Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زیب داستا ں کے لیے

کنہیا لال کپور

زیب داستا ں کے لیے

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    انٹر کلاس کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں پانچ مسافر بیٹھے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ گاڑی کب چھوٹے گی۔ گنجے سر والے پروفیسر نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’اگر اس گاڑی کا گارڈ میرے کالج کا طالب علم ہوتا تو میں اسے اتنی دیر گاڑی روکے رکھنے کے جرم میں بینچ پر کھڑا کر دیتا، بیٹھی ہوئی آنکھ والے شاعر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’میں ایسی ہجو لکھتا کہ بچہ ساری عمر یاد رکھتا۔‘‘ سرخ چہرے والا رئیس زادہ بولا، ’’میرا جی چاہتا ہے کہ مار مار کر کمبخت کا بھرکس نکال دوں۔‘‘ عطر میں نہائی ہوئی طوائف نے کہا، ’’اگر یہ میرے ہاں گانا سننے آتا تو میں دھکے مار مار کر کوٹھے سے اتار دیتی۔‘‘ گونگا فلاسفر سوچنے لگا، ’’یہ لوگ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں، گاڑیاں اکثر لیٹ ہو جاتی ہیں۔‘‘

    خدا خدا کرکے گاڑی روانہ ہوئی۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ سیاسیات سے لے کر جنسیات تک۔ ہر ایک مسئلہ زیر بحث رہا۔ شاعر نے پروفیسر کے قریب سرکتے ہوئے پوچھا، ’’آپ کی تعریف!‘‘

    ’’پروفیسر حسین۔‘‘

    ’’ڈاکٹر محمد حسین۔‘‘

    ’’جی ہاں، ڈاکٹر محمد حسین۔‘‘

    شاعر مسرت سے اچھل کر کہا،’’عجیب اتفاق ہے کہ میں اردو کے مشہور ادیب شاعر نقاد کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’تو آپ مجھے جانتی ہیں؟‘‘

    ’’آپ کو کون نہیں جانتا۔‘‘

    ڈبے کے باقی تین مسافر پروفیسر محمد حسین کو اس طرح گھور کر دیکھنے لگے گویا وہ کوئی عجوبہ ہیں۔ پروفیسر صاحب نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا، ’’خاکسار ایشیا میں واحد شخص ہے جسے کیمبرج یونیور سٹی سے بی اے فرسٹ کلاس کی ڈگری لینے کا فخر حاصل ہوا۔ خاکسار ہی کے پرچے پر پروفیسر کلر کوچ نے جو شعبہ انگریزی کے صدر ہیں لکھا تھا، ’’یقین نہیں آتا کہ اس شخص کی مادری زبان انگریزی نہیں۔‘‘

    بیٹھی ہوئی آنکھ والے شاعر نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’تو آپ کو انگریزی زبان پر حیرت انگیز قدرت حاصل ہوگی؟‘‘

    پروفیسر نے پر تمکنت لہجہ میں جواب دیا، ’’انگریزی؟انگریزی میرے گھر کی لونڈی ہے۔ مجھے اردو پر اتنا عبور حاصل نہیں جتنا انگریزی پر ہے۔لندن میں ایک دفعہ میں نے ’’ٹائمز‘‘ کے لئے مضمون لکھا۔ یہ مضمون چھپنا تھا کہ انگلستان میں تہلکہ مچ گیا۔ خود وزیر اعظم نے مبارک باد کا تار بھیجا اور ٹائمز کا ایڈیٹر تو اتنا مرعوب ہوا کہ اس نے مجھے اسسٹنٹ ایڈیٹر شپ کے لئے پیش کش کی مگر مصروفیات کی وجہ سے میں نے انکار کر دیا۔ در اصل بات یہ تھی کہ ان دنوں میں اپنا تھیسس لکھ رہا تھا اور تھیسس کے لئے آپ جانتے ہیں کہ کتنی کاوش کرنی پڑتی ہے، خاص کر اس موضوع کے لئے جس پر پہلے کوئی کتاب نہ لکھی گئی ہو۔ بھلا آپ ہی کہئے کیا آپ نے ’’صوفی شعرا کا لباس‘‘ جیسے اہم مسئلہ پر آج تک کوئی کتاب دیکھی ہے؟ ’’شاعری اور اجتہاد‘‘، ’’شاعری اورروایات‘‘، ’’شاعری اور محبت‘‘ ان موضوعات پر تو ہزاروں کتابیں آپ کی نظر سے گزری ہوں گی۔ مگر کسی محقق یا تاریخ داں نے یہ سوچنے کی کوشش بھی کی کہ صوفی شعرا کس قسم کا لباس پہنتے تھے اور اس لباس کا ان کی شاعری پرکتنا گہرا اثر تھا، میں کہتا ہوں، یہ مسئلہ جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی نفسیاتی موشگافیوں کا حامل بھی ہے۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے بنظر غائر اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے اور پھر یہ مسئلہ مغربی ممالک کے لئے کتنی دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔ بیچارے انگریزوں کیلئے جنہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ٹیگور ہندو تھا یا مسلمان؟ مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک دفعہ کیمبرج میں پروفیسر گیرڈ نے مجھ سے سوال کیا، ’’ٹیگور کی شاعری کا طرۂ امتیاز کیا ہے؟‘‘ مجھے اس پروفیسر کی سادہ لوحی پر ہنسی آئی۔ میں نے کہا، ’’ٹیگور کی نمایاں خصوصیت ’’ٹیگوریت‘‘ہے۔ جیسے اقبال کی شاعری کا نمایاں پہلو’ اقبالیت‘‘ میرا مطلب تھا ٹیگوریت کو ہم ٹیگور کے کلام سے اسی طرح علاحدہ نہیں کر سکتے جیسے اقبالیت کو اقبال کے کلام سے۔‘‘

    شاعر نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا، ’’کیا واقعی انگلستان کے پروفیسر اتنے بے خبر ہیں؟‘‘

    پروفیسر نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا، ’’بے خبر؟ انہیں تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہندوستان میں کوئی ادیب ہے بھی یا نہیں۔ مجھے ایک اور لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک دفعہ میں برنارڈشا سے بات چیت کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں شا نے مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا ڈرامہ نویس کون ہے۔ میں یہ سوال سن کر حیران رہ گیا اور جب میں نے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ خاکسار کے علاوہ آغا حشر نے بھی اردو میں دو ایک ڈرامے لکھے ہیں تو اس کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔ اسی ملاقات میں برنارڈشا نے تجویز پیش کی کہ میں اس کے چند ڈراموں کا ترجمہ اردو زبان میں کروں اور وہ میرے اردو ڈراموں کو انگریزی کا جامہ پہنائے۔ چنانچہ میں نے برنارڈشا کے مشہور ڈرامے سلور بکس کا ترجمہ اردو میں کیا۔ اسی سال ٹامس ہارڈی سے ملا ۔ میرا خیال ہے یہ 1935کا واقعہ ہے۔ ٹامس ہارڈی کو جب میں نے اپنے انگریزی ناول کا ایک باب پڑھ کر سنایا تو وہ انگشت بدنداں رہ گیا۔

    شاعر نے پروفیسر کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا، ’’کسی نے بجا کہا ہے ۔کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شومی۔ دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ خود میری ہی مثال لے لیجئے۔ پندرہ برس کی عمر میں جب میں عظیم آباد کے ایک مشاعرہ میں یہ شعر پڑھا تو ہال سبحان اللہ کے نعروں سے گونجاٹھا۔ ذرا شعر ملاحظہ فرمایئے؛

    شام ہوتی ہے ،بجھ سا جاتا ہے

    دل ہے گویا چراغ مسجد کا

    اور صاحب جب لکھنؤ کے مشاعرے میں میں نے یہ غزل پڑھی جس کا مطلع تھا؛

    پریشاں ہو کے میرا دل کہیں بادل نہ بن جائے

    غبار راہ آنکھوں کا کہیں کاجل نہ بن جائے

    تو امام الفن حضرت نواب محمد بختیار خاں خلیل جو اس مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے مجھے اٹھ کر گلے لگا لیا۔ اسی شعر کی تعریف سن کر نواب بھوپال نے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی مگر؛

    کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

    گو میرا وطن دہلی نہیں مراد آباد ہے مگر مرادآباد کی گلیاں چھوڑنا بھی تو کوئی آسان کام نہیں۔ نواب بھوپال کے بعد متعدد راجوں اور نوابوں نے مجھے بلاوے بھیجے لیکن میں نے نہ جانا تھانہ گیا۔ ایک والئے ریاست نے تصحیح کے لئے غزل بھیجی۔ پانسو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کا وعدہ کیا لیکن غیرت نے گوارا نہ کیا۔ پچھلے دنوں گورنمنٹ آف انڈیا نے پرا پیگنڈہ ڈپارٹمنٹ میں ایک ہزار ماہانہ کی ملازمت پیش کی۔ میرا ضمیر اس پیش کش کو منظور کرنے میں مانع ہوا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ تقریباً ہر تیسرے یا چوتھے دن مجھ سے سہرا لکھنے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ شمالی ہندوستان کا ہر رئیس سمجھتا ہے کہ مجھ سے بہتر سہرا کوئی شاعر لکھ ہی نہیں سکتا، میں کہتا ہو خوبصورت شعر کہنا بھی ایک مصیبت ہے۔‘‘

    طوائف نے اپنی زلفیں سنوارتے ہوئے چمک کر کہا، ’’خوبصورت شعر کہنا مصیبت سہی، مگر کیا خوبصورت ہونا کم مصیبت ہے؟ میری طرف دیکھئے۔ جہاں جاتی ہوں دل پھینک عشاق کا گروہ میرے پیچھے ہو لیتا ہے، جس شہر اترتی ہوں وہاں خودکشیوں کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کا شاید ہی کوئی راجہ یا نواب ہوگا جس نے مجھے پیغام محبت نہ بھیجا ہو۔ میں پوچھتی ہوں کہ ہندوستان کے راجوں اور نوابوں کو سوائے محبت کے پیغامات بھیجنے کے اور کچھ نہیں سوجھتا کہ جہاں کہیں خوبصورت عورت دیکھی اس کو پیغام بھیجنا شروع کر دیا۔ بیسیوں فلم ڈائرکٹر اس کوشش میں ہیں کہ میں ان کے تازہ شاہکار میں ہیروئن کا پارٹ ادا کروں، سینکڑو ں رئیس میری خاطر اپنی بیویوں کو طلاق دینے پر آمادہ ہیں۔ اور طالب علم؟ طالب علموں کی تو کچھ نہ پوچھئے۔ ہزاروں کالج چھوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھ پر جان چھڑکتے ہیں۔ میرا فوٹو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ پرسوں کا واقعہ ہے ایک بی اے کے طالب علم نے اس لئے زہر کھا لیا کہ میں نے اس کے خط کا جواب نہیں دیا تھا۔کیا کروں؟ میرے لئے تو جینا دو بھر ہو گیا۔ سچ کہتی ہوں، جان عذاب میں ہے۔‘‘

    رئیس زادے نے طوائف کے ذرا اور قریب سرکتے ہوئے کہا، ’’تم سب کی جان ضیق میں ہے، میں کہتا ہوں عیش تو فقط ہم ہی کرتے ہیں، گستاخی معاف، بہت سے لوگ تو اس پلے سے بھی بد تر زندگی بسر کرتے ہیں جس کی زنجیر میرے ہاتھ میں ہے (ایک بلند قہقہہ لگانے کے بعد) اسے معمولی نسل کا کتا نہ سمجھئے۔ یہ مہارانی گھیری کی خاص کتیا کا پلا ہے۔ ذرا بھونکتے ہوئے سنیئے۔ آواز سے رئیسانہ ٹھاٹ اور امیرانہ وقار ٹپکتا ہے۔ مرحوم مہا راجہ پٹیالہ نے اسے حاصل کرنے کے لئے دس ہزار پونڈ پیش کئے لیکن میں نے کہا، معاف کیجئے مہاراجہ صاحب ! میں بنیا نہیں نسبی رئیس ہوں۔ یہ پگڑی جو آپ میرے سر پر دیکھ رہے ہیں، میرے علاوہ ہندوستان میں صرف ایک شخص کے سر پر دیکھیں گے ،مہاراجہ جودھپور کے سر پر اور اس انگوٹھی کے نگینے کا جواب تو ہندوستان کا بڑے سے بڑا رئیس بھی پیش نہیں کرسکے گا۔ گولکنڈہ کا قیمتی سے قیمتی پتھر اس کے آگے ہیچ ہے۔ میری ہر بات میں امتیازی خصوصیت ہوتی ہے۔ مثلاً کپڑے لندن سے سلواتا ہوں، شراب پیرس کی بہترین کشیدگاہوں سے منگواتا ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک باغ لگوایا جس میں ہندوستان کے تمام مشہور پھلوں کے درخت اکٹھے کئے گئے۔ چنانچہ ہندوستان میں صرف میرا ہی ایک ایسا باغ ہے جس میں آپ سہارنپور کا آم، مدراس کا ناریل ، سرینگر کا سیب، کابل کا سردہ، چمن کا انگور اور ڈیرہ دون کی لیچی ایک ہی قطار میں دیکھیں گے ۔ کبھی شیخو پورہ تشریف لایئے گا آپ کو باغ کی۔۔۔

    رئیس زادہ ابھی بات ختم نہیں کر پایا تھا کہ گاڑی بھٹنڈہ اسٹیشن پر رکی۔ پروفیسر، شاعر، طوائف اور رئیس زادے سبھوں کو یہاں گاڑی بدلنی تھی۔

    اب ڈبے میں صرف گونگا فلاسفر رہ گیا تھا۔ جب اس کے ساتھی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہوچکے تو وہ سوچنے لگا، ڈاکٹر محمد حسین ٹامس ہارڈی کو 1935 میں ملے، حالانکہ ٹامس ہارڈی 1928 میں مر چکے تھے۔ پروفیسر صاحب نے شا کے ڈرامہ سلور بکس کا اردو میں ترجمہ کیا حالانکہ یہ ڈرامہ شا کے بجائے گالزہ رومی کی تصنیف ہے اور جناب شاعر نے اپنے اشعار میں میر اور اقبال کے شعروں کا منہ چڑانے کی کوشش کی۔ بچاری طوائف پاؤڈر اور سرخی کی لیپ پوت کے باوجود اپنی عمر چہرے کے داغ چھپانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور رئیس زادے کے ہاتھ میں معمولی ڈگ کتا تھا، اس کی انگوٹھی کا نگینہ بھی نقلی تھا۔

    گونگا فلاسفر سوچتے سوچتے اونگھنے لگا حتی کہ اسے نیند آ گئی۔

    مأخذ:

    برج بانو (Pg. 11-17)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے