Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں ایک شاعر ہوں

شوکت تھانوی

میں ایک شاعر ہوں

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    صاحب میں ایک شاعر ہوں چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے۔ مگر کلام خدا کے فضل سے اتنا موجود ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو ایک چھوڑ چار پانچ دیوان مرتب کر ہی سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرص کروں البتہ مشاعروں میں جانے والے حضرات اگر کسی مشاعرے میں میرا کلام سن چکے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ میرے متعلق عام رائے کیا ہے۔ البتہ اتنا میں بھی جانتا ہوں کہ جب مشاعرے میں میرے نام کا اعلان ہوتا ہے۔ سامعین بے قابو ہوکر اس وقت تک تالیاں بجاتے ہیں جب تک میں پڑھنے کے لیے اسٹیج پر نہ آجاؤں۔ اور جب تک میں پڑھتا ہوں داد کے شور سے مشاعرہ گونجتا ہی رہتا ہے۔ مجھ کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرا ایک شعر آٹھ مرتبہ مجھ سے پڑھوایا گیا تھا۔ اور پھر بھی سامعین نے یہی کہا تھا کہ سیری نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ میں خود ستائی کے طور پر عرض نہیں کر رہا ہوں۔ میرا قول یہ ہے کہ من آنم کہ من آنم۔ میں تو یہ سب کچھ اس لیے عرص کر رہا ہوں کہ اپنے متعلق تھوڑا بہت اندازہ کرادوں کہ میں ان شاعروں میں سے نہیں ہوں۔ جو محض ایک تخلص پال کر بیٹھ رہتے ہیں۔ اور زندگی بھر میں بس ایک آدھ غزل کہنے کے گناہگار ہوتے ہیں۔ حضت! یہاں تو بقول شخصے،

    عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

    ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ گھر میں شعر و شاعری کے چرچے سنے۔ مشاعروں کے کھیل کھیلے۔ اور آخر پندرہ برس کی عمر ہوگئی کہ پہلی غزل اس شان سے مشاعرے میں پڑھی ہے کہ گھر پر پڑی بوڑھیوں نے نظر اتاری اور باہر اس فن کے بڑے بڑے مشاقوں نےاعتراف کیا کہ صاحبزادے نے پالنے ہی میں پیر دکھائے ہیں۔ مطلب یہ کہ شاعری کی ابتدا اسی عمر میں ہوئی جس کے متعلق شاعر کہہ گیا ہے، کہ،

    برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن

    جوانی کی راتیں امنگوں کے دن

    داد جو ملی تو حوصلے اور بڑھ گئے۔ اب دن رات بس ایک ہی مشغلہ ہے غزل گوئی اور غزل سرائی۔ جس مشاعرے میں پہنچ گئے بس جھنڈے گاڑ آئے۔ اپنے سامنے کسی کا چراغ نہ جلنے دیا۔ جس طرح، میں غزل کہہ دی اس کو اپنا لیا۔ خاص شہرت حاصل کی گرہ لگانے میں۔ قصہ کوتاہ کچھ ہی دنوں میں مقامی مشاعروں کے علاوہ دور دور سے بلاوے آنےلگے۔ آج یہاں مشاعرہ ہے تو کل وہاں، آج اس شہر میں کل اس شہر میں۔ یہ سچ ہے کہ اس طرح تعلیم ضرور ناقص رہ گئی۔ مگر شاعر ہونا مسلم ہوگیا۔ آواز میں قیامت کا سوز تھا۔ اور دھن بنانے کا سلیقہ خداداد تھا۔ پھر کلام کی لطافتیں۔

    مختصر یہ کہ سب کچھ مل جل کر مشاعرہ لوٹنے میں مدد دیتا تھا۔ ایک نمائش کے مشاعرہ میں تو تمغہ تک دیا گیا تھا۔ اخباروں میں تصویریں چھاپی گئیں۔ رسالوں کے ایڈیٹروں نے بڑی منت کے خطوط لکھے کہ میں اپنا تازہ کلام بھیجوں۔ بے شمار رسالے اور اخبار مفت آنے لگے۔ اور ان میں میرا کلام بڑے امتیاز کے ساتھ چھپنے لگا۔ بڑے بڑے سالانہ نمبروں میں صرف میری غزل کو جلی حروف میں اور خوشنما حاشیہ کے اندر ایک پورے صفحے میں چھاپا گیا۔ مختصر یہ کہ آپ کی دعا سے شہرت اور مقبولیت کی کوئی کمی نہ رہی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں کے بعد مشق اس قدر بڑھ گئی اور کلام میں کچھ خدا کے فضل سے ایسی پختگی پیدا ہوگئی کہ بہت سے نوجوان اپنی اپنی غزلیں اصلاح کے لیے لانے لگے۔ اور اب ضرورت اس کی پیش آئی کہ ذرا اس فن کا مطالعہ بھی کرلیا جائے۔ کہ یہ فاعلاتن فاعلات آخر کیا بلا ہوتی ہے،

    یہ سچ ہے کہ پیدائشی اور فطری شاعروں کے لیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ مگر شاگردوں کے سمجھانے اور استاد بننے کے لیے معلومات حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بہرحال اس سلسلہ میں جتنی کتابیں دیکھیں اتنی ہی طبیعت الجھی کہ یہ ہے کیا خرافات۔ آخر ایک کتابوں کا سیٹ مل گیا۔ شاعری کی پہلی کتاب۔ دوستی کتاب۔ تیسری کتاب۔ ان کتابوں کو سلسلہ وار پڑھنے سے خود تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مگر دوسروں کو سمجھانے کا مواد ضرور مل گیا اور اب شاگردوں کی غزلوں پر اصلاح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان شاگردوں کا مشاعروں میں چمکنا تھا کہ شاگردوں کی تعداد دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ یہاں تک کہ عالم یہ ہوگیا کہ ہر مشاعرے کے دن درجنوں شاگرد حلقہ باندھے بیٹھے ہیں۔ اور میں ان کی غزل لکھوا رہا ہوں۔ کہ یہ مطلع تم لکھ لو اور یہ شعر تم لکھ لو۔ شاگردوں سے اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ خود اپنے کو اوّل تو اساتذہ کی صف میں جگہ ملتی ہے۔ دوسرے استاد کی غزل پر یہ شاگرد داد کا وہ شور مچاتے ہیں کہ مشاعرہ ہی سر پر اٹھالیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی بدخواہ اعتراض کربیٹھے تو یہی شاگرد مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ گویا استاد کی اچھی خاصی طاقت ہوتے ہیں یہ شاگرد۔

    گھر میں اللہ کے فضل و کرم سے کھانے پینے کی کوئی کمی نہ تھی۔ وثیقہ بندھا ہوا تھا۔ اور باپ دادا بھی اتنا چھوڑ گئے تھے کہ چار کو کھلا کر کھاسکیں۔ لہٰذا فکر معاش کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔ لے دے کے بس فکر سخن ہی تھی، شاگردوں کو بھی کبھی کسی خدمت کا کوئی موقعہ نہ دیا۔ بلکہ ان ہی کی جو خدمت ہوسکی وہ کی۔ یعنی مفت کی غزلوں کے علاوہ اکثر مفت کی روٹیاں بھی مل جاتی تھیں۔ اگر کبھی کوئی شاگرد رسا ول یا آچار یا اپنے گاؤں سے گڑ وغیرہ بھی لے آیا تو یہی فکر رہتی تھی کہ اس کا بدلا کیونکر اتارا جائے۔ ایک مرتبہ ایک تنبولی شاگرد نے پانوں کی ڈھولی کی قیمت لینے سے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ کہ اگلے مشاعرے میں نہ صرف یہ کہ نہایت زوردار غزل کہہ کر ان کو دی بلکہ ان کا ریل ٹکٹ بھی خود ہی خریدا، عرض تو کیا۔ کہ اس شاعری کو تجارت یا روزگار کی صورت کو کبھی دی ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کبھی۔

    ان ہی حالات میں زندگی بڑے مزے میں بسر ہو رہی تھی کہ ایک دم سے وہ انقلاب آگیا۔ جس نے ساری دنیا زیر وزبر کرکے رکھ دی۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس طرف آجانا پڑا۔ گھر گیا۔ گرہستی گئی۔ وثیقہ گیا۔ مختصر یہ کہ آپ ’’واحد حاضر‘‘ رہ گئے۔ اور باقی سب کچھ ’’جمع غائب‘‘ اور تو اور کھانے پینے کے لالے پڑگئے۔ دو دو روٹیوں کا سہارا تک کو نہ رہا۔ دل میں کہا۔ جان ہے تو جہان ہے۔

    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    مگر آخر کب تک نہ گھبراتے۔ پردیس میں نہ کوئی جان نہ پہچان۔ ایک نفسا نفسی کا عالم۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ مہاجرین میں کچھ جانی پہچانی شکلیں بھی نظر آئیں مگر سب کو اپنی اپنی فکر، اور یہاں یہ عالم کہ روزبروز حالت پتلی ہوتی جارہی ہے۔ سرچھپانے کو تو خیر ایک آگ لگی ہوئی عمارت کے دوپسماندہ کمرے مل گئے۔ مگر پیٹ کی آگ بجھانے کی سبیل نظر نہ آتی تھی۔ آخر خاندانی وضع کے خلاف روزگار کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ یاد آیا کہ اسی شہر سے ایک رسالہ بڑے آب و تاب سے نکلا کرتا تھا۔ جس کے ایک سالنامہ میں انگور کی ایک خوشنما بیل کے حاشیہ کے اندر اپنی ایک غزل چھپی تھی۔ اور ایڈیٹر صاحب نے اس پر ایک نوٹ بھی دیا تھا۔ کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ لسان الزمن حضرت قیس سونڈوی نے اپنے رشحات سے ہمارے سالنامہ کو نوازا ہے، امید ہے کہ حضرت قیس آئندہ بھی ہم کو اس فخر کا موقع عطا فرماتے رہیں گے۔ چنانچہ اسی رسالے کے دفتر کا رخ کیا اور پوچھتے گچھتے آخر اس رسالے کے دفتر پہنچ ہی گئے۔ ایڈیٹر صاحب سے اپنا تعارف کرایا۔ اور وہ حسب توقع دوڑے لیموینڈ کی بوتل لے کر سگریٹ کی ڈبیہ کھول کر رکھ دی۔ دیا سلائی خود جلائی اور دیر تک ہماری ہجرت پر مسرت کا اظہار کرتے رہے کہ صاحب بہت اچھا ہوا۔ جو آپ تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد موقع دیکھ کر اور ان کو بے حد خلیق پاکر عرض کیا،

    ’’بھائی جان آتو گیا ہوں۔ مگر واضح رہے کہ سب کچھ چھوڑ کر آیا ہوں۔ اور خاندانی وضع کے خلاف اب اس پر بھی آمادہ ہوں۔ کہ کہیں ملازمت اختیار کروں۔‘‘

    وہ نہایت اطمینان سے بولے۔ ’’ملازمت! بہرحال اب تو آپ آئے ہیں کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ آپ کے ایسے قابل آدمیوں کے لیے ملازمت کی کہاں کمی ہوسکتی ہے۔ بہرحال آپ نے یہ فیصلہ تو کر ہی لیا ہوگا کہ آپ کس شعبہ میں ملازمت اختیار کرنا پسند کریں گے۔‘‘

    عرض کیا۔ ’’بھائی اپنا شعبہ تو ظاہر ہے کہ زندگی بھر سوائے ادبی خدمت کے اور کوئی کام ہی نہیں کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب تک ادبی خدمت کو ذریعہ آمدنی بنانے کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ مگر اب حالات نے مجبور کردیا ہے۔‘‘

    وہ بولے، یہ تو درست ہے۔ مگر ادبی سلسلہ میں ملازمت کا کیا سوال ہوسکتا ہے۔ آپ کے خیال میں کون سا محکمہ ہے ایسا جو آپ کے ایسے ادیبوں کے لیے جگہ نکال سکے گا۔ کم سے کم میری سمجھ میں تو نہیں آرہا ہے۔

    عرض کیا، ’’آپ محکموں پر نہ ڈالیے۔ میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ مثلاً آپ کا ادارہ ہے۔ اسی میں کوئی خدمت میرے سپرد کردی جائے۔‘‘

    ایڈیٹر صاحب نے دم بخودہوجانے کے بعد فرمایا، ’’قبلہ بات اصل میں یہ ہےکہ ضرورت تو مجھ کو بھی ہے۔ اپنے یہاں چند لوگوں کی۔ مگر معاف کیجیے گا۔ میں نے آج تک سوائے غزلوں کے اور کوئی چیز آپ کی نہیں دیکھی ہے۔‘‘

    عرض کیا، ’’اور کیا چیز آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ شجرہ موجود ہے۔ وہ میں دکھا سکتا ہوں۔ خود مجھ کو آپ ہی دیکھ رہے ہیں۔ اور کوئی چیز سے مطلب کیا ہے۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں تو کچھ عرض کروں۔‘‘

    وہ بولے۔ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ نثر غالباً آپ نے کبھی نہیں لکھی، نہ آپ کا کبھی کوئی افسانہ پڑھا ہے۔ نہ کوئی تنقیدی مضمون دیکھا ہے۔ نہ کوئی تحقیقی مقالہ۔‘‘

    عرض کیا، ’’جناب والا۔ یہ آپ نے درست فرمایا اور یہ واقعہ بھی ہے اب تک اس قسم کی کوئی چیز لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔‘‘

    ان کو بہانہ مل گیا۔ آنکھیں گھماکر بولے۔ ’’اب آپ خود غور فرمائیے کہ کسی ادبی رسالہ کے ادارۂ تحریر میں آپ کو کیونکر شامل کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی شاعرانہ صلاحیت مسلم ہے۔ مگر اس کی ہم کو ضرورت نہیں۔‘‘

    ایسے کو رذوق سے کچھ اور کہنا ہی بیکار تھا۔ ادھر ادھر کی گفتگو کرکے چلے آئے اور طے کرلیا کہ اب ادھر کا رخ بھی نہ کریں گے۔ مگر ادھر کا نہ سہی کسی اور طرف کا رخ تو کرنا ہی تھا۔ ورنہ یہاں تو فاقو ں کی نوبت بھی دور نہ تھی۔ کافی دماغ سوزی کے بعد ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ اگر کوئی بلشرز دیوان چھاپنے پر تیار ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ کچھ نہ کچھ حق تصنیف بھی مل جائے گا۔ دوسرے اس پردیس میں اپنے تعارف کا ایک ذریعہ اس دیوان کی صورت میں نکل آئے گا۔ بالکل الہامی طور پر دیوان کا نام ذہن پر نازل ہوا۔ ’’لیلائے سخن‘‘ قیس کی مناسبت سے اس سے بہتر نام اور کیا ہوسکتا تھا۔ دوسرے ہی دن یہاں کے ایک آدھ پبلشرز سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ شہر کے سب سے بڑے پبلشر کا نام اور پتہ پہلے ہی پوچھ رکھا تھا۔ ان کی دکان پر پہنچ کر ان سے شرفِ نیاز یاصل کیا۔ اور آخر اپنا تعارف خود کرایا۔

    ’’نام سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ اس خاکسار کو قیس سونڈوی کہتے ہیں۔‘‘

    وہ حضرت بھی عجیب چیز نکلے۔ کہنے لگے، ’’پھر!‘‘

    غصہ تو بہت آیا اس ’’پھر‘‘ پر مگر کیا کرتے وقت آپڑا تھا۔ لہٰذا اپنے آپ کو سنبھال کر کہا۔ ’’میں نے آپ کے ہاں کی مطبوعہ اکثر کتابیں دیکھی ہیں۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ طباعت کا جو سلیقہ آپ کو حاصل ہے وہ کسی اور پبلشر کے حصہ میں نہیں آیا ہے۔ اور میں نے طے کرلیا ہے کہ میں اپنا دیوان اگر کسی کو دے سکتا ہوں تو وہ صرف آپ کو۔ کیا نام ہے اس کتاب کا جو ابھی آپ نے شائع کی ہے۔‘‘

    وہ ڈکارتے ہوئے بولے۔ ’’کلیدِ مرغی خانہ۔‘‘

    عرض کیا، ’’جی ہاں، کلید مرغی خانہ۔ کیا کہنا ہے اس کتاب کا۔ کتابت ہے تو سبحان اللہ۔ طباعت ہے تو ماشاء اللہ۔ پھر ترتیب اور سجاوٹ۔ دلہن بناکر رکھ دیا ہے آپ نے کتاب کو۔ میں نے اپنے دیوان کا نام تجویز کیا ہے، لیلائے سخن، جس کا تخلص قیس ہوا اس کے دیوان کا کتنا مناسب نام ہے یہ۔‘‘

    انہوں نے براہِ راست سوال کیا۔ ’’تو آپ چھپوانا چاہتے ہیں اپنا دیوان۔‘‘

    عرض کیا، جی ہاں ارادہ تو کچھ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے چار دوادین میں سے انتخاب کرکے ایک دیوان مرتب کیا ہے۔ گویا اپنی کائنات شعری کا جوہر نچوڑ لیا ہے۔ اور یہ طے ہوا ہے کہ چھپواؤں گا آپ ہی کے ذریعہ۔‘‘

    انہوں نے کہا، ’’اچھا تو ہم چھاپ دیں گے۔ بہتر سے بہتر لکھائی چھپائی ہوگی۔ کاغذ وہی ہوگا جو کلید مرغی خانہ کا ہے۔ ہم آپ کو ابھی حساب لگاکر بتائے دیتے ہیں کہ آپ کو کیا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘

    ہم نے چونک کر کہا۔ ’’ہم کو کیا خرچ کرنا پڑے گا۔ غالباً آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔‘‘

    وہ ہم سے زیادہ متحیر ہوکر بولے۔ ’’تو کیا مطلب ہے آپ کا۔‘‘

    صاف صاف عرض کیا۔ ’’مطلب یہ ہے کہ آپ لے لیجیے دیوان اور چھاپئے، حق تصنیف طے ہوجائے۔ جو مناسب سمجھیے دے دیجیے۔‘‘

    انہوں نے ایک قہقہہ لگایا۔ گویا یہ کوئی بہت دلچسپ لطیفہ سنا تھا۔ اور عجیب تمسخر سے بولے۔

    آپ گویا یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا دیوان آپ سے خرید کر خود بیچنے کے لیے چھائیں۔ آج کل بھلا کون کسی کا دیوان چھاپتا ہے۔ کس کے پیسے فالتو ہیں۔ کہ وہ دیمک کی ضیافت کے لیے دیوان چھاپ کر اپنے یہاں ڈھیر کرلے۔ پیسہ بھی ضائع کرے وقت بھی برباد کرے۔ محبت بھی خواہ مخواہ کی اور جگہ بھی گھیری جائے۔‘‘

    ایک آدھ شاعر کے کلام کے مجموعوں کا حوالہ دیا۔ جو حال ہی میں شائع ہوئے تھے۔ اور عرض کیا۔ ’’آخر یہ مجموعے اور یہ دیوان بھی تو چھپے ہیں۔‘‘

    زانو پر ہاتھ مار کر بولے۔ ’’اوہو۔ آپ سمجھے نہیں۔ جن شاعروں کا آپ نے نام لیا ہے۔ ان کی تو اس وقت مانگ ہے۔ ان کے مجموعے تو اگر اس وقت ہم کو بھی مل جائیں تو ہم بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چھاپ دیں۔ مگر یہاں ذکر ہے آپ کا؟‘‘

    اب تو قابو میں رہنا مشکل تھا۔ ذرا تلخی سے عرض کیا۔ ’’کیا مطلب آپ کا؟ اگر آپ میرے نام سے واقف نہیں ہیں اور میرے شاعرانہ مرتبہ کو نہیں جانتے تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں۔ یہ تو آپ ہی کی کوتاہی ہے۔ ورنہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک خاص مقام رکھتا ہوں، اس دور کے شعرا میں۔‘‘

    وہ صاحب عجیب بیہودگی سے مسکراکر بولے۔ ’’اجی یہ تو سب ہی شاعر کہتے ہیں۔ خیر اس سے کیا مطلب ہم معافی چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا دیوان نہیں چھاپ سکتے۔‘‘

    ہم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کلام تو خیر میں خود آپ کو چھاپنےکے لیے اب نہیں دے سکتا۔ مگر کتابوں کی تجارت کرنے آپ بیٹھے ہیں تو ذرا اہل علم سے بات کرنے کا سلیقہ بھی پیدا کیجیے۔‘‘

    وہ حضرت بھی پہلو بدل کر بولے۔ ’’اہل علم جب کوئی آتا ہے تو ہماری گفتگو بھی دوسری قسم کی ہوتی ہے۔‘‘

    اور ہم نے اس بدتمیزی کا جواب دینا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ دل ہی دل میں کھولتے ہوئے اس دکان سے باہر آگئے، مگر ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ چودھری صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ یہ چودھری صاحب بڑے اثر و رسوخ کے لوگوں میں سے ہیں۔ اور میرے کلام کے دلدادہ ہیں، بلکہ نمائش کے مشاعرے میں صدر یہی تھے۔ اور ان ہی کی طرف سے میرے لیے تمغے کا اعلان ہوا تھا۔ ہمیشہ جھوم جھوم کر میری غزلیں سنا کرتے تھے۔ اور اچھل اچھل کر داد دیا کرتے تھے۔ آج بھی دور ہی سے دیکھ کر پہچان گئے۔ اور ایک نعرہ بلند کیا۔

    ’’آخاہ قیس صاحب ہیں۔ ارے بھئی آپ کہاں۔ بھئی خوب ملاقات ہوئی۔ کب آئے۔‘‘

    عرض کیا۔ ’’آئے ہوئے تو دو مہینہ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔‘‘

    حیرت سے بولے۔ ’’دو مہینہ سے زیادہ ہوگئے اور کہیں نظر بھی نہ آئے۔ میں تو اکثر مشاعروں میں گیا مگر آپ کو نہ دیکھا۔‘‘

    عرض کیا۔ ’’جناب والا، اب شعر کی فکر سے زیادہ پیٹ کی فکر ہے۔ وہ فارغ البالی کے زمانے گئے۔ اب تو سب سے مقدم ہے روزی کا ملنا۔ مگر اب آپ مل گئے ہیں تو سب ہی کچھ ہوجائے گا۔‘‘

    اور یہ کہہ کر اپنی تمام داستان سنادی کہ کس بے سروسامانی کی حالت میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ اور اگر جلد ہی ملازمت کا کوئی سلسلہ نہ ہوا تو کیا وقت آنے والا ہے ہم پر۔ بڑی ہمدردی اور غور سے تمام حالات سنتے رہے۔ اور سب کچھ سننے کے بعد فرمایا ’’ارے بھئی گھبرانے کی کیا بات ہے۔ ملازمت آپ کونہیں، تو اور کس کو ملے گی۔ میں ذمہ لیتا ہوں اس بات کا۔‘‘

    منہ مانگی مراد مل گئی۔ جی چاہا کہ اس شریف انسان کے قدموں پر گر کر جان دیدیں۔ مگر وفورِ جذبات میں قدموں کے بجائے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دباتے ہوئے عرض کیا۔ ’’میرا دل خود گواہی دے رہاہے کہ آپ مل گئے ہیں تو اب میری مشکلات کا خاتمہ ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘

    کہنے لگے۔ ’’خیر یہ تو آپ کی بندہ نوازی ہے۔ اچھا قبلہ یہ تو فرمائیے کہ انگریزی تعلیم کہاں تک ہے۔‘‘

    ایسے ذہین آدمی سے اس مہمل سوال کی امید نہ ہوسکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان حضرت نے ہمارا انگریزی نہیں بلکہ اردو کا کلام سنا تھا۔ کبھی انگریزی میں بات کرتے بھی نہ سنا ہوگا۔ البتہ کبھی کبھی سوٹ پہنے ضرور دیکھا ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ یہ غلط فہمی اسی وجہ سے پیدا ہوگئی ہو۔ لہٰذا ہم نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے عرض کیا،

    ’’بھائی جان انگریزی سے کیا واسطہ، آپ تو جانتے ہوں گے زندگی گزری ہے اردو کی خدمت میں۔‘‘

    وہ بولے، ’’تاہم کم سے کم آپ میٹرک تو ہوں گے۔‘‘

    عرض کیا، ’’اجی نہ میٹرک نہ الکٹرک۔ بچپن ہی سے اس شاعری کا ایسا شوق ہوا کہ لکھنا پڑھنا چھوڑ چھاڑ بس اسی کے ہو رہے۔‘‘

    وہ کچھ سمجھ سے گئے۔ ’’اوہ تو گویا آپ انگریزی جانتے ہی نہیں۔ یہ تو بڑی مشکل پیدا کردی آپ نے۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کو کوئی باقاعدہ ملازمت تو مل ہی نہیں سکتی۔ مگر خیر۔ آپ یہ کیجیے کہ فی الحال تو میری ایک چھوٹی سی دکان ہے اس کے حساب کتاب کی نگرانی فرمائیے بیٹھ کر۔ اس عرصہ میں اگر کوئی بہتر جگہ مل گئی تو چلے جائیے گا۔ ورنہ میں ہی کچھ نہ کچھ پیش کرتا رہوں گا۔‘‘

    خدا کا ہزار ہزار شکر و احسان ہے کہ اس نے کوئی سبیل بہرصورت پیدا ہی کردی۔ سچ کہا ہے کسی نے وہ بھوکا اٹھاتا ہے مگر بھوکا سلاتا نہیں ہے۔ لیجیے اب ہم ایک بارونق بازار میں موزے، بنیائن، رومال، تیل، گنگھا، آئینہ بیچنے ایک دکان پر بیٹھ گئے۔ صبح آٹھ بجے جاکر دکان کھولنا جھاڑو دینا۔ دن بھر گاہکوں کا خیرمقدم کرنا رومال بیچنا۔ اور رات کے نوبجے دکان بند کردینا۔ ایک کام تو یہ تھا اور دوسرا کام یہ کہ دن بھر کی بکری رجسٹر پر لکھ کر شام کو میزان نکال لیا کرتے تھے مگر یہ دوسرا کام اس قدر نامعقول ثابت ہوا کہ کبھی کبھی تو زندگی سے عاجز آجاتے تھے، کبھی تو کیش بک میں ہیں دو سو باسٹھ روپے تیرہ آنے نو پائی۔ اور کھاتہ میں میزان کل ہے دو سو تیس روپے تیرہ آنے نو پائی اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کون صاحب بتیس روپے چپکے سے کیش بکس میں ڈال گئے ہیں۔ دوکان کے دوسرے ملازم سے پوچھ رہے ہیں کہ بھائی تم ہی کچھ یاد کرو۔ آخر وہ اسی رائے پر اڑجاتا کہ ’’جب آپ اپنے دوست کو غزل سنا رہے تھے اس وقت جتنے گاہک آئے سب سے دام لے کر کیش بکس میں تو آپ نے ڈال لیے مگر کھاتہ پر چڑھائے نہیں۔‘‘ لیجیے اب کھاتے کے فرضی اندراج ہو رہے ہیں۔ مگر جس دن یہ ہوتا کہ کیش بکس میں سے نکلتے ہیں تین سو چودہ روپے اور کھاتہ دکھا رہا ہے تین سو چون روپے تو اس روز تو ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ کر رہ جاتے۔ کہ اب یہ چالیس روپے کی کمی کہاں سے پوری ہو۔ دکان کے دوسرے ملازم نے یاد کرتے ہوئے کہا،

    ’’میں سمجھ گیا قیس صاحب۔ چالیس روپے کا وہ تھرموس بیچا تھا۔ اور تھرموس لے کر وہ صاحب بیٹھ گئے تھے آپ کی غزل سننے۔ دوسروں کے ساتھ بڑی دیر تک واہ وا کرتے رہے اور پھرایک دم غائب ہوگئے۔ دیکھیے تھرموس کے دام لکھے ہیں۔‘‘

    کھاتے میں تھرموس کے دام چالیس روپے موجود۔ اور اب ہم کو بھی یاد آگیا کہ ہم نے دام تو لکھ لیے تھے مگر وہ بیٹھ گئے تھے کلام سننے اور بڑے سخن فہم معلوم ہو رہےتھے۔ لہٰذا یہی خیال تھا کہ جاتے وقت دے دیں گے دام مگر وہ چپکے سے نکل گئے۔ بمشکل تمام دوسرے ملازم سے مل ملاکر اور اس کو بھی اسی کا ایک موقع دینے کا وعدہ کرکے کھاتہ کے اس اندراج کو مٹایا گیا اور جان بچی۔ کان پکڑ کر توبہ کی کہ آئندہ دکان پر شعر و شاعری کا شغل ہرگز نہ ہوگا۔ اور سوائے دکانداری کے دوکان پر بیٹھ کر اور کچھ نہ کریں گے، مگر جس نے بھی کہا ہے سچ کہا ہے کہ،

    وہی ہوتا جو منظورِ خدا ہوتا ہے

    دیکھتے کیا ہیں کہ کیف۔ سیف۔ حیف۔ نور۔ طور۔ نشور۔ سب کے سب ٹولی بنائے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ اور ایک دم سے آکر حملہ آور ہوگئے۔ اب کیسے نہ بٹھاتے ان کو اور جب بیٹھ کر ان سے یہ معلوم ہوا کہ مشاعرے سےاٹھ کر وہ لوگ آرہے ہیں تو کیسے نہ ان سے فرمائش ہو مشاعرے کی غزلیں سنانے کی۔ اور جب وہ غزلیں سنادیں تو کہاں کا ہے یہ اخلاق کہ خود اپنی اسی طرح کی غزل نہ سنائی جائے ان کو۔ بس اتنی سی بات سے مشاعرے کی سی کیفیت پیدا ہوکر رہ جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ راہ گیر بھی اکثر سخن فہم ہوتے ہیں۔ اگر وہ کلام سننے کو ٹھہر جائیں تو کون ان سے کہہ سکتا ہے کہ آپ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ رہ گئے گاہک ان کی بلا سے مشاعرہ ہو یا کچھ وہ تو سن لائٹ سوپ لینے اس وقت بھی آئیں گے۔ ان کو تو اپنے نوزائیدہ بچے کے لیے چوسٹی اور بے بی پاؤڈر اس وقت بھی درکار ہوگا۔ چنانچہ یہ بالکل اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ شعرائے کرام کے علاوہ سامعین بھی کچھ زیادہ ہی جمع ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ برق اپنی غزل پڑھ رہے تھے اور ان کی آواز کو سن کر راہ گیر کیا معنی پرندے تک ہوا میں معلق ہو کے رہ جاتے ہیں۔ دریا اپنی روانی چھوڑ دیتا ہے اور کچھ عجیب بات ہے کہ اسی وقت گاہک بھی کچھ ضرورت سے زیادہ آگئے تھے۔ مختصر یہ کہ ملا جلا مجمع ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ اور سڑک تھوڑی بہت رک گئی تھی۔ یعنی ادھر اور ادھر دونوں طرف موٹر کھڑے ہارن دے رہے تھے کہ ناگاہ چودھری صاحب بھی اسی وقت آموجود ہوئے۔

    کچھ پریشان۔ کچھ بدحواس۔ چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ غالباً وہ سمجھے ہوں گے اس اجتماع کو دیکھ کر کہ کوئی بلوہ ہوگیا ہے۔ یا دکان میں آگ لگ گئی ہے۔ مگر یہاں پر کچھ آل پاکستان مشاعرے کا رنگ دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ سرپکڑ کر ایک طرف خاموش بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ جب ہم نے غزل پڑھی تو بھی ہمارے کلام پر اچھل اچھل پڑنے والے چودھری صاحب سر پکڑے ہی بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ آنے والےر خصت ہوگئے۔ مجمع چھٹ گیا۔ سڑک کھل گئی۔ اور دکان پر کوئی نہ رہا تو چودھری صاحب نے نہایت خاموشی سے اٹھ کر کہا،

    ’’قیس صاحب آج کون تاریخ ہے۔‘‘

    عرض کیا۔ ’’پندرہ۔‘‘

    انہوں نے کہا، ’’میں بصد ادب آدھے مہینہ کی یہ تنخواہ پیش کر رہا ہوں اور آدھے مہینہ کی مزید تنخواہ اپنی طرف سے ہدیہ کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ مجھ کو معاف فرمائیں گے۔‘‘

    عرض کیا۔ ’’بات کیا ہے آخر۔‘‘

    کہنے لگے، ’’میں شرمندہ ہوں گا اس سلسلہ میں بات کرتے ہوئے۔ صرف اسی قدر عرض ہے کہ میری دکانداری تو ختم ہوکر ہی رہ جائے گی۔ اگر آپ کچھ اور دن یہاں رہے، اس عرصہ میں جو نقصانات ہوچکے ہیں ان سےمیں بے خبر نہیں ہوں۔‘‘

    لاکھ ان سے تفصیلی گفتگو کرنا چاہی مگر وہ بس ہاتھ ہی جوڑتے رہے۔ اور اپنی دکان سے رخصت کردیا۔ مگر اب اپنے شاعر احباب کے مشورے سے ہم نے ایک سائن بورڈ اپنے مکان پر ہی ٹانگ لیا ہے،

    ’’ادارہ اصلاح سخن‘‘

    یہاں کلام میں اصلاح بھی دی جاتی ہے۔

    اور دوسرے کے لیے بہترسے بہتر کلام بھی حسب فرمائش تیار کیا جاتا ہے۔

    صبح سے شام اس سائن بورڈ کے زیر سایہ بیٹھے رہتے ہیں۔ آج پندرہ روز ہوچکے ہیں۔ مگر اب تک صرف دو گاہک آئے ہیں۔ ایک صاحب کی بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسے پھڑکتے ہوئے شعر ان کو لکھے جائیں کہ بیوی تڑپ کر واپس آجائے۔ شعر ان کو کہہ کر دے دیے ہیں۔ آٹھ آنے وہ دے گئے ہیں۔ اور آٹھ آنے بیوی کے آجانے پر دیں گے۔

    دوسرے صاحب اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ واقع ہوئے ہیں قوال۔ ان کے ایک حریف قوال نے کسی پچھلی محفل میں ایک چیز گا کر محفل کو لوٹ لیا ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اسی قسم کی اس سے زبر چیز کہہ دی جائے۔ وعدہ ہوا ایک روپیہ کا۔ اور اگر وہ چل گئی تو جیسی آمدنی محفل میں ہوگی ویسی ہی وہ ہماری خدمت بھی کریں گے۔ یہ چیز ہم تیار کر رہے ہیں۔‘‘

    ان دو گاہکوں کے علاوہ اب تک اور کوئی نہیں آیا۔ ہاں میں بھولا۔ ایک صاحبزادے بھی شاگردی کرنے آئے تھے۔ اور پوچھ رہے تھے کہ وہ جو ہم کو استاد کیںد گے تو ہم ان کو اس کسر نفسی کا کیا معاوضہ دیں گے۔ یہ ہے اس دور میں آپ کی شاعری کا حال۔ اور اس حال میں ہیں آپ کے وہ شاعر جو آپ کے ادب کو مالا مال کر رہے ہیں۔

    مأخذ:

    (Pg. 66)

    • مصنف: شوکت تھانوی
      • ناشر: آہلو والیہ بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے