Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کی آخری کتاب

پطرس بخاری

اردو کی آخری کتاب

پطرس بخاری

MORE BYپطرس بخاری

     

    ماں کی مصیبت
    ماں بچے کو گود میں ليے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسب معمول آنکھیں کھولے پڑاہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے اس کے منہ کو تک رہی ہے اور پیار سے حسب ذیل باتیں پوچھتی ہے:

     

    ۱۔ وہ دن کب آئے گا جب تو میٹھی میٹھی باتیں کرے گا؟

     

    ۲۔ بڑا کب ہوگا؟ مفصل لکھو۔

     

    ۳۔ دولھا کب بنے گااور دلھن کب بیاہ کر لائے گا؟ اس میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔

     

    ۴۔ ہم کب بڈھے ہوں گے؟

     

    ۵۔ تو کب کمائے گا؟

     

    ۶۔ آپ کب کھائے گا؟ اور ہمیں کب کھلائے گا؟ باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا کر واضح کرو۔

    بچہ مسکراتاہے اور کیلنڈر کی مختلف تاریخوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تو ماں کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ جب ننھا سا ہونٹ نکال نکال کر باقی چہرے سے رونی صورت بناتا ہے تو یہ بےچین ہوجاتی ہے۔ سامنے پنگورا لٹک رہا ہے۔ سلانا ہو تو افیم کھلا کر اس میں لٹا دیتی ہے۔ رات کو اپنے ساتھ سلاتی ہے۔ (باپ کے ساتھ دوسرا بچہ سوتا ہے) جاگ اٹھتا ہے تو جھٹ چونک پڑتی ہے اور محلے والوں سے معافی مانگتی ہے۔ کچی نیند میں رونے لگتا ہے، تو بےچاری مامتا کی ماری آگ جلا کر دودھ کو ایک اور اُبال دیتی ہے۔ صبح جب بچے کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ بھی اٹھ بیٹھتی ہے۔ اس وقت تین بجے کا عمل ہوتا ہے۔ دن چڑھے منہ دھلاتی ہے۔ آنکھوں میں کاجل لگاتی ہے اور جی کڑا کرکے کہتی ہے کیا چاند سا مکھڑا نکل آیا۔ واہ وا!

     

    کھانا خود بخود پک رہا ہے
     دیکھنا، بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے، ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے۔ ہر چیز کیا قرینے سے رکھی ہے۔ دھوئے دھلائے برتن صندوق پر چنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے۔ ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دھرے ہیں۔ کسی میں دال ہے اور کسی میں آٹا، کسی میں چوہے۔ پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلالے، جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے۔ چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے۔ غرض یہ کہ سب کام ہوچکا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔

    میاں جب آتا ہے تو کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے۔ پیچھے کبھی نہیں رکھتی، کھا چکتا ہےتو کھانا اُٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تو میاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے۔ کھانے پکانے سے فارغ ہوتی ہے تو کبھی سینا لے بیٹھی ہے تو کبھی چرخا کاتنے لگتی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ مہاتماگاندھی کی بدولت یہ ساری باتیں سیکھی ہیں۔ آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو ڈاکٹر سے علاج کروانا پڑے۔

    دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے
    بڑی محنت کرتا ہے۔ شام کو بھٹی چڑھاتا ہے، دن بھر بیکار بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا رستہ لیتا ہے۔ کبھی نالے پر دھوتا ہے کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے، گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے۔ صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے۔ دوپہر ہونے آئی، اب تک پانی میں کھڑا ہے اسے ضرور سرسام ہوجائے گا۔ درخت کے نیچے بیل بندھا ہے۔ جھاڑی کے پاس کتا بیٹھا ہے۔ دریا کے اس پار ایک گلہری دوڑ رہی ہے۔ دھوبی انہیں سے اپنا جی بہلاتا ہے۔

    دیکھنا دھوبن روٹی لائی ہے۔ دھوبی کو بہانہ ہاتھ آیا ہے۔ کپڑے پٹرے پر رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ کتے نے بھی دیکھ کر کان کھڑے کیے۔ اب دھوبن گانا گائے گی۔ دھوبی دریا سے نکلے گا۔ دریا کا پانی پھر نیچا ہوجائے گا۔

    میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے۔ دیکھیے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں۔ کیا مجال کوئی پاس تو آجائے۔ جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیں لےجاسکتے۔ میاں دھوبی! تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو۔ ننگا پھراتے ہو۔

         

    مأخذ:

    پطرس کے مضامین (Pg. 67)

    • مصنف: پطرس بخاری
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے