aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محدث دہلوی شاہ ولی اللہ کا شمار بر صغیر کے کبار علماء میں ہوتا ہے ۔ برصغیر میں بخاری کی روایت انہی سے شروع ہوتی ہے اور اب تک جتنے بھی محدثین ہندو پاک میں پیدا ہوئے سب کی روایت ان سے ہی آگے جاتی ہے ۔ ان کاعلمی کارنامہ اتنا بلند ہے کہ اب تک ان کی تحریروں کے حوالہ سے تلاش و جستجو و تعبیر و تفہیم کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے صرف علمی کارنامہ ہی نہیں انجام دیا بلکہ اللہ نے صالح اولاد سے بھی نوازا جس نے ان کے علمی سلسلے کے آگے بڑھا یا ۔ جن کا علمی مر تبہ اتنا بلند ہوتو ان کے خطوط کا مرتبہ بھی کسی طور پر ان کی تصنیفات سے کم نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان خطوط میں اپنے اچھے تجر بات کو لکھتا ہے او ر سامنے والے کی اس میں مکمل تسکین چاہتا ہے ۔ اس زمانے کے خطوط محض مکتوبات نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ بعض بعض مو اقع پر آج کے مقالات سے حد درجہ بہتر ہوتے تھے ۔ اکثر تفصیلی خطوط میں کئی مباحث کوسمیٹا جاتا تھا ۔ ان خطوط میں بھی علمی مباحث و فلسفے پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ اس زمانہ کی سر کاری زبان اور علما ء کی مراسلاتی زبان بھی فارسی تھی اس لیے یہ سارے خطوط بھی فارسی میں تھے جو اردو میں ترجمہ شدہ اس کتاب میں ہیں ۔ اس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، فلسفہ، کلام اور تصوف سلوک کے علاوہ علم اسرار الشریعہ پر بھی مفید نکات ملتے ہیں ۔ واضح رہے کہ علم الاسرار شاہ صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا جس پر ’’حجۃاللہ البالغہ‘‘ بھی ہے ۔ ان خطوط میں دیگر کئی قیمتی باتیں بھی ہیں ۔ ان خطوط کے مطالعہ سے کئی اسرار بھی کھلیں گے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (اصل نام سید قطب الدین احمد بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین بن معظم بن منصور، معروف بہ احمد ولی اللہ؛ 21 فروری 1703ء مظفرنگر – 20 اگست 1762ء دہلی) برصغیر کے عظیم محدث، مفسر، فقیہ، فلسفی، الہیات داں، مفکر اور مجدد تھے۔ سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور اپنے والد شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی سے علوم دینیہ اور بیعت و خلافت پائی۔ بعد ازاں حجاز مقدس جا کر شیخ ابوطاہر مدنی اور دیگر اکابر سے حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم و اجازت لی۔ تصوف میں وہ نقشبندی–مجددی سلسلے کے ساتھ ساتھ نقشبندی ابوالعلائیہ طریقت سے بھی وابستہ تھے اور اس کی روحانی تربیت کو آگے بڑھایا۔ شاہ ولی اللہ نے دین کو عوام تک عام فہم انداز میں پہنچانے کے لیے قرآنِ مجید کا فارسی ترجمہ کیا جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا باقاعدہ ترجمہ تھا۔ ان کی نمایاں تصانیف میں حجۃ اللہ البالغہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، القول الجمیل، فیوض الحرمین اور الانصاف شامل ہیں جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ اور تصوف کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ روحانی تربیت کے ساتھ شریعت و طریقت کی ہم آہنگی اور معاشرتی اصلاح پر زور دیتے تھے اور حکمت و دانائی سے معاشرتی برائیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here