Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریچھ

MORE BYآنتون چخوف

    افرادِ تمثیل

    لے لینا ایوانوفنا پوپوف: (ایک بیوہ اور صاحبِ جائداد)

    گریگری سٹی پنیخ سمرنوف: (متوسط عمر کا زمیندار)

    لیوکا: (مادام پوپوف کا بوڑھا نوکر)

    منظر

    مادام پوپوف کا کمرہ

    مادام پوپوف (ماتمی لباس پہنے ایک تصویر پر نظریں جمائے) اور لیوکا(خادم)

    لیوکا:مادام یہ درست نہیں۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے ہاتھوں اپنی جان لے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ باورچن اور ماما دونوں جنگل میں بیر چننے کے لیے گئی ہیں۔ ہر ذی روح زندگی سے لطف اٹھا رہا ہے حتی کہ معمولی سی بلی بھی جانتی ہے کہ کس طرح خوش وخرم رہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت پرندے پکڑنے میں مشغول ہے اور آپ تمام دن بند کمرے میں قید رہتی ہیں جیسے کوئی راہبہ ہو۔۔۔۔۔۔ آپ کے لیے کسی چیز میں بھی لطف نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں! مگر ذرا خیال تو کیجیے۔ ایک سال سے کیا کم عرصہ ہوا ہوگا، جب سے آپ نے دہلیز کے باہر قدم تک نہیں رکھا!۔

    مادام پوپوف: اور میں ہرگز گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔۔۔۔۔۔ آخر کیوں نکلوں؟ میری زندگی ختم ہو چکی ہے۔ وہ قبر میں مدفون ہے! اور میں نے اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں مر چکے ہیں۔

    لیوکا: لو پھر وہی قصہ! میں اسے سننا پسند نہیں کرتا۔ نکولی رحلت کر چکا ہے اور یہ اٹل بات تھی۔۔۔۔۔۔ خدا کی مرضی میں کسی کو کیا دخل۔۔۔۔۔۔ خدا مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دےٖ!۔۔۔۔۔۔ آپ نے ماتم کیا اور بس یہی کافی ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔یہ ماتمی لباس اور رونا دھوناتا عمر قائم نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بوڑھی عورت کو مٹی دے چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں نے غم کیا اور ایک ماہ کے قریب اس کی جدائی میں روتا رہا۔۔۔۔۔۔ اس قدر ماتم اس کے لیے کافی تھا اور اگر میں تمام عمر گریہ وزاری میں گزارتا تو وہ بوڑھی عورت اتنے ماتم کے قابل نہ تھی۔( آہ بھرتا ہے) آپ نے اپنے پڑوسیوں کوبھول گئی ہیں۔ ملاقاتیوں سے ملنا ترک کردیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو بجا ہے کہ ہم چمگادڑوں کے مانند ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم دن کی روشنی کو نہیں دیکھتے۔۔۔ چوہوں نے میرے کپڑوں کو کتر ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔ اس طرح تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے گردونواح میں کوئی اچھا ملنے والا شخص ہے ہی نہیں حالانکہ تمام قصبہ شرفاء سے بھرا ہے۔۔۔۔۔۔ ہمارے پڑوس ہی میں ایک رجمنٹ ہے۔ دکھیا آنکھوں کے لئے ایک روح پرور نظارہ! خیمے میں ہر جمعے کے روز رقص ہوتا ہے اور باجہ توہر روز ہی بجتا ہے۔۔۔۔۔۔آہ ! میری عزیز مادام ! آپ جوان ہیں اورخوبصورت بھی۔۔۔۔۔۔ گلاب کے پھول کی طرح حسین۔۔۔۔۔۔ آپ کو صرف زندہ رہنا اور زندگی سے لطف اٹھانا ہی سزاوار ہے۔۔۔۔۔۔ حسن تا دیر قائم نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ دس سال کے بعد شاید آپ طاؤس کے مانند خوش ہونا چاہیں مگر یہ وقت نصیب نہ ہوگا۔۔۔

    مادام پوپوف:میں تم سے درخواست کرتی ہوں کہ آئندہ مجھ سے ایسی گفتگو نہ کیا کرو! تمہیں معلوم ہے کہ نکولی کی وفات کے بعد زندگی کی قدر و قیمت میری نگاہوں میں باقی نہیں رہی۔ تمہیں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ میں زندہ ہوں مگر یہ صرف فریبِ نظر ہے! میں قسم کھا چکی ہوں کہ یہ سیاہ لباس میرے تن سے ہرگز جدا نہ ہوگا اور نہ میری نظریں بیرونی دنیا کا مطالعہ کریں گی۔۔۔۔۔۔ کیا سنتے ہو؟ خدا کرے کہ اس کی روح میری محبت کا مشاہدہ کررہی ہو!۔۔۔۔۔۔ ہاں! اور میں جانتی ہوں کہ یہ بات تم سے پوشیدہ نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اکثر میرے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا۔۔۔۔۔۔ ظالم اور۔۔۔۔۔۔ حتی کہ بے وفا تھا! مگر میں آخری لمحے تک وفا کے دامن کو نہ چھوڑوں گی اور اسے بتا دوں گی کہ میں اپنی محبت میں کہاں تک ثابت قدم ہوں۔۔۔۔۔۔ قبر کی تاریک چار دیواری میں بھی وہ اس حقیقت سے غافل نہیں رہے گا کہ میں ہمیشہ وہی رہی جو اس کی موت سے قبل تھی۔

    لیوکا: اس قسم کی گفتگو کرنے سے یہی بہتر ہے کہ آپ باغ میں چہل قدمی کے لیے چلی جائیں۔ یا ٹوبی اور جائنٹ کو گاڑی میں جوت کراپنے پڑسیوں سے مل آئیں۔۔۔۔۔۔

    مادام پوپوف:(رونے لگ جاتی ہے)

    لیوکا: میری عزیز مادام کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔

    مادام پوپوف: وہ ٹوبی کا بہت مشتاق تھا! جب کبھی وہ باہر جاتا تو اسی گھوڑے کی سواری کیا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔آہ! وہ کیسا خوب صورت سوار تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی انگلیوں میں کسی غضب کی رعنائی تھی۔

    جب وہ گھوڑے کی لگام کو اپنی پورے زور کے ساتھ کھینچا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں یاد ہوے۔ ٹوبی! ٹوبی!۔۔۔۔۔۔ گاڑی بان سے کہہ دینا کہ آج اسے ایک سیر دانہ زیادہ دیا جائے۔

    لیوکا: بہت خوب مادام( زور سے گھنٹی بجتی ہے)

    مادام پوپوف:(چونک پڑتی ہے) دیکھو کون ہے؟ کہہ دینا میں کسی سے ملاقات نہیں کیا کرتی۔

    لیوکا: بہت اچھا مادام( باہر چلا جاتا ہے)

    مادام پوپوف:(تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے) نکولس! تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں کس طرح محبت میں معاف کرسکتی ہوں۔۔۔۔۔۔( میری محبت صرف اسی صورت میں مر سکتی ہے کہ جب میرا دل پہلو میں حرکت کرنا بند کردے( روتے ہوئے ہنس دیتی ہے) اور کیا تم شرمندہ نہیں ہو؟ میں ایک نیک لڑکی ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک با وفا بیوی۔ میں نے اپنے آپ کو قید کرلیا ہے اور تمہاری محبت میں تادم آخر ثابت قدم رہوں گی اور تم۔۔۔۔۔۔ کیا شرمندہ نہیں ہو۔ تم گلگلے؟ تم نے مجھے دھوکا دیا۔

    بیسیوں مرتبہ مجھ سے لڑے جھگڑے۔مجھے چھوڑ کر ہفتوں باہر رہے۔

    (لیوکا گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے)

    لیوکا: مادام آپ سے کوئی صاحب ملنے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

    مادام پوپوف: مگر کیا تم نے اس سے کہا نہیں کہ میں نے اپنے خاوند کی وفات کے بعد ہر ملاقاتی سے ملنا ترک کردیا ہے؟

    لیوکا: میں نے ان سے کہا۔ مگر وہ سنتے ہی نہیں کہتے ہیں کہ گفتگو اشد ضروری ہے۔

    مادام پوپوف: میں کسی سے نہیں۔۔۔۔۔۔ مل۔۔۔۔۔۔سکتی!

    لیوکا: میں نے یہی الفاظ اس سے کہے تھے مگر۔۔۔۔۔۔ وہ تو ایک مکمل شیطان معلوم ہوتا ہے۔ گالیاں بکتا ہوا وہ کمرے میں گھس آیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور اب کمرۂ طعام میں موجود ہے۔

    مادام پوپوف:( تنگ آکر) اچھا! اسے کمرے میں بھیج دو۔ کس قدر غیر مہذبانہ فعل ہے!

    (لیوکا چلا جاتا ہے)

    مادام پوپوف: یہ لوگ کس قدر تنگ کرنے والے ہیں! آخر انہیں مجھ سے مطلب؟ وہ میرے آرام میں کیوں مخل ہوتے ہیں( آہ بھرتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اب مجھے واقعی کسی خانقاہ میں دن گزارنے پڑیں گے۔۔۔۔۔۔(سوچتی ہے) ہاں!۔۔۔۔۔۔ خانقاہ میں۔۔۔۔۔۔

    (لیوکا سمرنوف سمیت داخل ہوتا ہے)

    سمرنوف:( داخل ہوتے وقت لیوکا سے) اوندھی کھوپڑی تو بہت باتونی معلوم ہوتا ہے کہ! گدھا کہیں کا!( مادام پوپوف کو دیکھ کر وقار سے) مادام! میں آپ سے متعارف ہونے کا فخر حاصل کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ گریگری سٹی پینخ سمرنوف زمیندار اور سابق فوجی لیفٹیننٹ۔۔۔۔۔۔ میں ایک نہایت ضروری معاملے کے سلسلے میں آپ کو تکلیف دینے پر مجبور ہوں۔

    مادام پوپوف:( ہاتھ پیش نہ کرتے ہوئے) میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں۔

    سمرنوف: آپ کے مرحوم شوہر میرے ملنے والے تھے۔ اس کی طرف دو بلوں کے سلسلے میں میرے بارہ ہزار روبل نکلتے ہیں۔ چونکہ مجھے کل ساہو کارہ بنک میں سود کی ایک رقم داخل کرانا ہے اس لیے میں آپ کو یہ تکلیف دینے پر مجبور ہوں کہ وہ روپیہ مجھے آج عنایت کردیا جائے۔

    مادام پوپوف: بارہ ہزار!۔۔۔۔۔۔ میرے خاوند نے آپ سے یہ روپیہ کس غرض کے لیے قرض لیا تھا؟۔

    سمرنوف: گھوڑوں کا دانہ خریداتھا۔

    مادام پوپوف: (آہ بھرتے ہوئے لیوکا سے) لیوکا! بھولنا مت! آج ٹوبی کو ایک سیر زائد دانہ ملے( لیوکا چلا جاتا ہے۔ سمرنوف سے) اگر نکولی کے ذمے آپ کے کچھ روپے ہیں تو میں یقیناً وہ ادا کردوں گی۔۔۔۔۔۔ مگر آج مجھے معاف فرمائیے میرے پاس فی الحال اتنی رقم موجود نہیں۔ خانساماں پرسوں تک شہر سے واپس آجائے گا۔ میں اس سے کہہ دوں گی کہ آپ کا روپیہ ادا کردے۔ مگر اس وقت سے پہلے میں آپ کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ آج میرے خاوند کو وفات پائے پورے سات ماہ ہوئے ہیں اور میں اس وقت اس حالت میں نہیں ہوں کہ روپے کے معاملے میں کسی قسم کی گفتگو کرسکوں۔

    سمرنوف: اور میں اس حالت میں ہوں کہ اگر کل روپیہ ادا نہ ہوسکا تو مجھے اپنے دماغ میں پستول کی گولی اتارنا پڑے گی۔۔۔۔۔۔ وہ میری ساری جائداد فروخت کردیں گے۔

    مادام پوپوف: پرسوں آپ کو روپیہ مل جائے گا۔

    سمرنوف: میں روپیہ پرسوں نہیں بلکہ آج چاہتا ہوں۔

    مادام پوپوف: اگر میرے پاس روپیہ موجود نہ ہو تو میں کیا کرسکتی ہوں؟

    سمرنوف: اس کے معنی ہوئے کہ آپ ادا نہیں کرسکتیں؟

    مادام پوپوف: نہیں!

    سمرنوف: ہوں! کیا آپ کا آخری جواب یہی ہے؟

    مادام پوپوف: جی ہاں!

    سمر نوف:آخری؟۔۔۔۔۔۔ بالکل آخری؟

    مادام پوپوف: بالکل آخری!

    سمرنوف: بہت بہت شکریہ۔ مجھے یہ بات یاد رہے گی۔(شانوں کو جنبش دیتا ہے) اور پھر مجھ سے یہ توقع ہے کہ میں خاموش رہوں! ابھی ابھی محکمہ آبکاری کے افسر نے مجھ سے دریافت کیا تھا’’ گریگری تم ہر وقت خشم آلود کیوں رہتے ہو؟‘‘ اپنی جان کی قسم! یہ غصہ کیونکر ضبط ہو سکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے روپوں کی اشد ضرورت ہے۔ میں اسی جستجو میں پرسوں دن چڑھنے سے پہلے گھر سے روانہ ہوتا ہوں اور ہر قرض دار کے گھر پر دستک دیتا ہوں۔ مگر کچھ وصول نہیں ہوتا۔ اب ذلیل کتے کی مانند تھک کر چور ہوگیا ہوں۔ یوں خدا معلوم رات کہاں بسر کی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک یہودی کے شراب خانے میں وودکا۱کے پیپے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ آخر یہاں پہنچتا ہوں۔ یعنی گھر سے پورے پچاس میل دور۔ یہ امید لیے کہ مجھے روپیہ مل جائے گا۔ مگر یہاں دماغی توازن درست نہ ہونے کا عذر پیش کیا جاتا ہے!۔۔۔۔۔۔ آخر میں اپنی طبیعت پر کسی طرح قابو پاسکتا ہوں؟

    مادام پوپوف: مجھے یاد ہے کہ میں آپ سے ایک مرتبہ صاف طور پر کہہ چکی ہوں کہ خانساماں کی واپسی پر آپ کو روپیہ ادا کردیا جائے گا۔

    سمرنوف: میں آپ سے گفتگو کرنے آیا ہوں نہ کہ خانساماں سے!۔۔۔۔۔۔ مجھے اس شیطان۔۔۔۔۔۔ بے ادبی معاف۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ کے خانساماں سے کیا غرض؟

    ۱۔ روسی شراب

    مادام پوپوف: معاف فرمائیے جناب میں اس قسم کے الفاظ اور لب و لہجے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے گفتگو کرنا نہیں چاہتی( جلدی سے باہر چلی جاتی ہے)

    سمرنوف: اپنی جان کی قسم! دماغی توازن! اس کے خاوند کو مرے سات مہینے ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر آیا مجھے سود ادا کرنا ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارا خاوند مر چکا ہے۔ تم غم کی حالت میں ہو، اور اسی طرح کی دیگر فضولیات میں گرفتار ہو۔ تمہارا خانساماں کہیں گیا ہوا ہے۔ جہنم میں جائے!۔۔۔۔۔۔ مگر میں کیا کروں؟۔۔۔۔۔۔ کسی غبارے پر سوار ہو کر قرض خواہوں سے بھاگ جاؤں؟ یا دیوار سے سر پھوڑ کر مرجاؤں؟ میں گرز ڈوف کے ہاں گیا۔۔۔۔۔۔ گھر پر نہیں ہے۔ یا روشی وخ چھپا ہوا تھا۔ کرٹیسن کے ساتھ جھگڑا ہوا اور مار پیٹ تک نوبت پہنچ گئی۔ مازوٹوف بیمار تھا اور اس کی طبیعت ناساز ہے! ان تمام کم بختوں میں سے کسی نے بھی ایک پھوٹی کوڑی تک ادا نہیں کی صرف اس لیے کہ میں ان سے نرمی کے ساتھ پیش آتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ میں بے وقوف ہوں، کیا گزرا بوڑھا! میں نے ان کے ساتھ بہت مہذبانہ اور نرم سلوک کیا ہے۔ مگر ٹھہرو تو سہی میں تمہیں بتا دوں گا۔ کیا کرسکتا ہوں۔ تم اب مجھے بے وقوف نہیں بنا سکو گے! میں یہاں اس وقت تک چمٹا رہوں گا جب تک کہ یہ مجھے روپیہ ادا نہ کردے۔۔۔۔۔۔ اف! آج یہ میری طبیعت کس قدر جوش کھا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ غصے کی انتہا یہ ہے کہ سانس مشکل سے چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اف! لعنت! میں تو ابھی سے اپنے آپ کو بیمار محسوس کررہا ہوں۔(چلاتا ہے) ارے کوئی ہے؟

    (لیوکا آتا ہے)

    لیوکا: کیا ہے؟

    سمرنوف: تھوڑا سا پانی یا شراب لاؤ۔

    (لیوکا چلا جاتا ہے)

    سمرنوف: یہ بھی خوب منطق ہے! ایک شخص کو روپے کی سخت ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک موجود نہیں اور یہ صرف اس لیے ادا نہیں کرسکتی کہ اس وقت اس حالت میں نہیں ہے کہ روپے کے معاملے میں گفت و شنید کرسکے!۔۔۔۔۔۔ عورتوں کی منطق کی نمایاں مثال! یہی وجہ ہے کہ میں عورتوں سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا اور نہ میں نے آج تک پسند کیا ہے۔

    میں تو کسی آتش گیر مادے کے پیسے پر بیٹھنے کو عورت کے ساتھ گفتگو کرنے پر ترجیح دوں گا!اف! میں سر تا پا غصہ بن رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس حوا کی بیٹی نے مجھے کس قدر خشم انگیز کردیا ہے! بس جب کبھی اس قسم کی شاعرانہ ہستی دور سے بھی دیکھ پاتا ہوں تو میری ٹانگیں غصے کی وجہ سے کانپنا شروع کردیتی ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ پکار اٹھوں’’مدد‘‘، ’’مدد‘‘!

    (لیوکا داخل ہوتا ہے اور اسے پانی کا گلاس دیتا ہے)

    لیوکا: مادام کی طبیعت ناساز ہے اور انہوں نے ملاقاتیوں سے ملنا بند کر رکھا ہے۔

    سمرنوف: بھاگ جاؤ!

    (لیوکا چلا جاتا ہے)

    سمرنوف: طبیعت ناساز ہے اور ملاقاتیوں سے ملنا جلنا بند کررکھا ہے! بہت خوب نہ ملو۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گا۔ جب تک تم مجھے روپیہ ادا نہ کرو گی۔۔۔۔۔۔ اگر تمہاری طبیعت ایک ہفتے تک درست ہوگئی تو ایک ہفتہ ہی میں یہاں قیام کروں گا۔ اگر تم ایک سال بیمار رہو گی تو ایک سال تک ہی میں یہاں ٹھہرا رہوں گا۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا روپیہ واپس ملنا چاہیے۔ میری اچھی خاتون! تمہارے گالوں کے ننھے گڑھے اور یہ ماتمی لباس مجھے متاثر نہیں کرسکتے! ہم سب ان گڑھوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں!( کھڑکی کے پاس جا کر چلاتا ہے)سیمیون! گھوڑوں کو باہر لے جاؤ۔ ہم آج نہیں جارہے ہیں۔اصطبل والوں سے کہہ دینا کہ ان کو دانہ کھلا دیا جائے۔ ارے! تم نے بائیں ہاتھ کے گھوڑے کی پھر باگ میں ٹانگ پھنس جانے دی ہے۔۔۔ وحشی کہیں کے!(بڑبڑاتے ہوئے)خیر! اب درست ہے( کھڑکی کے پاس سے چلا آتا ہے) فضا کس قدر خراب ہے! گرمی ناقابل برداشت ہے اور کوئی شخص کوڑک تک ادا نہیں کرتا۔ کل رات سخت بے چینی میں کاٹی ہے اور اب یہ ماتمی عورت خرابی طبیعت کا بہانہ کررہی ہے!۔۔۔۔۔۔ سرمیں شدت کا درد ہے۔۔۔۔۔۔ کیا وودکا ملے گا؟۔۔۔۔۔۔ شاید مل جائے(بآواز بلند پکارتا ہے) کوئی ہے؟

    (لیوکا داخل ہوتا ہے)

    لیوکا: کیا ہے؟

    سمرنوف: وودکا کا ایک گلاس لاؤ(لیوکا باہر چلاتا جاتا ہے)اُف!(بیٹھ کر اپنے کپڑوں کا امتحان کرتا ہے) عجیب ہیئت بنی ہے! سر سے پیر تک غبار سے اٹا ہوں۔ کیچڑ سے بھرا ہوا بوٹ۔ بالوں میں کنگھی نہیں منہ کل سے نہیں دھویا۔واسکٹ پر تنکے پڑے ہیں! اس خاتون نے شاید یہی خیال کیا ہوگا کہ کوئی راہزن ہے( جمائی لیتا ہے)۔۔۔۔۔۔ اس حالت میں ملاقاتی کمرے میں داخل ہونا تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں کیا حرج ہے، میں ملاقاتی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک قرض خواہ کے لیے ہر لباس مناسب ہے۔

    (لیوکا داخل ہوتا ہے)

    لیوکا:(گلاس دیتے ہوئے) جناب آپ آزادی سے کام لے رے ہیں۔

    سمرنوف:(غصے میں) کیا؟

    لیوکا:کچھ بھی نہیں، میں صرف۔۔۔۔۔۔

    سمرنوف: کس سے گفتگو کررہے ہو؟ چپ رہو اب!

    لیوکا:(اپنے آپ سے) یہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت ہے۔ غالباً کوئی آندھی لے آئی ہے اسے۔

    سمرنوف:اف! کتنا غضب ناک ہورہا ہوں! معلوم ہوتا ہے کہ تمام دنیا کو سرمہ بنا دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ طبیعت واقعی خراب ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔(پکارتا ہے) کوئی ہے؟

    (مادام پوپوف نگاہیں نیچی کیے داخل ہوتی ہے)

    مادام پوپوف: جناب تخلیہ میں رہنے کے باعث میرے کان بہت عرصے سے انسانی آواز کے عادی نہیں اور یہ شور برداشت نہیں کرسکتے۔ میں آپ سے نہایت مودبانہ گزارش کرتی ہوں کہ میرے آرام میں مخل نہ ہو جیئے۔

    سمرنوف: میرا روپیہ ادا کردیجیے میں چلا جاؤں گا۔

    مادام پوپوف: میں واضح الفاظ میں کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس اس وقت روپیہ موجود نہیں۔ پرسوں تک انتظار کیجیے۔

    سمرنوف: میں بھی آپ سے واضح الفاظ میں عرض کر چکا ہوں کہ مجھے روپیہ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ پرسوں نہیں بلکہ آج، اگر آپ آج روپے نہ دیں گی تو کل مجھے اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکانا پڑے گا۔

    مادام پوپوف: مگر میں کیا کرسکتی ہوں جب کہ میرے پاس روپیہ موجود ہی نہیں؟ عجیب مصیبت ہے!

    سمرنوف: تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ مجھے اس وقت روپیہ ادا نہیں کرسکتیں۔۔۔۔۔۔ نہیں کرسکتیں؟

    مادام پوپوف: نہیں۔۔۔۔۔۔

    سمرنوف: اس صورت میں یہیں ٹھہروں گا اور اس وقت تک ٹھہرا رہوں گا جب تک مجھے اپنی رقم وصول نہ ہو جائے(بیٹھ جاتا ہے) روپیہ پرسوں ادا کیا جائے! بہت خوب! میں پرسوں تک یہیں بیٹھا رہوں گا۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جما رہوں گا۔ (پھدک کر پھر بیٹھ جاتا ہے) کیا میں اپنا سود کل ادا کرنے پر مجبور نہیں ہوں؟ یا آپ نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میں مذاق کررہا ہوں؟

    مادام پوپوف: جناب میں استدعا کرتی ہوں کہ اس طرح شور نہ مچائیے یہ اصطبل نہیں ہے۔

    سمرنوف: میں اصطبل کے متعلق آپ سے سوال نہیں کررہا میں پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا میں کل اپنا سود ادا کررہا ہوں یا نہیں؟

    مادام پوپوف: آپ عورتوں کے ساتھ مہذبانہ گفتگو کرنا نہیں جانتے۔

    سمرنوف: میں عورتوں کے ساتھ مہذب گفتگو کرنا جانتا ہوں۔

    مادام پوپوف: نہیں تم نہیں جانتے۔ تم غیر مہذب اور ناشائستہ انسان ہو اچھے لوگ عورتوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو نہیں کیا کرتے۔

    سمرنوف: ادہو۔ یہ تو خوب ہے! ہاں یہ تو بتائیے کہ میں آپ سے کس طرز کی گفتگو کروں؟ فرانسیسی یا کسی اور زبان میں( زیادہ غضب ناک ہوکر اور ذرالکنت سے) مادام! میں کس قدر خوش ہوں کہ آپ مجھے روپیہ ادا نہیں کررہیں۔ تکلیف دہی کے لیے معافی کا طالب ہوں! آج کیسا پیارا دن ہے؟ اور یہ ماتمی لباس آپ کے جسم پر کتنا بھلا دکھائی دے رہا ہے( ادب سے جھکتا ہے)

    مادام پوپوف: یہ بہت غیر مناسب اور وحشیانہ گفتگو ہے۔

    سمرنوف:(تمسخر اڑاتے ہوئے) غیر مناسب اور وحشیانہ! میں عورتوں سے اچھی طرح گفتگو کرنا نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ مادام! مجھے ان چڑیوں سے کہیں زیادہ عورتوں سے سابقہ پڑا ہے جو آپ نے اب تک دیکھی ہیں۔ میں عورتوں کے سلسلے میں تین لڑائیاں لڑ چکا ہوں۔ ہاں! کبھی وہ دن تھے کہ میں بالکل بے وقوف اور ناسمجھ تھا۔۔۔۔۔۔ جذباتی اور شہد کی طرح شیریں۔ بات بات پر جھکا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ دامِ الفت میں گرفتار ہوا اور رنج و آلام سہے۔ چاند کی معکوس روشنی دیکھ کر آہیں بھریں۔۔۔۔۔۔ میں نے وارفتگی سے محبت کی۔ ہر پہلو سے ثابت قدم رہا۔ لعنت ہو مجھ پر!۔۔۔۔۔۔ نیل کنٹھ کی طرح صنف لطیف کے حقوق پر نغمہ آرائی کرتا رہا۔ اپنی نصف دولت اس نازک جذبے کی نذر کردی۔۔۔۔۔۔ مگر اب۔۔۔۔۔۔ نہیں مہربانی! اب تم مجھے اپنے دام میں نہیں پھانس سکتی ہو۔ میں کافی سبق حاصل کرچکا ہوں! کالی بھویں، مدبھری آنکھیں، لب لعلیں،چاہِ غب غب، چاندنی، سرگوشیاں، خوف زدہ سانس۔۔۔۔۔۔ میں اب ان چیزوں کے لئے تانبے کا ایک پیسہ تک نہیں دے سکتا۔ مادام! آپ کو علیحدہ کرتے ہوئے، تمام عورتیں خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھی فطرتی طور پر جلد پھر جانے والی، باتونی، اذیت رساں، دروغ گو، حقیر، ادنیٰ، اور بے رحم ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کی منطق سخت اشتعال انگیز ہوتی ہے اور اس صنف کے بارے میں( اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتا ہے) میری صاف گوئی معاف! اس فلسفی کو جو زنانہ لباس میں ملبوس ہو چڑیاں بھی سبق پڑھا سکتی ہیں! آدمی شاعرانہ ہستی کو دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔ سر تا پا سپیدململ میں لپٹی ہوئی، ایک فرشتہ، دیوی، مجسمہ محبت، اور اس کی روح میں جھانک کر دیکھے تووہ ایک حقیر مگر مچھ سے کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتی( ایک کرسی کا سہارا لیتا ہے۔ کرسی ٹوٹ جاتی ہے) مگر سب سے زیادہ مشتعل کرنے والی چیز یہ ہے کہ یہ مگر مچھ کسی وجہ سے خیال کرتا ہے کہ اس کی خود مختاری اور اجارہ داری ہی محبت کا جذبہء نازک ہے! لیکن لعنت ہو مجھ پر!۔۔۔۔۔۔ آپ مجھے اس کیل پر الٹا لٹکا کر پھانسی دے سکتی ہیں۔ اگر کوئی عورت سوائے اپنے پالتو کتے کے کسی اور کی محبت میں ثابت قدم رہی ہو! محبت کے دوران میں شکوہ و شکایت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔ آپ بدقسمتی سے عورت ہیں اور اس لیے عورت کی فطرت کا مطالعہ آپ اپنے آپ سے کرتی ہیں، ایمان د اری سے بتایے کہ کیا آپ نے ابھی تک کوئی ایسی عورت دیکھی ہے جو وفا شعار، ثابت قدم اور صاف دل ہو؟۔۔۔۔۔۔ آپ ایسی مثال نہیں پیش کرسکتیں۔ ایک سینگوں والی بلی آسانی سے مل سکتی ہے مگر وفادار عورت ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔

    مادام پوپوف: تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پھر محبت میں کون ثابت قدم رہتا ہے۔ مرد تو رہ نہیں سکتے۔

    سمرنوف: یقیناً مرد!

    مادام پوپوف:مرد!(ہنستی ہے) مرد، محبت میں سچے اور ثابت قدم!۔۔۔۔۔۔ یہ تو بالکل نئی بات ہے(غصے میں) آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس قسم کا فیصلہ مرتب کریں؟ مرد سچے اور ثابت قدم!۔۔۔۔۔۔ اگر اسی کے متعلق گفتگو کرنی ہے تو میرا خاوند ان تمام مردوں سے جو میرے ملنے والے تھے نسبتاً بہتر تھا۔۔۔۔۔۔ میں اس سے بہت محبت کیا کرتی تھی۔ ایسی محبت جو ایک نوجوان اور پاک باز عورت کرسکتی ہے۔ میں نے اپنی جوانی اس کی نذر کردی۔ زندگی، مسرت، دولت سب کچھ حوالے کردیا۔ وہ میرے جسم کی روح تھا۔ ایک بت تھا جس کی میں پجارن بن کررہی۔۔۔۔۔۔ اور یہ مرد جو اوروں سے بہتر تھا قدم قدم پر مجھے نہایت شرمناک طریقے پر دھوکا دیتا۔ اس کی موت کے بعد مجھے میز کا ایک خانہ عشقیہ خطوط سے بھرا ہوا ملا۔ اور جب وہ زندہ تھا!۔۔۔۔۔۔( اس کی یاد کس قدر دہشت خیز ہے) وہ مجھے ہفتوں کے لیے اکیلا چھوڑ جایا کرتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ بہت سی عورتوں سے اظہار عشق کرتا اور مجھ سے دغا کرتا تھا۔میرے روپے کو برباد کرتا اور میرے احساسات کا مضحکہ اڑاتا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے میری محبت میں کوئی فرق نہ آنے پایا۔۔۔۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں اب بھی ویسی ہی ثابت قدم اور وفا کیش ہوں۔ میں نے ان چار دیواروں کے اندر اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے قید کرلیا ہے اور اس ماتمی لباس کومیں اپنے تن سے ہرگز جدا نہ ہونے دوں گی۔

    سمرنوف:(حقارت سے ہنستے ہوئے) ماتمی لباس! نہ معلوم آپ نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے جیسے میں کچھ جانتا ہی نہیں ہوں کہ یہ سیاہ لباس پہن کر چار دیواری میں مقید رہنے سے آپ کا کیا مطلب ہے!۔۔۔۔۔۔ واقعی بڑا پراسرار ہے۔۔۔۔۔۔ اور رومان انگیز!۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی نوجوان مبتدی شاعر آپ کے گھر کے پاس سے گزرے گا تو وہ کھڑکیوں کی طرف دیکھ کر یہ کہے گا’’ یہاں وہ پراسرار عورت رہتی ہے جس نے اپنے خاوند کی محبت میں اپنے آپ کو گھر میں قید کر رکھا ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔ میں ان ہتھکنڈوں کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔

    مادام پوپوف:(شرم سے سرخ ہوتے ہوئے) کیا؟ تم یہ کہنے کی کیوں کر جرأت کرسکتے ہو؟

    سمرنوف: آپ نے اپنے آپ کو زندہ دفن تو کرلیا ہے۔ مگر چہرے پر غازہ لگانا نہیں بھولیں!

    مادام پوپوف: اس قسم کی نازیبا گفتگو کی تم کیونکر جرات کرسکتے ہو؟

    سمرنوف: ازارہِ عنایت شور نہ مچایے۔۔۔۔۔۔ میں خانساماں نہیں ہوں! مجھے حق گوئی سے کام لینے دیجیے۔ میں عورت نہیں ہوں۔ اس لیے کھری کھری بات کہنے کا عادی ہوں۔۔۔۔۔۔ شور نہ مچائیے گا اب!

    مادام پوپوف: میں خاموش ہوں۔یہ تمہیں ہو جو اس طرح چلارہے ہو۔۔۔۔۔۔ خدا کے لئے اب تم جاؤ۔

    سمرنوف: روپیہ ادا کردیجیے تو میں ابھی چلا جاتا ہوں۔

    مادام پوپوف: میں ہرگز نہیں دوں گی۔

    سمرنوف: مگر آپ کو دینا ہوگا!

    مادام پوپوف: تمہاری اسی ضد پر میں ایک کوڑی تک بھی ادا نہ کروں گی۔۔۔۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ یہاں سے چلے جاؤء

    سمرنوف: معاف کرنا۔ تم میری بیاہتا یا منسوبہ نہیں ہو اس لیے اس قسم کا جھگڑا مت کرو( بیٹھ جاتا ہے) مجھے یہ گفتگو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

    مادام پوپوف:(غیر مہذبانہ الفاظ سن کر حیران ہوتے ہوئے)تم بیٹھ رہے ہو؟

    سمرنوف:ہاں!ہاں!

    مادام پوپوف: میں درخواست کرتی ہوں۔ تم یہاں سے چلے جاؤ۔

    سمرنوف:روپیہ ادا کردو( ایک طرف ہو کر) میں کس قدر غضب ناک ہورہا ہوں۔

    مادام پوپوف:میں ناشائستہ لوگوں کی گفتگو سننا پسند نہیں کرتی۔ ازارہِ عنایت یہاں سے چلے جاؤ( ذرا ٹھہر کر) کیا نہیں جاؤ گے۔۔۔۔۔۔ نہیں جاؤ گے؟

    سمرنوف: نہیں!

    مادام پوپوف:نہیں؟

    سمرنوف:نہیں!

    مادام پوپوف: بہت اچھا ٹھہرو(گھنٹی بجاتی ہے)

    (لیوکا داخل ہوتا ہے)

    مادام پوپوف: لیوکا! اس شخص کو دروازہ دکھا دو۔

    لیوکا:(سمرنوف کے قریب جاتا ہے) جناب! جب آپ سے کہا گیا ہے تو تشریف کیوں نہیں لے جاتے۔ یہاں ٹھہرے رہنے میں کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔۔

    سمرنوف:(کرسی پر سے کود کر) زبان کو لگام دو! جانتے ہو کس سے گفتگو کررہے ہو؟۔۔۔۔۔۔ قیمہ بنا دوں گا۔ خیال رہے!

    لیوکا:(اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتا ہے) خداوند!( کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) آہ! میں بیمار ہورہا ہوں! بیمار ہورہا ہوں! سانس مشکل سے چل رہا ہے!

    مادام پوپوف: ڈاشا کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔ڈاشا!(پکارتی ہے)ڈاشا! پیلیگیا! ڈاشا(گھنٹی بجاتی ہے)

    لیوکا:اُف!۔۔۔۔۔۔ وہ بیر چننے گئی ہیں۔۔۔۔۔۔ گھر میں کوئی بھی موجود نہیں۔۔۔۔۔۔ طبیعت سخت خراب ہورہی ہے،پانی!

    مادام پوپوف: برائے مہربانی یہاں سے چلے جائیے۔

    سمرنوف:ذرا گرم گفتاری سے کام لیجیے۔

    مادام پوپوف:(مٹھیاں بھینچتے ہوئے اور ایڑیوں کو زمین پر مار کر) تم ریچھ ہو!۔۔۔۔۔۔ ایک وحشی ریچھ! بکواسی! دیو!

    سمرنوف: کیا؟ کیا کہا؟

    مادام پوپوف: کہتی ہوں تم ریچھ ہو۔۔۔۔۔۔ دیو ہو!

    سمرنوف:(کھڑے ہوتے ہوئے) معاف کرنا، تمہیں کیا حق حاصل ہے کہ میری اس طرح ہتک کرو؟

    مادام پوپوف: ہاں! میں تمہاری ہتک کررہی ہوں۔۔۔۔۔۔ پھر کیا؟ کیا یہ سمجھ رہے ہو میں تم سے خائف ہوں؟

    سمرنوف: اور کیا تمہارے خیال میں ایک شاعرانہ چیز ہوتے ہوئے تمہیں ہر شخص کی بے عزتی کرنے کا حق حاصل ہے؟۔۔۔۔۔۔ دعوتِ مبارزت قبول ہو!

    لیوکا: میرے اللہ!۔۔۔۔۔۔ پانی !! پانی!!

    سمرنوف:پستول!

    مادام پوپوف: اگر تم مضبوط ہاتھوں کے مالک ہو اور سانڈ کی طرح ڈکار سکتے ہو تو کیا تمہارا خیال ہے میں ڈر جاؤں گی؟

    سمرنوف: مبارزت کے ذریعے سے اس چیز کا فیصلہ ہوگا! مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں کہ تم عورت ہو۔۔۔۔۔۔ ایک کمزور حریف!

    مادام پوپوف:(سمرنوف کی آواز کو دباتے ہوئے)ریچھ!ریچھ! ریچھ!

    سمرنوف: اب وہ وقت نہیں رہا کہ صرف مرد ہی ہتک کے لیے سزا بھگتیں۔ اگر مساوات قائم ہونی ہے تو ابھی سے ہوگی۔ لعنت ہو سب پر! تمہیں دعوتِ مبارزت قبول کرنا ہوگی۔

    مادام پوپوف: ڈوئل چاہتے ہو؟ بہت خوشی سے۔

    سمرنوف: ابھی اسی لمحے۔

    مادام پوپوف: اسی لمحے۔ میرے خاوند کے پاس پستول تھے۔۔۔۔۔۔ میں ابھی لاتی ہوں( باہر جاتی ہے اور جلدی سے واپس چلی آتی ہے)۔۔۔۔۔۔ میں کس قدر خوش ہوں گی جب پستول کی آہنی گولی تمہارے بھدے دماغ سے پار ہوگی۔ لعنت ہو تم پر۔(چلی جاتی ہے)

    سمرنوف:میں اسے پرندے کی طرح آسانی سے گولی کا نشانہ بنا دوں گا۔ دودھ پیتا بچہ نہیں ہوں، جذباتی اور رومانی انسان نہیں۔۔۔۔۔۔عورتوں کے غمزے اور ادائیں میری نظروں میں کچھ معنی نہیں رکھتیں۔

    لیوکا:میرے اچھے صاحب!(گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر) خدا کے لیے اس بوڑھے آدمی پر رحم کیجیے۔ ہیاں سے تشریف لے جائیے۔ میں پہلے ہی سے خوف کے مارے سرد ہوا جارہا ہوں اور اب آپ لڑ رہے ہیں۔

    سمرنوف:(لیوکا کی بات پر کان نہ دھرتے ہوئے)ڈوئل!واقعی یہ مساوات ہے! اسی سے تو انصاف کی آزادی کا پتہ چلتا ہے۔ میں اسے گولی کا نشانہ بنا دوں گا۔ مگر کتنی بہادر عورت ہے۔( اسے لعن طعن کرتا ہے) کہہ رہی تھی’’ لعنت ہوتم پر! تمہارے بھدے دماغ میں گولی اتار دوں گی!‘‘۔۔۔۔۔۔ کیسی عورت ہے، اس کے گال سرخ ہورہے تھے آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اس نے مقابلہ منظور کرلیا، اپنی عزت کی قسم، آج سے قبل ایسی عورت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی!۔۔۔۔۔۔

    لیوکا: اچھے صاحب! تشریف لے جائیے۔ میں آپ کے لیے دعا کیا کروں گا۔

    سمرنوف:وہ واقعی عورت ہے، مجھے یہ جرأت بہت پسند ہے! سر سے پیر تک عورت! جذبات کا شمہ بھر بھی موجود نہیں بلکہ سراپا شعلہ ہے۔ آتش گیر مادہ، آتش بازی کا ایک چکر!۔۔۔۔۔۔ اس عورت کو ہلاک کرنے کے بعد مجھے واقعی افسوس ہوگا۔

    لیوکا:(روتا ہے) جناب! یہاں سے چلے جائیے۔

    سمرنوف: یہ عورت مجھے پسند ہے۔واقعی بہت پسند ہے، گو اس کے گالوں میں گڑھے ہیں، مگر پھر بھی وہ مجھے بہت بھاتی ہے۔ میں اسے تمام قرض بخش دوں گا۔ میرا غصہ کافور ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔خوب عورت ہے!

    (مادام پوپوف دو پستول لیے داخل ہوتی ہے)

    مادام پوپوف: یہ رہے پستول۔۔۔۔۔۔ مگر قبل اس کے کہ ہم ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں مجھے سکھا دو کہ پستول کس طرح چلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے عمر بھر پستول کو چھوا تک نہیں۔

    لیوکا: خدا رحم کرے! میں جا کرگاڑی والے اور باغبان کو ڈھونڈتا ہوں۔۔۔۔۔۔ نہ معلوم یہ تکلیف کی آندھی کہاں سے نمودار ہوگئی؟(چلا جاتا ہے)

    سمرنوف:(پستولوں کا امتحان کرتے ہوئے) پستول بہت قسم کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سمتھ کمپنی کے تیار کردہ ہیں۔۔۔۔۔۔ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی سو سو روبل کے قریب قیمت ہوگی۔۔۔۔۔۔ دیکھیے پستول کو اس طرح پکڑیئے گا( اپنے آپ سے) کیسی حسین آنکھیں ہیں، کیسی حسین آنکھیں ہیں۔۔۔۔۔۔ساحر ہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

    مادام پوپوف: کیا اس طرح؟

    سمرنوف:بالکل درست ۔۔۔۔۔۔ اب لبلبی کو اوپر اٹھائیے۔۔۔۔۔۔ اس طرح نشانہ باندھیے۔۔۔۔۔۔ سر کو ہلکی سی جنبش دیجیے۔ ہاتھ کو لمبا لے جائیے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ پھر اس ننھی سی چیز کو دبا دیجیے اور بس۔ مگر خیال رہے کہ لبلبی دباتے وقت پریشانی غلبہ نہ پائے اور نشانہ بڑے اطمینان سے لیا جائے ہاتھ ہرگز ہرگز نہ کانپے۔

    مادام پوپوف:بہت اچھا۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں اس کمرے میں لڑنا درست نہیں۔ آؤ باہر باغ میں چلیں۔

    سمرنوف: چلو مگر میں تو صرف ہوا میں گولی چلاؤں گا۔

    مادام پوپوف:وہ کیوں؟

    سمرنوف: اس لیے۔۔۔۔۔۔ اس لیے۔۔۔۔۔۔ کہ یہ میری مرضی ہے۔

    مادام پوپوف:اب ڈررہے ہو؟ ہا ہا! نہیں جناب!اب میں حیل و حجت نہیں سنوں گی۔ مہربانی کرکے چلیے۔۔۔ میں اس وقت تک مطمئن نہیں ہوسکتی جب تک آپ کے سر میں گولی نہ اتر جائے۔ اس سر میں جس سے مجھے سخت نفرت ہے۔ کیا واقعی ٹال رہے ہو؟

    سمرنوف: واقعی!

    مادام پوپوف:سراسر جھوٹ!۔۔۔۔۔۔ مگر تم لڑنے پر آمادہ کیوں نہیں ہو؟

    سمرنوف:اس لیے۔۔۔۔۔۔ اس لیے۔۔۔۔۔۔ کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔

    مادام پوپوف:(زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ) مجھے پسند کرتا ہے۔ یہ کہنے کی جرات کرتا ہے۔(دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تم جاسکتے ہو۔

    سمرنوف:( خاموشی سے پستول ہاتھ سے رکھ دیتا ہے۔ٹوپی اٹھا کر چلنے لگتا ہے، مگر دروازے کے قریب ٹھہر جاتا ہے۔ نصف لمحہ تک وہ ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مادام پوپوف کی طرف جا کر) کیا آپ ابھی تک ناراض ہیں؟۔۔۔۔۔۔ مگر آپ جانتی ہیں۔۔۔۔۔۔ آہ! میں اپنا مفہوم کس طرح ادا کروں؟ دیکھیے حقیقت یہ ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی معاملہ یوں ہے۔۔۔۔۔۔ دیگر الفاظ میں(روتا ہے) مگر یہ میرا قصور نہیں ہے کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں(کرسی کا سہارا لیتا ہے کرسی ٹوٹ جاتی ہے) لعنت! تمہارا آرائشی سامان کس قدر نازک ہے۔ میں تمہیں پسند کرتا؟۔۔۔۔۔۔ سمجھتی ہو؟۔۔۔۔۔۔ تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔

    مادام پوپوف: دور ہو جاؤ! مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔

    سمرنوف: میرے معبود! کیسی نادر عورت ہے، کم از کم آج تک میری نظر سے اس قسم کی عورت نہیں گزری۔۔۔۔۔۔ میں برباد ہوگیا ہوں۔ تباہ ہوگیا ہوں!۔۔۔۔۔۔ اس چوہے کی مانند ہوں جو پنجرے میں گرفتار کرلیا گیاہو۔

    مادام پوپوف:بھاگ جاؤ، ورنہ گولی چلا دوں گی۔

    سمرنوف: چلادو! تم اس مسرت کا اندازہ نہیں کرسکتی ہو جو ان درخشاں آنکھوں کے سامنے مرنے سے ایک شخص کو نصیب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ ان مخملی ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پستول سے ہلاک ہونا!۔۔۔۔۔۔ دیوانہ ہوگیا ہوں۔ سوچ کر ابھی ابھی فیصلہ کرلو، کیونکہ اگر میں ایک دفعہ یہاں سے چلا گیا تو پھر ملاقات بہت مشکل ہے!۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کرونا۔۔۔۔۔۔ میں اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ شریف آدمی ہوں۔ دس ہزار روبل ماہوار معقول آمدنی بھی ہے۔۔۔۔۔۔ نشانے میں اتنا ماہو ہوں کہ سکہ ہوا میں اچھال کر دو ٹکڑے کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میرے اصطبل میں اچھے سے اچھے گھوڑے موجود ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا میری بیوی بننا قبول کرتی ہو؟

    مادام پوپوف:(حقارت سے پستول کو اٹھاتے ہوئے)ڈوئل! ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیے۔

    سمرنوف:میں دیوانہ ہوگیا ہوں۔۔۔۔۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا( پکارتا ہے) کوئی ہے! پانی!

    مادام پوپوف:(چلاتی ہے) کہہ رہی ہوں ابھی فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سمرنوف:میں پاگل بن گیا ہوں۔ ایک لڑکے کی طرح محبت میں گرفتار ہوں۔۔۔۔۔۔ بیوقوف کی مانند!( اس کا ہاتھ پکڑتا ہے، وہ چلاتی ہے) میں تم سے محبت کرتا ہوں( گھٹنوں کے بل کھڑا ہو کر) ایسی محبت جو میں نے آج سے پہلے کسی سے نہیں کی۔۔۔۔۔۔ بارہ عورتوں کو ٹھکرا چکا ہوں اور نو مجھے ٹھکرا چکی ہیں۔ مگر اب بالکل موم ہوا جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔ کھیر کے مانند نرم۔ گھٹنوں کے بل گر کر تمہیں اپنا دل پیش کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس قدر غیر مردانہ فعل ہے۔ میں نے مدت سے کسی سے دل نہیں لگایا۔ اس لیے کہ میں حلف اٹھا چکا تھا،مگر یہاں شکست ہوئی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ دل پیشِ خدمت ہے۔ بتاؤ۔ ہاں! یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔ بہت اچھا نہ سہی(اٹھ کر تیزی سے دروازے کی جانب بڑھتا ہے) اچھا۔

    مادام پوپوف:ٹھہرو!

    سمرنوف:(ٹھہر کر) کیوں؟

    مادام پوپوف:کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ جاؤ! مگر خیر ٹھہرو تو۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں، جاؤ! میں تم سے متنفر ہوں!۔۔۔۔۔۔ نہیں! مت جاؤ!۔۔۔۔۔۔ آہ! اگر تمہیں صرف اتنا معلوم ہو کہ میں کس قدر خشم ناک ہوں!(پستول میز پرپھینک دیتی ہے) انگلیاں اس خوفناک چیز کے پکڑنے سے بے حس ہوگئی ہیں( اپنے رومال کو غصے میں پھاڑتی ہے) کھڑے کیوں ہو؟۔۔۔۔۔۔ جاؤ!

    سمرنوف:خدا حافظ!

    مادام پوپوف:ہاں، ہاں، جاؤ!(بآواز بلند پکارتی ہے) کہاں جارہے ہو؟ ٹھہرو تو۔۔۔۔۔۔ نہیں تم جا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔ آہ طبیعت کس قدر غصے سے بھری ہے۔ نزدیک مت آنا! میرے نزدیک مت آنا!

    سمرنوف:(اس کی طرف جاتے ہوئے) میں اپنے آپ سے کتنا خفا ہوں۔ سکول کے لڑکے کے مانند محبت میں گرفتار ہوں۔۔۔۔۔۔ گھٹنوں کے بل گرا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ خیال مجھے سرد کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم سے اس طرح محبت کرتا ہوں جیسے میں واقعی دامِ الفت میں گرفتار ہونا چاہتا تھا! کل مجھے سود کی رقم ادا کرنی ہے۔۔۔۔۔۔ گھاس کا موسم شروع ہے اور ان سب چیزوں سے پہلے تمہاری محبت نمودار ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔(اس کی کمر میں بازو ڈالتا ہے) میں اپنے آپ کو ہرگز معاف نہ کروں گا!

    مادام پوپوف:(چلا کر) چلے جاؤ! اپنے بازو ہٹا لو!۔۔۔۔۔۔ میں تم سے سخت متنفر ہوں۔۔۔۔۔۔ تمہیں دعوت مبارزت۔۔۔۔۔۔ قبول کرنا۔۔۔۔۔۔ ہوگی(ایک لمبا بوسہ)

    (لیوکا کلہاڑی سے مسلح، باغبان کدال پکڑے، گاڑی بان لوہے کا پنجہ تھامے اور مزدور لاٹھیاں اٹھائے داخل ہوتے ہیں)

    لیوکا:(دونوں کو بغلگیر دیکھ کر)میرے معبود!!

    (ایک وقفہ)

    مادام پوپوف:(آنکھیں جھکا کر)لیوکا! اصطبل میں کہہ دینا کہ ٹوبی کو ایک سیر زائد دانہ نہ دیا جائے۔

    (پردہ)

    *****

    ڈرامہ:چیخوف

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے