aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مداح

MORE BYخالد جاوید

    اَرُوپ بابوـ یعنی اروپ رتن سرکارـ گیارہ سال کے بعد پوری آئے ہیں۔ شہر میں تھوڑی بہت تبدیلی نظر آرہی ہےـ جیسے کچھ نئے مکان، نئے سرے سے بنائی گئی کچھ سڑکیں، دو چار چھوٹے بڑے ہوٹل ـمگر جب وہ سمندر کے کنارے آئے تو انھیں لگا، یہ سمندر بدلنے والی چیز نہیں ہے۔ وہ ساگرِکا ہوٹل میں ٹھہرے ہیں؛ وہاں سے سمندر حالانکہ نظر نہیں آتا، لیکن رات میں جب لوگوں کا شورغل تھم جاتا ہے تو لہرو ں کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کو سن کر کل اروپ بابو باہر نکل آئے تھے۔ وہ کل ہی پوری آئے ہیں۔ دن کے وقت انھیں کچھ خرید فروخت کرنا تھی، اس لیے سمندر کے کنارے کی طرف نہیں گئے تھے ۔ رات میں جاکر دیکھا،اماوس کے اندھیرے میں بھی لہروں کے جھاگ صاف صاف نظر آتے ہیں۔ اروپ بابو کو یاد آیا، بچپن میں انھوں نے کہیں پڑھاتھا کہ سمندر کے پانی میں فاسفورس رہتا ہے اور اس لیے اندھیرے میں بھی لہریں دکھائی دیتی ہیں۔ اروپ بابو کو روشنی سے جگمگاتی پُر اسرار لہروں کو دیکھنا بہت ہی اچھا لگا۔ کلکتہ میں دیکھ کر کوئی انھیں حساس طبیعت کا نہیں کہہ سکتا تو نہ کہے، اروپ بابو جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں وہ کتنے حساس تھے۔ کام کے بوجھ تلے کہیں وہ جذبات گم نہ ہوجائیں اس لیے وہ اب بھی بیچ بیچ میں گنگا کے کنارے اور اِیڈن گارڈن میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پیڑوں، پانی اور پھولوں کو دیکھ کر انھیں خوشی ہوتی ہے۔ پرندوں کا گیت سن کر پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کوئل کی آواز ہے یا پپیہے کی۔ اندھیرے میں بہت دیر تک سمندر کی طرف لگاتار دیکھتے رہنے کے بعد انھیں لگا، سولہ سال کی نوکری کی زندگی کی اکتاہٹ یا اداسی بہت کچھ دور ہوگئی ہے۔

    آج تیسرے پہر بھی اروپ بابو سمندر کے کنارے آئے ہیں۔ کچھ دور تک پیدل چلنے کے بعد اب ان کی خواہش نہیں ہورہی ہے کہ چہل قدمی کریں۔ ایک گیروا دھاری، سادھو بابا یاگرو جیسا شخص تیز قدموں سے ریت کے اوپر چلا آرہا ہے۔ پیچھے پیچھے عورت مرد چیلوں چپانٹوں کا ایک غول اس کے قدموں سے قدم ملاکر ہانپتا ہوا چلا جارہا ہے ۔ اروپ بابو کو یہ منظر بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔ تبھی ان کی بائیں جانب سے ایک بچے کی آواز تیرتی ہوئی ان کے کانوں میں آتی ہے:

    ’’منّا کا سپنا کیا آپ نے ہی لکھی ہے؟‘‘

    اروپ بابو نے گردن گھماکر دیکھا۔ سات آٹھ سال کا ایک لڑکا ہے،سفید شرٹ اور نیلی پینٹ پہنے۔ ہاتھ کی کہنی تک ریت لگی ہے۔ گردن اٹھاکر حیرت سے وہ اروپ بابو کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اروپ بابو کے جواب کا انتظار نہ کر کے لڑکے نے کہا، ’’میں منّا کاسپنا پڑھ چکا ہوں۔ بابوجی نے سالگرہ پر دیاتھا مجھے...مجھے...‘‘

    ’’کہوکہو، اس میں شرمانے کی کیابات ہے؟‘‘ یہ ایک عورت کی آواز تھی۔

    لڑکے کی تھوڑی ہمت بڑھی اور اس نے کہا، ’’مجھے وہ کتاب بہت اچھی لگی تھی۔‘‘

    اروپ بابو نے اب عورت کی طرف دیکھا۔ تقریباً تیس سال عمر ہوگی، خوبصورت چہرہ۔ مسکراتی ہوئی ان کی طرف دیکھ رہی ہے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔

    اروپ بابو نے لڑکے سے کہا، ’’نہیں مُنّا، میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ تم شاید غلط فہمی کا شکار ہو۔‘‘

    عورت لڑکے کی ماں ہے، اس میں کوئی شک نہیں؛ دونوں کے چہروں میں صاف مشابہت نظر آتی ہےـ خاص طور پرٹھوڑی کے گڈھوں میں۔

    اروپ بابو کی بات سے عورت کی ہنسی کم نہیں ہوئی۔ وہ اور بھی آگے بڑھ آئی اور پہلے سے زیادہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھیر کر بولی، ’’سننے میں آیا ہے کہ آپ لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ میرے ایک دیور نے ایک جلسے میں آپ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کے لیے ایک خط لکھا تھا۔ آپ نے جواب دیاتھا کہ آپ یہ سب قطعی پسند نہیں کرتے ، مگر اس بار ہم آپ کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ آپ حالانکہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں، لیکن ہم بھی آپ کی تخلیقات پڑھا کرتے ہیں۔‘‘

    منا کا سپنا کتاب کا مصنف چاہے جو بھی ہو، مگر ماں اور بیٹا اس کے ایک جیسے مداح ہیں، یہ بات سمجھتے انھیں دیر نہ لگی۔ اس قسم کے بے ڈھب حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کاانھوں نے تصور تک نہیں کیا تھا۔ انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں، مگر بے رخی سے بتایا جائے تو انھیں تکلیف ہوگی، یہ سوچ کر اروپ بابو تذبذب میں پڑگئے۔ اصل میں اروپ بابوبہت ہی نرم دل انسان ہیں۔ ایک بار ان کے دھوبی گنگا چرن نے ایک نئے کھادی کے کرتے میں استری کا داغ لگا کر کرتے کا حلیہ بگاڑ دیاتھا۔ ان کی جگہ اور کوئی ہوتا تو اسے ضرور ہی دو چار تھپڑ جمادیتا، مگر اروپ بابونے دھوبی کو شرمندہ اور پریشان حال دیکھ کر نرم لہجے میں صرف اتنا ہی کہا تھا،’ ’استری ذرا ہوشیاری سے کیاکرو۔‘‘

    اپنی اس نرم دلی کی وجہ سے ہی انھوں نے کچھ اور نہ کہہ کر اتنا ہی کہا، ’’میں منّا کاسپنا کا مصنف ہوں، آپ اتنے یقین کے ساتھ یہ بات کیسے کہہ رہی ہیں؟‘‘

    خاتون نے حیرت میں آکر کہا، ’’واہ، اس دن ےُگانتر میں تصویر چھپی تھی۔ ریڈیو سے اعلان نشر کیا گیا کہ آپ کو بنگلہ زبان میں بچوں کے بہترین ادب کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ جی ہاں، میرے خیال میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کی بات تھی۔ہم ہی نہیں، اب بے شمار لوگ املیش مولِک کے چہرے سے واقف ہوگئے ہیں۔‘‘

    املیش مولِک ـاروپ بابو نام سے واقف ہیں، مگر چہرہ نہیں دیکھا ہے۔ دونوں کے چہرے میں کیا اتنی مشابہت ہے؟ اتناضرور ہے کہ آج کل کے اخبارات میں چھپے چہرے کا صاف صاف پتا نہیں چلتا ہے۔

    ’’آپ پوری آرہے ہیں، یہ بات چاروں طرف پھیل گئی ہے،‘‘ خاتون نے کہا۔ ’’ہم اس روز سی ویو ہوٹل گئے ہوے تھے۔ میرے شوہر کے ایک دوست کل تک وہیں ٹھہرے ہوے تھے۔ ان کو ہوٹل کے منیجر نے بتایاتھا کہ آپ جمعرات کو آرہے ہیں۔ آج ہی تو جمعرات ہے۔ آپ سی ویو میں ٹھہرے ہوے ہیں نا؟‘‘

    ’’ایں ؟او... نہیں۔ میں ، وہ... سناتھا کہ وہاں لذیذ کھانا نہیں ملتا ہے۔‘‘

    ’’آپ نے ٹھیک ہی سنا ہے۔ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ اتنے بہترین ہوٹل ہونے کے باوجود آپ وہاں کیوں ٹھہرنے جارہے ہیں۔ آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟‘‘

    ’میں...ساگرِکا میں۔‘‘

    ’’اوہ! وہ تو نیا ہوٹل ہے۔ کس طرح کا ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک ہی کہیے، کچھ دنوں تک ٹھہرنا ہے۔‘‘

    ’’کتنے دنوں تک ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’تقریباً پانچ روز۔‘‘

    ’’پھر کسی روز ہمارے یہاں تشریف لائیے گا۔ ہم پوری ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ آپ کو دیکھنے کے لیے کتنے ہی لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ بچوں کا تو کچھ کہنا ہی نہیں۔ یہ کیا، آپ کے پیر بھیگ گئے؟‘‘

    لہر جوآگے بڑھ آئی ہے، اروپ بابو کا اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ پیر ہی بھیگے ہیں، یہ کہنا غلط ہوگا؛ تیز ہوا ہونے کے باوجود اروپ بابو کاپورابدن پسینے سے بھیگنے لگا ہے۔ حقیقت بیان کرنے کاموقع کب اور کیسے ٹل گیا، یہ ان کی سمجھ میں آیا ہی نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ وہاں سے کھسک جائیں۔ مصیبت کہاں تک آگے بڑھ آئی ہے، تنہائی میں بیٹھ کر سوچنے پر ہی یہ بات سمجھ میں آئے گی۔

    ’’میں اب... چلتا ہوں...‘‘

    ’’ضرور ہی کچھ نئی چیز لکھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں، ابھی... کہنے کا مطلب ہے کہ آرام کروں گا۔‘‘

    ’’پھر ملیں گے۔ اپنے شوہر سے کہوں گی ۔ کل تیسرے پہر اِدھر آرہے ہیں نا؟‘‘

    سی ویو کے منیجر وِویک رائے نے ابھی اپنے گال کے اندر ایک پان ٹھونسا ہی تھا کہ اروپ بابو ان کے سامنے حاضر ہوگئے۔

    ’’یہاں املیش مولک آنے والے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’اب تک نہیں آئے ہیں؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔‘‘

    ’’کب...آئیں گے...یہ...؟‘‘

    ’’منگلوار۔ ٹیلیگرام آیا ہے۔ کیوں؟‘‘

    منگلوار... آج ہے جمعرات ...اروپ بابومنگل تک ہی ٹھہریں گے۔ٹیلیگرام آنے کا مطلب ہے کہ مولک بابو نے کسی وجہ سے آنے کی تاریخ آگے بڑھادی ہے۔

    منیجر سے پوچھنے پر اروپ بابو کو پتا چلاکہ ان کا اندازہ صحیح ہے۔ املیش مولک آج ہی آنے والے تھے۔

    وِویک بابو کے’’کیوں؟‘‘ کے جواب میں اروپ بابو نے انھیں بتایا کہ انھیں املیش بابو سے ایک ضروری کام ہے۔ وہ منگل کی دوپہر میں آکر پتا لگائیں گے۔

    اروپ بابو سی ویو ہوٹل سے سیدھے بازار کی طرف چلے گئے۔ ایک دکان سے املیش بابو کی لکھی چار کتابیں خریدیں۔ منّا کاسپنا وہاں نہیں ملا۔ خیر، کوئی حرج نہیں، چار ہی کافی ہیں۔ دو ناول ہیں، دو چھوٹی کہانیوں کے مجموعے۔

    ہوٹل پہنچتے پہنچتے ساڑھے چھ بج گئے۔ سامنے کے دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کمرہ ہے، اس کے بائیں طرف منیجر کے بیٹھنے کی جگہ ہے، داہنے ہاتھ دس پانچ فٹ جگہ میں ایک بنچ اور دو کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ کرسیوں پر دو آدمی بیٹھے ہوے ہیں۔ بنچ پر دو لڑکے اور ایک لڑکی، جن کی عمر دس بارہ کے بیچ ہوگی۔ اروپ بابو پر نگاہ پڑتے ہی دونوں آدمیوں نے مسکراتے ہوے ہاتھ جوڑ کر انھیں نمسکار کیا او راٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد بچو ں کی طرف گردن ہلائی۔ بچے شرماتے ہوے اروپ بابو کی طرف بڑھ آئے اور پیر چھوکر پرنام کیا۔ اروپ بابو منع کرنے جارہے تھے ، مگر کرنہیں سکے۔

    دونوں حضرات بھی آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’ہم پوری ہوٹل سے آرہے ہیں۔ میرا نام سہرد سین ہے اور آپ ہیں مسٹر گانگلی۔ مسز گھوش نے بتایا کہ آج آپ سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور آپ یہیں ٹھہرے ہیں۔ اس لیے سوچا کہ...‘‘

    شکر ہے کتابیں بانس کے کاغذ میں بندھی ہیں ورنہ اپنی ہی کتابیں خود خرید کر لارہے ہیں، یہ دیکھ کر وہ کیا سوچتے!

    اروپ بابو نے ان کی ہر بات پر گردن ہلاکر ہامی بھری۔ یہ نہیں کہ اب بھی معاملہ صاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسی کون سی بات ہے؟ اتناکہنا ہی کافی ہے: دیکھیے صاحب، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ میں نے خود املیش مولک کی تصویر نہیں دیکھی ہے ۔ مگر ہاں، یہ بات مان لیتا ہوں کہ ان کا چہرہ مجھ سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے۔ ہوسکتا ہے ، ان کی بھی مونچھیں پتلی ہیں، ان کے بال بھی گھنگھرالے ہیں، ان کی آنکھوں پر بھی میرا جیسا ہی چشمہ ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ پوری آنے والے ہیں۔لیکن صاحب، میں وہ آدمی نہیں ہوں۔ میں بال ساہتیہ کا مصنف نہیں ہوں۔ میں ادب کا آدمی ہوں ہی نہیں۔ کچھ لکھتا بھی نہیں ہوں۔ انشورنس آفس میں نوکری کرتا ہوں۔ تنہائی میں چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔ آپ لوگ مہربانی کر کے میری جان چھوڑ دیں۔ اصلی املیش مولک منگل کو ہوٹل سی ویو میں آرہے ہیں۔

    مگر اتناکہنے سے ہی کیا اس جھنجھٹ سے چھٹکارامل جائے گا؟ ایک بار جب ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہی املیش مولک ہیں، اور پہلی بار انکار کرنے پر بھی جب کوئی کام نہ بنا تو پھر کیا سی ویو کے منیجر کا ٹیلیگرام دکھایا جائے تبھی ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہوگی؟ یہ لوگ تو مان لیں گے کہ یہ بھی مولک جی کا ایک کرشمہ ہے۔ دراصل وہ فرضی نام سے ساگرِکا میں ٹھہرے ہوے ہیں اور آنے سے پہلے سی ویو میں اپنے نام سے ایک جھوٹاٹیلیگرام بھیج دیا ہے تاکہ انھیں لوگوں کے مجمعے سے نجات مل سکے۔مگر شاید سب سے بڑی رکاوٹ ان تین بچوں نے ڈال دی ہے۔ وہ تینوں حیرت و عقیدت بھری نگاہوں سے اروپ بابو کو گھور رہے ہیں۔ اصل بات کہتے ہی ان تینوں بچوں کی امید، خوشی اور جوش پر ایک ہی پل میں پانی پھر جائے گا۔

    ’’بابُن، تم جس چیز کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے، املیش بابو سے پوچھ لو،‘‘ دونوں لڑکوں میں جوبڑا ہے، اسے مخاطب کرتے ہوے سہرد سین نے کہا۔

    اروپ بابو گھبراہٹ محسوس کرنے لگے۔ اب بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بابن اپنی گردن ٹیڑھی کر، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسا کر سوال کرنے کے لیے تیارہے۔

    ’’اچھا، منا کی آنکھوں میں جس بوڑھے نے نیند لادی تھی، وہ کیا جادو جانتاتھا؟‘‘

    کشمکش کی اس گھڑی میں اروپ بابو کو اچانک پتاچلا کہ ان کا دماغ غضب کا کام کررہا ہے۔ سامنے جھک کر بابن کے کان کے پاس اپنا منھ لے جاکر بولے، ’’تمھیں کیا لگتا ہے؟‘‘

    تینوں بچے اروپ بابو کی اس بات پر بے حد خوش ہوے۔ جاتے وقت سہردبابو اروپ بابو کو دعوت دے گئے کہ انھیں آج رات پوری ہوٹل میں آکر کھاناکھانا ہے۔ وہاں آٹھ بنگالی خاندان آکر ٹھہرے ہوے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو املیش بابو کے بھگت ہیں ۔ اروپ بابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ اس بیچ انھوں نے مان لیا ہے کہ کچھ وقت کے لیے انھیں املیش مولک کی اداکاری کرنا ہے۔ اس کانتیجہ کیا ہوسکتا ہے، اس موضوع پر سوچنے کا ابھی وقت نہیں ہے۔ بس، ایک ہی بات انھوں نے سہرد بابو سے کہی۔

    ’’دیکھیے صاحب، میں شور غل پسند نہیں کرتا ہوں۔ لوگوں سے ملنے جلنے کابھی میں عادی نہیں ہوں، اس لیے آپ لوگوں سے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میں یہاں ٹھہرا ہوں، یہ بات مہربانی کر کے کہیں پھیلائیں نہیں۔‘‘

    سہرد بابو نے وعدہ کیا کہ کل کی دعوت کے بعد وہ لوگ پھر کبھی انھیں تنگ نہیں کریں گے اور وہ اس کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اور لوگ بھی انھیں پریشان نہ کریں۔

    رات میں کچھ دیر پہلے ہی کھانا کھاکر اروپ بابوبستر پر لیٹ گئے اور املیش مولک کی حابو کے کارنامیکتاب پڑھنے لگے۔ اس کے علاوہ اور جو تین کتابیں ہیں، وہ ہیں ٹٹل کا ایڈونچر، کشتی مات اور پھولوں کی ڈلیا۔ آخری دو کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ادبی آدمی نہ ہونے پر بھی اروپ بابونے نوکری پیشہ زندگی کے پہلے، خاص طور سے اسکول کی زندگی کے آخری تین سالوں کے درمیان، بچوں کی بہت سی دیسی بدیسی کہانیاں پڑھی ہیں۔ اتنے دنوں کے بعد، انتالیس سال کی عمر میں، نئے سرے سے بچو ں کی کہانیاں پڑھنے پر انھیں حیرت اس بات کی ہے کہ بچپن میں پڑھی ہوئی کتنی ہی کہانیاں انھیں اب بھی یاد ہیں اور ان کہانیوں سے املیش مولک کی کہانیاں بہت کچھ ملتی جلتی ہیں۔

    بڑے بڑے حروف میں چھپی سو سَوا سو اوراق کی چاروں کتابوں کو پڑھنے کے بعد، جب کمرے کی بتی بجھا کر لیٹ گئے تو اس وقت ساگرِ کا ہوٹل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سمندر کی آواز آرہی ہے؟ کتنی رات گزر چکی ہے؟ اروپ بابو نے تکیے کی بغل سے گھڑی اٹھالی۔ یہ گھڑی ان کے والد کی تھی۔ پرانے زمانے کا ریڈیم کا ڈائل ہے۔ سمندر کے پھین کی طرح ہی اندھیرے میں چمکتا ہے۔ پون بج چکا ہے۔

    ساہتیہ اکادمی سے بال ساہتیہ میں انعام حاصل کرنے والے مصنف املیش کی زبان سہل ہے، اسلوب منجھا ہوا۔ شروع کرنے پر بغیر انجام تک پڑھے رہانہیں جاتا۔ پھر بھی مولک جی کی تخلیقات میں نئے پن کا فقدان ہے۔ کتنے ہی طرح کے آدمی، کتنی ہی طرح کے واقعات اور کتنے ہی طرح کے تجربات کی بات ہم ہمیشہ سنتے رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی ذاتی زندگی میں بھی طرح طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اگر تھوڑے بہت تصورات شامل کرلیے جائیں تو کہانی بن جائے۔ پھر دوسروں کی تخلیقات سے موادلینے کی ضرورت کیوں پیش آئے؟

    اروپ بابو کے دل میں املیش مولک کے تئیں جو عزت تھی، اس میں تھوڑی بہت کمی آگئی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا دل بھی ہلکا ہوگیا۔ کل سے وہ اور بھی آزادی سے مولک جی کی اداکاری کر سکیں گے۔

    پوری ہوٹل کی پارٹی میں املیش مولک کے مداحوں کی عقیدت دگنی ہوگئی۔ اروپ بابو اس بیچ ایک دوسری دکان سے منا کاسپنا کتاب خرید کر پڑھ چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تیرہ ننھے منے بھگتوں کے تین سو تینتیس قسم کے سوالات کا جواب اپنے ڈھنگ سے دینے میں انھیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ پارٹی ختم ہونے کے پہلے سے ہی بچوں نے انھیں’شہد چٹا‘ بابو کہہ کر پکارنا شروع کردیا، کیونکہ اروپ بابو نے انھیں سکھایا کہ ’مو‘ کا مطلب ہے شہد اور’ لِک‘ انگریزی لفظ ہے، جس کے معنی ہے چاٹنا۔ یہ سن کر داس گپت بابو نے اپنی رائے ظاہر کی، ’’شہد کی برسات تو آپ کر رہے ہیں اور اسے یہ بچے چاٹ رہے ہیں!‘‘ اس پر ان کی بیوی سرنگنا دیوی نے کہا،’ ’وہی کیوں، ہم بھی چاٹ رہے ہیں!‘‘

    کھانا پینا ختم ہونے کے بعد دو باتیں ہوئیں۔ ایک توبچوں نے ضد کی کہ انھیں کم سے کم ایک کہانی سنائی جائے۔ اس پر اروپ بابو نے کہا کہ وہ زبانی کہانی سنانے میں ماہر نہیں ہیں مگر ہاں، انھوں نے اپنے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ بچپن میں اروپ بابو بانچھا رام اکرودت لین میں رہتے تھے۔جب وہ پانچ سال کے تھے تو ان کے گھر سے ایک دن ایک قیمتی کلائی گھڑی چوری ہوگئی ۔ چور پکڑنے کے لیے اروپ بابو کے والد گھر پر ایک سُوپ جھاڑنے والے کو لے آئے۔ اس سوپ جھاڑنے والے نے ایک قینچی کو چمٹے کی طرح استعمال میں لاکر اس کے سہارے ایک سوپ کو خلا میں ٹکا دیا اور مٹھیوں میں چاول بھرکر اس سوپ پر ڈالنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ منتر بھی پڑھنے لگا۔

    اس طرح اس نے گھر کے نئے نوکر نٹور کو چور کی شکل میں پکڑوا دیا ۔ اروپ بابو کے منجھلے چاچا نٹور کے بال پکڑ کر جب اسے مکا مارنے جارہے تھے تو عین اسی وقت دستی گھڑی ایک بستر کی چادر کے نیچے سے باہر نکل آئی۔

    تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے بیچ کہانی ختم کر کے جب وہ جانے کے لیے اٹھنے لگے تو چار پانچ بچے چلا اٹھے، ’’ٹھہریے، ٹھہریے، جائیے گا نہیں!‘‘ اس کے بعد وہ دوڑتے ہوے اپنے اپنے کمروں میں گئے اور وہاں سے املیش مولک کی لکھی ہوئی سات نئی کتابیں لے آئے اور ان کے سامنے رکھ کر بولے، ’’اپنا نام لکھ دیجیے۔‘‘

    اروپ بابو نے جواب دیا، ’’میں کتابوں پر اپنے دستخط نہیں کرتا ہوں۔ کبھی نہیں۔ میں انھیں لے جارہا ہوں، ہر کتاب پر ایک ایک تصویر بنا دوں گا۔ تم لوگ پرسوں تیسرے پہر ساڑھے چار بجے میرے ہوٹل میں آکر کتابیں واپس لے جانا۔‘‘

    جن کی کتابیں تھیں انھوں نے تالیاں بجائیںـ دستخط کے بجاے تصویر کہیں بہتر رہے گی۔

    اروپ بابو کو اسکول میں پڑھتے وقت دو بار اچھی ڈرائنگ کا انعام ملا تھا۔ اس کے بعد سے حالانکہ تصویریں بنائی نہیں ہیں مگر ایک دن اگر ذرا مشق کر لیں تو کیا کسی چیز کی تصویر نہیں بنائی جاسکتی؟

    دوسرے دن، ہفتے کی صبح، اروپ بابو اپنا ڈاٹ پین اورکتابیں لے کر باہر نکل گئے۔ مچھیروں کی بستی کی طرف جانے پر انھوں نے دیکھا، وہاں تصویریں بنانے کے لیے مناسب مواد ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں ہی وہ اپنے کام سے فارغ ہوگئے ۔ ایک کتاب میں انھوں نے کیکڑے کی تصویر بنائی، دوسری میں تین سیپیوں کو ریت پر آس پاس پڑے دکھایا، تیسری میں دو کوّوں کی تصویر بنائی، چوتھی میں مچھلی پکڑنے کی ناؤ، پانچویں میں مچھیرے کامکان، چھٹی میں مچھیرے کے بچے کی تصویر اور آخری کتاب کی تصویر میں چنگی دار ٹوپی پہنے ہوے مچھیرے کو مچھلی پکڑنے کا جال بنتے ہوے دکھایا۔

    اتوار کو تیسرے پہر ٹھیک ساڑھے چار بجے جھنی، پنٹو، چھکی، شانتنو، بابن، پرسین اور نونیتہ ہوٹل میںآئے اور اپنی اپنی کتابیں لے کر کلکاریاں مارتے ہوے واپس چلے گئے۔

    اس دن بستر پر لیٹنے کے بعد اروپ بابو کی سمجھ میں اچانک یہ بات آئی کہ ان کے دل میں مسرت کے جذبے کے ساتھ ایک قسم کی فکر بھی پیدا ہوگئی ہے۔

    ’’میں املیش مولک ہوں،‘‘ یہ بات حالانکہ انھوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنے منھ سے نہیں کہی ہے، پھر بھی ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ پچھلے تین دنو ں سے جو کام کرتے چلے آرہے ہیں، وہ دھوکے بازی کے سوا دوسرا کچھ نہیں ہے۔ پرسوں، منگل کی صبح، اصلی املیش مولک آنے والے ہیں۔ اروپ بابو کو ان تین چار دنوں کے درمیان ان بچوں اور ان کے ماں باپ ، موسی، بوا سے جو عزت و احترام ملا ہے، اس کے حقدار تو وہ ہیں جو منگل کے روز تشریف لارہے ہیں۔ وہ جب خود موجود ہوں گے اور سی ویو ہوٹل کے منیجر وویک رائے جب اس خبر کی فخر کے ساتھ تشہیر کریں گے، اس وقت کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا! اس بات کو سوچتے ہی اروپ بابو کے ہوش اڑگئے۔

    تو کیا ایک دن پہلے ہی چلے جانا ان کے لیے عقلمندی ہوگی؟ نہیں تو پھر منگل کی صبح سے رات تک وہ کیا کریں گے؟ اپنے آپ کو کیسے چھپائیں گے؟ اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہ لوگ انھیں کیسے چھوڑ دیں گے؟ مکار، دھوکے باز کہہ کر ان کی چمڑی نہیں ادھیڑ دیں گے؟مولک جی کو یہ بات معلوم ہوجائے گی تو وہ کیا بغیر پٹائی کیے چھوڑ دیں گے ؟ کوئی کوئی ادیب کیاسانڈ جیسا طاقتور نہیں ہوتا؟ اور پولیس؟ پولیس کابھی ڈر ہے۔

    اس قسم کی دھوکے بازی کرنے سے جیل کی سزا دی جاتی ہے یا نہیں، یہ بات اروپ بابو کو معلوم نہیں ہے۔ اگر دی جاتی ہو تو اروپ بابو کو کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بہت بڑاگناہ کربیٹھے ہیں۔ فکر کی وجہ سے نیند نہیں آئے گی، یہ سوچ کر اروپ بابو نے نیند کی ایک گولی کھالی۔

    آخر کار اروپ بابو نے منگل کی رات کی ٹرین سے جانا ہی طے کیا۔ دراصل املیش مولک کو ایک بار اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کی خواہش کو وہ کس طرح روک نہ سکے۔ پیر کی صبح اپنے ہوٹل میں ہی تلاش کرنے پر ےُگانتر کا وہ پرچہ انھیں مل گیا جس میں املیش مولک کی تصویر چھپی تھی۔ پتلی مونچھیں، گھنگھرالے بال، موٹے فریم کا چشمہـیہ ساری چیزیں ہیں، لیکن مشابہت کی مقدار کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے اصل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا، کیونکہ تصویر صاف نہیں چھپی ہے۔ جہاں تک سمجھ میں آرہا ہے، اس سے انھیں پہچاننے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اروپ بابو اسٹیشن جائیں گے، انھیں نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، بلکہ ان سے دو چار باتیں بھی کرلیں گے، جیسے ’’آپ مسٹر مولک ہیں نا؟ آپ کی تصویر اس دن رسالے میں دیکھی تھی۔ آپ کی کہانیاں میں نے پڑھی ہیں۔ بہت ہی اچھی لگتی ہیں،‘‘ وغیرہ۔ اس کے بعد اپنا سامان اسٹیشن پر رکھ کر اروپ بابوشہر چھوڑ کرنکل جائیں گے۔ کونارک اب تک دیکھ نہیں سکے ہیں۔ مندر دیکھ کر شام کو لوٹیں گے اور سیدھے اسٹیشن جاکر ٹرین میں بیٹھ جائیں گے۔ خود کو چھپانے کا اس سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ہے۔

    منگل کے دن پوری ایکسپریس بیس منٹ دیر سے پہنچی۔ مسافر نیچے اتر رہے ہیں۔ اروپ بابو ایک کھمبے کی آڑ میں کھڑے ہوکر فرسٹ کلاس کے ارد گرد کی دونوں بوگیوں کوبغور دیکھ رہے ہیں۔ ایک دروازے سے ہاف پینٹ پہنے دو بدیسی اترے، اس کے بعد ایک لحیم شحیم مارواڑی۔ دوسرے دروازے سے ایک بوڑھی عورت اتری، جس کا ہاتھ ایک سفید پینٹ پہنے نوجوان تھامے ہوے تھا۔ نوجوان کے بعد ایک بوڑھا، اس کے بعد... ہاں، کسی طرح کی کوئی غلطی نہیں ہورہی ہے، یہی املیش بابو ہیں۔ اروپ بابو سے چہرہ کافی ملتا جلتا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر برابر کھڑے ہو جائیں تو جڑواں بھائی سمجھ لیے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔مولک کی اونچائی اروپ بابو سے کم از کم دو انچ کم ہے اور جسم کا رنگ دگنا کالا ہے۔ عمر بھی شاید زیادہ ہے، کیونکہ بال بہت پک گئے ہیںـ اروپ بابو کے بال اتنے پکے نہیں ہیں۔

    سوٹ کیس ہاتھ میں سنبھال کر اترتے ہی انھوں نے قلی کو پکارا ۔ اروپ بابو بھی قلی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ گئے ۔

    ’’آپ ہی مسٹر مولک ہیں نا؟‘‘

    انھوں نے تھوڑا حیران ہوکر اروپ بابو کی طرف دیکھا اورذراساسرہلاکر کہا،’’ہاں۔‘‘

    قلی اپنے سر پر سوٹ کیس رکھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ املیش بابوکے ساتھ جوسامان ہے وہ ہے کندھے پرلٹکا ہوا ایک بیگ اور تھرماس۔ تینوں لوگ گیٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ اروپ بابو نے کہا، ’’ میں آپ کی کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ اخبار میں آپ کوایوارڈ ملنے کی بات پڑھ چکا ہوں اور تصویر بھی دیکھی ہے۔‘‘

    ’’اوہ!‘‘

    ’’آپ سی ویو میں ٹھہریں گے؟‘‘

    املیش مولک نے اور زیادہ حیران ہوکر اس بار اروپ بابو کو ذرا مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ اروپ بابو نے مولک جی کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوے کہا، ’’سی ویو کا منیجر آپ کا مداح ہے۔ اسی نے یہ خبر پھیلائی ہے۔‘‘

    ’’اوہ۔‘‘

    ’’آپ آرہے ہیں، یہ سن کر بہت سے بچے بے چین ہیں۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    یہ آدمی اتنا کم کیوں بولتا ہے؟ اس کی چہل قدمی کی رفتار بھی جیسے کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ آدمی کیاسوچ رہا ہے؟

    املیش مولک اس بار ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے اور اروپ بابو کی طرف مڑتے ہوے بولے، ’’کافی لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے؟‘‘

    ’’سنا تو یہی ہے۔ کیوں؟ اس سے کیا آپ کو کوئی پریشانی ہوگی؟‘‘

    ’’نہیں، مطلب ہے کہ میں ذرا اکیلے رہنا پپ...پپ...پپ...‘‘

    ’’پسند کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ہکلاتے ہیں۔ اروپ بابو کو یاد آیا،ایڈورڈ ہشتم نے جب اچانک تخت و تاج ٹھکرادیا تھا تو ان کا بھائی فکر مند ہوگیا تھا، کیونکہ وہ تتلاتا تھا۔ لیکن بادشاہ اسی کو بنناتھا، اور بادشاہ بننے کے بعد تقریر کرنا بھی ضروری تھا۔

    قلی سامان لے کر گیٹ کے سامنے کھڑا ہے، یہ دیکھ کر دونوں پھر سے چہل قدمی کرنے لگے۔

    ’’اسی کو کہتے ہیں شہرت کی ستم ظریفی۔‘‘

    اروپ بابو نے اس بات کا تصور کرنے کی کوشش کی کہ اس ہکلانے والے ادیب سے گفتگو کرنے کے بعد جھنی، پنٹو، چمکی، شانتنو، بابن اور نونیتہ کے چہروں کی کیا حالت ہوگی۔ تصور میں انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ انھیں ذرا بھی اچھا نہ لگا۔

    ’’ایک کام کریں گے؟‘‘ گیٹ کے باہر آکر اروپ بابو نے پوچھا۔

    ’’کیا؟‘‘

    ’’آپ کی چھٹی مداحوں کے چکر میں برباد ہو جائے، یہ سوچنے میں ذرا بھی اچھا نہیں لگتا ۔‘‘

    ’’مجھے بھی نہیں۔‘‘

    ’’میرا مشورہ ہے کہ آپ سی ویو مت جائیں۔‘‘

    ’’ت...تب؟‘‘

    ’’سی ویو میں کھانا بھی اچھا نہیں ملتا ہے ۔ میں ساگرِ کا میں ٹھہراتھا۔ اب میرا کمرہ خالی ہے۔ آپ وہیں تشریف لے جائیں۔’’

    ’’اوہ!‘‘

    ’’اور آپ اپنا نام استعمال نہ کریں۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ آپ اپنی مونچھیں صاف کرالیں۔‘‘

    ’’موں...مونچھ؟‘‘

    ’’ابھی فوراً ویٹنگ روم میں چلے جائیے۔ دس منٹ کی بات ہے۔ ایسا کرنے سے کوئی آپ کی چھٹی برباد نہیں کرسکے گا۔ بلکہ میں کل کلکتہ پہنچ کر آپ کے نام سے سی ویو میں تار بھیج دوں گا کہ آپ نہیںآرہے ہیں۔‘‘

    املیش مولک کی پیشانی سے فکر کی لکیروں کو مٹنے میں تقریباً بیس سیکنڈ لگے۔ اس کے بعد ان کے لبوں اور آنکھوں کے دونوں طرف نئی لکیریں ابھر آئیں۔ مولک جی ہنس رہے ہیں۔

    ’’آپ کاکیا کہہ کر ش...ش...ش...‘‘

    ’’کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ ان کتابوں پر اپنے دستخط کردیجیے۔ اس نیم کے درخت کے پیچھے چلے آئیے۔ کسی کی نظر نہیں پڑے گی۔‘‘

    پیڑ کی اوٹ میں جاکر املیش مولک اپنے مداح کی طرف دیکھتے ہوے ایک نرم ہنسی ہنسے اور انھوں نے جیب سے ایک لال پارکر قلم باہر نکالا۔ جس دن سے ایوارڈ ملا ہے، ڈھیر سارا کاغذ اور روشنائی خرید کر انھوں نے اپنا ایک بہت خوبصورت دستخط تیار کرلیا ہے۔ پانچوں کتابوں پر انھوں نے دستخط کردیے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی زبان حالانکہ ہکلاتی ہے، مگر قلم نہیں ہکلائے گا۔

    کہانی:ستیہ جیت رے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے