Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ملاؤں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

ملاؤں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

MORE BYہاشم عظیم آبادی

    جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ ایک اشتہار میری طرف بڑھا دیا گیا۔ میں پڑھنے لگا۔ لکھا تھا، ’’آپ حضرات سے التجا ہے کہ ملاؤں کی کانفرنس میں شریک ہوکرثوابِ دارین حاصل کریں۔ لیکن کانفرنس میں شرکت کے لئے ’مولوی‘ ہونےکی سند لازمی ہے۔ تاہم غیرمولوی یعنی جومولوی نہیں ہیں وہ بھی شرکت فرما سکتے ہیں بشرطیکہ پنڈال میں داخلہ کے وقت کم ازکم سوابالشت داڑھی چہرے پر لہرارہی ہو۔ ورنہ پنڈال کے باہر ہی روک دیا جائے گا۔‘‘

    میرے پاس ایک مصنوعی داڑھی تھی۔ سوچا چلو رہے ایک دلبستگی اور پھر جمعہ کا دن فرصت کا تھا بھی۔

    پنڈال کے ایک کونے میں اونچا ساچبوترہ مقرروں کے لئے مخصوص تھا۔ اس کے ایک طرف مٹی کے بہت سے لوٹے اور دوسری جانب مٹی کے ڈھیلے پڑے تھے۔ میں نے دریافت کیا، ’’اجی مولانا صاحب! اس قدر مٹی کے ڈھیلے یہاں کیوں جمع کئے گئے ہیں۔‘‘

    ’’واہ حضرت واہ! ’’میرے اس سوال پر مولانا گرم ہوئے۔ ’’آئے ہیں کانفرنس میں شرکت کےلئےاوراتنا بھی نہیں جانتےکہ یہ کلوخ کے ڈھیلے ہیں۔۔۔ ادھر دیکھئے، وہ رہے مٹی کےچکّر۔ اسی میں ہم لوگ پانی پئیں گے۔ جی ہاں۔ یہاں شان و شوکت تھوڑاہی ہے۔ یہ تو اللہ والوں کا اجتماع ہے۔‘‘

    اتنا کہہ کر مولانا نے چکّر سے پانی پیا، پھرایک ہاتھ میں کلوخ کا ڈھیلا اور دوسرے ہاتھ میں مٹی کی بدھنی لٹکاتے آگے بڑھ گئے۔

    کچھ مولوی صاحبان پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ میرے پہنچنے کے بعد تو گویا تانتا بندھ گیا۔ میں نے ایک بات مارک کی۔ یعنی زیادہ تعداد ایسے مولوی صاحبان کی تھی جن کی توند نکلی ہوئی تھی۔ ممکن ہے برابر مرغن غذا کھانے کے باعث چربی کا فساد ہو۔ اس کے علاوہ کثرت سے ایسے ڈیلیگیٹس تھے۔ جن کے ہاتھوں لمبی لمبی تسبیح تھی۔ جن پر انگلیوں سے شغل فرمایا جا رہا تھا۔ ایسے حضرات اگر چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گفتگو کر رہے تھے، تو ان کی انگلیاں تسبیح کی پٹری پر پنچانوے 95میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھیں۔

    کانفرنس کی افتتاح کےلئےجو مولانا کھڑے ہوئے ان کا اسمِ مبارک تو معلوم نہ ہوسکا۔ لیکن ’جنت کے ٹھیکہ دار‘ کےنام سے مشہور تھے۔ مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکراپنے والد مرحوم کے نام فاتحہ پڑھواکرایک نظم نہایت ہی ترنم کے ساتھ شروع کی جس کا ٹیپ کا بند تھا،

    ’’سرکار دو عالم آجاؤ‘‘

    مولانا موصوف کے پیٹھ پھیرتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک صندوق لڑھکتا ہوا چلا آرہا ہے۔ لیکن جب وہ صندوق مائک کے پاس آکر ٹھہر گیا، تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو لحیم شحیم قسم کے مولوی صاحب ہیں۔ انہوں نے آتے ہی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ میرے سامنے سے ایسی واہیات چیز فوراً ہٹائی جائے (یہ اشارہ تھا مائک کی طرف) کیونکہ جب اس مشین کے ذریعہ آئی ہوئی چاند کی خبروں پر اعتبار نہیں کیا جاتا، تو میری تقریر کا مولوی بھائیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے فضل سے میری آواز ہی اس قدر گر جدارہے کہ،

    ’’رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے‘‘

    ’’اما بعد۔ چونکہ ہم مولوی لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے کسی کو بھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا میرا قطعی فیصلہ ہے کہ ہر مولوی بھائی اپنی اپنی جگہ پر اپنے کو صدر تصور کرلے (تالیاں) تو اب آپ حضرات کے سامنے مشہور و معروف مولوی حضرات ’ریش حنائی‘ چٹنوی تشریف لا کر اظہار خیال فرمائیں گے۔‘‘

    حضرت ’ریش حنائی‘ تشریف لاتے ہیں۔ ذرا آپ کا حلیہ ملاحظہ ہو،

    حنائی ریش، سرخ آنکھوں میں سرمہ

    لٹیں مہکی ہوئیں، زلفیں معطر

    جوش نے غالباً انہیں بزرگ کے لیے کہا ہے،

    یہی ہوں گے جو فردوس بریں میں

    خدا کے فضل سے حوروں کے شوہر

    حضرت ’ریش حنائی‘ نے تشریف لاتے ہیں پنی علمیت کا سکہ جمانے کے لئے مثنوی مولانا روم کے اشعار پڑھنا شروع کئے،

    ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں

    ایں خیال است و محال است مجنوں

    ’’جی ہاں، اس وقت میرا گلا کھسکھسا رہا ہے اس لئے آواز پھٹی پھٹی نکل رہی ہے، ورنہ میں تو نہایت ہی سریلا اور خوش گلو واقع ہوا ہوں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ آج ہی گلا چوپٹ ہوگیا۔ خیر۔ مرضیٔ مولا از ہمہ اولیٰ۔۔۔ تو بھائیو آمدم بر سر مطلب۔ یعنی ہم لوگ اس پنڈال کے اندر اس قدر کثیر تعداد میں کیوں جمع ہوئے ہیں، تو صاحبو! آپ لوگ میری چھ ورقی کتاب ’اغراض و مقاصد‘ پڑھ کر اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔ لہٰذا انہیں باتوں پر اس وقت ہمیں غور و خوض کرنا ہے۔

    خدا شاہد ہے بھائیو، یہ زمانہ خصوصاً ہم مولویوں کے لئے ایسا ناقص ہے کہ ہمارا معیار زندگی ہی باقی نہ رہا( رونی صورت بنا کر) افسوس! نئی پود اور نئی روشنی کےلوگوں کی نگاہوں میں ہماری عزت و وقعت درکنار، ہم ایک عجوبہ شے بن کر رہ گئے ہیں۔ دور کیوں جائیں۔ خود ہمارے بیٹوں پر بیرونی ہوا کا اس قدر اثر ہے کہ وہ بھی ہم پر منہ آنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بابا جان، اب لمبی لمبی داڑھیوں کا زمانہ نہیں۔ اس قدر مہین لب ترشوانے سے تو استرہ پھروا دینا بہتر ہے۔‘‘ نعوذ باللہ نعوذ باللہ۔۔۔ اور تواور، یہ کمبخت کہتے ہیں، ’’بابا جان، ٹخنے سے اوپر پاجامہ کیوں پہنتے ہیں۔ سرکیوں گھٹواتے ہیں۔ آنکھوں میں سرمہ اور داڑھی میں خضاب کیوں لگاتے ہیں۔۔۔‘‘ کہئے تو صاحب، اپنی اولاد اور ایسی ناقص! یہاں تک تو خیر قابل برداشت بھی ہے۔ اجی صاحب، اس پرانی وضع قطع میں ہمیں راستہ چلنا دشوار ہوگیا ہے۔ جس کو دیکھو کچھ عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ جی ہاں! سوٹ بوٹ پہن کر اور زنخے کی شکل بنا کر نکلئے تو یہ سر پھرے بڑے خوش ہوں گے۔ تیری ایسی کی تیسی۔‘‘

    مولانا کا چہرہ مارے غصہ کےسرخ ہوجاتا ہے اور اسی حالت میں جو ایک ہوائی گھونسہ چلاتے ہیں، تو وہ جا لگتا ہے بغل میں بیٹھے ہوئے مولانا کے کلہ پر۔ وہ بھی اس زور سے کہ چشمہ چور چور ہوجاتا ہے۔ قریب تھا کہ دونوں مولانا آپس میں گتھ جائیں، مگر لوگوں نے دوڑ کر بچ بچاؤ کر دیا۔

    ’’حضرت چکی بنڈول پوری تشریف لاتے ہیں۔‘‘

    مولانا چکی نےآتےہی اپنی داڑھی پردستِ شفقت پھیرتے ہوئےفرمایا، ’’بھائیو! یہی وہ شئے ہے،جو ہمیں جنت میں لےجائے گی۔ لیکن لعنت ہو ایسی اولاد پر جو اس کی قدروقیمت سےنا آشنا ہو۔۔۔ دوستو، فی زمانہ ہم مولوی بھائیوں کو دنیا جس نگاہ سے دیکھتی ہے اس کے متعلق میرے کرم فرما مولانا ریش حنائی نے نہایت ہی واضح نقشہ آپ حضرات کےسامنے پیش کردیا ہے۔ اس ضمن میں مجھے یہ کہنا ہےکہ جب نئی تہذیب کےدلدادے ہمیں آنکھ نہیں لگاتے۔ ہمیں لکیرکےفقیر کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں، توپھرکیا وجہ ہےکہ کسی کےمرتےہی لوگ ہمارے گھروں کی خاک اڑادیتےہیں۔۔۔ غورکرنےکا مقام ہےکہ اگرایسےنازک موقع پرہماری قوم اکڑ جائے، تو واللہ لاش پڑی پڑی سڑجائےاورکوئی نمازپڑھانےوالا نہ ملے۔

    میں یہ بھی عرض کرنے کی جراءت کروں گا کہ جب خوشی کے موقع پر ہمیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے نحوست کے وقت ہم ان کا ساتھ دیں۔۔۔ رونا تو یہ ہے کہ میرے مولوی بھائیوں کو ذرا بھی اس بات کا احساس نہیں۔ میت کی خبر ملتے ہی دوڑ پڑتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ رازق تو خدا ہے۔ چہارم کے پلاؤ کی حقیقت ہی کیا ہے۔ وہ تو ایسا قدرت والا ہے کہ ہمارے لیے جنت سے پکا پکا یا مرغ مسلم بھیج دے، لیکن۔۔۔

    پہلے پیدا تو کرے ایسا کوئی ذوق سلیم

    ’’تو بھائیو! مجھے اس کے علاوہ اورکچھ کہنا نہیں ہے خاص اس وجہ سے بھی کہ میں نہایت ہی کم سخن واقع ہوا ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہر سانس کے ساتھ اللہ اللہ کا ذکر جاری رکھنے کا قائل ہوں۔۔۔ جی ہاں، قریب دس سال سے اس پر عمل کررہا ہوں، تب ہی توآپ لوگ میرے چہرے پراس قدر نور دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو یوں ہی خون کی خرابی کےباعث کچھ دنوں سےمیرے چہرے پرسیاہی دوڑ گئی ہے۔ اچھا السلام علیکم۔‘‘

    ’’اب مولانا ڈھونگل چٹنوی تشریف لائیں۔‘‘

    مولانا ڈھونگل کا شرعی پائجامہ ضرورت سے اتنا زیادہ اونچا تھا کہ اگر چار انگل اور اوپر کی جانب کھینچ لیا جاتا، تو پھر یقین کے ساتھ اسے ہاف پینٹ کہہ سکتے تھے۔ توند کی گولائی کی وجہ سے ان کا آگا پیچھا بہ مشکل سمجھ میں آسکا۔ رنگ ایسا سیاہ اور چمک دار جیسے چترنجن کے کار خانے کا بنا ہوا انجن۔

    مولانا نے آتے ہی گلاف صاف کیا اور پھر لگے الاپنے،

    میرے مولا بلا لومدینےمجھے

    غم ِہجر دے گا نہ جینے مجھے

    ’’جی ہاں، یہ کارروائی اپنی طبیعت موزوں کرنےکےلئے تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ میں بھی اس کانفرنس میں کچھ کہوں۔ اچھا صاحب، جب مجھے تقریر کے لئے کھڑا ہی کیا گیا ہے تو۔۔۔‘‘

    اب گر تھام کے بیٹھو مری باری آئی

    اما بعد! آپ لوگ میرے ہاتھ میں یہ موٹا ڈنڈا دیکھ کر اسے ’عصائے پیری‘ سمجھ رہے ہوں گے۔ جی نہیں، یہ دراصل ’تنبیہہ الغالفین‘ ہے، سمجھےنا۔ میں کوئی ایسا ویسا مولوی نہیں کہ کسی کی سنوں اور برداشت کر جاؤں۔ خواہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ آپ سن کرتعجب کریں گے کہ میرا لڑکا جس کا دماغ انگریزی پڑھ کر پھر گیا ہے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگا، ’’بابا جان، آپ سڑک پر بھی نکلتے ہیں تو تسبیح ہلاتے ہوئے، یہ نری ریاکاری ہوئی۔ ایسا تو سود خوار مغلے بھی کرتے ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہ کافرانہ باتیں سننی تھیں کہ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ میں نے آنکھ بند کرکے جو ایک ڈنڈا مارا ہے، تو پھٹ سے آواز آئی۔ میں نے سمجھا کہ کمبخت کا بھیجہ پھٹ کرواصلِ جہنم ہوا۔ لیکن توبہ کیجئے۔ آنکھ کھول کرجو دیکھا تو صاحب زادہ صاحب لاپتہ ہیں اور دراصل وہ ڈنڈا پڑا تھا۔ استنجا کرنے کی بدھنی پر (سامنے دیکھ کر) اچھا یہاں تو استنجا کے لئے مٹی کے بدھنے اور کلوخ کے ڈھیلے کافی تعداد میں ہیں۔۔۔ تو اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو ذرا لپک کر استنجا سے فارغ ہولوں۔۔۔ یا چھوڑئیے تقریر کے بعد دیکھا جائے گا۔‘‘

    تو غور فرمایا آپ نے، میرے کہنے کا ماحصل یہ ہے کہ جب تک انگریزی تعلیم کا اثرہے، اس وقت تک نئی روشنی والے ہمیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کا ہزارہزارشکر ہےانگریز یہاں سےدفع ہوئے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اولاد کے دل پر جووہ اپنا اثر چھوڑ گئے ہیں اس کے زائل ہونےمیں کتنا عرصہ لگتا ہے (سسکتے ہوئے) میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی میرے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رویئے۔ خدا کی قسم رویئے۔ یعنی میں جس محلہ میں رہتا ہوں، وہاں کے مسلمان انگریزی دانوں کا یہ حال ہےکہ مرنے کے وقت کلمہ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتا۔۔۔ میرے ایک انگریزی دان پڑوسی عالمِ نزع میں تھے۔ مجھے خبر ملی، تو ان کے سر ہانے بیٹھ کر ازراہ ہمدردی کہا، ’’کہو میاں لا الٰہ الّا اللہ۔۔۔ جانتے ہیں آپ۔ مرنے والے کی زبان سے کیا نکلا،

    Twinkle twinkle little stars

    How I wonder what you are

    میں انگریزی تو جانتا نہیں۔ تاہم ایک انگریزی داں سے لکھوا کر یاد کرلیا ہے جو اس وقت عرض کرسکا۔۔۔ ’’واقعی صاحب اب مجھے استنجا کے لئے جانا ہی پڑے گا۔‘‘

    ’’اب مولانا یک چشمی تشریف لاتے ہیں۔‘‘

    (بآوازِ بلند درود شریف پڑھنے کے بعد) بھائیو! ہم مقدس ہستیوں کا اجتماع جس مقصد کےلئےہوا ہےاس سےہم بھٹکے جارہے ہیں۔ جیسا کہ ابھی مولانا ڈھونگل کی تقریر سے صاف ظاہر ہے۔ میں کہتا ہوں کسی کاعمل کیسا ہی ہو ہمیں اس سے مطلب، یہاں تودیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا صورت اختیار کریں کہ ہماری موجودہ پریشانیوں کا خاتمہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک نہایت ہی معقول تجویز میرے ذہن میں ہے۔ یعنی کیوں نہیں ہم سارے مولوی بھائی زمانے کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی روشن خیالی کا ثبوت دیں اور یہ دقیانوسی لفظ مولوی کا دم چھلا اپنے نام کے ساتھ لگانے کی عادت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کردیں اور دوسروں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ بھی ہمیں مولوی کے بجائے مسڑ فلاں کہہ کر پکاریں۔۔۔‘‘ (آواز۔۔۔ بیٹھ جائیے، بیٹھ جائیے، آپ کی اس واحد آنکھ کی بھی خیر نہیں۔ لعنت ہے آپ پر۔ مولوی ہو کر ایسی واہیات تجویز پیش کررہے ہیں۔ ہم لوگ مسٹر کیوں ہونے لگے بھلا۔ مسٹر ہونگے آپ کے باپ دادا۔ ہم لوگ مولوی ہیں، مولوی کہلاتے ہیں اور مرتے د م تک انشاءاللہ مولوی رہیں گے۔ چاہے اس کے لئے جو ہو جائے)

    مولانا یک چشمی گھبرا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر تک خاموشی رہتی ہے۔پھرحضرت ریش حنائی کھڑے ہوکرارشادفرماتے ہیں، ’’بھائیو۔ مولانا یک چشمی کی جاہلانہ تقریر سن کر ان کےخلاف سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا میری دست بستہ گزارش ہے کہ کوئی صاحب اس قسم کے اٹکل پچو تجویز پیش نہ کریں (گھڑی دیکھ کر) ایک بات اور عرض کردوں۔ یعنی اس وقت دس بجنے میں صرف چند منٹ باقی ہیں۔۔۔ لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کلوخ کے جتنے ڈھیلے جمع کئے گئے تھے وہ سب کے سب ختم ہو چکے ہیں۔ اتنی رات گئے کوئی انتظام بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا دریافت طلب ہوں کہ ایسی حالت مین معزز ڈیلیگیٹس کی کیا رائے ہے۔‘‘

    یہ سن کرسارے حضرات گھبرا کرکھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک مولانا سبھوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم لوگ مولانا ریش حنائی کے نہایت ہی مشکور ہیں جن کی بروقت اطلاع سے ہم مولوی بھائی ہوشیار ہوگئے۔ کیونکہ جب کلوخ کے ڈھیلے ہی نہ رہے، توہم مقدس ہستیوں کا ایک منٹ ٹھہرنا دشوار ہے۔ اس لئے کانفرنس کی کاروائی دوسرے روز پر اٹھا رکھنی ہی مناسب ہے۔۔۔‘‘ اور چلتے چلاتے مولانا سے درخواست کروں گا کہ ایک مرتبہ پھر وہی نظم سنانے کی تکلیف گوارا فرمائیں۔ جس کی ٹیپ کا بند ہے،

    ’’سرکار دو عالم آجاؤ‘‘

    مأخذ:

    کانفرنسیں (Pg. 33)

    • مصنف: ہاشم عظیم آبادی
      • ناشر: لیتھو پریس، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1983

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے