السلام۔‘‘

    ’’مل آئیے ان سے۔ بڑے قابل ڈاکٹر ہیں۔ ان کی کافی پریکٹس ہے۔ سالہا سال سے پریکٹس کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’معاف کیجیے میں ان کا قائل نہیں جو اب تک پریکٹس ہی کر رہے ہیں۔ میں تو ایکسپرٹ لوگوں میں اعتقاد رکھتا ہوں۔‘‘

    ’’یہ لیجیے۔ سگرٹ۔‘‘

    ’’شکریہ۔ کون سا ہے؟‘‘

    ’’روسی سگریٹ ہے۔ میرا لڑکا فرانس سے بھیجا کرتا ہے۔ گھٹیاسگریٹ میں بالکل نہیں پی سکتا۔ میرے خیال میں سگریٹ کے برانڈ کا اثر پینے والے پر ضرور پڑتا ہے۔ میرابھتیجا قینچی مارکہ سگریٹ پیا کرتا ہے اور ہر وقت اس کی زبان کتر کتر چلتی ہے۔ میں خود چند سال پہلے کیمل سگریٹ پیا کرتا تھا۔ ایک روز میں نے محسوس کیا کہ سچ مچ میرا قد بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے فوراً وہ سگریٹ چھوڑ دیا۔‘‘

    ’’آپ درست فرماتے ہیں۔ میرے ایک دوست بالکل دبلے پتلے تھے۔ جب سے انہوں نے ہاتھی مارکہ سگریٹ پینے شروع کیے، وہ اس قدر موٹے ہوگئے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔‘‘

    ’’ویسے یہ روسی سگریٹ پیتے پیتے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ میں کمیونسٹ بنتا جا رہا ہوں۔ لیکن یہ نرا وہم ہی ہوگا۔‘‘

    ’’غالباً ہم فنونِ لطیفہ کا ذکر کر رہے تھے۔ کیا آپ کو شاعری سے بھی دلچسپی ہے؟‘‘

    ’’میں تو شاعری پر مفتون ہوں۔ مجھے فارسی شاعری بہت پسند ہے۔ وہ کیا شعر ہے،

    میزپوش بہ لب بام نظرمی آید

    نہ بہ زورے نہ بہ زارے نہ بہ زر می آید۔۔۔‘‘

    ’’کیا کہنے ہیں فارسی شعروں کے۔ لیکن اپنے شعر بھی کچھ کم نہیں۔ غالب کا وہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا،

    کچھ تو کھائیے کہ لوگ کہتے ہیں

    آج غالب غزل سدا نہ ہوا‘‘

    ’’خوب ہے، اور وہ کس کا شعر ہے،

    پیٹ میں درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

    بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانے کیا یاد آیا‘‘

    ’’شاید یہ اسی شاعر کا ہے جس کا یہ ہے،

    ناحق ہم لنگوروں پر ہے تہمت خود مختاری کی

    اور پتہ نہیں کیا ہوا کہ چاہا جب بدنام کیا‘‘

    ’’کل میں نے ریڈیو پر ایک نہایت دردناک غزل سنی۔۔۔ بلیومت رویہاں آنسو بہانا ہے منع۔‘‘

    ’’غالباً فلمی چیز ہوگی۔۔۔ دیکھیے نا اس میں لطافت غائب ہے۔ آنسو بہانا ہے منع۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہاں سگریٹ پینا منع ہے۔‘‘

    ’’آپ درست فرماتے ہیں۔‘‘

    اسی کمرے میں ذرا دور دو اور حضرات بیٹھے ہیں۔ شراب تو ایک طرف یہ سگریٹ بلکہ لیموینڈ تک نہیں پیتے۔

    ’’میں برسوں سے اپنے آپ کو دھوکا دیتا رہا ہوں۔‘‘

    ’’کبھی آپ نے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہوئے پکڑا نہیں؟‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ میں بہت چالاک ہوں۔‘‘

    ’’میں مدتوں سے سیلون جانا چاہتا ہوں۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔‘‘

    ’’تو آپ کو منع کون کرتا ہے؟‘‘

    ’’آپ نہیں سمجھتے، میرے حالات کچھ ناتسلی بخش ہیں۔ ویسے ہیں بالکل معمولی سے، اور ان کے درست ہونے میں کوئی زیادہ دیر بھی نہیں لگے گی۔۔۔ فقط مجھے چھ لڑکوں اور پانچ لڑکیوں کی شادیاں کرنی ہیں۔۔۔ مکان بنوانا ہے۔۔۔ پرانا قرض اتارنا ہے۔ زمینیں خریدنی ہیں۔۔۔ چھوٹی سی جائداد بنانی ہے۔۔۔ بس۔‘‘

    ’’مگر سیلون جانے سے ان کا تعلق؟ میرے خیال میں آپ ابھی وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’جی نہیں۔۔۔ میں فی الحال وہاں ہرگز نہیں جا سکتا۔ ابھی کچھ عرصہ لگے گا۔‘‘

    ’’آپ ابھی جا سکتے ہیں۔۔۔ اسی وقت۔ میں خود آپ کو اپنے ساتھ سیلون لے چلوں گا۔ یا ہم حجام کو یہیں کیوں نہ بلالیں۔‘‘

    ’’افوہ۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ میں اس سیلون کا ذکر نہیں کر رہا۔ میں لنکا کا ذکر کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ لنکا کا ذکر۔ آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی، میری بھی یہی آرزو ہے۔ لنکا جانا میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ میں نے باقی سب تیاریاں کر رکھی ہیں فقط ایک معمولی سی کسر باقی ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’فقط روپوں کا انتظار ہے۔ ویسے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اس سال کے اختتام تک مجھے کہیں سے پچاس ساٹھ ہزار روپے ضرور مل جائیں گے۔‘‘

    ’’آپ نے کسی کاروبار میں روپیہ لگایا ہے یا حصے خریدے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’یا کسی نے آپ سے قرض لے رکھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر؟‘‘

    ’’بس ویسے ہی مجھے ایک عجیب سا احساس رہتا ہے کہ کسی دن جاتے جاتے مجھے راستے میں پچاس ساٹھ ہزار روپے مل جائیں گے یا کسی روز صبح اٹھوں گا تو تکیے کے نیچے روپے رکھے ہوں گے۔ یا کوئی چپکے سے میرے کوٹ کی اندرونی جیب میں روپے رکھ جائے گا۔ اور جب یہ روپے مل گئے تو میں سیدھا لنکا کا رخ کروں گا۔۔۔ اور بقیہ عمر وہیں گزاروں گا۔‘‘

    ’’میرا بھی یہی پروگرام ہے۔ وہاں تو ہم ملا کریں گے۔ آپ وہاں کلب کتنے بجے آیا کریں گے؟‘‘

    ’’یہی کوئی دوپہر کے لگ بھگ۔۔۔ اور پانچ بجے واپس چلا جایا کروں گا۔ اور آپ؟‘‘

    ’’میں شام کو آیا کروں گا۔ کوئی چھ بجے کے قریب۔‘‘

    ’’تب تو ملاقات ہونی مشکل ہے۔ آپ ذرا پہلے نہیں آ سکتے؟‘‘

    ’’جی مشکل ہے۔ اگر آپ کچھ دیر اور ٹھہر جایا کریں۔ پانچ کی بجائے سات بجے چلے جایا کریں۔‘‘

    ’’کلب میں شام کو شور و غل شروع ہو جایا کرے گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اتنی دیر تک نہ ٹھہر سکوں گا۔‘‘

    ’’تب تو میں بہت اداس رہا کروں گا۔ کاش کہ آپ کچھ دیر اور ٹھہر سکتے۔‘‘

    ’’تو آپ ہی ذرا جلدی آ جایا کریں۔‘‘

    ’’شاید میں اتنی جلدی نہیں آسکوں گا۔ دیکھیے آپ اتنی سی بات نہیں مانتے۔ اچھا چلیے ساڑھے پانچ بجے سہی۔‘‘

    ’’اچھا۔ دیکھوں گا، مگر وعدہ نہیں کرتا۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ آپ پانچ بجے آ جاتے۔‘‘

    ’’چلیے۔ پانچ بج کر پینتیس منٹ سہی۔ بس؟‘‘

    ’’اچھا۔ مگر دیکھیے نا۔۔۔‘‘

    ایک معمر حضرت سہ پہر سے جو پینا شروع کرتے ہیں تو آدھی رات تک پیتے رہتے ہیں۔ ان کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں۔ روایات مختلف ہیں، لیکن سب کا لب لباب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ٹریجڈی کو بہت دخل ہے اور وہ سدا کے غمگین ہیں۔ آج تک کسی نے انہیں مسکراتے نہیں دیکھا۔ تقدیر نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ زندگی نے ان کے ساتھ غداری کی ہے۔ اور یہ کہ آج تک انہوں نے اپنی زندگی کی المیہ داستان کسی کو بھی نہیں سنائی۔ ایک شام کو نہ جانے کیوں مجھ پر مہربان ہو جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ میں نے ان کا جلتا ہوا سگار قالین سے اٹھا کر انہیں دے دیا۔ یا اس لیے کہ وہ شراب کی بوتل انگیٹھی پر بھول آئے اور میں نے اٹھا کر پکڑا دی۔ ہم دونوں ایک تنہا گوشے میں بیٹھے ہیں۔ وہ بے تحاشا پی ر ہے ہیں۔ میں ان سے ان کی زندگی کے متعلق سوال پوچھتا ہوں۔

    ’’پہلے وعدہ کرو کہ یہ داستانِ تلخ سن کر تم ہمدردی کا اظہار نہیں کروگے۔ جب کوئی مجھ سے اظہارِ ہمدردی کرتا ہے تو میرے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ کٹھن ہو جاتا ہے۔ لو سنو۔ آج سے دس سال پہلے میں بے حد مسرور انسان تھا۔ آہ کیسے دن تھے وہ بھی۔ دنیا مجھ پر رشک کرتی تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ اس شخص کی مسکراہٹ میں سورج کی کرنوں کی سی چمک اور تازگی ہے۔ ان دنوں میرے پاس ایک ہرن تھا۔ کیا بتاؤں کیسا حسین اور پیارا ہرن تھا۔ ہم دونوں میں اتنا پیار تھا کہ میں اسے دیکھ کر جیتا تھا اور وہ مجھے دیکھ کر۔ ان دنوں میں افریقہ میں تھا اور بے حد خوش تھا۔ پھر وہ منحوس رات آئی جب میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ میں نے نیا ملازم رکھا تھا۔ رات کو جاتے وقت وہ کمبخت ہرن کو باندھتا گیا۔ پہلے اسے کبھی نہیں باندھا گیا تھا۔ رات کو خدا جانے بھیڑیے آئے یا کیا بلا آئی۔ اگر ہرن آزاد ہوتا تو وہ کسی کو اپنے پاس بھی نہ آنے دیتا۔ علی الصبح میں نے اٹھ کر دیکھا تو ہرن اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے دنیا اندھیر ہوگئی۔ مدتوں میں بے چین و بے قرار پھرتا رہا۔‘‘ انہوں نے گلاس بھرا اور پینے لگے۔

    ’’لیکن انسانی دل ایسی چیز ہے جو بہلائے سے بعض اوقات بہل جاتی ہے۔ ہرن کی جگہ ایک اور ہستی نے لے لی۔ یہ ایک طوطا تھا جیسے میں سپین سے گزرتے وقت لایا تھا۔ یہ طوطا بس نام کو طوطا تھا، ویسے انسانوں سے بہتر تھا۔ گھنٹوں بات چیت کیا کرتے۔ اس طوطے کو ادب سے لگاؤ تھا۔ میں اسے نظمیں سناتا جنہیں وہ بار بار دہراتا۔ قصہ مختصر اس طوطے نے میری زندگی کو دوبارہ جینے کے قابل بنا دیا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن طوطے کے پنجرے کے ساتھ میری گرم یونیفارم ٹنگی ہوئی تھی۔ طوطے نے اس کا کچھ حصہ کتر ڈالا اور مجھ بدنصیب کو اتنی سی بات پر اتنا غصہ آیا کہ اسے برا بھلا کہا، ڈانٹا، ایک تنکے سے کچھ پیٹا بھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس نے اپنا سرسلاخوں سے باہر نکالا۔ چونچ سے پنجرے کے دروازے کی کیل نکالی اور پھر سے اڑکر ایک درخت پر جا بیٹھا۔

    میں نے اس کی بڑی منتیں کیں۔ پرانی رفاقت کا واسطہ دلایا۔ معافی مانگی، قسمیں کھائیں، وعدے کیے، لیکن میرے اس وحشیانہ سلوک سے اس کا ننھا سا دل ٹوٹ چکا تھا۔ وہ اڑ گیا۔ اور پھر کبھی نہ آیا۔ اس کے بعد میرا کیا حال ہوا۔ میں دن رات نشے میں رہنے لگا۔ میں نے شراب کے علاوہ اور منشیات بھی شروع کردیں۔ جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔ ذرا ذرا سی بات پر مجھے غصہ آنے لگا۔ میری صحت بالکل گر گئی۔۔۔ ترقی رک گئی۔ میراوہاں سے تبادلہ ہوگیا۔‘‘ انہوں نے خالی گلاس پھر بھرا۔

    ’’میں سمجھتا تھا کہ میرے لیے دنیا ختم ہوچکی ہے، لیکن زندگی میں پھر بہار آئی، میں پھر مسکرانے لگا۔ اس خوشگوار تبدیلی کی وجہ وہ پیاری دلآویز بطخیں تھیں جنہیں میں چین سے لایا تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ بطخیں مجھے کس قدر عزیز تھیں۔ جب وہ اپنی چونچ موڑ کر کنکھیوں سے مجھے دیکھتیں تو میرا رواں رواں مسرت سے رقص کرنے لگتا۔ سیروں خون بڑھ جاتا۔ شام کو ہم تینوں سیر کرنے جاتے۔ میں پھر تندرست و توانا ہوگیا اور بڑی سرگرمی سے اپنا کام کرنے لگا۔ لیکن قسمت کو میری یہ مسرت ایک آنکھ نہ بھائی۔ زندگی کی ٹھوکروں نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔۔۔ بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ بسا بسایا گھر اجڑ گیا۔ اس مرتبہ اس کی ذمہ دار میری بیوی تھی جو اسی صبح وطن سے آئی تھی۔ اسے شکار کا شوق تھا، شام کو بندوق لے کر نکلی اور اسے شکار ملا تو کیا۔ وہی پیاری بطخیں جو جھیل پر تفریح کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنی بیوی کا یہ گناہ کبھی معاف نہیں کیا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔ ایسی پیاری بطخیں۔ ایسے پیارے رفیق زندگی میں صرف ایک مرتبہ آیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے جوا کھیلنا شروع کر دیا۔ دوستوں کو دھوکا دینے لگا۔ اپنا غم غلط کرنے کے لیے میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے دوسری بوتل کھولی۔

    ’’زندگی کی تلخ کامیوں کی داستان شاید ابھی ادھوری تھی۔ ابھی تقدیر کو اور کچوکے لگانے تھے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا پھر ملا۔ زندگی سوتے سوتے جاگ اٹھی اور دنیا مسکرانے لگی۔ میری زندگی میں ایک کتا آیا۔ بے حد حسین و جمیل کتا۔ نیک، وفادار، سمجھنے والا۔ اس نے میرے صبح و شام بدل دیے۔ میں پرانے غم ایک حد تک بھول گیا۔ لیکن یہ سب کچھ عارضی تھا۔ میرا یہاں تبادلہ ہوا اور مجھے ہوائی جہاز سے آنا پڑا۔ کتا سکاٹ لینڈ میں رہ گیا۔ جب میرا کنبہ لندن سے آیا تو ان کم بختوں میں کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ میرے عزیز از جان پیارے کتے کو ساتھ لے آتا۔ میں نے تار دیے۔ رقم بھیجی۔ آخر کتا سمندر کے راستے سکاٹ لینڈ سے روانہ ہوا۔ جہاز والوں کی غلطی سے کتے کو کلکتے کی جگہ بمبئی اتار لیا گیا۔ میں خود کتے کو لینے کلکتے گیا اور مایوس لوٹا۔

    پھر پتہ چلا کہ وہ بمبئی میں ہے۔ میں نے اسی روز اپنے بڑے لڑکے کو بمبئی بھیجا۔ وہ ناہنجار، بے ایمان لڑکا فرسٹ میں گیا، فرسٹ میں آیا، اتنی رقم ضائع کی، لیکن کتے کا اتنا سا بھی خیال نہ رکھا۔ نہ اس کے آرام کی پروا کی، نہ اس کی خوراک پر احتیاط برتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کتے کی طبیعت جو سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے پہلے ہی ناساز تھی بالکل علیل ہوگئی اور یہاں پہنچتے پہنچتے اس نے دم توڑ دیا۔ اب کیا بتاؤں، میں زندگی کس طرح گزار رہا ہوں۔ بس دن پورے کر رہا ہوں۔ یوں تو میرے بچے ہیں، بیوی ہے، دوست ہیں۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔۔۔ لیکن مجھے کسی چیز سے بھی دلچسپی نہیں۔ میرے لیے دن بھی اتنا ہی تاریک ہے جتنی کہ رات۔ مجھ سا بدنصیب تو زمانے میں نہ ہوگا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔

    یہ ان دنوں کا بھی ذکر ہے۔ جب میں کلب جانے سے پہلے گھنٹوں سوچا کرتا تھا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ کیا سوشل بننا واقعی ضروری ہے۔ کیا میں اپنا فالتو وقت کسی اور طرح نہیں گزار سکتا۔

    مأخذ:

    (Pg. 171)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: اسد اللہ غالب

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے