aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "البدیع" سید عابد علی عابد کی کتاب ہے۔ جس میں صنعتوں کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب محسنات شعری کے انتقادی جائزے کی مستند کتاب ہے۔ اس میں کل تین ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت متعدد اہم موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ باب اول میں معانی، بیان اور بدیع کے باہمی رشتے کو مکمل تشریح کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ دوسرے باب میں علم بدیع کی تدوین کی تاریخ پر محققانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس باب میں خاص طور پر اردو اور فارسی کا انوکھا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا تیسرا باب صنائع و بدائع لفظی و معنوی کے تمام پہلووں پر تفصیلی بحث پر مشتمل ہے۔ معلوم ہو کہ بدیع یا علم بدیع اس علم کا نام ہے جس میں صنائع معنوی اور لفظی بیان کیے جائیں۔ یہ صنائع صرف آرائش سخن کے لیے ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے بر محل استعمال سے کلام میں معنی خیزی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن بے تکلفی سے یہ صنائع آ جائیں تو حسن کلام کا سبب بن جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں علم بدائع کی جملہ اقسام، اور تمام صنعتوں کا بہت تفصیلی بیان ہے۔ فصاحت و بلاغت، اور محسنات شعری کے باب میں یہ بڑی اہم کتاب ہے۔
उर्दू में जिन लोगों ने एक व्यापक साहित्यिक, सामाजिक, और सांस्कृतिक चेतना के साथ समालोचना लिखी है उनमें एक नाम आबिद अली आबिद का भी है. आबिद अली आबिद उर्दू के साथ फ़ारसी व अंग्रेज़ी ज़बान व साहित्य के ज्ञाता भी थे, इसी वजह से उनका समालोचनात्मक डिस्कोर्स उनके दौर में लिखी जानेवाली पारंपरिक आलोचना से भिन्न नज़र आता है.
आबिद अली आबिद 17 सितम्बर 1906 को डेरा इस्माइल खां में पैदा हुए. उनके पिता फ़ौज में मुलाज़िम थे. लाहौर से एल.एल.बी. की शिक्षा प्राप्त की और गजराब में वकालत करने लगे लेकिन उनकी शैक्षिक और साहित्यिक रुचि उन्हें लाहौर खीँचलाई. पंजाब यूनिवर्सिटी से फ़ारसी में एम.ए. किया और दयाल सिंह कालेज लाहौर में फ़ारसी के प्रोफेसर नियुक्त हुए. 20 जनवरी 1971 को लाहौर में देहांत हुआ.
आबिद अली आबिद की कृतियों के नाम ये हैं: ‘ओसुल-ए-इन्तेक़ाद,’ ‘अदब के उस्लूब,’ ‘शमा,’ ‘यदे बैज़ा,’ ‘सुहाग,’ ‘तल्मिहात-ए-इक़बाल,’ ‘तिलिस्मात,’ ‘मै कभी ग़ज़ल न कहता,’ ‘बरेशाम ऊद,’ ‘इन्तेक़ाद,’ वगैरह.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets