Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوجی

MORE BYچراغ حسن حسرت

    لیجئے ان سے ملیے ان کا نام خوجی ہے۔ وطن لکھنؤ، پیشہ امیروں کی مصاحبت، چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں، چھوٹا قد، کالی کالی رنگت۔ گلیور صاحب کے سفرنامے میں آپ نے بونوں کی بستی کا حال پڑھا ہوگا۔ میاں خوجی کو دیکھ کے بے اختیار بونے یاد آجاتے ہیں۔

    خوجی کا اصل نام کیا ہے؟ ان کے باپ دادا کون تھے؟ انہوں نے بچپن اور جوانی کا زمانہ کیسے گزارا؟ یہ باتیں ہمیں معلوم نہیں۔ ہاں خود ان کی زبان سے ان کی ابتدائی زندگی اوراصل و نسل کے متعلق بعض باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ مثلاً میاں خوجی کا بیان ہے کہ ان کا اصل نام خواجہ بدیع الزماں ہے۔ اودھ کی بادشاہت کے آخری زمانے میں وہ وگلہ والی پلٹن کے کمیدان تھے۔ لیکن خوجی کی بات کا کیا اعتبار؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر خوجی کہہ کے پکاریے تو وہ فوراً بگڑ جائیں گے۔ اب چاہے رستم مقابلے پر ہو۔ کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹے، وہ پیٹتے پیٹتے تھک جائے اور یہ پٹتے پٹتے نہیں تھکتے۔ پٹخنیاں کھاتے ہیں لیکن پھر بھی جھاڑ پونچھ کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خم ٹھونکتے ہیں اور لپٹ جاتے ہیں، جہاں ہاتھ نہیں چلتا وہاں زبان چلتی ہے۔ یعنی چیختے ہیں، چلاتے ہیں، شور مچاتے ہیں۔ اپنی جوانی کے زمانے میں وگلہ والی پلٹن کی کمیدانی کو یاد کرتے ہیں۔ افسوس کے لہجے میں کہتے ہیں کہ نہ ہوئی قرولی ورنہ پیٹ میں بھونک دیتا۔ قرولی بڑے شکاری چاقو کو کہتے ہیں۔ افسوس کہ میاں خوجی کو عمر بھر قرولی میسر نہ آئی۔

    میاں خوجی کو صرف اپنی طاقت پر ناز نہیں اپنی طرح داری پر بھی گھمنڈ ہے۔ ہر موقع پر اپنی شکل صورت، اپنے کاٹھ قد کی تعریف کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ لوگ نہ ان کی طرح داری کے قائل نہ پہلوانی کے۔ جہاں انہوں نے یہ ذکر چھیڑا، لوگوں نے ہنسنا شروع کردیا۔ اب خوجی اچھلتے ہیں، کودتے ہیں، ڈراتے ہیں، دھمکاتے ہیں، قرولی کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن لوگ ہیں کہ ہنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔

    خوجی کی ابتدائی زندگی کا حال ہمیں معلوم نہیں۔ ہم نے جب انہیں پہلی دفعہ دیکھا، ان کا بڑھاپا تھا اور لکھنؤ کے ایک خاندانی رئیس کے ہاں ملازم تھے اور نواب بڑے بھولے بھالے تھے۔ مصاحب سب کے سب گر گے، نت نئی تدبیروں سے نواب کو لوٹتے تھے۔ خوجی بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور لوٹ کے مال میں سے کچھ حصہ انہیں بھی مل جاتا تھا۔ اتنے میں نواب کے یہاں ایک نئے مصاحب آئے، نام محمد آزاد، لکھنؤہی کے رہنے والے تھے۔ عالم، فاضل، شاعر۔ انگریزی، فارسی، عربی کے ماہر، پہلوان لکڑی، بانک، ٹپہ اور شمشیر زنی میں طاق۔

    نواب کو بٹیر بازی کا شوق تھا۔ اس شوق پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے تھے۔ خاص طور پر ایک بٹیر بہت پیارا تھا اور اس کا نام انہوں نے صف شکن رکھا تھا۔ آزاد کو دل لگی جو سوجھی تو صف شکن کواڑا لیا۔ اب مصاحبوں نے بھولے نواب کو بہلانا شروع کیا۔ ایک نے کہا صف شکن بٹیر نہیں تھا ولی تھا۔ دوسرا بولا میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ تیسرے نے کہا کہ صف شکن روٹھ کے چلے گئے ہیں میاں آزاد سے۔ کہیے انہیں منا کے لائیں۔ غرض آزاد صف شکن شاہ کومنانے کے لئے بھیجے گئے۔ بیچ میں کئی پیچ ہوئے اور میاں خوجی نواب کو چھوڑ کے آ زاد کے رفیق بن گئے۔

    اب آزاد کی نسبت ایک تعلیم یافتہ لڑکی حسن آرا سے ٹھہری۔ ان دنوں ترکی اور روس میں جنگ میں چھڑی ہوئی تھی۔ بیاہ کی شرط یہ تھی کہ میاں آزاد ترکوں کی فوج میں بھرتی ہوکے لڑیں۔ جنگ کے بعد ان کا بیاہ حسن آرا سے رچایا جائے گا۔ آزاد ترکی گئے۔ جنگ میں شریک ہوئے، تمغے لٹکا کر واپس آئے اور حسن آرا سے شادی ہوگئی۔ خوجی اس سفر میں بھی آزاد کے ساتھ تھے۔ وہ تلواریں مارتے تھے کہ یہ ایک کونے میں بیٹھ کرافیون پیتے تھے اور کوئی آفت پڑتی تو لانا میری قرولی کا شور مچاتے تھے۔

    میں نے خوجی کا مختصر حال بتا دیا ہے۔ اسے سن کر شاید آپ میں سے کسی صاحب کو خیال ہو کہ خوجی ایسے دلچسپ آدمی سے ضرور ملنا چاہئے اور کیا عجب کہ آپ میں کوئی صاحب یہ بھی پوچھ بیٹھیں کہ خوجی زندہ ہےیا مر گیا، اور زندہ ہے تو اس سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟ خوجی زندہ تو ضرور ہے اور ابھی بہت مدت تک زندہ رہے گا۔

    لیکن یہ نہ سمجھئے کہ لکھنؤ یا دلّی کے کسی گلی کوچے، افیونیوں کی کسی مجلس یا امیروں کی کسی محفل میں اس سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ اس سے ملنے کے لئے آپ کو فسانہ آزاد کے ورق الٹنے پڑیں گے۔

    فسانہ آزاد پنڈت رتن ناتھ سرشار کی تصنیف ہے۔ سرشار لکھنؤ کے رہنے والے تھے اور یہ کتاب جو بڑی بڑی چار جلدوں میں ہے، انہوں نے آج سے کوئی ساٹھ برس پہلے لکھی تھی۔ ان دنوں پرانے زمانے کے امیروں کے دربار قائم تھے۔ بٹیر بازی اور پتنگ بازی زوروں پر تھی۔ رئیسوں کو خوشامدی مصاحبوں نے گھیر رکھا تھا۔ سرشار کی اس کتاب میں اس زمانے کی صحیح زندگی کے نقشے ملتے ہیں۔

    خوجی کی قسم کے مسخرے سرشار کی نظر سے ضرور گزرتے ہوں گے۔ لیکن خوجی کا پتلا خود سرشار نے تراشا ہے اور اس میں اس طرح روح پھونک دی ہے کہ وہ سچ مچ کا چلتا پھرتا، جیتا جاگتا، گوشت پوست کا بنا ہوا انسان معلوم ہوتا ہے۔ خوجی کے حالات پڑھتے وقت ہمیں لمحہ بھر کے لیے بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ صرف کہانی کا مسخرہ اورپنڈت رتن ناتھ سرشار کی گڑھنت ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بارہا گلی کوچوں میں چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ قہقہے لگاتے، ہنستے ہنساتے لوگوں سے پٹتے دیکھا ہے اور لانا میری قرولی کے نعرے لگاتے سنا ہے اور سچ پوچھیے تو یہ کمال ہے کہ کوئی قصہ نویس ایسا جیتا جاگتا کاغذی پتلا بنا کے کھڑا کردے کہ جس پر سچ مچ کے انسان کا گمان ہو۔

    اس سے یہ نہ سمجھئے کہ جو لوگ کہانیاں لکھتے ہیں وہ ایسے ان جانے ان بوجھے انسانوں کی خیالی تصویریں کھینچ دیتے ہیں، جنہیں نہ کسی نے دیکھا نہ سنا، قصہ نویس اور مصور جو نقشے کھینچتے ہیں وہ خود ان کے تجربے اور مشاہدے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ کہیں سے ایک چیز اور کہیں سے دوسری چیز، مگر جب انہیں جوڑتے ہیں تو ایسی تصویر کھنچ جاتی ہے کہ جس پر اصل کا شائبہ ہوتا ہے لیکن انسان کے تجربہ کے خزانے میں جو کچھ ہے، اس سے صحیح کام لینا بھی بڑا ٹیڑھا کام ہے۔ ذرا چوک گئے اور تصویر بے جوڑ نظر آنے لگی۔ مثلاً فسانہ آزاد میں بہت سی تصویریں نظر آتی ہیں۔ جن میں بعض بالکل بے ڈھنگی ہیں۔ دور کیوں جائیں آزاد ہی کو لیجئے جس کے نام پر اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔

    آزاد ایسا انسان ہے جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ہیں۔ جو جو فن اسے آتے ہیں اسے سو برس میں بھی کوئی شخص نہیں سیکھ سکتا۔ پھر بھی وہ ابھی نوجوان ہے۔ دوسری طرف خوجی ہے جس میں خامیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی اور در اصل اپنی خامیوں کے باعث ہی وہ سچ مچ کا انسان معلوم ہوتا ہے۔ تصویر میں آزاد اور خوجی دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ خوجی کے خد و خال ابھرے ابھرے نظر آتے ہیں، آزاد کے چہرے کے نقش مدھم، پھیکے پھیکے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خوجی کے مقابلے میں ایک پرچھائیں سی بن کے رہ گیا ہے۔

    آزاد قریب قریب مر چکا ہے اور اس میں تھوڑا بہت سانس باقی ہےتو صرف خوجی کی وجہ سے لیکن خوجی زندہ ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے فسانہ آزاد پڑھا ہے وہ لوگوں کی شکل و صورت میں خوجی کو ڈھونڈتے ہیں اور کسی شخص کی شکل، وضع، چال ڈھال یا خیالات میں خوجی کی سی کوئی بات نظر آتی ہے تو وہ فوراً اسے خوجی کہہ دیتے ہیں۔ خوجی کے زندہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور رہ رہ کے خیال آرہا ہے کہ کہیں خوجی کی نظر سے یہ مضمون گزرا تو لانا میری قرولی کہتے ہوئے ہمارے دفتر میں نہ گھس پڑیں۔

    مأخذ:

    مضامین چراغ حسن حسرت (Pg. 42)

    • مصنف: چراغ حسن حسرت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے