Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تسکین دہ خواب

فیودور سلوگب

تسکین دہ خواب

فیودور سلوگب

MORE BYفیودور سلوگب

    سیری او جا مر گیا۔

    میلے کا دن تھا۔ گھر میں حسب معمول تہوار کے لئے تیاریا ں ہورہی تھیں۔ بچے بوڑھے سب ان میں دلچسپی لے رہے تھے۔ انڈوں پر سرخ رنگ چڑھایا جارہا تھا۔ توسوں کے لئے زردی تیار کی جارہی تھی اور ایسٹر کے مہمانوں کے لیے مکھن بلویا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ گھر کی فضا خوشبوؤں میں لپٹی ہوئی تھی۔

    تمام فرش دھوئے گئے تھے۔ کوڑا کرکٹ سب اٹھا دیا گیا تھا اور کھڑکیاں بھی صاف کروائی گئی تھیں۔ نوکر تھک کرچور چور ہوگئے تھے۔ سیری اوجا کی بہنیں، خوشگوار بوسوں کے خواب دیکھ رہی تھیں اور ناخشگوار برسوں کا خیال ان کے بدن میں لرزہ پیدا کردیتا تھا۔

    سیری اوجا اپنے کمرے میں لیٹا تھا، جو فرنیچیر وغیرہ سے بالکل خالی تھا۔ سیری اوجا کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ بہار کا آغاز تھا اور تہوار کی آمد آمد تھی اس لیے سیری اوجا کی بہنیں موت کا خیال کرنے سے ہی خوف کھاتی تھیں۔

    سیری اوجا کی موت کچھ ایسی بے وقت اور تہوار کی گوناگوں مسرتوں اور چہل پہل کے درمیان کچھ ایسی بے معنی سی تھی کہ گھر کے لوگ اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے تھے کہ اس کی صحت بجائے گرنے کے اچھی ہورہی ہے۔

    وہ ایک عرصے سے علیل تھا۔ انہوں نے تبدیلی آب و ہوا کے لیے اس کو کسی اور جگہ لے جانے کا ارادہ کیا تھا مگر اس ادارے کی اس لیے تکمیل نہ ہو سکی کیونکہ وہ یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ اس کو کہاں لے جایا جائے۔ پھر دفعتاً خدا معلوم کیوں اس کے پھیپھڑوں کی حالت خراب ہوگئی اور وہ اس قدر لاغر ہوگیا کہ اس کو بستر پر سے ہلانا جلانا بھی بہت مشکل ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ گرم موسم اسے کوئی خاص فائدہ نہ پہنچا سکتا تھا۔

    نوجوان ڈاکٹر نے سیری اوجا کی غمزدہ ماں سے کہا۔

    ’’یہ ایک مہنے کا اور مہمان ہے۔‘‘

    اور بوڑھے ڈاکٹر نے بڑی بے پروائی سے کہا۔

    ’’یہ مشکل سے چھے ہفتے اور زندہ رہ سکے گا۔‘‘

    سیری اوجا کا باپ بڑے ادب سے ان ڈاکٹروں کو دروازے تک چھوڑنے آیا۔ اس کا چہرہ سرخ اور حیرت زدہ معلوم ہورہا تھا۔ اس کا دل اس چیز کو قبول نہ کررہا تھا کہ سیری اوجا عنقریب مر جائے گا۔ اس کے خیالات کی رفتار بہت سست تھی۔

    وہ کمرۂ طعام میں کھڑا تھا۔ غیر ارادی طور پر اس نے خود کو اس آئینے میں دیکھا جو دیوار پر آویزاں تھا۔ ٹائی کی گانٹھ کو درست کیا جو ایک طرف کو پھسل گئی تھی اور کانپتی ہوئی انگلیوں سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا جو اب سفید ہورہی تھیں۔

    ایک پریشان انداز میں وہ اس میز کے قریب گیا، جہاں اس کی بیوی بادام کتر رہی تھی۔ ہاتھ چھوٹے کوٹ کی جیبوں میں ٹھونسے اور اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ اپنی بیوی کے جھکنے کے انداز، اس کی جسمانی تکالیف اور اس کے لرزاں لبوں سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ وحشت ناک انجام سے باخبر ہے۔

    اسے یہ غم افزا احساس ہوا کہ اس کی بیوی اپنے نرم نرم تکیوں میں سر دے کر رونے دھونے کے بجائے بچوں کے ساتھ بظاہر بڑے سکون سے بیٹھی ہوئی ہے۔ حالانکہ غم اندرونی طور پر اسے کھائے جارہا ہے۔ بچے اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے بڑی بے پروائی سے ہنس کھیل رہے تھے۔

    بیوی کے دکھ نے اس کے جسم میں درد کی ایک لہر دوڑا دی۔ اس کے حلق میں کچھ پھنس سا گیا۔ وہ تیز قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس سے چلا گیا۔ اس کے بغیر ایڑیوں کے بوٹ، چمکیلے فرش پر مدم آہٹ پیدا کرتے گئے۔ غلام گردش سے ہوتا ہوا وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں چلا گیا کہ اپنے آپ کو صوفے پر گرا کر آہوں اور سسکیوں کے تھپیڑوں کے سپرد کردے۔

    اپنے پیچھے خاوند کے قدموں کی چاپ سن کر، اس کی بیوی کا رنگ پہلے سے زیادہ سرخ ہوگیا اس کا چہرہ سکڑ گیا مگر وہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہی۔ بادام سب ختم ہوگئے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ ایک سفید اور نرم تولیے سے پونچھے اور آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے خاوند کے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں وہ دونوں پہلو بہ پہلو بیٹھ کر اپنے غم پر دیر تک آنسو بہاتے رہے۔ انہیں کوئی تسلی دینے والا نظر نہ آتا تھا۔۔۔۔۔۔

    (۲)

    ایسٹر بالکل قریب اور ہفتے کا روز تھا۔ سیری اوجا سو رہا تھا اور ایک عجیب و غریب لیکن تسکین دہ خواب دیکھ رہا تھا۔

    اس نے خواب میں دیکھا کہ سخت حبس ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے درخشاں خورشید کی کرنیں وادی پر زرکاری کا کام کررہی ہیں۔ وہ ایک شکستہ جھونپڑے کے دروازے پر بیٹھا ہے۔ سامنے والے دو کھجور کے درخت اپنے بڑے بڑے پتوں سے اس کی تپش زدہ ٹانگوں اور اس کے سفید کپڑوں پر سایہ کررہے ہیں۔ وہ بہت کم سن ہے، جیسا کہ وہ آج سے دس سال قبل ہوا کرتا تھا۔ اس کا جسم جو کپڑوں سے بہت کم ڈھکا ہوا تھا۔ کسی ارضی فرشتے کی طرح سبک اور ہلکا تھا۔ ہر شے بہت مسرور کررہی تھی، اور سخت زمین جس پر اس کے ننگے پاؤں جمے ہوئے تھے، نیلا آسمان جو دوری کے باوصف اتنا قریب معلوم ہوتا تھا گویا وہ زمین کے ساتھ مل رہا ہے۔ آس پاس کے جھونپڑوں کے قریب کھیلتے ہوئے بچوں کی چیخیں۔۔۔۔۔۔ اس کی ماں کی نرم و نازک آواز جو کنویں کے قریب کھڑی ہوئی برہنہ پا اور گندمی رنگ کی عورتوں سے بڑی خوش خوش باتیں کررہی تھی۔

    اس کی ماں واپسی مڑی۔ وہ اپنے کاندھے پر ایک تنگ گردن والی گاگرا اٹھائے ہوئے تھی۔ اس کا ننگا گندمی بازو اس گاگر کو سہارا دیے ہوئے تھا۔ دھوپ اس کے گلاب آسا گالوں سے کھیل رہی تھی۔ اس کے لب تبسم سے نیم دا تھے۔ وہ اپنی گھنی اور لانبی پلکوں سے اپنے لڑکے کی طرف دیکھنے لگی، جو فرط و انبساط سے چمک رہی تھیں۔ اپنے بچے کو مسرور اور کھیل کود میں مصروف دیکھ کر اس کے دل میں فخر کے جذبات موجزن تھے۔ اس کے لڑکے نے ہاتھ میں کھلونا پکڑا ہوا تھا، جو اس نے خود گیلی مٹی سے تیار کیا تھا۔۔۔۔۔۔یہ ایک پرندہ تھا۔ مٹی کا بنا ہوا پرندہ مگر یہ جاندار معلوم ہوتا تھا۔

    ننھے چابک دست آرٹسٹ نے اس پرندے کو گیلی اور بھاری مٹی سے بنایا تھا۔ اس کی انگلیوں نے بڑی فن کاری سے کام کیا تھا اور دراصل مٹی خود تشکیل کی خواہش مند تھی۔ ننھا پرندہ بچے کی گرم اور نازک انگلیوں میں، جن میں ایک تخلیقی ارادہ کروٹیں لے رہا تھا، تھر تھرا رہا تھا۔

    اپنے بوجھ کو ہلکا کرنے کی جلدی میں اس کی ماں اس کے پاس سے گزری۔ چلتے ہوئے گردن اور سر کو خم دیے بغیر اس نے اپنی سیاہ اور گہری آنکھوں سے اس کی طرف مسرت آمیز نگاہوں سے دیکھا۔

    اس نے اپنا داہنا ہاتھ اٹھایا اور اپنے تپش زدہ پیر کو اٹھاتے ہوئے چلا کر کہا۔’’دیکھو امی!‘‘

    وہ اپنے غیر ملکی لب و لہجے پر کسی قدر متعجب ہوا مگر فوراً ہی اس کا یہ تعجب اور یہ اندیشہ کہ آیا اس کی گفتگو سمجھی گئی ہے یا نہیں، دور ہوگیا۔

    اس کی ماں ٹھہری اور ہنستے ہوئے دریافت کیا۔

    ’’کیوں کیا ہے میرے بچے؟‘‘

    اس نے اپنا مٹی کا کھلونا اٹھایا اور متبسم ہوتے ہوئے کہا۔

    ’’دیکھو امی۔ یہ پرندہ میں نے بنایا ہے جو اصلی بلبل کی طرح گاتا ہے‘‘

    یہ کہتے ہوئے اس نے پرندے کی دم پر اپنے لب جمائے اور اس میں سے ایک مدھم سیٹی کی آواز نکلنا شروع ہوئی۔ پھونک کو درست کرتے ہوئے اس نے اس مٹی کے ڈھیلے سے اصلی موسیقی کے سر نکالے۔

    اس کی ماں ہنس پڑی اور کہا۔

    ’’تم نے یہ عجیب و غریب پرندہ بنانے میں بڑی فن کاری کا ثبوت دیا ہے۔ اسے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے رکھو کہ مبادہ یہ اڑ جائے۔‘‘

    یہ کہہ کر اس کی ماں جھونپڑے میں چلی گئی اور اپنے کام کاج میں مصروف ہوگی۔ وہ وہیں پر بیٹھا اپنے کھلونے کی طرف مسرت بھی نگاہوں سے دیکھتا رہا اور اپنی نازک انگلیوں سے اس کے پروں کو تھپتھپاتا رہا۔

    ’’کیا تم اڑ جانا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے پرندے سے دریافت کیا۔

    پرندے کے پروں میں ایک ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی۔

    اس نے پھر اس سے پوچھا۔

    ’’کیا تم اڑ جانا چاہتے ہو؟‘‘

    پرندے کے بے جان مٹیالے جسم میں دل دھڑکنا شروع ہوا۔

    تیسری بار اس نے پھر دریافت کیا۔

    ’’کیا تم اڑ جانا چاہتے ہو؟‘‘

    وہ سر تا پا کانپ گیا۔ پرندے نے اپنے بازو پھیلائے۔ منہ سے آواز نکالی اور سر کو ادھر ادھر جنبش دی۔ اس نے اپنی مٹھی کھول دی اور پرندہ پھُر سے اڑ گیا۔ ہلکے نیلے آسمان میں اس کے نغمے پھیلتے گئے۔ سورج بلند سے بلند تر ہوگیا اور فضا ساکن سے ساکن تر ہوتی گئی۔

    (۳)

    سیری اوجا جب بیدار ہوا تو وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ اس کے سینے میں شدت کا درد ہورہا تھا اسے کھانسنا دشوار ہورہا تھا۔ مگر وہ ننھا پرندہ کہاں تھا جس کو اس نے بنایا تھا؟۔

    وہ پرندہ کھڑکی کے قریب بولیاں بولتا ہوا اپنے پروں کو پھڑپھڑا رہا تھا۔

    ’’میرا پرندہ!‘‘

    ‘‘لیکن میں کون ہوں؟‘‘

    سیری اوجانے اٹھنے کی کوشش کی مگر تکیوں پر گر پڑا اور بے ہوشی میں بڑبڑانا شروع کیا’’ لیکن میں کون ہوں۔‘‘

    اس کی ماں اس کے بستر پر جھکی مگر سیری اوجا اسے نہ دیکھ سکا کمرے کی دیواریں بھی اس کو نظر نہ آرہی تھیں۔

    (۴)

    اب وہ پھر خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہے۔

    دوپہر کے درخشاں سورج کی روشنی میں تمام وادی چمک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کے کپڑے نہایت غریبانہ اور پھٹے ہوئے تھے اور اس کے ماندہ پاؤں خشخشی اور بھوری داڑھی گردوغبار سے اٹی ہوئی تھی۔

    اس کے ساتھی نیچے زیتون کے درختوں کی چھاؤں میں لیٹے اپنی تھکاوٹ دور کررہے تھے۔ اس کے گردوپیش کی فضا اور آسمان میں روشنی نور بھر رہی تھی۔ دو آدمی نورانی لباس میں ملبوس شفاف ہوا میں تیرتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد پر نسیمِ فلکی کے ٹھنڈے جھونکے ہوا میں بکھر گئے۔ یہ دونوں اس کے قریب پہنچے۔ اس نے ان سے دریافت کیا۔

    ’’ میں کون ہوں‘‘

    ’’گھبراؤ نہیں، آج سے تیسرے روز تم اٹھو گے‘‘

    اس کے کپڑے پہلے ہی سے سرخ رنگ کے تھے۔ اب اس کے سر کے گرد ایک آتشیں ہالہ تھا اور اس کے خون کی آتش سیال اس کی رگوں میں سے جاری تھی۔۔۔۔۔۔ یکا یک خوشی کا ایک ناقابل بیان نعرہ اس کے منہ سے بلند ہوا۔

    (۵)

    وہ بیدار ہوا۔ اس کی چیخ نے گھر کے سب لوگوں کو اس کے بستر کے قریب جمع کردیا۔ اس کے زرد ہونٹوں سے خون کی ایک پتلی دھار بہہ رہی تھی۔ اس کا چہرہ لاش کا سا سپید تھا۔ اس کی خوفزدہ نگاہیں اپنے ان عزیز اقرباکی غیر متحرک آنکھوں سے دوچار ہورہی تھیں جو اس کے بستر مرگ پر جمع تھے۔

    اندھی تاریک اور خوفناک طور پر تاباں دانتوں والی ایک شکل اپنے ساتھ ازلی سردی اور دائمی ظلمت لے کر آئی۔ وہ بہت جسیم تھی۔ اس نے سیری اوجا کے پاس سے ساری ہوا چھین لی اور سیاہ بادل کی طرح اپنے فرغل کی تہوں کو ہلاتے ہوئے وہ سیری اوجا پر جھکی۔

    مگر نورانی لباس والے بزرگ کی آواز بجلی کی طرح کڑکی۔

    ’’آج سے تیسرے روز تم اٹھو گے‘‘

    مہلک مہمان کے فرغل کے پیچھے روز جزا کی طلائی روشنی بخوبی دکھائی دے سکتی تھی۔

    یہ نظارہ سیری اوجا کی آنکھوں کے لییبٹرا فرحت بخش تھا۔ اس کا زرد چہرہ اس طلائی نور سے تمتماا ٹھا۔

    اس کی آنکھوں میں فتح مندی کی ایک خاموش جھلک تھی۔

    وہ اپنے سانس پر قابو پاتے ہوئے گنگنایا۔

    ’’آج سے تیسرے روز میں اٹھوں گا‘‘۔ اور وہ مر گیا

    تیسرے روز وہ دفنا دیا گیا۔

    کہانی:سلوگب

    مأخذ:

    منٹو کے غیر مدون تراجم (Pg. Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے