فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر
دلچسپ معلومات
۱۸۱۶ء
فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر
کہ وجد برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر
تکلف خار خار التماس بے قراری ہے
کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشت سوزن پر
یہ کیا وحشت ہے اے دیوانے پیش از مرگ واویلا
رکھی بے جا بناے خانۂ زنجیر شیون پر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہوگیا ہے میری گردن پر
برنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بیتابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر
فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر
ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے
شعاع مہر سے تہمت نگہ کہ چشم روزن پر
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلنحن پر
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر
مأخذ:
دیوان غالب جدید (Pg. 217)
- مصنف: مرزا غالب
-
- ناشر: مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال
- سن اشاعت: 1982
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.