Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لغات فکری

فکر تونسوی

لغات فکری

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

     

    الیکشن۔۔۔ ایک دنگل جو ووٹروں اور لیڈروں کے درمیان ہوتا ہے اور جس میں لیڈر جیت جاتے ہیں ووٹر ہار جاتے ہیں۔

    الیکشن پٹیشن۔۔۔ ایک کھمبا جسے ہاری ہوئی بلی نوچتی ہے۔

    ووٹ۔۔۔ چیونٹی کے پر، جو برسات کے موسم میں نکل آتے ہیں۔

    ووٹر۔۔۔ آنکھ سے گر کر مٹی میں رلا ہوا آنسو جسے الیکشن کے دوران موتی سمجھ کر اٹھالیا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد پھر مٹی میں ملادیا جاتا ہے۔

    ووٹرز لسٹ۔۔۔ جوہری کی دکان پر لٹکی ہوئی موتیوں کی لڑیاں۔

    امیدوار۔۔۔ بڑے بڑے عقل مندوں کو بھی بے وقوف بنانے والا عقل مند۔

    زرضمانت۔۔۔ کنوئیں میں پھینکی ہوئی رقم، جو اکثر ڈوب جاتی ہے۔

    انتخابی جلسہ۔۔۔ ایک طنبورہ جس پر بے سرے گانے گائے جاتے ہیں۔

    چناؤمینی فیسٹو۔۔۔ جس میں بعد میں توڑنے کے لیے وعدے کیے جاتے ہیں۔

    انتخابی تقریر۔۔۔ الیکشن کے جنگل میں گیدڑوں کا نغمہ کہ میرا باپ بادشاہ تھا۔

    انتخابی جھنڈے۔۔۔ رنگارنگ پتنگوں کی دکان۔

    انتخابی پوسٹر۔۔۔ امیدوار کا شجرۂ نسب۔ اس کے خاندان کی مکمل تاریخ۔

    ڈور ٹو ڈور کنویسنگ۔۔۔ در در کی خاک چھاننے کا شوق۔

    پولنگ ایجنٹ۔۔۔ امیدوار کا چمچہ۔

    بوگس ووٹ۔۔۔ ایک جھوٹ، جو سچے آدمی الیکشن کے دنوں میں بولتے ہیں۔

    الیکشن کا خرچہ۔۔۔ جوئے پر لگائی ہوئی نقدی۔

    چناؤ کے نتائج۔۔۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد میدان جنگ میں گنتی کا عمل کہ (۱)کتنے ڈھیر ہوئے۔ (۲)کتنے زخمی ہوئے (۳)کتنے بچ نکلے۔

    محبوبہ۔۔۔ ایک قسم کی غیرقانونی بیوی۔

    بیوی۔۔۔ محبوبہ کا انجام۔

    بائیسکل۔۔۔ کلرک بابو کی دوسری بیوی۔

    کلرک۔۔۔ ایک گیدڑ جو شیر کا جامہ پہن کر کرسی پر بیٹھتا ہے۔

    خدا۔۔۔ وہم اور حقیقت کے درمیان ڈولتا ہوا پنڈولم۔

    عشق۔۔۔ ایک معزز قیدی جسے جیل میں ہمیشہ اے کلا س ملتی ہے۔

    کاغذ۔۔۔ کورا ہو تو بے ضرر، لکھا جائے تو ضرررساں۔

    بے روزگاری۔۔۔ عزت حاصل کرنے سے پہلے بے عزتی کا تجربہ۔

    کرپشن۔۔۔ ایک زہر جسے شہد کی طرح مزے لے لے کر چاٹا جاتا ہے۔

    سیاست۔۔۔ پیسے والوں کی عیاشی اور بن پیسے والوں کے گلے کا ڈھول۔

    بیوی۔۔۔ ایک لطیفہ جو بار بار دہرانے سے باسی ہوجاتا ہے۔

    سچائی۔۔۔ ایک چور جو ڈر کے مارے باہر نہیں نکلتا۔

    جھوٹ۔۔۔ ایک پھل جو دیکھنے میں حسین ہے، کھانے میں لذیذ ہے لیکن جسے ہضم کرنا مشکل ہے۔

    جمہوریت۔۔۔ ایک مندر جہاں بھگت لوگ چڑھاوا چڑھاتے ہیں اور پجاری کھاجاتے ہیں۔

    عشق۔۔۔ خودکشی کرنے سے پہلے کی حالت۔

    غریبی۔۔۔ ایک کشکول جس میں امیر لوگ پیسے پھینک کر اپنے گناہوں کی تعداد کم کرتے ہیں۔

    شاعر۔۔۔ ایک پرندہ جو عمر بھر اپنا گم شدہ آشیا نہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔

    لیڈر۔۔۔ دوسروں کے کھیت میں اپنا بیج ڈال کر فصل اگانے اور بیچ کھانے والا۔

    قبرستان۔۔۔ مردہ انسانوں کا حال، زندہ انسانوں کا مستقبل۔

    امید۔۔۔ ایک پھول جو کبھی بنجر زمین کو زرخیز بنادیتا ہے اور کبھی زرخیز زمین کو بنجر۔

    خوشامد۔۔۔ کمزور کی طاقت اور طاقت ور کی کمزوری۔

    ڈھٹائی۔۔۔ صرف جسم ہی جسم۔ روح غائب۔

    شرافت۔۔۔ ایک عینک جسے اندھے لگاتے ہیں۔

    تعلیم۔۔۔ ان پڑھ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ہتھیار۔

    بہادر۔۔۔ آگ کو پانی سمجھ کر پی جانے والا کم علم۔

    اندھیرا۔۔۔ شیطان کا گھر جسے خدا اپنے ہاتھ سے تعمیر کرتا ہے۔

    رسوئی گھر۔۔۔ گرہستی عورتوں کی راجدھانی۔

    گرہستی عورت۔۔۔ گرہستی مرد کی گاڑی کا پٹرول پمپ۔

    محل۔۔۔ جھونپڑی کے مقابلے پر کھینچی ہوئی بڑی لکیر۔

    طالب علم۔۔۔ ایک پیاسا جسے سمندر میں دھکا دے دیا جاتا ہے اور وہ عمر بھر ڈبکیاں کھاتا رہتا ہے۔

    جیب کترا۔۔۔ ایک شرارتی چھوکرا جو دوسروں کی بائیسکل میں پن چبھوکر اس کی ہوا نکال دیتا ہے اور بھاگ جاتا ہے۔

    سڑک۔۔۔ ایک راستہ جو جنت کو بھی جاتا ہے اور جہنم کو بھی۔

    جنت۔۔۔ ایک خواب۔

    جہنم۔۔۔ اس خواب کی تعبیر۔

    پیسہ۔۔۔ ایک چھپکلی جو انسان کے منہ میں آگئی ہے۔ اور اب اسے کھائے تو کوڑھی، چھوڑے تو کلنکی۔

    دریا۔۔۔ جس کے کنارے گھر بناؤ تو اسے جوش آجاتا ہےاور گھر کو بہالے جاتا ہے لیکن اگر اس میں ڈوبنے کے لیے جاؤ تو ہمیشہ سوکھا ملتا ہے۔

    خودکشی۔۔۔ جائز چیز کا ناجائز استعمال۔

    کرسی۔۔۔ جس پر بیٹھ کر عقل مند آدمی بے وقوف بن جاتا ہے۔

    نیکی۔۔۔ جسے پہلے زمانے میں لوگ دریا میں ڈال دیتے تھے۔ آج کل منڈی میں برائے فروخت بھیج دیتے ہیں۔

    اخبار۔۔۔ ایک پھل جو تسکین کے لیے کھایا جاتا ہے مگر کھاتے ہی بے چینی پیدا کردیتا ہے۔

    مے گسار۔۔۔ رات کا شہنشاہ۔ صبح کا فقیر۔

    طوائف۔۔۔ ڈسپوزل کا مال جسے اونے پونے دام پر نیلام کرکے بیچ دیا جاتا ہے اور بڑھ چڑھ کر بولی دے کر دوبارہ خریدلیا جاتا ہے۔

    خدا۔۔۔ انسان کی وہ کمزوری جس سے وہ طاقت حاصل کرتا ہے۔

    دوست۔۔۔ دشمنی سے پہلے کی ایک منزل۔

    دشمن۔۔۔ دوستی کا انجام۔

    مہمان۔۔۔ جس کے آنے پر خوشی اور جانے پر اور زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر۔۔۔ جو بیماروں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے مگر تندرستوں کو دیکھ کر منہ پھیر لیتا ہے۔

    جج۔۔۔ انصاف کرنے میں آزاد مگر قانون کا غلام۔

    گواہ۔۔۔ جھوٹ اور سچ کے درمیان لٹکتا ہوا پنڈولم۔

    یاد۔۔۔ پرکھوں کا چھوڑا ہوا پرانا بہی کھاتہ۔

    کوشش۔۔۔ اندھیرے میں تیر چلانا۔ لگ جائے تو واہ واہ! چوک جائے تو آہ آہ!

    اندھیرا۔۔۔ بجلی کمپنی کا سردرد۔

    بجلی۔۔۔ چوروں کا سردرد۔

    چور۔۔۔ ایک جیب کا مال دوسری جیب میں منتقل کرنے والا آرٹسٹ۔

    ماڈرن انسان۔۔۔ جو اپنے سے پہلے زمانے کے ماڈرن کو پرانا کہے۔

    خوراک۔۔۔ جو حیوان کو انسان اور انسان کو حیوان بنادیتی ہے۔

    انجان۔۔۔ جو وہ چیزیں نہ جانتا ہو جنہیں جاننے سے دکھ پیدا ہوتے ہیں۔

    استاد۔۔۔ بیوقوفوں کو عقل مند بناکر اپنے دشمن بنانے والا بیوقوف۔

    کوڑا کرکٹ۔۔۔ استعمال شدہ چیزوں کا جنازہ۔

    جنازہ۔۔۔ واپسی ٹکٹ۔

    بیل۔۔۔ گائے کا بن بیاہاخاوند۔

    لنگڑا۔۔۔ دوپاؤں والوں سے زیادہ خطرناک۔

    کمزوری۔۔۔ ایک مردہ جس پر زندہ لوگ حملہ کردیتے ہیں اور بڑے خوش ہوتے ہیں۔

    زندہ۔۔۔ مردوں کے چھوڑے ہوئے تخت پر بیٹھنے والا حکمران۔

    قتل۔۔۔ آنکھوں والوں کی اندھی حرکت۔

    مکان۔۔۔ چڑیوں، مکھیوں اور انسانوں کا مشترکہ ایک رین بسیرا۔

    مفلس۔۔۔ جو اگر موجود نہ ہو تو اہل دولت خودکشی کرلیں۔

    خودکشی۔۔۔ جو نہ کی جائے تو ڈکشنری سے ایک لفظ کم ہوجائے۔

    لفظ۔۔۔ جو منہ سے ادا ہوجائے تو باہر جنگ چھڑ جائے، ادا نہ ہو سکے تو اندر جنگ چھڑ جائے۔

    مریض۔۔۔ جس کے بل بوتے پر دنیا بھر کی میڈیکل کمپنیاں چلتی ہیں۔

    قبرستان۔۔۔ لاشوں کا سوشلسٹ ا سٹیٹ۔

    روح۔۔۔ مجھ پہ کی مفروضہ کمر۔ جس کے متعلق ایک شاعر نے کہا تھا؎ کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے۔

    شاعر۔۔۔ اندھیرے میں بھٹکتا ہوا ایک چراغ۔

    بدصورت عورت۔۔۔ حسیناؤں کو پرکھنے کا آلہ۔

    آدم۔۔۔ خدا کی وہ غلطی جس کی وہ آج تک تصحیح نہیں کرسکا۔

    غلطی۔۔۔ معاف کردینے والوں کے لیے ایک نادر موقع۔

    موقع۔۔۔ جس سے ہمیشہ عقل مند لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بیوقوف لوگ یہ سوچ کر ٹال جاتے ہیں کہ یہ ہماری شان کے شایاں نہیں۔

    بے وقوف۔۔۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں بے وقوفوں نے قائم کی ہیں اور عقل مندوں نے اجاڑی ہیں۔

    عوام۔۔۔ چوپال پر رکھا ہوا ایک حقہ جسے ہر راہ گیر آکر پیتا ہے۔

    سرمایہ دار۔۔۔ دوسروں کی کترنوں سے اپنے لیے پتلون تیار کرنے والا ایک ماہر ٹیلر ماسٹر۔

    امن۔۔۔ وحشی لوگوں کی نیند کا زمانہ۔

    بوڑھے۔۔۔ دیوالیہ دکان کے با ہر لٹکا ہوا پرانا سائن بورڈ۔

    بکری۔۔۔ جس کی عقل زیادہ ہے دودھ کم۔

    بیوی۔۔۔ محبوبہ کی بگڑی ہوئی شکل۔

    رشتے دار۔۔۔ ایک رسی جو ٹوٹ کر بھی سرپر لٹکتی رہتی ہے۔

    ننگا۔۔۔ ٹیکسٹائل ملوں کا مذاق اڑانے والا۔

    مقروض۔۔۔ ایک شہنشاہ، جو دوسروں کی کمائی پر عیش کرتا ہے۔

    قرض خواہ۔۔۔ جو قرض دیتے وقت دوست اور قرض واپس لیتے وقت دشمن لگے۔

    دہلی۔۔۔ جہاں مکان بڑے ہیں انسان چھوٹے۔

    بمبئی۔۔۔ ایک مندر جہاں سے بھگوان نکل گیا ہے۔

    کلکتہ۔۔۔ جہاں کے لوگ دن کو ایک دوسرے سےلڑتے ہیں۔ رات کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گاتے بجاتے ہیں۔

    حکومت۔۔۔ کانٹوں کا تاج جسےہرگنجا پہننا چاہتا ہے۔

    عقل۔۔۔ محبت اور خلوص کا قبرستان۔

    بے وقوفی۔۔۔ ایک خزانہ جو کبھی خالی نہیں ہوتا۔

    بیاہ۔۔۔ عشق کا انجام، بچوں کا آغاز۔

    بچے۔۔۔ ماں باپ کے پیدا کیے ہوئے ماں باپ۔

    ماں باپ۔۔۔ بیک وقت بچوں کے حاکم اور بچوں کے غلام۔

    دل۔۔۔ ایک قبر جس کے نیچے اکثر زندہ مردے دفن کردیے جاتے ہیں۔

    دماغ۔۔۔ شیطان اور خدا دونوں کا مشترکہ گھر۔

    آنکھیں۔۔۔ جو باہر سے بند ہوجائیں تو اندر کی طرف کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔

    ہاتھ۔۔۔ جو بھیک دیتا ہے۔ لیتا بھی ہے۔

    پاؤں۔۔۔ جو دوسروں کو ٹھوکر مارتا ہے، خود ٹھوکر کھاتا ہے۔

    سود۔۔۔ دوسروں کا بھلا کرنے کے لیے ایک برائی۔

    بے وفا۔۔۔ ایک طوطا جسے پستہ کھلایا جائے تو تعریف کرتارہتا ہے۔ نہ کھلایا جائے تو آنکھیں پھیرلیتا ہے۔

    وفادار۔۔۔ بغیر پستہ کھائے تعریف کرنے والا جاہل طوطا۔

    خوش قسمت۔۔۔ ایک لاٹھی جو جس کے ہاتھ لگ جائے، اسی کی ہوجاتی ہے۔

    فارن ایکسچینج۔۔۔ ایک چھلنی جو سمندر کو خالی کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔

    بدیشی قرضہ۔۔۔ ایک ڈائن جو بچے پیداکرتی ہے۔ انہیں کھلاتی اور پالتی پوستی ہےاور پھر خود ہی انہیں کھا جاتی ہے۔

    راشن۔۔۔ بھوکے پیٹ کے لیے بدہضمی دور کرنے کا چورن۔

    ٹیڈی بوائے۔۔۔ جو ساڑھی پہن کر محبوباؤں کے دل جیتے۔

    ہل اسٹیشن۔۔۔ صحت مند مریضوں کا ہسپتال۔

    لوہاری۔۔۔ ایک چابک، جو ہل اسٹیشن پر نہ جانے کے جرم میں لگایا جائے۔

        

    مأخذ:

    فکر نامہ (Pg. 304)

    • مصنف: فکر تونسوی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے