aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مغلوں کی تاریخ میں شاہ جہاں کے بیٹوں میں سے ایک دارا شکوہ کو نہایت ذہین، تعلیم یافتہ اور فراخ دل شہزادہ تصور کیا جاتا ہے۔ دارا نے ویدک ادب کا مطالعہ کیا اور اسلام اور عیسائیت کا آپسی موازنہ بھی کیا۔ دارا مذہبی رواداری، سماجی آہنگی، اتحاد پسندی، باہمی محبت، تنوع میں جدت اور مخلوط معاشرت اور ثقافت کا قائل تھا۔دارا مغل شہزادہ ہونے کے ساتھ ایک نامور مصنف تھا۔ جس کی تخلیقات میں تقریباً پچاس اپنشدوں کا فارسی ترجمہ بھی شامل ہے۔دارا شکوہ، شاہجہاں کے بیٹوں میں اس اعتبار سے زیادہ اہم شخصیت کا مالک تھا کہ اسے نہ صرف صوفیوں، عالموں اور مشائخوں سے عقیدت تھی بلکہ علم و عرفان اور سلوک و ریاضت کے مختلف مرحلوں کو خود بھی سمجھتا تھا۔زیر نظر کتاب "سکینۃ الاولیاء " دارا شکوہ کی مایہ ناز کتاب ہے۔اس کتاب میں انھوں نے حضرت میر میاں کے خلفاء کے احوال و فضائل کا ذکر ہے،زیر نظر کتاب اس کا اردو ترجمہ ہے،اس کتاب کے ترجمے کا کا م مقبول بیگ بدخشانی نے انجام دیا ہے۔
دارا شکوہ (1615–1659) مغل بادشاہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا اور نامزد ولی عہد تھا۔ وہ اپنے متجسس ذہن، صوفیانہ عقیدت، اور مذہب کے بارے میں وسیع النظری کے سبب دربار میں بے حد مقبول تھا۔ اس نے اپنے روحانی مرشد، قادری سلسلے کے بزرگ، کے احترام میں قلمی نام "قادری" اختیار کیا، اور فارسی زبان میں ایک ضخیم دیوان تحریر کیا، جس میں غزلیں، رباعیات، اور قصائد شامل ہیں۔
وحدت ادیان کو ثابت کرنے کے عزم میں، دارا شکوہ نے پچاس اوپنشادوں کا فارسی میں ترجمہ "سرِّ اکبر" کے عنوان سے کیا، اور "مجمع البحرین" نامی ایک انقلابی رسالہ تحریر کیا، جس میں صوفیانہ اور ویدانتی اصطلاحات کو ایک ساتھ پیش کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں "سفینة الاولیاء"، "رسالہ حق نما"، اور "اکسیر اعظم" شامل ہیں، جو سب اُس کی اسلامی تصوف اور ہندو فلسفے کو قریب لانے کی جستجو کی عکاس ہیں۔
دارا شکوہ کے آزاد خیال نظریات نے اسے مقبول مگر متنازع شخصیت بنا دیا۔ 1657 سے 1659 تک کے جنگِ جانشینی میں وہ شکست کھا گیا، اُس پر الحاد کا مقدمہ چلا، اور اورنگزیب کے حکم پر اسے سزائے موت دی گئی۔ تاہم، اس کی تصانیف آج بھی جنوبی ایشیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ابتدائی اور پائیدار کوششوں میں شمار کی جاتی ہیں۔