Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کتا

MORE BYایوان ترگنیف

    اگر مافوق العادت واقعات کے امکانات اور حقیقی زندگی میں ان کے تاثرات کو تسلیم کرلیا جائے تو کیا میں دریافت کرسکتا ہوں کہ شعور کس مرض کی دوا ہے سپیٹیپخ نے اپنے پیٹ پر دونوں بازوؤں کو جوڑتے ہوئے کہا۔

    سپیٹیپخ سول کونسلر کے عہدے پر فائز تھا اپنی زور دار گفتگو اور بھاری آواز کی وجہ سے وہ ہر شخص کی نظروں میں ایک قابل احترام ہستی تسلیم کی جاتی تھی۔

    ’’آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔‘‘ سکوروچ نے رائے زنی کرتے ہوئے کہا۔

    کینروخ نے تائید کی’’ اسے کوئی غلط ثابت نہیں کرسکتا۔‘‘

    ’’میں بھی اس سے متفق ہوں‘‘ مالک مکان کمرے کے کونے سے بآواز بلند پکارا۔

    ’’درست ہے!۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں آپ سے متفق نہیں ہوسکتا جب کہ میرے ساتھ اسی قسم کا ایک مافوق الفطرت واقعہ پیش آچکا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ایک متوسط قد اور درمیانہ عمر کے آدمی نے کہے جو ابھی تک انگیٹھی کے عقب میں خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ اس پر کمرے میں موجود لوگوں کی نگاہیں حیرت و استعجاب میں اس کی طرف اٹھیں۔۔۔ بعد ازاں خاموشی چھا گئی۔

    یہ شخص موضع کا لوگا کا ایک تنگ حال زمیندار تھا، جسے پیٹرز برگ آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا۔ گزشتہ ایام میں وہ کسی رسالے میں نوکر بھی رہ چکا تھا اور قمار بازی میں بہت سا روپیہ ہار دینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہوکر یہاں اقامت پذیر ہوگیا تھا۔۔۔ اقتصادی اصلاحات نے اس کی آمدنی بہت کم کردی تھی۔ اب وہ یہاں صرف اس غرض سے آیا تھا کہ اپنی رہائش کے لئے کوئی اچھی جگہ تلاش کرے۔ وہ نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور نہ اس کا حلقہ احباب وسیع تھا۔ مگر تاہم اسے اپنے ایک پرانے رفیق پر اعتبار ضرور تھا، جو ان دنوں کسی ناقابل بیان وجہ سے ایک بلند شخصیت کا مالک بن بیٹھا تھا۔

    اس کے علاوہ وہ قسمت کا بہت قائل تھا۔۔۔۔۔۔ چنانچہ قسمت ہی نے اس کا ساتھ دیا اور شہر میں آنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی وہ حکومت کے ذخیرہ خانے کا افسر مقرر ہوگیا۔۔۔۔۔۔ یہ منصب نفع بخش ہونے کے علاوہ باعزت بھی تھا جس میں کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہ تھی۔

    ذخیرہ خانوں کا وجود بذات خود ایک سوال تھا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کو بھی اچھی طرح معلوم نہ تھا کہ ان میں کون سا ذخیرہ بھرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ لیکن بایں ہمہ یہ حکومت کے مفاد کے لیے ایجاد کیے گئے تھے۔

    ’’ہاں!۔۔۔۔۔۔ تو کیا جناب آپ فی الواقع اس امر کے مدعی ہیں کہ آپ سے کوئی مافوق العادت واقعہ پیش آچکا ہے۔ یعنی اس قسم کا واقعہ، جو قوانین فطرت کیخلاف ہو۔‘‘

    ’’جی ہاں اسی نوعیت کا واقعہ‘‘ انطون سپیٹیپخ پہلا شخص تھا جس نے مہر سکوت کو توڑا۔

    اس شخص نے جسے’’ جناب‘‘ سے مخاطب کیا گیا تھا جواب دیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پروفری کیپی تونخ تھا۔

    ’’قوانین فطرت کے خلاف‘‘! سپیٹیپخ نے غصے میں ان الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا۔ بظاہر وہ اس جملے کو بہت پسند کرتا تھا۔

    ’’بالکل ایسا ہی جیسا آپ فرما رہے ہیں‘‘

    ’’یہ تو بہت تعجب خیز ہے۔حضرات! آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے انطون سپیٹیپخ نے اپنے چہرے سے انتہائی سنجیدگی ظاہر کرنے کی سعی کی مگر بے سود کی دراصل اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسے زمیندار کی بات سخت ناگوار گزر رہی ہے۔

    ’’کیا آپ اس واقعے کی تفصیل سنانے کی تکلیف گوارہ کرسکتے ہیں؟‘‘

    سپیٹیپخ پھر زمیندار سے مخاطب ہوا۔

    ’’ہاں، ہاں، ضرور۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے زمیندار آزادانہ اندر سے کمرے کے وسط میں ٹہلتا ہوا چلا گیا اور اپنی داستان سنانا شروع کی۔

    شاید آپ اس امر سے واقف ہیں کہ موضع کوزئسکی میں میری کچھ غیر منقولہ جائداد ہے۔ گزشتہ ایام میں یہ جائداد میرے لیے ایک معقول آمدنی کا ذریعہ تھی۔ گو اب تلخ حقیقت ہے کہ ان دنوں اس سے ایک پائی بھی وصول کرنا عبث خیال ہے۔۔۔۔۔۔ مگر میرے خیال میں ایسے سیاسیات اس وقت بالائے طاق ہی رکھنا چاہئیں۔۔۔۔۔۔ قصہ مختصر میں اس ضلع میں ایک قطعہ زمین کا مالک ہوں جو ایک باغ، تالاب، رہائشی مکان اور چند جھونپڑیوں پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کونہ مجھ گنہگار انسان کے سر چھپانے کی جگہ ہے۔۔۔۔۔۔ میں کنوارا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک روز، یہ چھے سال کا ذکر ہے، میں گھر کچھ دیر سے آیا۔ اس لیے کہ ایک ہمسایہ دوست کے ہاں تاش کھیلتا رہا تھا۔ میں نے کپڑے اتارے اور بستر پر دراز ہوتے ہی شمع کو گل کردیا۔ میں ابھی بستر پر اچھی طرح لیٹنے بھی نہ پایا تھا کہ مجھے چارپائی کے نیچے کوئی چیز ہلتی معلوم ہوئی۔ میں نے خیال کیا کہ کوئی چوہا ہوگا۔ مگر یہ خیال غلط تھا کیونکہ وہ چیز نہ صرف حرکت کررہی تھی بلکہ زمین اور اپنے جسم کو کھرچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ آخر کار اس نے اپنے کان پٹ پٹائے۔۔۔۔۔۔

    اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ہلنے والی چیز کتا ہے مگر حیرت تویہ ہے کہ وہ کتا آکہاں سے گیا؟ میں سخت متحیر تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے کوئی کتا پال بھی تو نہیں رکھا تھا۔’’ شاید کوئی آوارہ کتا اندر گھس آیا ہے۔‘‘ میں نے چارپائی پر پڑے پڑے دل میں خیال کیا پھر میں نے اپنے نوکر کو آواز دی۔ فلکا ہاتھ میں ایک شمع پکڑے اندر آیا۔

    ’’فلکا! میرے بچے، یہ کیا بات ہے۔‘‘ میں نے کہا’’ کیا تم اسی طریق پر گھر کی رکھوالی کیا کرتے ہو؟ ایک کتا میری چارپائی کے نیچے پہروں سے نیند حرام کررہا ہے۔‘‘

    ’’کتا!۔۔۔۔۔۔ جناب کتا؟‘‘ اس نے متعجب ہو کر کہا۔

    ’’ مجھے کچھ معلوم نہیں یہ تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے مالک کو ایسی پریشانیوں سے حتی الوسع محفوظ رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘

    فلکا نے چارپائی کے نیچے شمع کو اِدھر اُدھر پھیر کر دیکھا اور اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد کہا’’یہاں تو کوئی کتا وتا نہیں ہے۔‘‘

    میں نے بھی جھک کر چارپائی کے نیچے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ کتا واقعی وہاں سے غائب تھا’’تعجب ہے‘‘ میں نے دل میں خیال کیا۔ جب نے فلکا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا۔

    ’’دانت کیوں نکال رہا ہے جس وقت تونے اندر آنے کے لیے دروازہ کھولا ہوگا تو وہ جھٹ سے باہر بھاگ گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ تم سخت پاجی ہو۔۔۔ نالائق کہیں گے! تم گھر کی اچھی طرح نگہبانی کیوں نہیں کرتے ہو۔ یہ مت خیال کرو کہ میں اس وقت شراب پیے ہوئے ہوں یا مخبوط الحواس ہورہا ہوں۔ میں نے اسے کمرے سے، بغیر کسی قسم کا جواب سنے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرکے سو گیا۔۔۔۔۔۔ باقی شب آرام سے گزری۔

    لیکن اگلی رات پھر وہی گڑ بڑ ہوئی۔ جوں ہی میں نے شمع کو گل کیا اس نے زمین کے ساتھ اپنا جسم رگڑنا اور کانوں کو پٹ پٹانا شروع کردیا۔ میں نے فلکا کو بلایا۔ وہ آیا اور اس نے بستر کے نیچے اچھی طرح جھانک جھانک کر دیکھا، مگر وہاں ایک چیونٹی تک موجود نہ تھی۔ اس پر میں نے مایوس ہو کرفلکا کو واپس بھیج دیا اور شمع گل کرکے پھر لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔ ابھی چند لمحات ہی گزرنے پائے ہوں گے کہ کتا پھر آموجود ہوا۔۔۔۔۔۔’’وہ‘‘ فی الواقع کتا ہی تھا۔ اس لیے کہ اس کے سانس لینے کی آواز اور کانوں کی پٹ پٹاہٹ سے نمایاں طور پر یہی ظاہر ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ صاف طور پر سنائی دیتا تھا کہ وہ مکھیاں پکڑنے کی کوشش میں اپنے جبڑے ہلا رہا ہے۔

    میں نے پھر فلکا کو آواز دی وہ بھاگا ہوا آیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا۔’’اب بتاؤ! کیا تم کوئی آواز سن رہے ہو؟‘‘

    ’’جی ہاں‘‘ فلکا نے گھبرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ گو کمرہ بالکل اندھیرے میں تھا۔ مگر میں وثوق سے کہہ سکتا کہ وہ سخت خوف زدہ ہوگیا تھا۔

    ’’بتاؤ۔ اس کے کیا معنی ہو سکتے ہیں۔‘‘

    ’’جناب یہ صریحاً جادو ہے۔‘‘

    ’’بے وقوف، چھوڑو، ان جادو کے۔۔۔۔۔۔ خیالوں کو۔۔۔۔۔۔‘‘

    ہم دونوں نہایت سراسیمگی کی حالت میں ایک دوسرے سے ہم کلام ہورہے تھے۔ ڈر کے مارے ہمارے جسم تاریکی میں اس طرح کانپ رہے تھے گویا ہم سخت بخار میں مبتلا ہیں۔ میں نے شمع کو پھرروشن کیا۔۔۔۔۔۔ کمرے میں اور کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔۔۔۔صرف ہم دو انسانی تصویریں محو حیرت خوف کے مارے کاغذ کی مانند سپید ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

    میں نے صبح تک شمع کو روشن رکھا اور حضرات! میں آپ کے روبرو حقیقت بیان کررہا ہوں کہ متواتر چھے ہفتے تک یہی واقعہ ہر روز پیش آتا رہا۔۔۔۔۔۔ یہ جدا بات ہے کہ آپ اسے واقعہ تسلیم کریں یا نہ کریں۔۔۔۔۔۔ خیر کچھ عرصے کے بعد میں اس کا عادی ہوگیا اور ہر شب شمع گل کرکے سو جاتا۔’’ اگر وہ آتا ہے تو آنے دو۔ وہ مجھے کوئی دکھ تھوڑی پہنچاتا ہے۔‘‘ میں نے اس خیال سے اپنے دل کو قوی کرلیا۔

    ’’یہ تو واقعی ظاہر ہورہا ہے کہ آپ قوی دل ہیں۔‘‘ سپیٹیپخ نے بات کاٹتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

    ’’جری سپاہی چہرے ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘

    ’’کم از کم میں آپ سے خائف تو نہیں ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کیپی طونخ واقعی ایک لحظے کے لئے سپاہی کی مانند معلوم ہوا۔ پھر کچھ عرصے کے توقف کے بعد اس نے اپنی داستان کو شروع کردیا۔

    ’’لیکن آپ اس داستان کی بقایا تفصیل سنیے۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک ہمسایہ ملنے کے لیے آیا۔وہی دوست جس کے ساتھ میں اکثر تاش کھیلا کرتا تھا۔ ہم دونوں نے اکٹھے کھانا کھایا اور دیر تک تاش کھیلتے رہے۔ وہ پچاس روبل کے قریب ہار گیا۔ رات زیادہ گزر چکی تھی اور وقت تھا کہ وہ گھر واپس چلا جائے۔ مگر میرے دل میں ایک عجیب ہی خیال تھا۔ چنانچہ میں نے اسے اپنے یہاں رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا۔’’ آج شب یہیں ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ شاید تم اپنی رقم جیت سکو‘‘

    وسیلی وسلینح نے ایک لحظہ غور کیا اور رات میرے یہاں ٹھہرنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ میں نے اس کے لئے اپنے کمرے میں ہی سونے کے لیے بستر کا انتظام کردیا۔ ہم دونوں اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ کچھ عرصہ گپیں ہانکتے رہے اور صنف نازک کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔۔۔۔۔۔ گفتگو جو صرف غیر شادی شدہ مردوں ہی کے لئے مناسب ہوتی ہے۔ اس کے بعد وسیلی نے اپنے پاس رکھی ہوئی شمع کو بجھا دیا۔ وہ ابھی میری طرف پشت پھیر کر’’شب بخیر‘‘ کہنے والا ہی تھا اور میں ابھی متوقع حادثے کی نوعیت کے متعلق غور ہی کررہا تھا کہ وہی’’ پیارا حیوان‘‘ چارپائی کے نیچے خاموشی سے حرکت ہوا سنائی دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ آج وہ چارپائی کے نیچے سے نکل کر ادھر ادھر گھوما۔ اپنے پنجوں سے فرش کو کریدا کانوں کو زور زور سے حرکت دی اور ایک کرسی کو جو وسیلی کی چارپائی کے قریب پڑی ہوئی تھی دھکیلتا لے گیا۔

    وسیلی نے یہ شور سن کر ایسے ہی دریافت کیا’’ پروفری مجھے معلوم نہ تھا کہ تم نے ایک کتا بھی پال رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کس ذات سے ہے؟‘‘

    ’’میرے پاس تو کوئی کتا نہیں ہے اور نہ میں نے اپنی عمر میں کسی کو پالا ہے۔‘‘

    ’’تمہارے پاس نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے‘‘

    ’’یہ کیا ہے؟ شمع جلا کر دیکھ لو تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’تو کیا یہ کتا نہیں ہے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    یہ کہتے ہوئے وسیلی بستر پر الٹا لیٹ گیا’’مذاق کو چھوڑو ایک طرف یار!‘‘

    ’’میں مذاق نہیں کررہا۔‘‘

    اس کے بعد میں نے اسے بستر پر سے اٹھتے اور دیا سلائی کو روشن کرتے دیکھا۔ جب کہ وہ غیر مرئی کتا بدستور اپنی پسلیوں کو پنجوں سے کھرچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ تمام کمرہ روشن ہوگیا مگر یا مظہر العجائب، وہ بالکل غائب تھا۔

    اب وسیلی میری طرف تصویر حیرت بنا دیکھ رہا تھا اور میں اس کی طرف۔

    ’’یہ کیا معاملہ ہے‘‘ اس نے حیرت زدگی کی حالت میں کہا۔

    ’’ یہ وہ معاملہ ہے کہ اگر ایک طرف حکیم سقراط اور دوسری طرف فریڈرک اعظم اسے سلجھانے کی کوشش کریں تو ناکامیاب رہیں۔‘‘ یہ کہہ چکنے کے بعد میں نے اسے تمام داستان من و عن سنا دی۔۔۔۔۔۔ وہ حیرت سے بستر پر اُچھل اُچھل پڑا۔ جیسے اس پر کسی نے جادو کردیا ہو۔ اس پر ہی ختم نہیں بلکہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بوٹ پہننے کی کوشش کرنے لگا مگر کانپتے ہاتھوں سے وہ یہ نہ کرسکا۔ وہ سخت خوف زدہ ہوگیا تھا۔

    ’’گھوڑا منگواؤ۔۔۔۔۔۔ گھوڑا منگواؤ‘‘ وہ بار بار یہی کہہ رہا تھا۔ میں نے اسے ٹھہرانا چاہا مگر وہ نہ مانا۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور متواتر کہے جارہا تھا۔’’ میں اب یہاں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتا۔۔۔۔۔۔ اس مکان میں ضرور سایہ کا اثر ہے۔۔۔۔۔۔ ہو نہ ہو یہ جگہ کسی بھوت کا مسکن ہے۔‘‘

    میں نے اسے تسلی دی اور اس کی چارپائی وہاں سے اٹھوا کر دوسرے کمرے میں بچھوا دی۔ اس کے علاوہ تمام رات شمعوں کو روشن رکھا۔ صبح ناشتے کے وقت جب کہ اس کا دماغی توازن قائم ہو کر اس کی پریشانی ایک حد تک رفع ہو چکی تھی، اس نے مجھے نصیحت کرنا شروع کی’’ پروفری! دیکھو تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ نقل مکان کر جاؤ۔۔۔۔۔۔ شاید اس طرح یہ بلا خودبخود رفع ہو جائے۔‘‘

    کچھ دیر اور گفتگو کرنے کے بعد وہ مجھ سے رخصت ہوا، مگر رخصت ہونے سے پہلے وہ ایک سو روبل اور میرے پاس ہار گیا تھا، جس پر وہ دیر تک مجھ پر برستا رہا تھا کہ میں حساس نہیں ہوں اور ناشکرگزار ہوں۔ مگر حضرات وہ رقم جیت لینے میں میرا کیا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ خیر میں نے اس کی نصیحت پر عمل کیا اور اپنے مکان کو چھوڑ کر شہر کے باہر ایک سرائے میں قیام شروع کردیا، جس کا مالک ایک عمر رسیدہ آدمی تھا۔

    اس شخص کے کنبے کے تمام افراد و فات پا چکے تھے۔ اس لیے وہ قدرتی طور پر تنہائی میں رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ تمباکو سے سخت متنفر تھا اور کتوں سے تو اسے بہت ہی نفرت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی کتے کو خواہ وہ کسی مسافر ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو اپنی سرائے میں داخل نہ ہونے دیا کرتا تھا۔ وہ اکثر اوقات کہا کرتا تھا’’ہر رات آسمانی ملکہ میری سرائے کی دیوار پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے میں کسی کتے کو اپنی ناپاک ناک کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھنا نہیں چاہتا۔‘‘۔۔۔۔۔۔ یہ وہم بلاشک و شبہ کمی تعلیم کی وجہ سے تھا! تاہم میرے خیال میں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی تھوڑی بہت عقل، جتنی کا وہ مالک ہو، اسی پر قناعت کرے۔‘‘

    ’’ مجھے تو آپ ایک بڑے فلسفی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ انطون سپیٹیپخ نے دوبارہ باٹ کاٹتے ہوئے اسی طنز آمیز مسکراہٹ سے کہا۔

    اس بار پروفری کے چہرے پر واقعی خفگی کے آثار نمودار ہوگئے اور اس نے اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا۔’’ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فلسفہ میں کہاں تک دسترس رکھتا ہوں۔ بہر حال اتنا مجھے ضرور بھروسہ ہے کہ میں آپ کو فلسفہ کا سبق ضرور پڑھا سکتا ہوں۔‘‘

    حاضرین کمرہ کی نگاہیں انطون کی طرف اٹھیں۔ قیاس تھا کہ وہ اسے سخت ترین جواب دے گا۔یا کم از کم ایک دفعہ قہر آلود نگاہ سے ضرور دیکھے گا۔

    مگر سول کونسلر نے اپنے زہر خند کو خوشگوار مسکراہٹ میں تبدیل کرلیا اور یونہی ایک جمائی لے کر ٹانگ ہلا دی۔۔۔۔۔۔ گویا بات کو یوں ہی ٹال دیا۔

    ’’خیر میں نے اس سرائے میں رہنا شروع کردیا۔‘‘ پروفری نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا’’ مجھے رہائش کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ مل گیا، جو مالک سرائے کے کمرے سے ملحق تھا۔ دراصل میں چاہتا بھی یہی تھا کہ مجھے رہنے کے لیے وہی جگہ ملے۔ مگر وہ تکالیف جن کا مجھے شب بھر سامنا کرنا پڑا، خدا کی پناہ ہے! کمرہ کیا تھا اچھا خاصا تنور تھا۔ ہر چہار طرف مکھیاں ہی مکھیاں اور و ہ بھی کیسی جو جسم پر سے ہلنے کا نام نہ لیں۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ ایک کونے میں سے تیل کی سخت بو آرہی تھی۔ زنگ آلود آہنی چارپائی پر پروں سے بھرے ہوئے دوگدیلے تھے، جن کے ہلانے پر کوئی نہ کوئی پِسّو ضرور شکل دکھا دیتا تھا۔

    میں نے چائے کی ان گنت پیالیاں پی رکھی تھیں۔ طبیعت سخت مکدر ہورہی تھی اور اس پر کمرے کی فضا اس قدر ناخوشگوار تھی کہ معاذ اللہ قہر درویش برجان درویش۔ میں چارپائی پر لیٹ گیا مگر نیند ندارد۔۔۔۔۔۔ دوسرے کمرے میں میرا میزبان سونے سے پہلے دعا مانگتے ہوئے حلق صاف کررہا تھا اور کبھی آہیں بھرتا تھا۔ آخر کار وہ سو گیا۔۔۔۔۔۔ اس کے خراٹوں کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔

    میں نے شمع کو بستر پر دراز ہوتے ہی بجھا دیا تھا۔ مگر چھوٹے لیمپ کو روشن رکھا تھا۔ میں اٹھا اور اسے بھی گل کردیا۔ میرا خیال تھا کہ شاید میرا روزمرہ کا ملاقاتی کتا روشنی کی موجودگی میں نہ آئے گا۔ مگر جب لیمپ بجھانے پر’’وہ‘‘ نمودار نہ ہوا تو میں نے خیال کیا’’آخاہ!‘‘ میں سمجھا، وہ دوسروں کے گھروں میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ لیکن میں جوں ہی بستر پر لیٹنے لگا تو مجھے کوئی شے حرکت کرتی ہوئی سنا ئی دی۔ بلاشک و شبہ وہی غیر مرئی حیوان زمین کو اپنے پنجوں سے کرید رہا تھا اور اپنے کانوں کو زور زور سے ہلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہی روز والا واقعہ۔ بہت خوب! میں بستر پر اس خیال سے خاموش لیٹا رہا کہ دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ اسی اثناء میں میں نے اپنے بوڑھے میزبان کو جاگتے ہوئے سنا۔

    ’’جناب۔۔۔۔۔۔ اے جناب! یہ کیسا شور ہے‘‘ اس نے جاگتے ہی اپنے کمرے سے بلند آواز میں پوچھا اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے پھر چلانا شروع کردیا’’یہ کیا معاملہ ہے۔ہیں!کیا وہ کتا ہے؟۔۔۔۔۔۔کتا۔۔۔۔۔۔ آہ ناپاک حیوان!!‘‘

    ’’صاحب، آپ خواہ مخواہ وہاں سے چلا رہے ہیں۔ ذرا خاموشی اختیار کریں۔ یہاں پر ایسا واقعہ پیش آرہا ہے جو آپ کے سر کے بال کھڑے کردے گا۔‘‘

    سرائے کا مالک اپنی چارپائی کو چھوڑ کر میرے کمرے میں ایک شمع ہاتھ میں لیے آیا۔ اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔ سر پر ایک سپید سی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ سپید داڑھی چھاتی تک لٹک رہی تھی اور وہ ایک واسکٹ پہنے ہوئے تھا، جس پر تانبے کے بٹن ٹانکے ہوئے تھے۔ اس ہیئت کذائی میں وہ لیمپ کی جانب بڑھا اور تین مرتبہ انگلیوں سے چھاتی پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے، اسے روشن کیا۔ پھر صلیب کا نشان بنایا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بیٹھی ہوئی آواز میں کہا’’ اب بتاؤ کیا معاملہ ہے؟‘‘

    اس کے پوچھنے پر میں نے فوراً ہی تمام واقعہ من و عن بیان کردیا۔ اس نے میری داستان کو بڑی توجہ سے سنا مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہ بولا صرف سر کو ہلا دیا اور میرے بستر پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ ابھی تک اس کے لبوں پر مہر سکوت لگی ہوئی تھی۔ وہ ایک عرصے تک اپنی چھاتی اور سر کے پچھلے حصہ کو کھجلاتا رہا۔ مگر زبان بند رکھی۔ آخر میں نے ہی اس سکوت کو توڑا اور اس سے کہا’’ آپ ہی کچھ فرمائیں کیا یہ جادو ہے یا کوئی شیطانی حرکت؟‘‘

    ’’کیا عجیب خیال ہے!‘‘ بوڑھے نے میری طرف گھورتے ہوئے کہا’’ شیطانی حرکت؟ میاں ایسے واقعات صرف تم ایسے تمباکو نوش ہی سے اپنے گھر میں پیش آسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہ کر صرف تمہیں آسمانی ملائک کے نزول کا خیال کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔شیطانی حرکت!!؟‘‘

    ’’اگر یہ واقعہ بدارواح سے متعلق نہیں ہے تو پھر بتائیے یہ کیا ہے؟۔‘‘

    یہ سن کر بوڑھا سرائے دار خاموش ہوگیا اور اپنے سر کو کھجلانا شروع کردیا۔ آخر اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ بیلیوف نامی قصبے میں جاؤ، وہاں ایک ایسا شخص ہے جو اس معاملے میں تمہاری مدد کرسکتا ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ اگر وہ تمہاری معاونت کے لئے آمادہ ہوگیا تو سمجھ لینا کہ تم بہت خوش نصیب ہو اور اگر اس نے اس گتھی کو سلجھانے سے انکار کردیا تو یاد رکھو روئے زمین پر تمہیں کوئی شخص بھی ایسا نہیں مل سکتا جو تمہاری مدد کرسکے۔‘‘

    ’’مگر وہ شخص کہاں مل سکتا ہے؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔’’ میں تمہیں جانتا ہوں‘‘ بوڑھے سرائے دار نے جواب دیا۔’’ مگر سوال ہے کہ یہ جادو یا اسی قسم کی اور بلا کیوں کر ہوسکتی ہے؟ دراصل یہ ایک اشارہ ہے جسے میری اور تمہاری عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔۔۔ خیر اب تم مسیح کی امان میں سور ہو اور شمع کو روشن رہنے دو۔ ہم صبح اس کے متعلق مزید گفتگو کریں گے۔۔۔۔۔۔ صبح کے وقت عقل تیز ہوتی ہے۔‘‘

    دوسری صبح ہم نے گفتگو کی۔ وہ باتیں جو اس بوڑھے آدمی نے مجھ سے کیں یہ تھیں کہ بیلیوف پہنچنے پر میں سیدھا منڈی کا رخ کروں اور داہنے ہاتھ کی دوسری دکان سے پروہو رخ کا پتہ پوچھوں اور جب وہ شخص مل جائے تو اس کے ہاتھ میں کاغذ کا یہ پرزہ پکڑا دوں جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔’’مقدس باپ، مقدس بیٹے اور مقدس بھوت کے نام کی خاطر۔۔۔۔۔۔ آمین! بخدمت سر جی پر ہو رخ پرووشن۔۔۔۔۔۔ اس آدمی پر اعتماد کیجیے گا۔۔۔۔۔۔ از طرف فیڈولی ایوانخ‘‘ اور پھر ان سطور کے نیچے یہ لکھا تھا۔

    ’’خدا کے لئے ترکاری ضرور بھیج دو۔‘‘

    میں نے بوڑھے آدمی کا شکریہ ادا کیا اور مزید بحث کیے بغیر گاڑی میں سوار ہو کر وہاں سے چل دیا۔ گو مجھے خیال تھا کہ میرا غیر مرئی ملاقاتی مجھے کچھ تکلیف نہیں پہنچاتا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کی آمد بہت محیرا لعقول اور مافوق العادت طریق پر ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک انسان اور وہ بھی مجھ سے ایسا واقعہ پیش آنا کچھ درست نہیں تھا۔

    ’’۔۔۔۔۔۔ کیوں حضرات! آپ کا اس بارے میں کیال خیال ہے؟‘‘

    ’’تو کیا آپ واقعی بیلیوف تشریف لے گئے؟‘‘

    ’’جی ہاں سیدھا بیلیوف کی منڈی پہنچ کر میں نے پروہورخ کی بابت دریافت کیا۔’’ کیا کوئی اس نام کا شخص یہاں موجود ہے۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں، کیوں؟‘‘ ایک دکاندار نے مجھے جواب دیا۔

    ’’وہ کہاں رہتے ہیں؟‘‘

    ’’منڈی سے ملحہ باغات کے پر لے حصے میں۔‘‘

    چنانچہ میں اس بتائے ہوئے مقام پر گیا اور اس کے مکان کا پتہ لگا لیا۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک شخص کو نیلے رنگ کا کوٹ اور پھٹی ہوئی ٹوپی اوڑھے دیکھا۔۔۔۔۔۔ وہ بظاہر ایک مزدور معلوم ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ میری طرف پشت کیے ترکاریوں کو الٹ پلٹ کررہا تھا۔

    میں اس کے قریب گیا اور اس سے دریافت کیا’’ کیا آپ ہی پروہورخ ہیں؟‘‘

    اس نے میری طرف منہ موڑا۔۔۔۔۔۔ میں سچ عرض کررہا ہوں کہ آج تک میں نے ایسی کھب جانے والی آنکھیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا چہرہ سکڑ کر مٹھی کے برابر رہ گیا تھا۔ جس پر مخروطی داڑھی اگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی عمر کی کافی منزلیں طے کر چکا تھا۔

    ’’ہاں میں ہی پرہورخ ہوں۔ فرمائیے آپ کو کیا ضرورت پیش آئی؟‘‘ اس نے ترکاریوں کو اِدھر اُدھر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں آپ کے پاس اس غرض کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے سرائے دار کا دیا ہوا کاغذ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

    کاغذ پکڑ کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا’’آپ اندر تشریف لے آئیے میں چشمے کے بغیر نہیں پڑھ سکتا۔‘‘

    چنانچہ ہم دونوں جھونپڑی کے اندر چلے گئے۔۔۔۔۔۔ دراصل وہ مکان واقعی جھونپڑی نما تھا۔۔۔۔۔۔جھونپڑی جو پرانی ہونے کی وجہ سے ایک طرف کو جھک رہی تھی۔ اس نے ایک چھوٹی میز پر سے آہنی فریم کا چشمہ اٹھایا اور ناک پر چڑھا کر میرا دیا ہوا کاغذ پڑھا اور چشمے کے شیشوں میں سے میری طرف نگاہیں اٹھا کر کہا’’ آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے؟‘‘

    ’’ جی، ہاں‘‘ میں نے مودبانہ جواب دیا۔

    ’’اچھا تم اپنی کہانی سناؤ۔ ہم غور سے سنیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک رومال نکال کر اپنے زانوؤں پر پھلا دیا، جس میں جا بجا سوراخ ہورہے تھے۔ یہ کرتے ہوئے وہ میری طرف ایسے بارعب،پر وقار انداز میں دیکھ رہا تھا گویا وہ بہت ہی بڑا آدمی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے بیٹھنے کے لئے بالکل نہ کہا اور تو اور اس وقت میری طبیعت سخت پریشان ہورہی تھی۔ مجھ پر ایک سراسیمگی طاری تھی۔۔۔۔۔۔ دفعتاً مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میری روح ٹخنوں کے رستے باہر نکل رہی ہے۔ اس کی آنکھیں میرے جسم میں متواتر کھب رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی آنکھوں کی تاب ناقابل برداشت تھی۔ قصہ مختصر میں نے اپنی طبیعت پر قابو پا کر اپنی داستان من و عن بیان کردی۔

    وہ میری داستان کو خاموشی سے سنتا رہا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے اور اپنے ہونٹوں کو چبانے کے بعد وہ ایک بارعب لہجے میں بولا۔’’تمہارا کیا نام ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری عمر؟۔۔۔۔۔۔ تمہارے والدین کون تھے؟۔ کیا تم شادی شدہ ہو یا کنوارے؟‘‘ ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ پوچھ کر اس نے اپنے ہونٹوں کو پھر جبانا شروع کردیا۔ پھر اپنی انگلی کھڑی کی اور کہا’’ مقدس ہستیوں کا آداب بجا لاؤ۔۔۔۔۔۔ سجدہ کرو۔‘‘

    میں زمین پر جھک گیا اور وہیں گڑپڑا اور اٹھنے کی بالکل جلدی نہ کی۔ اس لیے کہ مجھے اس شخص سے اس قدر دہشت محسوس ہورہی تھی کہ میں اس کا ہر حکم بسر و چشم بجا لانے کو تیار تھا۔۔۔۔۔۔ حضرات! آپ مسکرا رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ میں اس وقت کسی اور ہی حالت میں تھا۔۔۔۔۔۔’’ جناب اٹھیے!‘‘۔ آخر اس نے مجھے سجدے سے اٹھنے کے لیے کہا۔’’ میں تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ غیر مرئی حیوان تمہاری فلاح کا کوشاں ہے۔ ایک اشارہ ہے۔۔۔سمجھ لو کہ کوئی مخلوق تمہاری بہبودی کے لے دست بہ دعا ہے۔ ابھی منڈی میں جاؤ اور ایک جواں سال کتا خرید کر ہر وقت اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔۔ اس غیر مرئی کتے کی آمد خودبخود بند ہو جائے گی اور تمہارا یہ کتا تمہارے لیے مفید ثابت ہوگا۔‘‘

    یہ الفاظ سن کر میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ دونوں جہاں کی نعمت مجھے مل گئی۔ میں آداب بجا لا کرپرہورخ سے رخصت ہونا چاہتا تھا کہ مجھے دفعتاً خیال آیا کہ اس شخص کی ضرور کوئی نہ کوئی خدمت کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی جیب سے تین روبل کا ایک نوٹ نکالا اور اسے پیش کرنا چاہا۔ مگر اس نے میرے ہاتھ کو جھٹک کر پرے کردیا اور کہا۔’’یہ رقم کسی گرجے میں دو یا محتاجوں میں بانٹ دو میری خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ہے۔‘‘

    چنانچہ میں نے دوبارہ جھک کر اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا منڈی کی طرف چل پڑا۔ اتفاق دیکھیے۔ جوں ہی میں وہاں پہنچا۔ مجھے ایک شخص رومال میں ایک ننھا سا کتا باندھے نظر پڑا، جو میری طرف چلا آرہا تھا۔

    ’’ٹھہرو‘‘ میں آدمی سے کہا۔’’ کیا تم اس کتے کو فروخت کرنا چاہتے ہو؟۔۔۔۔۔۔ کتنے میں فروخت کرو گے؟‘‘

    ’’دو روبل‘‘ اس نے اس سپید کتے کی قیمت بتاتے ہوئے کہا۔

    ’’لو تین۔۔۔۔۔۔‘‘ اس پر اس شخص نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور غالباً یہی خیال کیا میں اپنے حواس کھوئے بیٹھا ہوں۔ مگر میں نے جلدی سے نوٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیے اور کتے کو پکڑ کر اپنی بغل میں دبا لیا اور وہاں سے تیز چلتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور شام کو اپنے گھر واپس پہنچ گیا۔ کتا تمام راستے میرے کوٹ کے اندر چھپا رہا۔ میں بار بار اسے’’ننھے ٹریسر‘‘ کے نام سے پکارتا رہا تھا۔

    گھر پہنچتے ہی میں نے اس کے لئے تنکوں کا ایک بستر تیار کیا اور اسے دودھ پلانے کے بعد وہاں آرام سے لٹا دیا اور آپ شمع گل کرنے کے بعد بستر پر دراز ہوگیا۔۔۔۔۔۔ شمع بجھنے پر کمرے میں تاریکی چھا گئی۔

    ’’اب آؤ۔۔۔۔۔۔ اب شروع کرو۔ وہی گڑ بڑ۔۔۔۔۔۔اب آؤ نا۔ میرے معزز ملاقاتی!‘‘ میں نے پکارا۔ مگر کسی قسم کی آواز نہ آئی۔۔۔۔۔۔ کمرے میں مکمل سکوت طاری رہا۔ میں نے چڑا کر اپنے غیر مرئی ملاقاتی کو خدا معلوم کتنی گالیاں بھی دیں مگر وہ ظاہر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔ صرف میرا ننھا ٹریسر اپنے بستر پر خُر خُر کررہا تھا۔

    ’’فلکا۔۔۔۔۔۔ فلکا۔۔۔۔۔۔ ابے اندر آ بے وقوف۔۔۔۔۔۔ اندر آ۔‘‘ آخر میں نے اپنے نوکر کو آواز دی وہ بھاگا ہوا آیا۔ میں نے اس سے آتے ہی دریافت کیا۔’’ کیوں اب کسی کتے کے چلنے کی آواز آرہی ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔۔۔۔۔۔ جناب مجھے تو کوئی آواز نہیں آرہی‘‘ اور یہ کہہ کر وہ ہنس پڑا۔

    ’’ اور اب آیندہ تمہیں کوئی آواز نہ آئے گی۔۔۔۔۔۔ یہ لو نصف روبل شراب کے لیے۔۔۔۔۔۔ عیش کرو۔‘‘

    نصف روبل لے کر وہ بے وقوف میرے ہاتھ پر بوسہ دینے کے لیے جھکا۔ گویا میں کوئی ولی ہوں۔

    ۔۔۔۔۔۔ حضرات یقین جانیے، اس وقت مجھے اطمینان محسوس ہورہا تھا۔ یہ کیا کم خوشی تھی کہ وہ بلا دفع ہوگئی تھی۔

    ’’تو کیا اس داستان کا یہیں پر خاتمہ ہے‘‘۔انطون سپیٹیپخ نے اس دفعہ بغیر طنز کیے دریافت کیا۔

    ’’ یہ درست ہے کہ اس کتے کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا مگر حضرات ابھی داستان کا دلچسپ حصہ تو باقی ہے۔۔۔۔۔۔ اب میرا ٹریسر جوان ہو کر خوب صورت اور فرماں بردار شکاری کتا بن گیا تھا۔ لمبے کان جسم فربہ موٹی سی دم اور جسم پر گھنے بال تھے۔ وہ مجھ سے بہت مانوس ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ ہمارے قصبے میں شکار بہت کم ہاتھ لگتا ہے۔ بہر حال میں نے ایک بندوق خرید لی تاکہ وقتاً فوقتاً شکار ہوتا رہے۔ چنانچہ میں شکار کی تلاش میں اپنے ٹریسر کے ساتھ مضافات میں گھومتا رہتا۔ وہ بگلوں اور خرگوشوں کا تعاقب کرتا رہتا۔ مگر مجھ سے ہرگز جدا نہ ہوتا۔ جہاں کہیں میں جاتا وہ میرے ساتھ ہوتا۔ حتیٰ کہ غسل خانے میں بھی وہ میرے پاس ہی کھڑا رہا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے ایک روز مجھے اپنی ہمسایہ عورت سے جھگڑنا بھی پڑا جو اسے اپنے کمرے میں داخل کرنے سے منکر تھی۔۔۔۔۔۔خیر!

    ایک روز۔۔۔۔۔۔ یہ موسم گرما کا ذکر ہے۔۔۔۔۔۔ حضرات کیا بتاؤں۔ اس غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ فضا دھوئیں سے معمور تھی معلوم یہی ہوتا تھا کہ زمین جل رہی ہے۔ سورج پگھلے ہوئے سیسے کی مانند چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ گردوغبار کا حال تو کچھ پوچھیے ہی نہیں، ناک اور کان میں گرد ہی گرد جمی ہوئی تھی۔ تپش کا یہ حال تھاکہ لوگ کوؤں کی طرح منہ کھولے چل پھر رہے تھے۔ میں گھر بیٹھے بیٹھے اکتا گیا۔ خوش قسمتی سے اس وقت گرمی ذرا کم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں ایک عورت کو ملنے چلا گیا، جو میرے پڑوس ہی میں رہتی تھی۔۔۔۔۔۔یہ عورت ہمدرد ہونے کے علاوہ جواں سال خوبصورت و شکیل تھی۔ مگر اس کی طبیعت کچھ عجیب قسم کی واقع ہوئی تھی۔۔۔ خیر میں اس کے ہاں پہنچا۔ اس وقت میرا گرمی کے مارے برا حال ہورہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہاں پہنچتے ہی نمفو ڈرا کوئی مفرح چیز پینے کے لئے پیش کرے گی۔ میں ابھی دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے ہی والا تھا کہ میرے کانوں میں بہت سے لڑکوں کے دوڑنے، چیخنے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ایک بڑا بھورے رنگ کا حیوان میری طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ وہ وحشی کتا تھا۔ جس کے جبڑے کھلے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے خون برس رہا تھا اور جسم پر تمام بال کھڑے ہورے تھے۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اچھی طرح سانس بھی نہ لے سکا تھا کہ وہ وحشی حیوان اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر میری چھاتی پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ یہ ایک نازک ترین لمحہ تھا۔ خوف کے مارے میری زبان تالو سے چمٹ گئی تھی اور بازو ہلائے نہ ہلتے تھے۔ میرے ہوش و حواس گم ہورہے تھے۔ اگر مجھے کچھ نظر آرہا تھا تو وہ کتے کے سپید اور نوکیلے دانت تھے۔ جو میری ناک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسی اثنا میں مجھے ایک اور سیاہ رنگ کی چیز اپنی جانب لڑھکتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔۔۔ یہ میرا ٹریسر تھا جو آتے ہی اس وحشی کتے کے گلے کے ساتھ چمٹ گیا۔ اس پر وہ بہت چیخا چلایا اور اپنے دانستوں کو ٹریسر کے جسم میں پیوسٹ کرنے کی سعی کرتے ہوقت گر پڑا۔۔۔۔۔۔ میں نے گھبراہٹ میں دروازہ کھولا اور ہال کے اندر بھاگ گیا۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت کیا کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بند دروازے کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا کہ باہر ان دونوں کتوں کے درمیان ایک خوفناک جنگ ہورہی ہے۔ میں نے مدد کے لیے پکارنا شروع کردیا۔ یہ شور سن کر نمفوڈرا پریشان بالوں کے ساتھ باہر دوڑ گئی۔

    دفعتاً مجھے ایک غلغلہ سنائی دیا۔ میں نے دروازے کو تھوڑا سا کھولا اور جھانک کر دیکھا۔۔۔۔۔۔ وہ خوفناک حیوان غائب تھا۔ بازار میں بہت سے لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے جیسے وہ تمام کے تمام پاگل ہوں۔

    ’’ وہ گاؤں کی طرف بھاگ گیا ہے۔ گاؤں کی طرف‘‘ اتنے میں ایک کسان عورت نے سامنے والی کھڑکی سے اپنا سر نکالتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر میں بھی باہر نکل آیا۔

    باہر نکلتے ہی میں نے ٹریسر کی جستجو میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا بچانے والا نظر آگیا۔ وہ دور سے لڑکھڑاتا چلا آرہا تھا۔ بے چارے کا تمام جسم خون میں لتھڑا ہوا تھا اور جابجا زخم لگے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے پاس کھڑے لوگوں سے دریافت کیا کہ معاملہ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ وہ وحشی کتا دیوانہ ہے اور کاؤنٹ کی ملکیت ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کاؤنٹ ہمارا پڑوسی تھا جو قسم قسم کے خوفناک کتے پالا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی یہ باتیں سن کر میرا کلیجہ دہل گیا۔ ٹانگیں کانپنے لگ گئیں۔ میں بھاگا ہوا اندر گیا اور آئینے کی طرف بڑھا۔ اس خیال سے کہ شاید دیوانے کتے نے کہیں مجھے نہ کاٹ لیا ہو۔۔۔۔۔۔ دراصل مجھے وہم ہوگیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں بچ گیا تھا۔ میں ادھر آئینے میں اپنے زرد چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ ادھر نمفوڈرا صوفے پر لیٹی مرغی کی طرح خوف کے مارے سہمی ہوئی تھی۔

    چند منٹ کے توقف کے بعد جب اس نے ہوش سنبھالا تو مجھ سے فوراً ہی دریافت کیا۔’’کیا تم زندہ ہو نا!‘‘

    ’’ یہ ٹریسر تھا جس نے میری زندگی بچالی۔‘‘

    ’’بے چارہ ٹریسر کیسا وفادار جانور تھا۔۔۔۔۔۔ مرگیا ہوگا زخموں کی وجہ؟‘‘

    ’’نہیں، نہیں۔ وہ زندہ ہے۔ صرف زخمی ہوا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر اسے فوراً گولی سے ہلاک کردینا چاہیے۔۔۔۔۔۔ فوراً۔‘‘

    وہ کیوں؟۔۔۔۔۔۔ میں اس کا علاج کراؤں گا اور امید ہے وہ جلد تندرست ہو جائے گا۔‘‘

    اتنے میں ٹریسر نے باہر والے دروازے کے ساتھ اپنے پنجے رگڑنے شروع کردیئے میں دروازہ کھولنے کے لیے اٹھا کہ وہ چلائی’’ دیکھنا کہیں ایسا نہ کر بیٹھنا۔۔۔۔۔۔ یہ اب ہر ایک کو کاٹے گا۔‘‘

    ’’ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا زہر اتنی جلدی سرائت نہیں کرتا۔‘‘

    ’’تم غلط کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی سے دیوانہ ہوگیا ہے! معلوم ہوتا ہے تم نے عقل سے چھٹی لے رکھی ہے۔‘‘

    ’’ٹمفوڈرا۔۔۔۔۔۔ ذرا تحمل اختیار کرو۔۔۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔۔۔۔‘‘

    میں ابھی اور کچھ کہنا چاہتا تھا۔ مگر وہ دفعتاً گلا پھاڑ کر چلائی۔’’ ازراہ کرم اپنے کتے سمیت یہاں سے دور ہو جاؤ۔‘‘

    ’’میں چلا جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر‘‘

    ’’نہیں ابھی اسی لمے یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔۔۔۔۔ اور خبردار میری دہلیز پر پھر کبھی قدم نہ رکھنا۔۔۔۔۔۔ جاؤ تم اکیلے دیوانے بنو!‘‘

    ’’بہت اچھا۔۔۔۔۔۔ مگر گاڑی کا انتظام تو ہونا چاہیے۔ میں اس واقعے کے بعد پیدل جانے سے معذور ہوں۔‘‘

    ’’اسے گاڑی میں لے جاؤ‘‘ اس نے بلند آواز میں اپنے نوکروں کو حکم دینا شروع کیا۔’’ گھوڑا، گاڑی جو مانگتا ہے دے دو۔ مگر یہ یہاں سے کسی طرح چلا جائے۔۔۔۔۔۔ اف۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں!۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں کس قدر وحشت خیز ہیں۔‘‘یہ کہتی ہوئی وہ کمرہ سے باہر بھاگ گئی اور راستے میں اپنی خادمہ کے منہ پر ایک طمانچہ بھی رسید کرتی گئی۔۔۔۔۔۔ دراصل اس پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا تھا۔

    ’’۔۔۔۔۔۔ حضرات شاید آپ اس پر باور نہ کریں گے مگر یہ حقیقت کہ اسی روز میں نے نمفوڈرا سے اپنے دوستانہ تعلقاٰت منقطع کرلیے۔ میں پھر کبھی اس کے پاس نہ گیا۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے میں اپنے محافظ کتے ٹریسر کا تادم مرگ ممنون احسان رہوں گا۔‘‘

    ’’ خیر۔۔۔۔۔۔ میرے لیے گاڑی لائی گئی اور میں اور ٹریسر اس میں سوار ہو کر اپنے گھر چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی میں نے اس کے زخموں کو صاف کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ صبح ہوتے ہی اسے اس حکیم کے پاس لے جاؤں جو موضع ایفرموسکی میں سکونت پذیر تھا۔ یہ حکیم دراصل ایک بوڑھا کسان تھا جو کچھ پڑھ کر پانی پر پھونک دیا کرتا تھا۔ اکثر لوگوں کا ایمان تھا کہ وہ پانی تریاق کا حکم رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اس سفر کے متعلق کچھ سوچ رہا تھا کہ بالکل اندھیرا ہوگیا، چونکہ وہ سونے کا وقت تھا۔ اس لیے میں اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ٹریسر میرے قریب زمین پر تنکوں کے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔

    شاید یہ صبح کی خونی لڑائی، تھکاوٹ، مکھیوں کے تنگ کرنے یا میرے خیالات کی وجہ تھی کہ میری آنکھوں کی نیند بالکل غائب ہوگئی، ہزار کوشش کی کہ ذرا کی ذرا دیر آنکھ لگ جائے، مگر بے سود۔۔۔۔۔۔ میں وہ حالت بیان نہیں کرسکتا۔ جو اس وقت مجھ پر گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے کئی گھونٹ پانی کے پیے۔ کھڑکیاں کھول دیں اور ایک عرصے تک ستار پر کچھ بجاتا رہا۔۔۔۔۔۔ مگر جی نیند کہاں، وہ تو کوسوں دور تھی۔ یہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ کمرے کے باہر سونا چاہئے۔ چنانچہ میں تکیہ اور چادر وغیرہ لے کر باہر کی طرف چلا یا اور گھاس پر بستر جما کر لیٹ گیا۔

    مجھے باغ میں کس قدر راحت نصیب ہوئی۔۔۔۔۔۔ الفاظ نہیں کہ میں اسے بیان کرسکوں۔۔۔۔۔۔ رات پرسکون تھی، کبھی کبھی ہوا کا ایک جھونکا عورت کے ہاتھ کی طرح رخساروں سے چھو جاتا۔ فضا نہایت خوشگوار تھی گھاس سے عمدہ چائے ایسی خوشبو آرہی تھی۔ سیب کے درختوں میں جھینگر اپنا راگ الاپ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک کوئل کی کوک سنائی دی۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتاتھا کہ وہ بھی بہت خوش ہے۔ آسمان شاندار نظر آرہا تھا۔ ستارے پوری تاب میں چمک رہے تھے۔ کبھی کبھی بادل کا ایک ٹکڑا روئی کی طرح سپید تیرتا ہوا ان کے پاس سے گزر جاتا۔۔۔۔۔۔

    خیر میں بہت دیر تک اسی طرح وہاں پر لیٹا رہا۔ مگر نیند پھر بھی نہ آئی چنانچہ میں گزشتہ واقعات پر غور کرنے لگ گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ یہ امر کس قدر حیرت افزا ہے کہ پرہورخ نے مجھے صحیح صحیح قبل از وقت بتا دیا کہ اس غیر مرئی کتے کی آمد ایک اشارہ تھا کہ میں خطرے میں ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے اس بات پر اور بھی حیرت تھی کہ یہ واقعہ صرف میری ذات ہی سے کیوں متعلق تھا؟۔۔۔۔۔۔ میں بہت عرصے تک اس پر غور کرتا رہا۔ اس دوران میں ٹریسر زخموں کی تکلیف سے برابر کراہ رہا تھا۔

    میری نیند میں غالباً ایک اور چیز بھی حارج ہورہی تھی جسے آپ ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔ وہ چاند تھا۔ وہ بالکل میری آنکھوں کے سامنے چمک رہا تھا۔ چوڑا چکلا، زرد اور گول سا فانوس۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر سے نظر ہی نہیں ہٹاتا میں جھلا اٹھا اور ز بان نکال کر اس کا منہ چڑانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ یہ واقعہ ہے کہ میں نے ایسی طفلانہ حرکت کی تھی۔ چنانچہ میں نے ہار کر کروٹ بدل لی مگر اب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ میرے کانوں میں رینگ رہا ہے اب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ مجھ پر غالب آگیا ہے۔ چنانچہ میں آنکھیں کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گھاس کا ہر پتا ننھی سے ننھی شاخ حتیٰ کہ مکڑی کا کمزور جالا بھی میری نظروں کے سامنے نمایاں طور پر ظاہر ہیں گویا وہ بالکل میرے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ معلوم ہوتا تھا کہ میرے گردونواح کی چیزیں مجھے دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں مجبور تھا۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ آپ یقین نہیں کریں گے مگر میری آنکھیں ہرن کی طرح باہر نکل رہی تھیں۔ وہ اس قدر کھلی ہوئی تھیں جیسے وہ نیند کے نام سے بالکل ناآشنا ہوں۔۔۔۔۔۔ باغ کا پھاٹک کھلا تھا اور میں چار میل تک چاندنی کی وجہ سے بخوبی نظر دوڑا سکتا تھا۔ میں بغیر آنکھیں جھپکے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔دفعتاً مجھے بہت دور ایک چیز حرکت کرتی ہوئی نظر آئی۔ جیسے کوئی سایہ تھرتھرا رہا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ سایہ متحرک ہوا۔ اس دفعہ یہ پہلے کی نسبت کچھ نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نزدیک تر آتا گیا۔

    ’’ کیا یہ سایہ ہو سکتا ہے؟۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں دریافت کیا۔

    پہلے پہل مجھے خیال ہوا کہ کوئی خرگوش ہوگا۔ مگر یہ ممکن نہ ہوسکتا تھا۔ جب کہ وہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ میں نے دوبارہ نظر دوڑائی۔ اب کی دفعہ یہ سایہ ایک بڑا سیاہ دھبہ معلوم ہوا۔ جو میری طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ وہ کوئی درندہ تھا۔ لومڑی یا بھیڑیا یہ خیال کرتے ہی میرا دل بیٹھ گیا۔ گو یہ حیرت کی بات ہے کہ مجھے اس قدر خوف کیوں محسوس ہوا۔ جب کہ کھیتوں میں عموماً ایسے حیوان گھومتے رہتے ہیں۔ مجھے خوف ضرور تھا۔ مگر حیرت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس سیاہ سائے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کردیا۔

    میرے تمام جسم میں ایک سرد سی لہر دوڑ رہی تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ رگوں میں خون منجمد ہورہا ہے۔ جیسے کسی نے مجھے برف میں غرق کردیا ہو۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ایسا کیوں محسوس ہورہا تھا؟۔۔۔۔۔۔ یہ صرف خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ اتنے میں وہ سایہ بڑھتا ہوا ساتھ والے کھیت تک آگیا ۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی کوئی وحشی حیوان تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ہوائی بگولے۔۔۔۔۔۔ ایک گولی کی طرح بھاگا۔۔۔۔۔۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ وہ کون تھا؟ دفعتاً وہ ٹھٹھکا جیسے اس نے کسی شکار کو سونگھا ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔ وہ تو وہی دیوانہ کتا تھا!۔۔۔وہی۔۔۔وہی۔۔۔۔۔۔ میرے خدا! میں بالکل حرکست نہ کرسکا۔ منہ سے ہلکی سی چیخ بھی نہ نکال سکا۔۔۔۔۔۔ وہ کتا چمکتی ہوئی آنکھوں سے باغ کے دروازے کی طرف بھاگا اور عف عف کرتا ہوا سیدھا میری طرف آلپکا!

    دفعتاً اپنے گھاس کے بستر سے ٹریسر شیر کی طرح دوڑتا ہوا آیا اور اس دیوانے کتے سے جھپٹ پڑا۔ دونوں لڑتے لڑتے آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ پھر کیا ہوا یہ مجھے قطعاً یاد نہیں۔ مجھے صرف اتنا یاد پڑتا ہے کہ میں گرتا پڑتا وہاں سے بھاگ کر اپنے بستر میں گھس گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میرے حواس درست ہوئے تو میں نے تمام گھر والوں کو جگا دیا اور انہیں مسلح ہونے کا حکم دیا۔ میں نے خود بھی ایک پستول ہاتھ میں پکڑ لی اور سب باہر نکلے۔ ایک اچھا خاصہ گروہ تھا جو ہاتھوں میں لاٹھیاں، پستول اور لالٹینیں پکڑے ہوئے تھا۔ ہم نے باغ میں پہنچ کر ٹریسر کو آواز دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ آخر ہم ساتھ والے کھیت میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بے چارہ ٹریسر مردہ پڑا ہے۔ اس کا گلا بہت بری طرح کٹا ہوا تھا۔ دوسرا کتا غائب تھا۔

    یہ دیکھ کر حضرات! میں بچے کی طرح روتا رہا اور یہ بتاتے ہوئے مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میں اپنی جان بچانے والے کتے پر جھکا اور اس کے سر اور جسم کو دیر تک چومتا رہا۔ میں ابھی اسی طرح اس پر جھکا ہوا تھا کہ میری بوڑھی خادمہ نے تسلی دی۔’’ آخر آپ نکمے کتے کی خاطر اپنی جان کیوں ہلاک کررہے ہیں؟‘‘

    گو میں اپنی بوڑھی خادمہ سے متفق نہیں تھا مگر میں گھر چلا گیا۔ دوسرے روز ایک سپاہی نے اس دیوانے کتے کو گولی سے ہلاک کردیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس کتے کی قسمت میں لکھا تھا۔ جب کہ اس سپاہی کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے گولی چلائی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسے اپنی ملازمت میں ایک تمغہ ملا تھا۔۔۔۔۔۔ حضرات یہ ہے وہ مافوق الفطرت واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا۔

    ۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر کیپی تونخ نے اپنی داستان ختم کردی اور پائپ میں تمباکو بھرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ ہم نے حیرت میں ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔

    ’’شاید اس واقعے کی یہ وجہ ہو کہ آپ نے نیک زندگی بسر کی ہے تبھی تو‘‘ مسٹر فیلو پینطوف نے کچھ کہنا چاہا مگر الفاط زبان پر آکر رہ گئے اس لیے کہ کیپی تونخ کے چہرے پر ایک بلند قہقے کے آثار نظر آرہے تھے۔

    ’’لیکن اگر مافوق الفطرت واقعات کیا امکانات اور حقیقی زندگی میں ان کے تاثرات کو تسلیم کرلیا جائے‘‘۔ انطون سپیٹیپخ نے پھر پہلی بات دہراتے ہوئے کہا’’ تو بتائیے شعور کس مرض کی دوا ہے؟‘‘ ہم اس پر کوئی جواب نہ دے سکے۔

    *****

    کہانی:تور گنیف

    مأخذ:

    منٹو کے غیر مدون تراجم (Pg. Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے