aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سپاہی اور موت

الیگزینڈر افاناسیف

سپاہی اور موت

الیگزینڈر افاناسیف

MORE BYالیگزینڈر افاناسیف

    پچیس سالہ خدمات کے دوران میں سپاہی کے برخلاف افسران بالا کو کبھی شکایت کا موقع نہ ملا تھا۔ اس نے اپنی خدمات بڑی تندہی اور جانفشانی سے دی تھیں۔ لیکن جب اس نے چاہا کہ نوکری سے مستعفی ہو کرزندگی کے بقایا ایام آرام سے گزارے تو افسران بالا نے اس کی درخواست رد کردی۔

    ’’ میں خدا اور زار کی پورے پچیس سال خدمت بجالایا ہوں۔ اور اس دوران میں میرے متعلق کبھی شکایت کا موقع نہیں ملا۔ مگر اب جب کہ میں چاہتا ہوں کہ چند دن آرام سے گزاروں تو انہوں نے میری درخواست مسترد کردی ہے۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے۔ یہاں سے بھاگ نکلوں‘‘ سپاہی نے بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا۔

    چنانچہ وہ ایک دن بھاگ نکلا۔ تین دن کی بھاگم بھاگ کے بعد اسے راستے میں خدا ملا۔

    ’’ کیوں میاں سپاہی؟ کہاں جارہے ہو؟ خدا نے سپاہی سے دریافت کیا‘‘۔

    میرے مالک! میں پورے پچیس سال اپنی خدمات ایماندارانہ بجا لایا ہوں۔ اب وہ میرا استعفیٰ قبول نہیں کرتے، اس لئے میں ان سے بھاگ رہا ہوں۔

    ’’ جب تم نے پچیس سال تک اپنی خدمات بطریق احسن سرانجام دی ہیں تو آؤ! تمہیں اجازت ہے کہ میری بادشاہت میں داخل ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔ بہشت کے دروازے تم پر کھلے ہیں‘‘۔

    چنانچہ بہشت کے دروازے کھل گئے۔سپاہی اندر داخل ہوگیا۔ بہشت کی لطیف فضا اور پرکیف مناظر کو دیکھ کر دل میں کہنے لگا‘‘

    ’’زندگی اسی کا نام ہے‘‘۔

    ’’باغوں میں ٹہلتا ہوا فرشتوں کے پاس گیا۔ اور کہنے لگا۔’’کیا آپ مجھے تمباکو بیچنے والے کی دکان بتا سکتے ہیں؟‘‘

    ’’کونسا تمباکو؟۔۔۔۔۔۔ میاں! تم اس وقت فوج میں نہیں ہو۔

    یہ بہشت ہے۔۔۔۔۔۔ خدا کی بادشاہت میں تمباکو کہاں؟‘‘

    سپاہی چُپ ہوگیا۔۔۔۔۔۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ان فرشتوں کے پاس گیا اور کہنے لگا۔’’تو پھر یہی بتلا دیجئے۔شراب کہاں ملتی ہے؟‘‘

    ’’او خاکی پتلے۔۔۔۔۔۔ تیرا ابھی تک یہی خیال ہے کہ تو فوج میں ہے۔ بہشت میں شراب کہاں؟‘‘

    ’’ یہ بہشت کس طرح ہوسکتا ہے۔ جہاں شراب اور تمباکو ہی نہیں ملتا۔‘‘

    یہ کہہ کروہ بہشت سے باہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایسی جگہ رہنے کو تیار نہ تھا جہاں شراب اور تمباکو نہ ملے۔ زمین پر وہ بہت عرصہ تک چلتا رہا حتیٰ کہ اس کی خدا سے پھر ملاقات ہوگئی۔

    ’’ یہ بہشت کیسی جگہ ہے۔ میرے خدا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تم نے مجھے بھیجا تھا۔ وہاں تو تمباکو اور شراب ہی نہیں ملتی‘‘۔

    ’’بہت اچھا!۔۔۔۔۔۔ اپنے داہنے ہاتھ کو چلے جاؤ۔ تمہیں وہاں ہر ایک شے مل جائے گی‘‘۔

    وہ اپنے داہنے ہاتھ کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔ راستے میں اسے بدروح ملی۔

    ’’میاں سپاہی! کسے ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘

    ’’پہلے مجھے کسی جگہ لے چلو۔۔۔۔۔۔ تاکہ اطمینان سے گفتگو ہوسکے‘‘۔

    ’’ چنانچہ سپاہی کو وہ ناپاک روح ایک گرم جگہ لے گئی۔

    ’’ آپ کے ہاں تمباکوہے کیا؟ سپاہی نے ناپاک روح سے دریافت کیا۔

    ’’ہے !میرے اچھی سپاہی‘‘۔

    ’’شراب بھی؟‘‘

    ’’شراب بھی ‘‘

    ’’ تو لاؤ۔۔۔۔۔۔ دونوں چیزیں لاؤ‘‘۔

    چشم زدن میں اس ناپاک رُوح نے دونوں چیزیں حاضر کردیں۔ جب سپاہی کو دونوں چیزیں مل گئیں ۔تو وہ بہت خوش ہوا ۔اور کہنے لگا۔ بہشت یہی ہے‘‘۔

    لیکن جب وہ گھومنے کیلئے باہر نکلا۔ تو اسے بہت سی ناپاک رُوحیں نظر پڑیں۔ جنکی شکلیں دیکھ کر وہ بہت گھبرا گیا۔۔۔۔۔۔ چند دِنوں کے بعد اس قدر اداس ہوا۔ کہ سوچنے لگا۔ کیا کرے‘‘۔

    اچانک ایک روز اُس کے دماغ میں ایک عجیب خیال آیا۔ لکڑی کا ایک گز بنا کر زمین ماپنے لگا۔ کہ شیطان دوڑتا ہوا آیا۔ اور پوچھنے لگا۔ کیا کررہے ہو۔

    میاں سپاہی! کیا اندھے ہو؟ دیکھ نہیں رہے میں یہاں معبد بنانے لگا ہوں۔‘‘

    شیطان دوڑتا ہوا اپنے بوڑھے دادا کے پاس گیا اور چلّا کرکہنے لگا۔’’محترم دادا! ہم تباہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔ یہ انسان یہاں معبد بنانے لگا ہے‘‘۔

    یہ سن کر بوڑھا شیطان غصّّہ سے تھر تھر کانپتا ہوا خدا کے حضور میں گیا اور کہنے لگا۔’’ خدا وند! آپ نے ہمارے پاس کس قسم کا انسان بھیجا ہے۔ جوہماری جگہ پر معبد بنانا چاہتا ہے‘‘۔

    ’’اس میں میرا کیا قصور؟۔۔۔۔۔۔ تم نے ایسے انسان کو اپنی جگہ میں داخل ہی کیوں کیا؟‘‘

    ’’خدا وند! کسی نہ کسی طرح اس سپاہی کو واپس بلا لیجئے۔‘‘

    ’’ میں اسے کس طرح بلالوں۔ وہ تو خود چاہتا تھا کہ تمہارے پاس جائے۔‘‘

    ’’ آہ ! اب ہم ناچیز کیا تدبیر عمل میں لائیں‘‘۔بوڑھے شیطان نے روتے ہوئے کہا۔

    خدا نے بارُعب لہجہ میں جواب دیا۔’’جاؤ! کسی نوجوان شیطان کی کھال اتار کر اس کا ڈھول بناؤ۔ اس ڈھول کی آواز ہی اس سپاہی کو وہاں سے دور کرسکتی ہے۔‘‘

    بوڑھے شیطان نے آتے ہی ایک نوجوان شیطان کو پکڑا اور اس کی کھال اتار کر ایک ڈھول پر منڈھ لی۔ سب کچھ تیار کرکے اس نے تمام شیطانوں کو اکٹھا کرکے حکم دیا۔’’ دیکھو! جونہی ہی سپاہی اس جگہ سے بھاگے۔ تم تمام دروازے بند کرلو تاکہ وہ پھر یہاں نہ آسکے۔‘‘

    یہ کہہ کراس نے ڈھول پر ضربیں لگانی شروع کیں۔ ڈھول کی آواز سن کر سپاہی اس جگہ سے اٹھ دوڑا۔۔۔۔۔۔ جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو۔

    جونہی وہ دروازہ سے باہر نکلا۔ شیطانوں نے تمام دروازے بند کرلئے۔

    سپاہی نے جب دیکھا کہ دروازے بند ہیں تو دستک دینی شروع کی۔

    ’’دروازہ کھول دو۔ ورنہ دیوار پھوڑ کر اندر آجاؤں گا۔‘‘

    ’’ تم ایسا نہیں کرسکتے میرے بھائی! ہم تم سے کہیں طاقتور ہیں۔‘‘ شیطانوں نے جواب دیا۔

    جب سپاہی نے دیکھا کہ اب اس کا کوئی بس نہیں چلتا۔ تو سر لٹکا کرپھر زمین پر چلنا شروع کردیا۔ دو تین دن کی آوراہ گردی کے بعد اسے پھر خدا ملا۔

    ’’ میاں سپاہی! کہاں جارہے ہو۔‘‘ خدا نے دریافت کیا۔

    ’’ مجھے خود علم نہیں۔‘‘

    ’’ تو اب بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہوں۔ بہشت میں بھیجا تو وہ تمہیں پسند نہ آیا۔ دوزخ میں گئے تو وہاں تم نہ رہ سکے۔ اب کہاں جانے کی خواہش ہے؟‘‘

    ’’میرے خدا! مجھے اپنے دربار کا محافظ بنالے۔‘‘

    ’’بہت اچھا‘‘

    چنانچہ خدا نے اسے اپنے محل کے دروازے پر کھڑا کردیا اور کہا دیکھو خیال رہے کوئی شخص اندر نہ آنے پائے۔

    ’’بوڑھے سپاہی کو آپ کیا سکھلا رہے ہیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘

    سپاہی بہت عرصہ تک دروازہ پر پہرہ دیتا رہا اور کسی کو اندر نہ جانے دیا۔ آخر ایک دن کے بعد’’ موت‘‘ آئی۔

    ’’کون گزر رہا ہے۔’’سپاہی نے کڑک کر پوچھا۔‘‘

    ’’موت‘‘

    ’’کس کے پاس جارہی ہو۔‘‘

    ’’خدا کے پاس۔‘‘

    ’’کس لئے۔‘‘

    ’’ حکم لینے کے لیے اب کن اشخاص کی جانیں قبض کروں‘‘۔

    ’’ تو تھوڑی دیرکے لیے انتظار کرو۔ میں خدا سے اجازت لے آؤں۔

    ’’خدا وند! موت دروازے پرکھڑی آپ کے احکام کی منتظر ہے۔‘‘

    ’’ جاؤ! اسے حکم دوکہ آئندہ تین سال تک وہ بوڑھے انسانوں کوہلاک کرتی رہے۔ یہ سن کر سپاہی نے خیال کیا کہ اس طرح تو اس کے بوڑھے والدین بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ اس لئے موت کے پاس آکر کہا۔’’ خدا نے تمہیں حکم دیا ہے کہ جنگلوں میں جا کرتین سال تک پرانے اور بوڑھے درختوں کو اکھیڑتی رہو‘‘

    موت یہ سن کر رو پڑی۔ اور کہنے لگی۔’’ خداوند میرے ساتھ ناراض ہیں جو مجھے ایسی سزا دے رہے ہیں۔‘‘

    یہ کہتی ہوئی موت جنگلوں میں چلی گئی۔ اور تین سال تک جوان اور سرسبز درختوں کو اکھیڑتی رہی۔ تین سال کے بعد اپنے آپ کو بمشکل گھسیٹتی ہوئی پھر خدا کے حضور میں نئے احکام لینے کی خاطر آئی۔‘‘

    ’’کہاں جارہی ہو؟‘‘ سپاہی نے موت سے دریافت کیا۔

    ’’خدا کے پاس۔ دریافت کرنے کہ اب کن اشخاص کو ہلاک کروں۔‘‘

    ’’ تو تھوڑی دیر کے لیے یہاں انتظار کرو۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اجازت لے کر آیا۔

    چنانچہ وہ ایک دفعہ پھر خدا کے پاس گیا اور کہنے لگا۔’’ خدا وند! موت پھر نئے احکام لینے کی خاطر حاضر خدمت ہوئی ہے۔‘‘

    ’’جاؤ! اسے کہہ دوکہ وہ تین سال تک چھوٹے بچوں کو ہلاک کرتی رہے۔‘‘

    سپاہی نے خیال کیا کہ اس کے تین بچے ہیں۔ اس طرح وہ بھی مر جائیں گے اس لئے موت کے پاس آیا اور کہا’’ خدا نے حکم دیا ہے کہ جنگلوں میں پھرواپس جاؤ اور تین سال تک چھوٹے پودوں کوہلاک کرتی رہو۔

    یہ سُن کر موت زار و قطار رونے لگی۔’’ میں نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے جس کی سزا بھگت رہی ہوں‘‘

    یہ کہہ کر وہ پھر جنگلوں میں چلی گئی اور تین سال تک چھوٹے پودوں کو ضائع کرتی رہی۔ تین سال کے بعد لنگڑاتی ہوئی پھر خدا کے حضور میں آئی اور دل میں عہد کرلیا کہ جو کچھ بھی ہو میں خود خدا کے پاس جاؤں گی اور دریافت کروں گی کہ خدا نے اسے کیوں نو سال تک اتنی سخت سزا دی۔‘‘

    سپاہی نے موت کو سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دیکھا توکہنے لگا’’ کہاں جارہی ہو۔‘‘ موت نے کچھ جواب نہ دیا۔ اور سیڑھیوں پر چڑھتی گئی۔ جب سپاہی نے دیکھا موت کچھ جواب نہیں دیتی تو اس نے موت کوگردن سے پکڑ لیا اور خدا کے دربار میں نہ جانے دیا۔ موت بہت چیخی چلائی۔ ادھر سپاہی نے بھی خوب شور مچایا۔ خدا یہ شور سن کر باہر آگیا اور کہنے لگا۔’’ یہ کیا شور مچا رکھا ہے تم نے؟‘‘

    ’’ خدا وند! آپ میرے ساتھ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟ میں پورے نو سال تک جنگلوں میں سر پٹکتی رہی ہوں۔ تین سال تک سال خوردہ درخت اکھیڑتی رہی۔ تین سال تک جوان اور سرسبز درختوں کوہلاک کرتی رہی۔ اور اسی عرصہ تک پودوں کو ضائع کرتی رہی۔۔۔۔۔۔ آخر ایسی سزا کس گناہ کی پاداش میں؟

    یہ سن کر خدا نے سپاہی کی طرف غضب نا ک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’یہ سب شرارتیں تمہاری معلوم ہوتی ہیں‘‘

    ’’میں معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ خداوند!‘‘ سپاہی نے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا۔

    ’’تمہیں سزا دی جاتی ہے کہ موت کو نو سال تک اپنے کندھوں پر ہی اٹھائے پھرو۔‘‘

    حکم ملنا تھا کہ موت سپاہی کے کندھوں پر چڑھ گئی اور سپاہی اسے اٹھائے چل پڑا۔ وہ بہت عرصہ تک موت کو اسی طرح اٹھائے چلتا رہا۔ مگر آخر کار تک تھک کر چور ہوگیا اور جیب سے نسوار کی ڈبیا نکال کر سونگھنے لگا۔

    موت نے دیکھا کہ سپاہی کچھ سونگھ رہا ہے۔ حیران ہو کرکہنے لگی۔

    ’’میاں سپاہی! کیا سونگھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی دو‘‘

    ’’کندھوں سے نیچے اتر آؤ اور ڈبیا میں بیٹھ کر جتنا عرصہ چاہو سونگھو‘‘

    ’’اچھا تو ڈبیا کا ڈھکنا کھول دو‘‘

    سپاہی نے ڈبیا کا ڈھکنا کھول دیا اور جونہی موت ڈبیا میں آئی جھٹ سے ڈبیا بند کرلی۔ اور ڈبیا کو اپنے بوٹ میں رکھ لیا اتنا کر وہ پھر خدا کے دربار میں گیا اور اپنی پرانی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔

    جب خدا نے اسے دیکھا تو حیران ہو کرپوچھا’’ ارے! موت کہاں رکھی ہے تم نے۔‘‘

    ’’میرے پاس ہے! خداوند!‘‘

    ’’تمہارے پاس؟‘‘

    ’’ جی ہاں! اس وقت میرے بوٹ میں ہے۔‘‘

    ’’دکھاؤ تو‘‘

    ’’ نہیں جی! میں نہیں دکھانے کا۔۔۔۔۔۔ اسے نو سال تک وہیں قید رہنا چاہئے۔۔۔۔۔۔ نو سال تک موت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھنا کوئی مذاق نہیں۔۔۔۔۔۔ وہیں رہنے دیجئے اسے۔‘‘

    ’’ تم اسے باہر تو نکالو۔۔۔۔۔۔ میں نے تمہاری خطا کو معاف کردیا۔‘‘

    چنانچہ سپاہی نے اپنے بوٹ کے تسمے کھولے اور نسوار کی ڈبیا نکال کرُ اس کا ڈھکنا کھول دیا۔۔۔۔۔۔ ڈھکنے کا کھلنا تھا کہ موت لپک کر اس کے کندھوں پر سوار ہوگئی۔

    خدا نے موت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔’’ تم میں اتنی عقل ہی نہیں کہ اپنا حکم بجا لاسکو۔ اس لئے کندھوں سے اتر آؤ۔‘‘

    موت کندھوں سے اتر آئی۔

    ’’ لو اب تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس سپاہی کی روح قبض کرلو۔‘‘

    ’’میاں سپاہی! اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔ موت نے سپاہی کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

    ’’جلدی کا ہے کی ہے۔مرنا تو آخرہے ہی لیکن پہلے مجھے اس وقت کے لیے تیار تو ہو لینے دو۔‘‘

    ’’بہت بہتر۔‘‘

    چنانچہ سپاہی ایک سفید کفن اوڑھ کر تابوت میں لیٹ گیا۔

    ’’کیا اب تیار ہو؟‘‘ موت نے سپاہی سے دریافت کیا۔

    ’’بالکل‘‘

    ’’اب اچھی طرح تابوت میں لیٹ جاؤ‘‘

    سپاہی پیٹ کے بل تابوت میں لیٹ گیا۔

    ’’یہ کس طرح لیٹ رہے ہو تم؟‘‘

    ’’تو پھر کس طرح لیٹوں؟‘‘

    ’’یہ بھی بھلا کو لیٹنے کا طریقہ ہے۔ تمہارے لئے اس حالت میں مرنا درست ہوگا‘‘۔ سپاہی پہلو کے بل لیٹ گیا۔

    آہ میرے خدا! کیسے بے وقوف انسان سے پالا پڑا ہے۔ کیا تم نے کبھی مردوں کو تابوت میں لیٹے ہوئے نہیں دیکھا۔ نکلو باہر میں تمہیں بتاؤں‘‘

    سپاہی تابوت سے باہر نکل آیا۔ اور موت اس کو طریقہ بنانے کے لیے تابوت میں لیٹ گئی۔ اس کا لیٹنا تھا کہ سپاہی نے تابوت کا ڈھکنا بند کردیا اور اس پر مضبوطی سے کیل جڑ دیئے اس طرح موت کو تابوت میں قید کرکے اس نے تابوت کو اٹھایا اور دریا برد کردیا۔ موت کو دریا کے سپرد کرنے کے بعد اس نے پھر خدا کے دربار پر پہرہ دینا شروع کردیا۔ جب خدا نے اسے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا-:

    ’’ارے! موت کہاں ہے؟‘‘

    ’’میں نے اسے دریا بُرد کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے مالک!

    خدا نے نظر دوڑائی تو موت کو دریا میں بہتے ہوئے دیکھا۔ اسے دریا سے نکال کر غضب ناک لہجہ میں پوچھا۔’’ میں نے جو تمہیں حکم دیا تھا کہ اس سپاہی کوہلاک کردو۔‘‘

    میرے مالک! یہ سپاہی بہت مکّار ہے۔ میری اس کے سامنے ایک نہیں چلتی۔

    ’’ دیکھو اب اس کے جھانسے میں نہ آنا۔ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو فوراً ہلاک کردو۔‘‘

    بعض کہتے ہیں کہ موت نے سپاہی کو ہلاک کردیا۔ لیکن بعض خیال کرتے ہیں کہ سپاہی نے موت کو پھر دھوکا دے دیا۔ اور اس طرح بہت عرصہ تک زندہ رہا اور ابھی اسے مرے تھوڑا عرصہ گزرا ہے۔

    *****

    کہانی:افانسیف

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے