aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "طریقۂ_رندان_پاکباز"
سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میںکہ یہ طریقۂ رندان پاکباز نہیں
صرف عصبی اختلالی کی تشریح مختلف طریقے سے کی گئی ہے۔ اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اختلال عصبی اپنے آپ کو احساسِ کمتری سے نجات دلانے کی کوشش ہے تاکہ برتری کا احساس ہو سکے اور اس احساس برترقی کا اظہار واہمہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ حقیقت سے الگ ہوکر ہر فنکار زندگی کے اندر زندگی کی کھوج کرنا چاہتا ہے جو اس کے ذریعہ تخلیق کردہ واہمہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فر...
ایران کی عشقیہ شاعری کا مطالعہ کرنے والا جب یہ دیکھتا ہے کہ وہاں کے ہرشاعر کا کلام جفائے محبوب کے ذکر سے بھرا پڑا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے اور قدرتی طور پر اس کے دل میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ، (۱) کیا حسن و جفا اور محبوب و بے وفائی لازم و ملزوم ہیں؟ (۲) کیا ظلم و ستم ’’خوبان پارسی گو‘‘ کی فطرت میں داخل ہے؟ (۳) کیا جورو جفا ایرانیوں کی نسلی اور قومی خصوصیت ہے؟ (۴) کیا شعرائے ایران صرف ایسے شخص سے محبت کیا کرتے تھے جو ظالم اور بے وفا ہو؟ (۵) کیا شعرائے ایران نے محض ’’زیب داستان‘‘ کے لیے محبوب کی بے وفائی اور ستم رانی کارونا رویا ہے اور حقیقت سے اسے کوئی واسطہ نہیں؟ درحقیقت نہ حسن وجفا لازم و ملزوم ہیں، نہ جورو جفا ’’خوبانِ پارسی گو‘‘ کی فطرت میں داخل ہے، نہ یہ ایرانیوں کی کوئی نسلی یا قومی خصوصیت ہے، نہ شعرائے ایران صرف بے وفا محبوبوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ نہ یہ بے وفائی اور ظلم رانی کا رونا بے بنیاد ہے۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ ایران کے وہ بے شمار شعراءجنہوں نے عشق و محبت کو موضوعِ سخن بنایا ہمیشہ محبوب کے جوروستم کے فریادی رہے۔ ممکن ہے کہ بعض شعرا کو جفا طینت اور ظلم سرشت محبوبوں سے سابقہ پڑا ہو لیکن یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آسکتی کہ عشاق کے اس جم غفیر میں دس بیس کو بھی محبت کا جواب محبت سے نہ ملا ہو۔ شعرائے ایران کی اس ظاہری بے اعتدالی بلکہ بے راہروی کا کوئی معقول سبب شاید آج تک بیان نہیں کیا گیا۔ مولانا شبلیؔ نے شعرالعجم میں اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، ’’عشق چونکہ تمام احساسات کو مشتعل اور تیز کردیتاہے اس لیے ہر چیز کا اثر عاشق پر زیادہ پڑتا ہے۔ عشق کا یہ تقاضا ہے کہ محبوب کے دیدار و گفتار سے کبھی سیری نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ محبوب دنیا کا تمام کاروبارچھوڑ کر آٹھ پہر عاشق کی نظر فروزی کرتارہے۔ اس لیے وہ عاشق کی آرزو بر نہیں لاسکتا۔ اب اگر وہ عاشق کے سامنے سے کسی وقت ہٹ جاتا ہے یا ہر وقت اس کو حاضری کا موقع نہیں دیتا یا اس کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکتا یا کبھی کسی اور سے مخاطب ہوجاتا ہے یا کوئی اور اس کی صحبت میں پہنچ جاتا ہے تو عاشق کو یہی باتیں بے وفائی، بدعہدی، بے رحمی، سخن سازی، رقیب نوازی کی صورت میں نظر آتی ہیں اور چونکہ عاشق کااحساس عام لوگوں کے احساس کی بہ نسبت زیادہ تیز ہوتا ہے اس لیے ہر وصف اپنے درجہ سے بہت بڑھ کر اس پر اثر کرتاہے۔ معشوق کی ایک ذرا سی بے التفاتی کو وہ ظلم و سفاکی کہتا ہے۔ اس بناپر ان خیالات کی تہ میں کچھ نہ کچھ واقعیت ضرور ہے۔‘‘ نفسیاتی نقطۂ نظر سے مولانا کی یہ تاویل توجہ کے قابل ضرور ہے اور اسے بالکل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن ظاہر ہے کہ یہ ہمارے معمہ کا صحیح حل نہیں۔ اس لیے کہ عشق و محبت کا جذبہ ہر ملک اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے، کچھ اہل ایران کے لیے مخصوص نہیں۔ پھر کیا سبب ہے کہ عشق و محبت نے دنیا کی کسی قوم کو ایرانی شعرا کی طرح متاثر نہیں کیا؟ ہر متمدن ملک میں شاعری کا چرچا رہا ہے، ہر مہذب قوم نے بہت سے ’’غزل سرا‘‘ پیدا کیے لیکن ان کے کلام میں اگر کہیں کہیں محبوب کی سرد مہری کاشکوہ ہے تو اکثر و بیشتر اس کی وفاپرستی اور عاشق نوازی کا ذکر بھی ہے۔ ایرانی شعرا کی طرح نہیں کہ چھ سو برس تک ہر شاعر یہی کہتا رہا کہ محبوب ظالم اور بے وفا ہے۔ آخر دوسرے ملکوں کے شعرا کے احساسات بھی عشق کی حرارت سے مشتعل اور تیز ہوجاتے تھے، پھر کیا سبب ہے کہ ان سب نے متفق اللفظ ہوکر محبوب کی بے وفائی اور ستم رانی کا شکوہ نہیں کیا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں ایران کے سوا کسی قوم کے لٹریچر سے کوئی ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ تقریباً بلااستثناء ہر شاعر کا محبوب چنگیز اور نیروؔ کا جانشیں یعنی جور و ستم کا پتلا نظر آتا ہے۔ اردو بیچاری تو اس معاملہ میں کسی شمار ہی میں نہیں کیونکہ اس نے تو آنکھیں بند کرکے فارسی کاتتبع کیا ہے۔ ہاں اردو کے علاوہ اگر اورکوئی مثال ایسی مل جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں بھی وہی اسباب کارفرماتھے جن کی بناپر ایران کی شاعری نے یہ بظاہر غیرفطری روش اختیار کی۔ مولانا شبلیؔ کے نزدیک ایرانیوں کے ان خیالات میں واقعیت صرف اتنی ہے کہ حرارتِ عشق سے احساسات مشتعل اور تیز ہوجانے کی بناپر شاعر اپنے محبوب کی ذرا سی بے التفاتی کو بھی ظلم اور سفاکی سمجھتا تھا۔ یعنی محبوب کاایسا برتاؤ جو ایک بالکل معمولی اور قدرتی بات تھی اور جو دوسروں کی نظر میں کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ٹھہر سکتا۔ عاشق کو اپنی شدتِ احساس کی بناپر جور و ستم اور بے وفائی دکھائی دیتا تھا۔ بالفاظ دیگر اس کے یہ معنی ہوئے کہ خطا خود عاشق کی تھی معشوق کی نہیں اور محبوب کی جو ظلم رانی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ محض بے بنیاد ہیں۔ مولانا کا یہ قیاس بھی درست نہیں۔ تاریخی شواہد اس کے خلاف ہیں۔ درحقیقت یہ معمہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک اس دور کی ایرانی سوسائٹی کی اخلاقی حالت کا ہمیں صحیح طور پر اندازہ نہ ہو۔ ۳۸۷ھ بمطابق ۹۹۷ء میں سلطان محمود غزنوی نے جس وقت تاج شاہی سر پر رکھا امرد پرستی کی وبا ایران میں اچھی طرح پھیل چکی تھی۔ اس کے اسباب بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ کسی دوسری صحبت میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ سلطان محمود اور ایازؔ کی محبت کا افسانہ غالباً سلطان کے اکثر کارناموں سے زیادہ مشہور ہے۔ ایازؔ ایک ترک غلام تھا اور نظامی عروضی کے قول کے مطابق کچھ ایسا غیرمعمولی حسین بھی نہ تھا لیکن اندھے کیوپڈ کے تیر ہمیشہ اسی طرح چلتے ہیں۔ بہرحال اس واقعہ سے امرد پرستی کے مکروہ ذوق کو یقیناً تقویت پہنچی ہوگی۔ ’’النّاس علیٰ دینِ ملوکہم۔‘‘ بادشاہ اور وہ بھی محمود غزنوی جیسا جلیل القدر بادشاہ جس چیز کا دلدادہ ہو، اُمرائے دربار اور عوام الناس میں اس کی مقبولیت ایک قدرتی بات ہے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ، ہر عیب کہ سلطاں بہ پسندد ہنر است ملک الشعرا سلطانی، عنصرؔی نے ایک قصیدے میں جی کھول کے دربارِ محمودی کے غلامانِ سیمیں تن کی تعریف کی ہے۔ ہم یہاں صرف دو شعر نقل کرتے ہیں، ازایشاں ہریکے چوں روز روشن زتیرہ شب نہادہ برسر افسر ان میں سے ہر ایک روز وشن کی مانند کالی رات (یعنی زلفِ سیاہ) کا تاج سر پر رکھے ہوئے تھا چو بینی خدِّایشاں را تو گوئی ہمی شمشاد دیدی بر معصفر تم ان کے رخسار دیکھو تو کہو کہ کسنبھ پرشمشاد لپٹا ہوا ہے انسان اپنے نفس کی کمزوری کے باعث بعض اوقات ایسے افعال کا مرتکب ہوتا ہے جو قانونِ اخلاق کی رو سے جرم و گناہ کا مرتبہ رکھتی ہیں مگر وہ برائی کو بہرحال برائی سمجھتا ہے اسی لیے ہمیشہ انہیں دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن چوتھی صدی ہجری میں امرد پرستی کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی تھی اسی لیے اس کا اعلان بھی قابل اعتراض نہ تھا۔ چنانچہ محمودی شعرا قصائد میں سلطان اور ایازؔ کی محبت کا ذکر کرتے تھے۔ جب ایازؔ کے سبزہ کاآغاز ہوا تو خود سلطان محمود کی فرمائش سے فردوسیؔ نے خطِ ایازؔ کی تعریف میں یہ رباعی کہی، مست است ہمی چشم تو و تیر بدست بس کس کہ زتیرِ چشم مستِ تو نجست تیری آنکھ مست ہے اور ہاتھ میں تیر لیے ہوئے کم ہی لوگ ایسے ہیں جو تیری چشم مست کے تیر سے بچے ہوں۔ گرپوشد عارضت زرہ عذرش ہست کز تیربترسد ہمہ کس خاصہ زمست اگرتیرا رخسار زرہ پہن لے تو اسے معذور سمجھنا چاہیے کیونکہ تیر سے ہرشخص ڈرتا ہے خصوصاً مست سے فرخیؔ اور دوسرے شعرا نے بھی ایازؔ کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے۔ سلجوقیوں کے دور میں یہ آگ اور بھی تیز ہوگئی۔ سلطان سنجر کی امرد پرستی کے قصے تاریخوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ ’’ملک شاہ سلجوقی نے جب سمرقند فتح کیا تو دربار کے ملک الشعرا امیر معزیؔ نے قصیدہ پیش کیا جس میں فوج کی حملہ آوری اور معرکہ آرائی کا حال لکھا ہے۔ اس میں جہاں سپاہیوں کی تصویر کھینچی ہے اس طرح کھینچی ہے، یکے بساعد سیمیں دروں فگندہ کمان یکے بہ سنبلِ مشکیں دروں کشیدہ سپر یکے شگوفہ و سوسن گرفتہ در جوشن یکے بنفشد و عنبر نہفتہ در مغفر ابوالمعالی رازی ایک قصیدے میں بارگاہِ سلطان مسعود سلجوقی کی تعریف کرتے ہوئے سلطان کے غلاموں کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتاہے، یارب ایں بچہ ترکاں چہ بتا نندکہ ہست دیدۂ مردم نظار از یشاں چو بہار خدا یا یہ ترک بچے کیا قیامت ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھوں میں بہار چھاجاتی ہے۔ نظرِ زہرہ دمریخ بہم یافتہ اند کہ ہمہ رود نواز ند و ہمہ تیغ گزار سب نے زہرہ و مریخ سے فیض پایا ہے۔ جبھی تو یہ سب رود نواز اور شمشیرزن ہیں۔ بگہ رزم ندانند بجز اسپ و سلاح بگہ بزم نداند بجز بوس و کنار جنگ کے وقت گھوڑے اور ہتھیار کے سوا اور کسی چیز سے واقف نہیں اور بزم میں بوس و کنار کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ منم آنکس کہ ہم سالہ دریں اندوہم کہ ازیناں صنمے بینم اندو گسار میں سال بھر سے اس فکر میں ہوں کہ ان میں سے ایک غم گسار معشوق مجھے مل جائے۔ حکیم سنائی (متوفی ۵۹۰ھ) جو اسی دور کے آدمی ہیں، لکھتے ہیں کہ، خادماں راز بہرِ آن بخرند تابر خسار شاں ہمی نگرند لوگ اس لیے غلام خریدتے ہیں کہ ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔ متقدمین، متوسطین، اور متاخرین میں سے ہر گروہ کے شعرا کا کلام صراحتاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ امرد پرستی سارے ایران میں ایک وبا کی طرح پھیل گئی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلاطین، امرا، علما، صوفیا، شعرا سبھی اس بلا میں مبتلا تھے۔ ہم نے اپنے مضمون ’’ایران کی امرد پرستی کا اثر اردو شاعری پر‘‘ مطبوعہ ساقی میں ایران کے متعدد و مشہور شعرا کے ایسے اشعار پیش کیے تھے جن سے ان بزرگوں کی شاہد پرستی پر روشنی پڑتی تھی۔ یہ اندرونی شہادتیں اگرچہ کسی بیرونی تائید کی محتاج نہیں لیکن بعض خوش عقیدہ حضرات کی ان روشن دلیلوں سے تشفی نہ ہوئی۔ لہٰذا اب ہم صرف ایسے شعراکا ذکر کرتے ہیں جن کی امرد پرستی صرف ان کے کلام ہی سے نہیں بلکہ تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ دقیقی: وہی دقیقیؔ جس نے شاہنامہ کا سنگِ بنیاد رکھا اور جس کے ایک ہزار اشعار شاہنامہ میں موجود ہیں، ایک ترک غلام کے ہاتھ سے، جو اس کا معشوق بھی تھا، قتل ہوا۔ ا س کے دو شعر بھی سن لیجیے، لشکر برفت و آن بتِ لشکر شکن برفت ہرگز مباد کس کہ دہد دل بہ لشکری لشکر چلا گیا اور وہ بتِ لشکر شکن بھی چلا گیا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی لشکری پر عاشق ہو۔ دانی کہ دلِ من کہ فگندست بتاراج آں دو خطِ مشکیں کہ پدید آمدہ از عاج کچھ تمہیں معلوم ہے کہ میرا دل کس نے لوٹ لیا؟ اس خطِ مشکیں نے جو عاج یعنی ہاتھی دانت جیسے دونوں رخساروں پر نمودار ہوا ہے۔ علی باخرزی: ابوالحسن علی نام، زبردست فاضل تھے، جوانی میں رکن الدولہ طغرل بیگ سلجوقی کے دربار میں کاتب کے معزز عہدے پر مامور تھے۔ آخر اپنی خوشی سے ملازمت سے دست کش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کی۔ پیوندؔ نامی ایک صاحبِ جمال ترک پر عاشق ہوگئے تھے۔ انجام کار اسی کے ہاتھوں ۴۶۸ھ میں قتل ہوئے۔ جس وقت پتھر کے نیچے آپ کے ہاتھ کو دباکر تلوار سے بری طرح آپ کو زخمی کیا گیا اس وقت آپ نے یہ رباعی کہی، سن می بروم، بیامرا سیر بہ بیں دیں حالِ بصد ہزارتغییر بہ بیں سنگے زبرد دستِ من از زیر ببیں ازیار بُریدنی بہ شمشیر بہ بیں امین احمد رازیؔ، صاحب تذکرۂ ہفت اقلیم کا بیان ہے کہ آپ والی ابخاز مسمی بہ ماہ پرفریفتہ ہوگئے تھے۔ حاسدوں نے آپ کو قتل کرڈالا۔ بہرحال جس نے بھی قتل کیا ہو غایت ایک ہی ہے۔ ادھم کاشی: کاشان کے نامور شعرا میں آپ کا شمار ہے۔ صاحبِ دیوان ہیں۔ عمر کا زیادہ حصہ بغداد اور تبریز میں بسر کیا۔ فرماتے ہیں، خط سبزت کہ آیتِ خوبی است آئیے در نہایت خوبی است تیرا خطِ سبز حسن کی نشانی ہے۔ اور بہت خوب نشانی ہے۔ جس زمانے میں آپ کا قیام تبریز ؔمیں تھا آپ ایک خوبرو نوجوان پر فریفتہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت کسی کوچہ میں اس سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس جوان نے غرورِ حسن میں آپ کے ایک کاری ضرب لگائی کہ آپ کا کام تمام ہوگیا۔ حالتِ نزع میں آپ نے یہ رباعی کہی، دوشینہ سحر یتیم تبریزی من آمد بسرِ راہ بخوں ریزیِ من رات پچھلے پہر میرا طرّار تبریزی میرا خوں بہانے کے لیے راستہ میں آیا عریاں زلباس عاریت ساخت مرا ایس بود نتیجہ سحر خیزیِ من اس نے لباسِ زندگی مجھ سے چھین لیا۔ میری سحر خیزی کا یہ نتیجہ ہوا۔ جفائی استرابادی: شہزادہ سام میرزا، صاحب تحفۂ سامی کا معاصر تھا۔ سام میرزا نے لکھا ہے کہ شخص بڑا طرار اور ’’عاشق پیشہ‘‘ تھا۔ راتوں کوگھوما کرتا تھا۔ ایک دن کہیں رقیب سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا لڑائی ٹھن گئی۔ دونوں تلواریں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے۔ آخر دونوں مارے گئے۔ یہ مطلع اس کی یادگار ہے۔ نہ محرمے کہ بگوید بیار حال مرا نہ ہمدمے کہ زخاطر بروملال مرا واضح ہو کہ سام میزرا نے تحفۂ سامی میں جہاں کہیں لفظ ’’عاشق پیشہ‘‘ استعمال کیا ہے ’’شاہدایاز‘‘ یا بالفاظ دیگر ’’امرد پرست‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ اس عہد میں ’’عاشق پیشہ‘‘ کااطلاق انہیں لوگوں پر ہوتا تھا جو جوانانِ خوبرو کے ساتھ عشق بازی کرتے تھے۔ شوکتی اصفہانی: محمد ابراہیم نام، صاحبِ آتش کدہ کا بیان ہے کہ یہ شخص بڑھاپے میں بھی جملہ مناہی کامرتکب ہوتا تھا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ جب ہندوستان گیا تو ایک لڑکے پر دست درازی کی، اس نے قتل کردیا۔ یہ شعر اس کا ہے اور خوب ہے۔ شمع و گل و پروانہ و بلبل ہمہ جمع اند اے دوست بیارحم بہ تنہائی ماکن شمع اور پروانہ، گل اور بلبل سب یکجا ہیں اے دوست! میری تنہائی پر رحم کھا اور تو بھی آجا امردپرستی کا یہ سیلاب جتناآگے بڑھتا گیا، پرزور ہوتا گیا۔ چنانچہ سلجوقی دور میں یہ عالم تھا کہ عارف و عامی سب اس کی رَو میں بہے چلے جاتے تھے۔ اس دور کے اکثر ممتاز اور نامور شعرا اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف چند واقعات نقل کرتے ہیں، اوحد الدین کرمانی۔ (متوفی ۵۳۶ھ) اکابر صوفیہ میں آپ کا شمار ہے۔ شیخ محی الدین عربی کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ سید حسینی سادات، اوحدی مراغی اور فخرالدین عراقی جیسے بزرگوں نے آپ کے چلہ خانہ میں چلے کھینچے۔ خوبرویوں سے آپ کو بہت زیادہ دلبستگی تھی اور جس وقت محبت جوش زن ہوتی تھی تو کسی خوبرو کو اپنے سینہ سے چمٹالیتے تھے تب کہیں جاکر دل تسکین پاتا تھا۔ جس وقت آپ بغداد تشریف لے گئے تو خلیفہ کے بیٹے نے جو بہت خوبصورت تھا آپ سے ملنا چاہا۔ لوگوں نے کہا کہ ان کاتو یہ طریقہ ہے کہ کسی حسین کو دیکھتے ہیں تو سینہ سے چمٹا لیتے ہیں۔ خلیفہ زادہ نے کہا کہ اگر میرے ساتھ یہ حرکت کی تو میں اسے قتل کرڈالوں گا۔ وہ صوفی نہیں کافر ہے، ملحد ہے، بدعتی ہے۔ الغرض وہ شیخ کے یہاں پہنچا۔ آپ بذریعہ کشف خلیفہ زادہ کے ارادے سے مطلع ہوچکے تھے۔ آپ نے یہ رباعی پڑھی، سہل است مرا برسرِ خنجر بودن درپائے مرادِ دوست بے سربودن خنجر پر گلا رکھ دینا اور دوست کی آرزو کے مطابق قتل ہوجانا میرے لیے سہل ہے، تو آمدۂ کہ کافرے را بہ کشی غازی چوتوئی رواست کافر بودن تم ایک کافر کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہو۔ جب تم غازی ہو تو کافر ہوناجائز ہے۔ یہ رباعی سن کر خلیفہ زادہ شیخ کے پاک باطن کا قائل ہوا اور آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگیا۔ مثنوی مصباح الارواح آپ کی گراں پایہ تصنیف ہے۔ سوزنی سمرقندی: متوفی ۵۶۲ھ یا ۵۶۵ھ۔ ہزل گوئی اور ہجونگاری میں شہرۂ آفاق ہے۔ آخر عمر میں توبہ کی اور حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوا۔ اس کا ایک واقعہ اسی کی زبان سے سنیے، گفتا پدرم می نگرد، دورشواز من آخر بہ پدر ہست حمیت بہ پسر بر اس نے مجھ سے کہا کہ دور ہو، میرا باپ دیکھ رہا ہے۔ آخر باپ کو بیٹے کی غیرت ہوتی ہے۔ گفتم کہ خدایا سببے ساز بزودی کایں ماہِ شکر خندہ بگرید بہ پدربر میں نے کہا اے اللہ جلد کوئی ایسی صورت پیدا کردے کہ اس ماہ رو کا باپ مرجائے۔ صاحب مجمع الفصحا کابیان ہے کہ جوانی میں سوزنی ایک درزی کے لڑکے پر عاشق ہوگیا اور اس کی محبت میں درزی کاپیشہ اختیارکیا۔ بعدازاں جب اس کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی تو سوزنی تخلص اختیار کیا۔ مجیر بیلقانی: متوفی ۵۷۲ھ، صاحبِ آتش کدہ کا بیان ہے کہ لڑکپن میں شروان پہنچ کر خاقانی کی خدمت میں رہنے لگا۔ خاقانی نے اسے بیٹا بنالیا۔ مجیر نے خاقانی کی مدح میں قصائد بھی کہے ہیں۔ انجام کار خاقانیؔ کے ایک رشتہ دار پر عاشق ہو گیا۔ بربنائے غیرت خاقانی عاشق و معشوق کے درمیان جدائی کا باعث ہوا۔ آزارِ فراق نے مجیر کی جان پر بنادی۔ قریب تھا کہ عذاب مفارقت اس کاخاتمہ کردے۔ خاقانی کو اس کی زبوں حالی پر ترس آگیا اور اس کے محبوب کو اس کی عیادت کے لیے بھیج دیا۔ محبوب نے اپنے بیمار کا سر اپنے زانو پر رکھ کر بہت کچھ اظہارِ نوازش کیا۔ آخر مجیرؔ اچھا ہوگیا اور دوبارہ زندگی پائی۔ مگر اب اس کے لیے شروان میں ٹھہرنا محال تھا، ناچار تبریز کا رخ کیا۔ خاقانی سے بگڑ گئی۔ فخر گرگانی: فخر الدین اسعد نام، اپنے زمانے کے مشہور فضلا اور شعرا میں آپ کا شمار ہے۔ سلطان محمد بن محمود سلجوقی کے مداح تھے۔ مثنوی ’’دیس درامین‘‘ آپ ہی کی تصنیف ہے۔ آپ سلطان کے ایک غلام پر عاشق ہوگئے تھے۔ سلطان کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے ایک رات کو مے خواری کی مجلس میں آپ کو اس غلام کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا۔ آپ نے سلطان کے احترام اور اپنی پاک دامنی کا پاس کرتے ہوئے غلام کواسی بے خودی کی حالت میں کمرہ میں سلا دیا او راس کے سرہانے اور پائینتی کئی شمعیں روشن کرکے خود باہر چلے آئے اور ایک گوشے میں بیٹھ کر اپنے دردِدل میں مشغول ہوگئے۔ اتفاقاً غلام نے سوتے میں حرکت کی۔ ایک شمع گرپڑی جس سے بستر میں آگ لگ گئی اور رفتہ رفتہ فرش، بستر، مکان اور غلام سب کو جلاکر راکھ کا ڈھیر کردیا۔ اس المناک سانحہ نے آپ کا دل توڑ دیا اور آپ بادشاہی ملازمت سے دست کش ہوگئے۔ اشرفی سمرقندی: متوفی ۵۹۵ھ۔ سید معین الدین نام۔ آپ سمرقند کے سادات رفیع الدرجات میں سے تھے۔ رضاقلی خاں ہدایتؔ نے آپ کو ’’اعلمِ علما ء و افضل فضلائے زمانِ خود‘‘ لکھا ہے۔ صاحبِ آتش کدہ کے بیان کے مطابق ایک مدت تک امورِ شرعیہ کا انتظام آپ کے سپرد کردیا۔ آپ کی وفات کے بعد حکام و سلاطین نے آپ کے قوانین و ضوابط کو اپنا دستور العمل بنایا۔ بیغو ملک شاہ کے عہد میں آپ کچھ دنوں کے لیے ہرات تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ایک امیرزادہ پر عاشق ہوگئے۔ ایک دن آپ چند احباب اور اپنے معشوق کے ساتھ باغ کی سیر کو تشریف لے گئے۔ وہاں ہر قسم کی باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ جسم و روح کی الفت کامسئلہ چھڑا۔ سید صاحب نے فرمایا کہ ارواح کا ربط ازلی دنیوی اختلاط کاباعث ہوتاہے۔ اتنے میں ایک قمری نے جو سروکی شاخ پر بیٹھی ہوئی تھی دردناک آواز سے کُو کُو کرنا شروع کیا۔ سید صاحب کے معشوق نے پوچھا کہ اگر یہ قمری سرو پر عاشق ہے تو اس کامحبوب اس کے پاس موجود ہے، پھر فریاد کیوں کر رہا ہے اور اگر سرو پر عاشق نہیں ہے تو پھراس کا معشوق کون ہے۔ اور اگر عشق سے بے بہرہ ہے تو اس کی یہ دردناک آواز دل پر اثر کیوں کرتی ہے۔ سید صاحب نے فرمایا کہ زمانۂ فراق کی وجہ سے فریاد کرتی ہے۔ معشوق یہ سن کر ہنس دیا اور غلیل اٹھاکر اس بیچاری قمری کو نشانہ بنایا۔ قمری مرکر سرو کے نیچے گرپڑی۔ سید صاحب یہ حال دیکھ کر غصہ سے بیتاب ہوگئے۔ اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ جو شخص بلاوجہ ایک بے گناہ پرندے کی جان لیتا ہے وہ دوستی کے لائق نہیں۔ معشوق نے بہت کچھ معذرت کی مگر کچھ نتیجہ نہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ وہ معشوق تھوڑے دنوں بعد کہیں سفر میں گیا۔ راہزنوں نے اسے تیر کا نشانہ بنایا۔ آپ کا ایک شعر بھی سن لیجیے، خواہم کہ فراواں بکشم بار جفایش لیکن نہ تو انم کہ زتن بردہ تواں را میں تو اس کا ظلم بہت کچھ سہنا چاہتاہوں مگر کیا کروں اس نے تو میرے جسم کی قوت ہی سلب کرلی۔ ظہیر فاریابی: متوفی ۵۹۸ھ۔ وہی ظہیر فاریابی جس کے کلام کی تعریف میں یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے، دیوانِ ظہیر فاریابی درکعبہ بدز داگر بیابی وہی ظہیرؔ فاریابی جسے بعض لوگوں نے پیغمبری سخن انوریؔ پر ترجیح دی ہے۔ مدتوں جو انانِ لشکر لب کی محبت میں سرگرداں رہا اوررقیبوں کے ہاتھوں بڑی بڑی اذیتیں سہیں۔ کہتا ہے، طفل شوخے بردہ از کف اختیارم اے ظہیرؔ در ہوائے عشق او درکہنہ سالی میردم رضی: مولانا رضی الدین نیشاپوری، مداحِ ارسلاں بن طغرل بیگ سلجوقی۔ ایک دفعہ آپ ایک نوجوان تاجر پر عاشق ہوگئے اور ہر وقت اس کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور سفر میں بھی اس کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اثنائے سفر میں آپ بیمار ہوگئے۔ قافلہ ایک ہولناک بیابان میں سے گزر رہا تھا۔ آپ کے معشوق اور دوسرے لوگوں نے جب آپ کو قریب مرگ پایا تو آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر آپ کو وہیں بیابان میں چھوڑ کر چل دیے۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو خود کو تنہا پایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ شدتِ عصیاں کے باعث خدا سے طلب رحمت کی بھی ہمت نہیں پڑتی لیکن وہ تو غفور رحیم ہے۔ بس اشکِ ندامت میری آنکھوں سے جاری ہوگئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ نورانی صورت ظاہر ہوئے او رمجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے۔ میں نے کہا بیمار ہوں، تنہا ہوں اور وطن سے دور۔ فرمایا معشوقِ حقیقی سے دل لگاکہ کبھی تنہا نہ رہے۔ یہ کہہ کر غائب ہوگئے۔ میری بیماری زائل ہوچکی تھی۔ میں اٹھ کر روانہ ہوا اور تھوڑے ہی فاصلہ پر قافلہ سے جاملا۔ مجھے صحیح و سالم دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ میں نے کسی کی طرف التفات نہ کیا اور حجاز کو روانہ ہوگیا۔ یہ رباعی آپ کی تصنیف ہے۔ ہر نیم شبے دردِ تو بیدار کند واندیشہ تو دردلِ من کارکند تیرا درد آدھی رات کو مجھے بیدار کردیتا ہے اور تیرا خیال میرے دل پر چھاجاتا ہے۔ رحم آرکہ دردِ دل من، می ترسم روزے بہ چنیں شبت گرفتار کند مجھ پر رحم کر، مجھے ڈر ہے کہ میرا دردِدل کہیں ایک دن تجھے بھی ایسی ہی رات سے دوچار نہ کردے۔ یہ چھٹی صدی ہجری کے واقعات ہیں لیکن جس وقت ہم ساتویں صدی میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں طرف امرد پرستی کے شور انگیز طوفان کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس دور کی سوسائٹی کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرنا ہوتو گلستاں کاباب پنجم پڑھ لینا کافی ہے۔ شیخ سعدیؔ کے علم و فضل اور تقدس و بزرگی سے انکار نہیں لیکن سوسائٹی کے اثر سے بچنا ان کے لیے بھی ممکن نہ ہوا۔ گلستاں کے پانچویں باب میں عشق و جوانی کے متعلق بیس حکایتیں لکھی ہیں جن میں سے پندرہ میں خود اپنی اور دوسروں کی امرد پرستی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اور یہ امرد پرست کون لوگ ہیں؟ کوئی عالمِ دانشمند، کوئی شیخِ پارسا، کوئی معلمِ مدرسہ، کوئی خواجہ ذی مرتبت، کوئی قاضی شہر۔ قاضی ہمدان کی حکایت خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ بزرگ ایک نعلبند کے لڑکے پر عاشق ہوگئے تھے۔ آخر جب اس کے ساتھ خلوت میں پکڑے گئے اور بادشاہ نے آپ کو سزا دینی چاہی اور کہا کہ ’’میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تجھے قلعہ پر سے نیچے گرا دیا جائے تاکہ تو ہلاک ہوجائے اور لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں۔‘‘ قاضی نے جواب دیا کہ ’’اے خداوندِ جہاں! یہ جرم دنیا میں تنہا میں نے ہی نہیں کیا ہے۔ کسی اور کو گرادیجیے تاکہ میں اس سے عبرت حاصل کروں۔‘‘ بات سچی تھی۔ بادشاہ کو ہنسی آگئی اور قاضی کو معاف کردیا۔ درحقیقت ایک قاضی ہمدانؔ نہیں، خدا جانے کتنے قاضی اور مفتی، فقیہہ اور مدرس، عالم اور صوفی یہ خطرناک کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اسی کے متعلق شیخ سعدیؔ نے کہا ہے کہ، گرد ہے نشینند باخوش پسر کہ ماپاکبازیم و اہلِ نظر لوگ ایک خوبرو چھوکرے کے گرد جمع ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو پاکباز اور اہلِ نظر ہیں۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں، محتسب درفقائے رندان است غافل ازصوفیانِ شاہد باز محتسب رندوں کے پیچھے پھرتا ہے لیکن شاہد باز صوفیوں کی اسے خبر نہیں کہ وہ کس رنگ میں ہیں۔ خود شیخ سعدیؔ علم و فضل اور تقدس و بزرگی میں کس سے کم تھے مگر کاشغر کی جامع مسجد میں بھی نہیں چوکتے۔ ایک خوبرو چھوکرے کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے ہیں کہ، اے دلِ عشاق بدامِ توصید مابتو مشغول و تو باعمر وزید تبریز کے حمام میں ہمامؔ تبریزی کے خوبصورت لڑکے کو گھورنے کے لیے پہنچتے ہیں۔ ہمامؔ انہیں دیکھ کر بیٹے کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔ آپ ہمامؔ کا یہ شعر پڑھتے ہیں، درمیانِ من و معشوق حجاب است ہمام دارم اُمید کہ آں ہم زمیاں برخیزد درحقیقت امرد پرستی کا زہر ان بزرگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا تھا۔ زبان سے جو کچھ نکلتا تھا وہ اسی جذبے کی ترجمانی کرتاتھا۔ خیر یہ تو پھر بھی معمولی باتیں ہیں۔ شیخ نے گلستان میں اپنے متعلق جو واقعات لکھے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد یہ مان لینا پڑتا ہے کہ امرد پرستی اس زمانے کے فیشن میں داخل تھی۔ خواجہ حافظؔ اس بارے میں بہت خوش قسمت تھے کہ جی کھول کر مے پرستی اور شاہد بازی کی داد دینے کے باوجود آج ملامتِ خلق سے محفوظ ہیں۔ ان کی آلودہ دامنی کے ہم بھی قائل نہیں لیکن انہوں نے اپنے متعلق خود جو کچھ کہا ہے اس کا یقین نہ کرنا بھی ہمارے نزدیک ان پر دروغ گوئی کی تہمت لگانا ہے۔ خدا بھلاکرے دیوانِ حافظؔ کے خوش اعتقاد شارحین اور حاشیہ نگاروں کا جنہوں نے حافظؔ کے ہر شعرکو ایک معمہ اور چبستاں بنادیا۔ ان کے نزدیک خواجہ حافظؔ نے جو کچھ کہا ہے وہ استعارہ کے پیرائے میں ’’حقیقت‘‘ کا بیان ہے۔ ’’مجاز‘‘ سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ حافظؔ کی ہر شراب معرفتِ الٰہی ہے۔ حافظؔ کامعشوق یا ذاتِ باری ہے یا پیرِ روشن ضمیر۔ خواجہ صاحب کی بادہ نوشی کے متعلق بحث کایہ محل نہیں، ہاں ان کی شاہد بازی یا بالفاظِ دیگر امرد پرستی کے متعلق چند شعر نقل کردینا بے محل نہ ہوگا۔ فرماتے ہیں، یارب ایں بچہ ترکاں چہ دلیر اند بخوں کہ بہ تیرِ مژہ ہر لحظہ شکارے گیرند خدایا یہ تُرک بچے خون بہانے میں کیسے دلیر ہیں کہ ہر لحظہ پلکوں کے تیر سے ایک شکار مار لیتے ہیں۔ آخر کون ہیں یہ ترک بچے؟ خدا تو یقیناً نہیں۔ کیونکہ خود خدا ہی سے ان کے متعلق استفسار کیا جارہا ہے۔ اب رہ گئے مرشدانِ طریقت تو انہیں بھی ترک بچے کہنا شارحین کے نزدیک جائز ہو تو ہو خواجہ صاحب جیسے اندازہ دانِ ادب اور خوش ذوق انسان سے اس قسم کی جاہلانہ گستاخی کی توقع ہرگزنہیں کی جاسکتی۔ گرآں شیریں پسر خونم بریزد دلاچوں شیر مادر کن حلالش اگر وہ خوبرو چھوکرا میرا خون بہائے تو اے دل تو اُسے ماں کے دودھ کی طرح حلال کردے۔ اے نازنیں پسر! تو چہ مذہب گرفتۂ کت خونِ ماحلال ترازخونِ مادراست اے نازنین لڑکے! آخر تونے کون سا مذہب اختیار کیا ہے کہ تیرے نزدیک ہمارا خون ماں کے دودھ سے زیادہ حلال ہے۔ کیا ارشاد ہوتا ہے اس ’’شیریں پسر‘‘ اور ’’نازنین پسر‘‘ کے بارے میں؟ یہ پیر صاحب ہیں یا اللہ صاحب؟ عمر بگزشت بہ بے حاصلی و بوالہوسی اے پسر جامِ میم وہ کہ بہ پیری برسی بوالہوسی اور ہرزہ سرائی میں ایک عمر گزرگئی۔ اے چھوکرے مجھے جامِ شراب دے۔ خدا تیری عمر دراز کرے۔ مائیم و غمِ عشق جوانے وخیالے وزماہِ رخش گشتہ تنم ہمچوہلالے ہم ہیں اور ایک جوان کاعشق۔ اس کے چاند جیسے مکھڑے نے مجھے ہلال کی طرح خمیدہ کردیا۔ دلبرم شاہد و طفل است، ببازی روزے بکشزارم و درشرع نباشد گنہش میرا معشوق ایک کمسن چھوکرا ہے۔ کسی دن کھیل کھیل میں وہ مجھے مار ڈالے گا اور ازروئے شرع اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ صنمِ لشکریم غارت دل کردہ برفت آہ اگر عاطف شاہ نگیر دوستم معشوق لشکری میرا دل لوٹ کر چلتا ہوا۔ اگر بادشاہ کی عنایت نے میری دستگیری نہ کی تو قیامت ہوگی۔ عاشق روئے جوانے خوش و نوخاستہ ام وزخدا صحبتِ اورابدعا خواستہ ام ایک خوبصورت کمسن چھوکرے پر میں عاشق ہوں۔ خدا سے دعاکرتا ہوں کہ اس کا وصل نصیب ہوجائے۔ من آدمِ بہشتی ام امادریں سفر حالی اسیر عشقِ جوانانِ مہ وشم اصلاً میں بہشتی ہوں لیکن اس سفر (یعنی دنیا میں ) جوانانِ ماہ وش کے عشق میں گرفتار ہوں۔ یارب تو آں جوانِ دلاور نگاہ دار کزتیرِ آہِ گوشہ نشیناں حذرنہ کرد حافظا! وعظ و نصیحت گو مکن ترکِ ترکانِ خطا نہ بود صواب چند بناز پرورم مہر بتانِ سنگدل یاد پدرنمی کنندایں پسرانِ ناخلف بخوفِ طوالت ہم نے صرف چند ہی شعر نقل کیے ہیں ورنہ خواجہ صاحب کے دیوان میں درجنوں اشعارایسے موجود ہیں جن میں ’’نازنین پسر‘‘ سے محبت کا ذکر ہے۔ اس قسم کے اشعار کی کوئی معقول تاویل نہیں کی جاسکتی اور سچ پوچھیے تو کسی تاویل کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ خواجہ صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ کوئی دنیا سے نرالا کام نہیں کیا۔ اس زمانے میں جو سب کہتے تھے وہی انہوں نے بھی کہا۔ جو سب کرتے تھے وہی انہوں نے بھی کیا۔ اس قسم کے اشعار ہر شاعر کے دیوان میں مل جائیں گے لیکن اس مضمون میں ہم نے اندرونی شہادتوں سے بحث نہیں کی ہے لہٰذا بلاستثنائے خواجہ حافظؔ صرف ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی شاہد بازی کا کوئی واقعہ کسی تاریخ یا تذکرہ میں مسطور ہے۔ باقی حضرات کو نظرانداز کردیا ہے۔ اس اصول کی بناپر خواجہ حافظؔ کا تذکرہ اس مضمون میں نہ ہونا چاہیے تھا لیکن خواجہ صاحب کو اپنی عالمگیر شہرت کے باعث چونکہ غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اس لیے ان کا ذکر ضروری سمجھا تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ خواجہ حافظؔ جیسے بزرگوار پر بھی اس زمانے کی سوسائٹی کا کتنااثر تھا۔ بابا افضل کاشی: معاصر سعدیؔ، آپ ایک جید فاضل اور بلند پایہ عارف تھے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے آپ کی شان میں یہ قطعہ کہا ہے، گر عرض دہد سپہر اعلیٰ فضل فضلا و فضلِ افضلؔ اگر آسمان باباافضلؔ اور دوسرے فضلا کی فضیلت پیش کرے، ازہر ملکے بجائے تسبیح آواز آید کہ افضلؔ افضل تو ہر فرشتہ اپنی تسبیح کے بجائے یہ کہے کہ بابا افضل سب سے افضل ہے۔ آپ ہی کے پاسِ خاطر سے خواجہ نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خاں سے سفارش کی تھی جس کی بدولت فتنۂ مغول کے زمانہ میں کاشان اور اس کے نواحی تخت و تاراج سے محفوظ رہے۔ کئی رسالے جو بقول لطف علی بیگ آذر ’’کلیدِ مخزنِ علوم‘‘ ہیں، آپ کی تصنیف ہیں۔ آپ ایک درزی کے لڑکے پر عاشق ہوگئے تھے اور تین برس تک آپ کا یہ معمول رہا کہ اکثر اوقات اپنے معشوق کی دکان کے برابر کے دروازے میں بیٹھے خیالِ محبوب میں غرق رہاکرتے تھے۔ اِدھر ادبِ عشق اور اُدھر حجابِ حسن مانع تھا اس لیے عاشق و معشوق کے درمیان کبھی گفتگو کی نوبت نہ آتی تھی۔ آخر ایک دن آپ اپنے محبوب کی دکان پر گئے وہ دکان پر موجود نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ چند خوبرو نوجوان کے ساتھ باغ کی سیر کو گیا ہے۔ آپ بھی پوشیدہ طور پر وہاں پہنچے اورایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر ان خوبرویوں کے نظارۂ جمال میں مصروف ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے چاہنے والے کا حال سنا رہاتھا۔ آپ کے معشوق نے کہا کہ تین برس سے ایک شخص ہماری دکان کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ مجھ پر عاشق ہے لیکن میں نے کبھی اس سے بات نہیں کی۔ اس لیے کہ جس وقت میں کپڑا پھاڑتا ہوں تو اس میں سے الفراق الفراق کی آواز آتی ہے۔ چونکہ ہروصال کاانجام فراق ہے اور رنجِ فراق جانکاہ ہوتا ہے اس لیے میں نے گوارانہیں کیا کہ وہ اس عذاب میں مبتلا ہو۔ اسی وجہ سے میں بظاہر اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ بابا افضلؔ نے یہ بات سنتے ہی ایک آہ کانعرہ مارا اور بے ہوش ہوگئے۔ سب لڑکے آپ کے پاس پہنچے اورآپ کو پہچان لیا اور آپ کا معشوق بھی آپ کے قدموں میں گرپڑا اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگیا۔ یہی واقعہ آپ کے ترک و تجرید کاباعث ہوا۔ آپ زیادہ تر رُباعی کہا کرتے تھے۔ آپ کی مندرجہ ذیل رُباعی جو غلطی سے ابوسعید ابوالخیر کی طرف منسوب کی جاتی ہے، اہل حال کی زبانوں پر ہے، باز آ باز آ ہر انچہ ہستی باز آ گر کافر و گبروبت پرستی باز آ ایں درگہ مادر گہ نو میدی نیست صدبار اگر توبہ شکستی بازآ کامی سبزواری: شاگرد مولاناجامیؔ، ضیاء الدین یوسف فرزندِ مولانا جامیؔ پر عاشق ہوگیا تھا۔ یہ شعر اس کا ہے۔ برآب وقتِ رفتن عکس رخت فتادہ یاباغبان زشرمت گل را بآب دادہ پانی میں یہ تیرے چہرہ کاعکس ہے یا باغبا نے تجھ سے شرمندہ ہوکر پھول پانی میں ڈال دیا ہے۔ ضیائی آرد بیلی: وطن سے ہرات پہنچا۔ میرعلی شیرنوائی نے اس کی بہت قدر کی۔ ہرات میں خواجہ میرک صاحبِ دیوان کے صاحبزادہ بدیع الزماں میرزا پر عاشق ہوگیا۔ واقعہ کی پوری تفصیل آتشکدۂ میں مذکور ہے۔ شہزادہ سام میرزا ولد شاہ طہما سب صفوی کاتذکرۂ شعرا، تحفۂ سامی، جو ۹۵۷ھ میں تصنیف ہوا۔ دور صفویہ خصوصاً دسویں صدی ہجری کی ایرانی سوسائٹی کا بہترین آئینہ ہے۔ اس میں سلاطین و امرا، ساداتِ عظام و علمائے کرام ’’حضراتِ واجب التعظیم‘‘ (جو کبھی کبھی شعر کہہ لیا کرتے تھے ) وزرائے محترم و سائر ارباب قلم و شعرا کے حالات لکھے ہیں اس دور میں شاہد بازی کو جو قبول عام حاصل تھا اس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتاہے کہ تحفۂ سامی میں ہر طبقہ کے بزرگوں کی امردپرستی کے حالات مندرج ہیں۔ بعض حضرات کے تراجم بطور اختصار یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ تحفۂ سامی کے علاوہ دوسرے تذکروں سے بھی مدد لی گئی ہے لہٰذا جن لوگوں کے حالات تحفۂ سامی سے ماخوذ ہیں ان کے سامنے ’’تس‘‘ (تحفۂ سامی) لکھ دیا گیا ہے۔ میرقربی: (تس) ساداتِ گیلان میں سے ہیں۔ لیکن قزوین میں سکونت اختیار کرلی ہے۔ ایک جوان پر عاشق ہوگئے ہیں۔ ہر وقت اس کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور راتوں کو اس کے کوچہ میں گھوماکرتے ہیں۔ یہ مطلع ان کا ہے، بسلامت زسر کوئے ملامت نہ روم گرروم از سرِ کویت بسلامت نہ روم کوچۂ ملامت سے میں سلامتی کے ساتھ نہیں جاؤں گا اور اگر چلا بھی گیا تو تیرے کوچہ سے سلامت نہ جاؤں گا۔ قاضی محمد: (تس) مدتوں رےؔ کے قاضی رہے۔ وصالیؔ تخلص کرتے تھے۔ ۹۳۲ھ میں وفات پائی۔ جوانی میں صادقؔ نامی ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس نے آپ کو ایک حوض میں گرادیا اور آپ کا ہاتھ زخمی کردیا۔ اس واقعہ کے متعلق آپ نے یہ قطعہ کہا، بعشق صادق اگردستِ من شکست چہ باک ہرآنکہ عاشقِ صادق بود چنیں باشد پے ثبوت مرااحتیاجِ بینہ نیست گواہِ عاشق صادق در آستیں باشد قاضی مسیح الدین عیسی ساوجی: اپنے زمانے کے بہترین علما میں آپ کا شمار ہے۔ آپ کو شہزادہ (وبعدازاں سلطان) یعقوب کا معلم مقرر کیا گیا۔ شہزادہ کے حسنِ زاہد فریب نے آپ کا دل چھین لیا۔ کچھ دنوں تو یہ بات چھپی رہی آخر بادشاہ کو اس کی خبر ہوگئی۔ چونکہ قاضی صاحب کی پاکبازی مسلم تھی اس لیے بادشاہ نے آپ کے اعزاز و اکرام میں اور بھی اضافہ کردیا۔ یہ شعرآپ کاہے، ہرگزنہ بود ازتو گمانِ جفا مرا دیگر بکس نہ ماندہ امیدِ وفامرا تجھ سے تو مجھ کو جفاؤں کا گمان تک بھی نہ تھا۔ اب کسی سے مجھے امید وفا کی نہ رہی۔ میر نصیبی: سید جلیل القدر و فاضل عظیم الشان، آپ طبقۂ ساداتِ نور بخشیہ میں سے ہیں۔ ابتدائے حال میں رےؔ سے شیراز آئے اور علامہ جلال الدین دوّانی کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوگئے۔ اسی زمانے میں گوئیے کے ایک لڑکے سے جس کانام محمودؔ تھا آپ کو عشق ہوگیا۔ شورِ محبت نے ایسا وارفتہ کیا کہ دنیا کے تمامی امور سے بیگانہ ہوگئے بالآخر علامہ دوّانی کی وفات کے بعد اپنے وطن طرشت (رے ) کو لوٹ آئے اور اپنے دیوان کی ترتیب میں مشغول ہوگئے۔ ۵۱۴ھ میں وفات پائی۔ یہ شعر ان کا ہے، زندہ درعشق چاں بود نصیبیؔ مجنوں عشق آں روز مگر ایں ہمہ دشوار نبود اے نصیبیؔ! مجنوں عشق میں زندہ کیسے رہا۔ شاید اس زمانہ میں عشق اس قدر دشوار نہ تھا۔ مولانا ابدال: (تس) اصفہانی الاصل، ابتدامیں عطاری کرتے تھے۔ سام میرزا کا بیان ہے کہ مولانا مدتوں میرے ساتھ رہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ابدال کس طرح بن گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ جس زمانے میں میں عطاری کرتاتھا ایک جوان پر عاشق ہوگیا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے معشوق کے لیے غزل کہی اور دکان کے سامنے اسے سنارہا تھا کہ ایک مُحَصَّل آیا اور مجھ سے روپے کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا ذراٹھہرجا۔ اس نے ایک ڈنڈا میرے سر پر مارا۔ میرا معشوق یہ حال دیکھ کر پراگندہ خاطر ہوگیا اور وہاں سے چلا گیا۔ آتشِ جدائی میرے سینہ میں شعلہ زن ہوگئی۔ دکان کو میں نے آگ لگادی اور شہر کے باہر ایک قلندر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے کپڑے اسے دے دیے اور اس کی گُدڑی خود لے لی۔ آستین پھاڑ کر سر پر رکھ لی اور الف کی طرح ایک دھجی اس کے دامن میں سے پھاڑ کر کمر میں باندھ لی اور کوئے یار کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے عزیزوں نے جب یہ حال دیکھا تو مجھے کچھ نصیحت اور ملامت کی۔ آخر مجھے دارالشفا لے گئے اور تین مہینہ تک قید میں رکھا مگر کچھ نتیجہ نہ ہوا۔ ناچار مجھے رہا کرکے مجھ سے ترکِ تعلق کرلیا۔ اس کے بعد تین برس تک میں اصفہان میں ننگے سر، ننگے پاؤں پھرتا رہا۔ پھر تبریز چلا گیا۔ پانچ برس تک وہاں ارمینوں کے ساتھ اسی طرح گزارے۔ اسی زمانہ میں یہ غزل کہی تھی، مقطع، ابدال برائے یک پیالہ دردیر نشستہ چوں کشتیاں اس کے بعد توفیق الہی رہنما ہوئی، توجہ کی اور بارہ برس عبادت و ریاضت میں گزارے۔ یہ مطلع ان کا ہے، تُرکِ من شیوۂ بیدا ونکو میداند طرز عاشق کشی آنست کہ اومیداند میرا معشوق شیوۂ بیداد خوب جانتا ہے۔ عاشق کشی کااصلی طریقہ وہی ہے جو اسے معلوم ہے۔ مولانا حیرانی: اصلاً قمّی ہیں مگر ہمدانی مشہور ہیں، سلطان یعقوب کے ندیم تھے۔ کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ کاشان میں ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے لہٰذا کاشان کے قاضی نے شہر سے آپ کے اخراج کا حکم دے دیا۔ اس موقع پرآپ نے قاضی کی ہجو میں جو قصیدہ کہا تھا وہ کافی مشہور ہے۔ یہ مطلع آپ کاہے، صباحِ عید اگر من دستِ آں نازک بدن بوسم زشادی تابہ شب آں روز دستِ خویشتن بوسم مولانا سائل: متوفی ۹۲۸ھ۔ اصلاً رازی مگر ہمدانی مشہور ہیں۔ شاعرِ شیریں زبان تھے۔ اکثر اہل استعدادآپ کی صحبت کو غنیمت سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ ایک وجد و حال کے عالم میں رہتے تھے۔ شعرائے معاصرین کے ساتھ آپ کے بہت معرکے رہے۔ ہمدان میں ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس جوان کے اعزہ و اقارب نے آپ کو بڑی بڑی ایذائیں پہنچائیں۔ ایک دن اُن لوگوں نے آپ کو بالکل برہنہ کرکے بہت ہی ذلیل کیا۔ ناچارآپ نے نِہاوند کا راستہ لیا۔ آپ کا معشوق اس دن شکار کو گیا ہوا تھا۔ برف دباراں کاطوفان آگیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیا۔ راستہ میں مولانا سے ملاقات ہوگئی۔ ساری رات عاشق و معشوق یکجا رہے اور کوئی خلل انداز نہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ کا معشوق گھوڑے سے گرپڑا تو آپ نے یہ رباعی کہی، دی درسرزمیں اے قمر زہرہ جبیں گرزانکہ فتاوی نبودعیب توزیں اے ماہ َرو! اگر تو کل گھوڑے سے گرپڑا تو اس میں تیرا کوئی قصور نہیں۔ تو برگِ گلی واسپِ توبادِ صبا است از بادِ صبا برگِ گل افتدبہ زمیں تو پھول کی پتی ہے اور تیرا گھوڑا بادصبا۔ بادصاب سے پھول کی پتی زمین پر گر ہی پڑتی ہے۔ مولانا شہودی گیلانی: اصلاً آپ لاہیجانی ہیں۔ سلطان یعقوبؔ کے معاصر تھے۔ مدتوں قاضی یحییٰ لاہیجانی کے ایک رشتہ دار پر عاشق رہے۔ ارباب غرض نے مولانا کو بہت تکلیف پہنچائیں اور قاضی موصوف سے شکایت کی۔ قاضی صاحب نے آپ کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ اسی اثنا میں مولانا کا محبوب اس مجلس میں آپہنچا۔ مولانا اسے دیکھتے ہی بیہوش ہوگئے۔ قاضی صاحب کو بھی آپ کی اس حالتِ زار پر ترس آگیا۔ اور خود قاضی صاحب کے حکم سے معشوق نے آپ کے منہ پر گلاب چھڑکا او ربہت کچھ اظہارِ لطف و نوازش کیا۔ یہ رباعی آپ کی ہے، بربرگِ سمن سنبل تر ریختہ ازآب حیات آتش انگیختہ زنہار مدہ ببادآں زلف سیاہ کزہرتارش دلے درآویختہ مولانا آہی ترشیزی: آپ سلسلہ گورگانیہ کے آخری تاجدار سلطان حسین بایقرا (متوفی ۹۱۰ھ) پر عاشق ہوگئے تھے۔ سلطان آپ کی بہت مراعات کرتاتھا۔ یہ شعر آپ کا ہے۔ مراگویند مشکلہائے عشق از صبربکشاید مرا صبرے اگر بودے نہ گشتے کارِمن شکل صبر کی تلقین کرتے ہیں مرے غمخوار حیف صبر ممکن ہو تو پھر روناہی کیا تقریر کا امیر ہمایوں: آپ اسفرائن کے بزرگ زادوں میں سے ہیں۔ جوانی میں آپ تبریز میں سلطان یعقوب کے ایک جوان ملازم ولیؔ بیگ نامی پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس محبت نے آپ کو شاعر بنادیا۔ سال بھر تک آپ ہر روز معشوق کے گزرگاہ میں بیٹھا کرتے تھے لیکن ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ آخر کسی نے ولی بیگ کو بھی اس واقعہ سے آگاہ کردیا۔ ایک دن وہ کچھ لوگوں کے ساتھ اُدھر سے گزر رہا تھا۔ امیر موصوف سے ملاقات ہوگئی۔ کہا کوئی شعر سنائیے۔ آپ نے فی البدیہہ یہ مطلع پڑھا، یک دم کہ باتوام بسوئے من نظر مکن سیرت ندیدہ ام زخودم بے خبر سکن دم بھر کے لیے میں تیرے پاس ہوں، تو میری طرف نہ دیکھ۔ میں نے ابھی جی بھر کے تجھے نہیں دیکھا ہے۔ مجھے بیہوش نہ کر۔ اہلی خراسانی: (تس) ترشیزہ کاباشندہ، نہایت خوش گو شاعر ہے۔ ہمیشہ عشق بازی کیا کرتاتھا۔ آخر خراسان میں فریدوںؔ میرزا پر بری طرح فریفتہ ہوگیا۔ مجنوں کی طرح بال بڑھالیے تھے جو سر پر جھاڑ جھنکار کی طرح الجھے رہتے تھے، اسی کے متعلق کہتا ہے، موئے ژولیدہ کہ برسرمنِ ابتر دارم سایۂ دولتِ عشق است کہ برسردارم آخر شہزادہ نے اس درویش وفاکیش کو اپنی خدمت میں طلب کیا اور بہت نوازش فرمائی۔ تباہی سلطنت کے بعداہلیؔ تبریز چلا گیا۔ وہاں کبھی ایک جوان سے کبھی دوسرے جوان سے عشق بازی کرتارہا۔ آخر بڑھاپے میں گوشہ نشیں ہوگیا۔ یہ شعر اس کا ہے، ہمہ چوں ذرّہ زخورشید رخت رقص کناں ماندہ چوں سایہ منم درپسِ دیوار ازتو سب کے سب تیرے آفتاب رخ سے ذروں کی طرح رقص کر رہے ہیں۔ ایک میں ہی سایہ کی طرح دیوار کے نیچے پڑا ہوں۔ بابافغانی شیرازی: شاعر مشہور، صاحب طرز سمجھا جاتا ہے۔ جوانانِ گل اندام کی محبت میں اس نے بڑی بڑی ذلتیں سہیں۔ صاحب دیوان ہے۔ یہ شعر اس کا ہے، وصالم ہست امارخصتِ بوس و کنارم نے گلم درخوابگاہ و خواب درپیراہن است امشب فروغی استرابادی: شاہ طہما سب صفوی کے فضلا و شعرائے دربار میں آپ کا شمارہے۔ اکثر جوانانِ شیریں شمائل کی محبت میں گرفتار رہے۔ ائمہ ہدا کی مدح میں بہت سے قصائد لکھے ہیں۔ فرماتے ہیں، بدشنام راندی مرا، سوئے من بیں چوزخمم زدی لطف فرمائے مرہم تم نے گالیاں دے کر مجھے نکال دیا، میری طرف دیکھو تو زخم لگایا ہے تو اب مرہم بھی دو۔ گلشنی کاشانی: (تس) ابتدامیں مشک بیچا کرتا تھا اور خوبرویوں کی جستجو میں بادشاہی لشکر میں آیا جایا کرتاتھا۔ ’’عاشقہ پیشہ‘‘ آدمی ہے۔ عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد شوستر پہنچا، وہاں ایک جوان پر عاشق ہوگیا۔ آج کل وہیں مقیم ہے۔ خط نستعلیق خوب لکھتا ہے۔ یہ شعر اس کاہے، چودادی دل بہ دلدارے مشواز بیدلاں غافل چو عاشق گشتۂ باید کہ دانی قدر عاشق را اب توتم ایک دلدار پر فریفتہ ہو، اب تو اپنے عاشق سے تغافل نہ کرو۔ عاشق ہونے کے بعد تو تمہیں عاشق کی قدر جاننی چاہیے۔ جاروبی: (تس) والیِ ہرات درمش خاں پر عاشق تھا۔ یہ شعر اس کا ہے، ازکوئے توچوں باد برآشفتم درفتم گردے زدلِ مدعیان رُفتم درفتم رہائی: (تس) شعرائے توران میں سے ہے۔ وہاں سے شروان پہنچا اور سلطان خلیل شروان پر عاشق ہوگیا اور اس عشق کی بدولت بڑی بڑی اذیتیں اور مصیبتیں اٹھائیں۔ یہ شعر اس کا ہے، باکس زجوریار حکایت نمی کنیم صد شکرمی کنیم و شکایت نمی کنیم ہم کسی سے جفائے یار کاذکرنہیں کرتے۔ شکرکرتے ہیں شکایت نہیں کرتے۔ فانی تبریزی: (تس) تبریز کے معززین میں سے تھا، ہمیشہ امردوں کی صحبت میں رہتا تھا۔ یہ شعر اس کا ہے، کرامیخواستی کز مہربانی باز بفریبی کہ گاہ از سوزش شمع گاہ از پروانہ میگفتی تم کسے پھر اپنی مہربانی سے پھانسنا چاہتے تھے کہ کبھی سوز شمع کا ذکر کرتے تھے اور کبھی پروانے کا۔ قاضی سنجانی: (تس) آپ شاہ سنجان کی اولاد میں ہیں۔ بلاکے ذہین اور تیز فہم ہیں۔ ’’مخزن الاسرار‘‘ کے تتبع میں ایک مثنوی ’’منظرالابصار‘‘ تصنیف کی ہے اور ایک اور مثنوی میں شاہ طہماسب کے کارنامے نسب کیے ہیں۔ اتفاق سے ۹۰ برس کی عمر میں قاضی صاحب بلائے عشق میں مبتلا ہوگئے اور بہت کچھ ملامت کانشانہ بنے، بڑی ذلتیں سہیں، بہت رسوا ہوئے۔ ایک دن ایک جوان نے مذاق کے طور پر آپ سے پوچھا کہ یہ شعر کس کاہے، اے پیر گشتہ بہر جواناں زرہ مرد موئے سپید درپئے زُلفِ سیہ مرد اے بڑے میاں جوانوں کی خاطر گمراہ نہ ہو، یہ سفید بال لے کر سیاہ زلفوں کے پیچھے نہ پھرو۔ قاضی صاحب نے فی البدیہہ جواب دیا، قاضی آخردرمیاں بازیچۂ طفلاں شدی خودبگو پیرانہ سرایں عشق درزیدن چہ بود پرتوی شیرازی: اپنے عہد کاممتاز شاعر ہے، ۔ شاقی نامہ خوب کہا ہے۔ ایک جوان پر عاشق ہوگیا تھا۔ معشوق کسی بات پراس سے بگڑ گیا اور مدتوں خفا رہا آخر صلح ہوگئی۔ یہ شعر اس کا ہے، مرا بجور چوکشتی وفا چہ فائدہ دارد کنوں کہ جاں بلب آمد جفا چہ فائدہ دارد واہب اصفہانی: میرزا حسن نام۔ شاہ عباس صفوی کے عہد میں ایک معزز عہدے پر سرفرازتھے۔ ایک زمانہ میں آپ کو داغ نامی ایک چھوکرے سے عشق ہوگیا تھااور کسی طرح اس کا وصال میسر نہیں ہوتا تھا۔ محبوب کی بے مہری اوراغیار کی مخالفت نے آپ کی جان پر بنادی تھی۔ ایک دن آپ کے ایک دوست نے بیان کیا کہ آپ کا معشوق ایک ’’گوے زرد‘‘ نامی طوائف پر عاشق ہوگیا ہے۔ میرزا صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ایک قطعہ لکھ کر اسے بھیجا۔ ایک شعر یہ ہے، عالمے صید تو گروید چو اوصید توشد بود درطائع حسنت کہ شود عالمگیر جب وہ تیرا شکار ہوگیا تو گویا ساری دنیا تیری شکار ہوگئی۔ تیرے حسن کی قسمت میں عالمگیر ہونالکھا تھا۔ رجائی ہروی: مولانا حسن علی نام۔ ’’درویشِ دل ریش، فاضلِ نیک اندیش۔‘‘ ابتدا میں آپ ایک جوان صرّاف پر عاشق ہوگئے تھے۔ اکثر اوقات آپ اپنے معشوق کی دکان کے سامنے ایک سان گر کی دکان میں کام کیا کرتے تھے۔ خواب میں مولانا نظامی نے آپ کو رجائیؔ تخلص عطا فرمایا۔ جس وقت میرزا شرف جہاں قزدینی خانہ نشیں تھے۔ مولانا رجائی حج کو جاتے وقت ان سے ملے تھے۔ محتشم کاشی: مداح شاہ طہماؔ سب صفوی۔ دور صفیہ کے شعرامیں محتشم کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ بلکہ جہاں تک شہرت کا تعلق ہے کسی کو یہ بات نصیب نہیں ہوئی۔ محتشم کا ترکیب بند جوسید الشہدا کے مرثیہ میں لکھا ہے اکثر بلا د اسلام میں مشہور ہے۔ محتشم ایک خوبرو، شاطر، مسمی بہ جلالؔ پر بری طرح عاشق ہوگیا تھا، اس نے اپنی داستانِ محبت خود اپنے قلم سے لکھی ہے جو جلالیہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ۶۴ صفحہ کا ایک مختصر رسالہ ہے جس میں ۶۴ غزلیں اور باقی نثر ہے۔ مضمونِ ہذا کی ترتیب کے دوران میں راقم الحروف کو جلالیہ کے مطالعہ کااتفاق ہوا۔ یہ رسالہ اس عہد کی سوسائٹی کی ایک روشن تصویر ہے۔ بادہ کشی اور شاہد بازی لوگوں کی طبیعت ثانی بن گئی تھی۔ گھر گھراسی کاچرچا تھا۔ کوئی صحبت اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ محتشم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں شاعری اور امرد پرستی لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ محتشم نے جہاں اپنی پاک بازی کا ذکر کیا ہے وہاں دوسرے شعرا آلودہ دامنی پر بھی طعن کی ہے۔ شاطر جلالؔ جس وقت کاشان پہنچا، عشاق اوراہل نظر کے لیے قیامت آگئی۔ ہر شخص نقدِ دل ہاتھ میں لیے نذر دینے چلاآتا ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات محتشم نے یہ بیان کی ہے کہ امرد پرستی کے شوق میں شعرا عورتوں سے بیزار ہوگئے تھے۔ جیسا کہ ہم پیشتر بیان کرچکے ہیں سام میرزا نے تحفہ سامی میں لفظ ’’عاشق پیشہ‘‘ ہر جگہ امرد پرست کے معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں عشق بازی اور امرد پرستی کے ایک ہی معنی تھے۔ سطور ذیل میں تحفۂ سامی سے چند ایسے بزرگوں کا حال نقل کیا جاتا ہے جو کسی خاص جوانِ شیریں شمائل کے دلدادہ نہ تھے بلکہ ان کی شاہد پرستی عام تھی۔ ہر ’’نازنین پسر‘‘ ان کی محبت کامرکز ہوسکتاتھا۔ مولانا قرشی: جمند کے باشندے، عاشق پیشہ ہیں۔ دل درد مند پایا ہے۔ مدتوں سلسلہ نور بخشیہ کی ملازمت میں رہے۔ رمل جاتنے ہیں۔ یہ شعر ان کا ہے، پیرم وسست وازیں حال پریشانم سخت کہ مبادا از سر کوئے توبر بندم رخت میں بوڑھاہوں اور کمزور اور اس حالت سے سخت پریشان ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے کوچہ سے چلتاہوجاؤں۔ مولانا عبدی: خطاطی میں مولانا شاہ محمود کے استاد اورمولانا سلطان علی مشہدی کے شاگرد تھے۔ باوجود پیری سروقامتوں سے دل بستگی رکھتے تھے۔ مدتوں شاہ طہماؔ سب صفوی کے ملازم رہے۔ یہ شعر ان کا ہے، اے دل کشیدہ دار چو عبدی عنانِ صبر گر مہرِ مہوشاں ہوس است ایں قدر بس است قاری قزوینی: درویشانِ قزوین میں سے تھے۔ بتانِ آتشیں رخ کی محبت کا شعلہ جب سینہ میں بھڑکتا تھا تو ننگے سر، ننگے پاؤں، نالاں و گریاں گھوما کرتے تھے او رجن دنوں عشق کا جوش ٹھنڈا ہوجاتا تھا تو گوشہ نشیں ہوکر شعر کہا کرتے تھے۔ یہ شعر آپ کاہے، اے زدہ مہر رخت برمنِ گریاں آتش دارم از جورتو بردل غم و برجاں آتش میرہادی موسوی: اول طلب علم میں مشغول تھے لیکن عشق بازی نے تعلیم چھڑوادی۔ شاہ طہماؔسب صفوی کے عہد میں محتسب کے عہدے پر مامور تھے اس کے باوجود خود مناہی کے مرتکب ہوتے تھے، آخر میں مشہد امام رضا علیہ السلام کے متولی بنائے گئے۔ کبھی کبھی شعر کہتے تھے۔ یہ شعر آپ کاہے، بگفتم تیغِ کیں بردار و اوّل قتل ہادی کن بخندہ گفت در عاشق کشی ہادی نمی خواہم میں نے کہا تلوار اٹھاؤ اور پہلے ہادی کو قتل کر ڈالو۔ ہنس کر بولے کہ مجھے عاشق کشی میں ہادی کی ضرورت نہیں۔ امیر کمال الدین: ولد حضرت امیر حکیم، طبیب، عاشق پیشہ، رند مشرب تھے۔ فصاحت میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ صاحبِ دیوان ہیں۔ یہ شعر ان کا ہے، کجا وفائے تواز من جفادریغ مدار کہ جز جفائے تو اے بے وفانمی خواہم کہا ں کی وفا، تو مجھ پر جفا ہی کر۔ بے وفا میں تو تیری جفا ہی کا طلب گار ہوں۔ میر عبدالباقی: سادات اصفہان سے ہیں۔ خاصے مولوی ہیں مگر ہمیشہ سروقامتوں سے دل بستگی رکھتے ہیں۔ اسی لیے لشکر میں آتے جاتے ہیں۔ بادشاہ اس بات سے ناراض ہوگیا۔ مثنوی ’’سجتہ الابرار‘‘ کا جواب لکھتا ہے۔ تصوف میں ایک اور مثنوی بھی لکھی ہے۔ عاشقانہ اشعاربھی کہتے ہیں۔ میر قریش کاشانی: رمل خوب جانتے ہیں۔ ان کے مطلع سے ان کی کل کیفیت معلوم ہوسکتی ہے، زاں خوشد لم کہ یار ہمی گفت بارقیب سید قریش اسپ مرا بردو آب داد میں اس بات سے مسرور ہوں کہ میرے محبوب نے رقیب سے کہا کہ سید قریشؔ نے میرے گھوڑے کو لے جاکر پانی پلایا۔ مولانا نطقی: عاشق پیشہ اور رند مشرب تھے۔ یہ شعر ان کا ہے، بکش خنجر کہ جاں بہر تو اے نامہرباں دارم توخنجر درمیاں داری و ن جاں درمیاں دارم خزانی قمی: عاشق پیشہ تھا۔ اکثر اوقات قبرستانوں میں رہتا تھا۔ یہ شعر اس کاہے، بہار و چشم جہاں ہیں جدا زدیدنِ یاراست خزانِ عمر من است ایں بہار ایں نہ بہار است بہارآئی ہے اور محبوب میری آنکھوں سے دور ہے۔ یہ بہار نہیں یہ تو میری زندگی کی خزاں ہے۔ مولانا مجلد: آپ خراسانی ہیں، جلد سازی اور عشق بازی میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ شعر ان کاہے، ہرگہ کہ خشم برمن درویشی می کنی لب میگزی و جانِ راریش می کنی شمسی شیروانی: زین سازی آپ کا پیشہ تھا۔ آخر عشق بازی میں رسوا ہوئے۔ یہ شعر ان کا ہے، مہ من یار اغیار است بامن یار بایست ہدیں خواری کہ من افتادہ ا اغیار بالیتے امیر مقبول: اس کا وقت زیادہ تر رندوں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ اس کی غزل پردازی اور عشق بازی دور دور مشہور ہے۔ یہ شعر اس کا ہے، ہر دم بصورتِ دگرم دل رود زدست عاشق شدن خوش است بہر صورتے کہ ہست سوسنی: اس شاعر کے حالات کے ضمن میں سامؔ میرزا نے کسی راوی کی زبان سے ایک واقعہ نقل کیا ہے، جس سے اس عہد کی سوسائٹی پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ ’’ایک دن ہم لوگ چند خوبرو نوجوان کو ساتھ لیے سوسنیؔ کے ہمراہ سیر کر رہے تھے۔ آپس میں یہ قرار پایا تھا کہ راستہ میں جو کوئی جوانِ شیریں شمائل ملے اس کے مناسب حال ہم لوگ ایک شعر کہیں، اتفاقاً ایک قصاب کے لڑکے سے مڈبھیڑ ہوئی۔ ہم میں سے ہر شخص فکرِ شعر کرنے لگا۔ سوسنیؔ نے ہم سب سے پہلے یہ شعر پڑھا، ہر گہ آں قصاب خنجر برگوئے من نہد می زنم سربرزمیں تاپا بروئے من نہد‘‘ یہاں اس دور کے چند ایسے شعرا کا ذکر کر دینا بیجا نہ ہوگا جو خود چراغ انجمن تھے اور عشاق ان پر پروانہ وار گرتے تھے۔ شیخ کمال: شہریار قزوین شاہ میرزا کا بیٹا اور ملک محمود خاں ویلمی کا پوتا۔ نظر باز اس کی شمع جمال کے پروانہ تھے۔ یہ مطلع اس کا ہے، اے زمیں آں قامتِ رعنا نگر زیر پائے کیستی بالانگر خرامی تبریزی: صباحت و ملاحت میں شہرۂ شہر اور حسنِ خرام میں آشوب دہر ہے۔ یہ مطلع اس کا ہے، میر دم از کوئے جاناں بادلِ افگارِ خویش زانکہ پوشد دامنم از دیدۂ خونبارِ خویش زلالی تبریزی: جب تک حسین تھے شاعر تھے۔ دوسرے شعرا مدد کیا کرتے تھے۔ جب ڈاڑھی نکل آئی تو شعر کہنا موقوف ہوگیا۔ یہ مطلع ان کاہے، بشنو ایں نکتہ سنجیدہ زغم خوردہ عشق کہ بہ از زندۂ بے عشق بود مردہ عشق حریفی نہاوندی: آغازِ جوانی میں ترکوں کے پاس رہا۔ جوانی کے بعد شاعر ہوگیا۔ یہ مطلع اس کا ہے، بسینہ چوں درآمد تیراوجاں کرد آہنگش دِلم از رشک ادبگرفت در پہلوئے خود تنگش غزالی ھروی: المشہور بہ چنبک۔ جس وقت تک سبزۂ خط نمودار نہ ہوا تھا، کمینے بدمعاشوں کی صحبت میں رہتا تھا۔ بعد میں شاعر ہوگیا۔ یہ مطلع اس کا ہے، تادر اقلیم جمالت بادشاہی دادہ اند مہر و مہ برخوبی حسنت گواہی دادہ اند ان تمام واقعات کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ محمود غزنوی کے زمانے سے لے کر چھ سو برس بعد تک ایران میں دھوم سے امرد پرستی نہیں کی گئی۔ اور یہ گھناؤنا مشغلہ کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ عارف و عامی سبھی اس میں برابر حصہ لیتے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ، شعراکی زندگی اس کے بغیر زندگی ہی نہ تھی۔ درحقیقت یہی چیز باعث ہوئی میں جفائے محبوب کے شکوۂ پیہم کی۔ بات یہ ہے کہ ایک ’’نازنیں پسر‘‘ کی صفاتِ محبوبی ایک شاعر کے لیے تو شیفتگی کاباعث ہوسکتی تھیں لیکن خود شاعر میں وہ صفات سادہ روئی کہاں جو اس کے محبوب کے جذبات محبت کو برانگیختہ کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ محبت یک طرفہ رہتی تھی۔ اور یہ قدرتی بات تھی۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک نوخیز امرد اپنے سے کئی گنا زیادہ عمر والے شخص پر عاشق ہوجائے۔ اور بعض حالات میں تو حضرات عشاق کاسنِ شریف اپنے محبوب کے پدرِ بزرگوار بلکہ جدِّامجد سے بھی کہیں زیادہ ہوتا تھا۔ مرد عورت کے درمیان معاشقہ ہو تو اور کچھ نہ سہی کم سے کم جنسی کشش ہی محبوب کو اپنے چاہنے والے سے وابستہ رکھتی ہے لیکن ایک امرد کو کسی مولانا صاحب یا قاضی صاحب یا پیر صاحب یا صوفی صاحب یا سید صاحب یا شیخ صاحب سے کیا دلی لگاؤ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس زمانہ کی سوسائٹی کے نزدیک یہ ’’فن شریف‘‘ فیشن میں داخل تھا۔ اس لیے ’’پسرانِ نازنین‘‘ کے لیے بھی یہ امر کچھ ایسا معیوب اور شرمناک نہ تھا کہ لوگ ان پر عاشق ہوجائیں، پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض جوانوں کی غیرت مند طبیعتیں اس شناعت کی تاب نہ لاسکیں اور انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو قتل کردیا۔ بعض نے اپنے عشاق کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔ اکثر ملاقات سے بالکل محترز اور مجتنب رہے۔ ایسی صورت میں عشاق کا شکوہ جفابالکل حقیقت پر مبنی اور بیانِ واقعہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب غزل میں محبوب کے جور و جفا کا ذکر عام ہوگیا تو اکثر نقال شعرا محض دوسروں کی تقلید میں بھی ان مضامین کو باندھنے لگے۔ اردو غزل میں بھی جفائے محبوب کی وہی دھوم دھام ہے جو فارسی غزل میں پائی جاتی ہے۔ مگر دونوں میں بڑا فرق ہے۔ فارسی میں بیشتر اصل ہے اور کمتر نقل، لیکن ہمارے یہاں اصل برائے نام اور باقی فارسی کی تقلید ہے۔ حاشیہ (۱) (شعر العجم، جلد پنجم۔ ص۔ ۷۹-۸۰، اعظم گڑھ ایڈیشن) (۲) شعر العجم جلد۴، ص۲۰۰، اعظم گڑھ ایڈیشن۔ (۳) رود ایک باجے کا نام ہے۔ (۴) ابدال فارسی میں قلندر کو کہتے ہیں۔
دور حاضرمیں نے دو سال ہوئے ایک مضمون انگریزی زبان میں دورحاضر کے بعد اردو شعراء پر حیدرآباد پوئٹری سوسائٹی کی ایک مجلس میں پڑھا تھا۔ یہ مضمون رائل انڈیا سوسائٹی کے جرنل میں لندن سے شائع ہوگیا ہے۔ ۱؎ مضمون کے آخر میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ حیدرآباد کے شعراء پر بھی میں ایک تنقیدی مضمون لکھوں گا تاکہ باہر والوں کو یہاں کی ذہنی اور ادبی ترقی اور شعر و سخن کے ذوق کا حال معلوم ہوسکے۔ موجودہ مضمون اسی وعدہ کا ایفا ہے۔
لسان العصرحضرت اکبر مغفور زمانہ حال کے ان چندر بزرگوں میں تھے جن کا مثل و نظیر کہیں مدتوں میں جا کر پیدا ہوتا ہے۔ ان کی ذات ایک طرف شوخی و زندہ دلی اور دوسری طرف حکمت و روحانیت کا ایک حیرت انگیز مجموعہ تھی یا یوں کہئے کہ ایک طرفہ معجون۔ آخر آخر ان کی شاعری نہ شاعری رہی تھی، نہ ان کا فلسفہ فلسفہ۔ ان کا سب کچھ بلکہ خود ان کا وجود مجسم حکمت و معرفت ...
तरीक़ा-ए-रिंदान-ए-पाक-बाज़طریقۂ رندان پاکباز
the way of the holy drunkards
تمہیدنام نیک رفتگاں ضائع مکن
غالبؔ نے میرؔ سے بار بار استفادہ کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غالب اور میر ایک ہی طرح کے شاعر تھے۔ یعنی بعض مظاہر کائنات اور زندگی کے بعض تجربات کو شعر میں ظاہر کرنے کے لیے دونوں ایک ہی طرح کے وسائل استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غالب کا اسلوب میر سے مستعار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ زندگی کے کسی موقع یا منزل پر غالب نے طرز...
در مکتب نیاز چہ حرف و کدام صوتچوں نامہ سجدہ ایست کہ ہر جانوشتہ ایم
میر کے بارے میں یہ غلط فہمی، کہ وہ خالص زبان یا روز مرہ کے شاعر ہیں، کئی وجہوں سے عام ہوئی۔ اول تو یہ کہ میراور ان کے بعض معاصروں میں ایک طرح کی سطحی اور لازمی مماثلت تو ہے ہی، کیوں کہ بہر حال ان سب شعرا کی بنیادی زبان مشترک تھی۔ دوسری بات یہ کہ میر کے بارے میں اس طرح کے واقعات مشہور ہوئے کہ انہوں نے کہا، میں وہ زبان لکھتا ہوں جس کی سند جامع مسجد ک...
بے در و دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے صحیح نام اور پتہ بتانےسے ہم قاصر ہیں، اس لیے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ سردست اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اس تھیٹر کو اداکاروں کی ایک کوآپریٹیو سوسائٹی نقصان باہمی کی بنیاد پر چلا رہی تھی۔ پہلی تاریخ کو بڑی پابندی سے مہینے بھر کا خسارہ تمام ممبران کو بحصہ مساوی بانٹ دیا جاتا تھا۔ صرف ٹکٹ گھر پختہ تھا کہ اس پر کھیل کے بعد اکثر حملے ہوتے رہتے تھے۔ ہال کی دیواریں اور چھت ٹاٹ کی تھیں، جن میں خلاف محاورہ پیوند بھی ٹاٹ ہی کے لگے تھے۔ چھت قمری کیلنڈر کا کام دیتی تھی۔ ٹاٹ کی قناتوں میں بھی جابجا سر کے برابر سوراخ ہوگئے تھے۔ کھیل کے شروع میں ان میں سرگھسا کر باہر والے اندر کا تماشا دیکھتے، آخر میں اندر والے گردن نکال کر باہر کی رونق دیکھ لیتے تھے۔ فرسٹ کلاس کا ٹکٹ پونے نو آنے کا ہوتا تھا۔ اس میں صوفوں کا تکلف تھا، جن کے فولادی اسپرنگ لباس مجاز پھاڑ کر چھ چھ انچ باہر نکل آئے تھے۔ انہیں رانوں کے بیچ میں لے کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ چھ آنے کا تھا۔ اس میں سرکنڈوں اور لوہے کی پتریوں کے مونڈھے، مونچھ کی پیڑھیاں اور چنیوٹی کھٹولیاں پڑی تھیں۔ تیسری درجے میں فرشی نشست کا اہتمام تھا۔ فرشی سے ہماری مراد فرش خاکی ہے۔ اس کلاس میں جو ناظرین باتمکین زیادہ نک چڑھے واقع ہوئے تھے وہ گھر سے انگوچھے کے کونے میں ریزگاری باندھ کر لاتے۔ کسی گانے یا نازو ادا پر طبیعت بہت بے قابو ہوجائے تو نیچے سے نکال کر گوپھن کی طرح گھماتے اور اسٹیج پر داد کے انگوچھے برساتے۔ چند ’’ماہواری ناظرین‘‘ نے کٹے پاؤں کی پیڑھیاں ڈال رکھی تھیں جن پر بیٹھ کر وہ مہینے بھر مزے سے مونگ پھیلیاں اور پیچھے بیٹھنے والوں کی گالیاں کھاتے رہتے تھے۔ رواداری میں ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ پیچھے بیٹھنے والوں کی سہولت کے لیے ہال میں ’’نشستی‘‘ ڈھلان اس طرح پیدا کیا گیا تھا کہ اگلے یعنی اسٹیج سے ملحق حصے میں دوٹھائی فٹ گہری زمین کھود کر ایک اکھاڑا سا بنا دیا گیا تھا۔ اس میں فرسٹ کلاس والے خاک پھانکتے اور سیکنڈ کلاس والے لوٹیں لگاتے تھے۔ اکھاڑے کی دائیں بائیں منڈیر پر چند ’’خلیفے‘‘ پیر لٹکائے بیٹھے رہتے تھے۔ اسے گیلری سمجھ لیجیے۔ آرکسٹرا اور فرسٹ کلاس کے درمیان ہم نے ہمیں ایک پھاؤڑا پڑا دیکھا۔ اور کبھی کبھار یہ بھی دیکھا کہ پیچھے بیٹھنے والے کسی ’’ناظرین باتمکین‘‘ (تماشائی کے لیے ہمیشہ یہی صیغہ جمع استعمال ہوتا تھا۔) کو کسی دوسرے ’’ناظرین‘‘ کی ٹوپی یا کلف دار طرہ نظر آنے لگے تو وہ انٹرول میں خود پھاؤڑے سے ایک دو بالشت اکھاڑا کھود کر سرکش صوفے کو مع سرپر غرور زمین میں دھنسا دیتا تھا۔ اسی آلے کے پاس ایک ادھ کھدی قبر میں منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کی کھٹیا پڑی رہتی تھی۔ ان کا صرف چہرہ اور مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی پھدکتی نظر آتی تھی۔ مصور دردمنشی ریاضت علی سوختہ یہ بزرگ جو ستر کے پیٹے میں ہوں گے، اسی کھٹیا پر گاؤ تکیہ لگائے صاحب فراش رہتے تھے۔ ایک پاؤں قبر میں، دوسرا سٹیج پر۔ سپید میدہ رنگ جو جوانی میں ہی نہیں، اب بھی شہابی تھا۔ تیکھے تیکھے نقوش۔ غلافی آنکھیں۔ بے شکن پیشانی۔ انہیں اس بڑھاپے میں بھی وجیہ کہا جا سکتا تھا۔ بَر میں سپید ململ کا چنا ہوا کرتا۔ کرتے پر کشیدے سے کڑھے ہوئے چنبیلی کے سپید پھول۔ پھولوں میں تازہ پان کارنگ بھرا ہوا۔ پھنسا پھنسا چوڑی دار پاجامہ۔ نڈھال نڈھال سے رہتے تھے۔ پاجامے کے علاوہ کسی چیز میں چستی نہیں پائی جاتی تھی۔ (پہننے کے بعد پائنچے کس کے سیتے تھے۔) سرخ ریشمی ازاربند میں ٹرنک کی چابی جھولتی رہتی۔ ازاربند بھی اتنا چھوٹا کہ اکڑوں بیٹھ کر تالا کھولنے سے پہلے خود اسے کھولنا پڑتا تھا۔ گرمیوں میں ہلالی عینک کی چاندی کی کمانیاں جلنے لگتیں تو ان پر سائیکل کا VALVE TUBE چڑھا لیتے تھے۔ تھیٹر کے رسیا تھے۔ چالیس برس پہلے انہوں نے موجودہ ہیروئن کی نانی کوالفریڈ تھیٹر یکل کمپنی کے اسٹیج پر پہلے پہل لکھنؤ میں دیکھا تو اپنی لکڑیوں کی ٹال (جسے وہ ہمیشہ ہیزم سوختنی کہتے تھے۔) کو ٹھکانے لگا کے، ایک مونڈھا منڈپ میں ڈال لیا جو مرور ایام اور اضمحلال قوی سے پِسرتا پِسرتا ریلوے ویٹنگ روم کی چھ فٹ لمبے ہتھے والی کرسی بنا اور اب جھلنگے کا روپ دھار چکا تھا۔ اگر نیچے نقشین مرادآبادی اگالدان نہ رکھا ہوتا تو ان کی کمرفرش (فرش سے یہاں بھی وہی مراد ہے) سے جا لگتی۔ وہ مہ جبیں تو ایک مدت ہوئی اس بزم سے اٹھ گئی، مگر یہ یہیں کے ہو رہے کہ آسودگی کی جان اسی انجمن میں تھی۔ اس بی بی کے لب و رخسار اور آنکھوں کے گلابی ڈوروں کو یاد کرکے تو ہمیشہ آبدیدہ ہو ہی جاتے تھے لیکن آخر آخر میں اتنے رقیق القلب ہوگئے کہ اپنے مہوبے کے گلابی نسوں والے پان کی بھی یاد آجاتی تو گلارندھ جاتا جسے کسی حسب حال شعر سے صاف کرتے۔ تھیٹریکل کمپنی نے انہیں روٹی کپڑے پر اداکاروں کا شین قاف درست کرنےکے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ اس کے علاوہ پہلی تاریخ کو سوڈیڑھ سو روپے ماہوار گھاٹا ان کے نام کھاتے میں درج کرکے بھرپائی کے دستخط کے لیے جاتے تھے۔ یہ منشی دل کے مکالموں میں جہاں تہاں سوزوگداز کے پیوند لگاتے جو بسا اوقات اصل سے بھی بڑے ہوتے تھے۔ مصور درد کہلاتے تھے۔ ہمارے سر میں بھی ان کے مکالموں سے کئی فعہ وہ ہوا جس کے یہ مصور کہلائے جاتے تھے۔ کسی سین میں کوئی بول، بھاؤ یا اپنا ہی کوئی پیوندی فقرہ پسند آجائے تو اچھل پڑتے۔ گویا بجلی کا شاک لگا ہو۔ دو زانو ہوکر انہی اعضا کو زور زور سے پیٹتے۔ کمال فن کے اعتراف میں اپنے دونوں کان پکڑتے اور زبان کو باہر نکال کر مصنوعی دانتوں تلے دبا لیتے۔ گردن دائیں بائیں ہلاکر زبان نکالے نکالے گونگی داد دیتے۔ آخر کے تئیں جب ناظرین کی نگاہیں اسٹیج سے ہٹ کر ان پر مرکوز ہو جاتیں تو کنکری پر ایک روپے کا نوٹ لپیٹ کر اسٹیج پر پھینک دیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی تماشائی بھی سونے کے دانت والی ہیروئن پر نوٹوں کی بوچھار کر دیتے۔ ایک دن کسی نے ہمیں بتایا کہ تھیٹر والے انہیں سوا پانچ روپے یومیہ دیتے ہیں جن میں ان کے پھینکے ہوئے پانچ روپے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس تھیٹر میں کوئی کسی کا آقا یا ملازم نہیں تھا۔ سب مل جل کر کام بگاڑتے اور ایک دوسرے کے سردرد اور مسائل میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ مکالمے تو بالعموم منشی دل کے ہوتے تھے، لیکن ناظرین کی اکثریت اور ہال کے ماحول کے پیش نظر ادا کار بھی ان میں فی البدیہہ تضمین اور حک و اضافہ کرتے رہتے تھے۔ مثلاً کسی دن ہال میں پٹھان ناظرین کی اکثریت ہو تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے منظر میں سرسے کفن باندھ کے گھمسان کا خٹک رقص ہوتا۔ ورنہ ہم جیسوں کو تو کتھک ناچ پر ہی ٹرخادیا جاتا تھا۔ اور اگر کسی دن فرسٹ کلاس میں کوئی بڑا کاٹھیاواڑی سیٹھ نظر آجائے تو ماسٹر غفار یعنی فرہاد، اپنا گنڈاسا یعنی تیشہ، کوہ بے ستوں کے دامن میں پھینک دیتا اور گجراتی مناجات کے ذریعے غیبی طاقتوں سے فوری تعاون اور ہنگامی امداد طلب کرتا۔ سیٹ ڈیزائن سیٹ اور پردے بھی سب کی اصلاح و مشورے سے بنائے جاتے تھے۔ چنانچہ سینری کے ہررنگ سے مشورہ ٹپکتا تھا۔ ایک پردے پر گاؤں کا روح پرور منظر کچھ اس طرح دکھایا گیا تھا کہ ایک البیلی مٹیار آرزو اور تہذیب، دونوں سے کمتر لاچا باندھے، سرپہ ایک چمپئی رنگ کا گول مٹکا رکھے، بالکل اسی رنگ اور سائز کے دوکولہے مٹکاتی پنگھٹ جارہی ہے، جہاں حضرت امیر خسرو کے حلیے کے ایک بزرگ بغل میں ننگی تلوار دابے اوک سے پانی پی رہے ہیں۔ سارا ڈول خالی ہوگیا مگر نظریں کہہ رہی ہیں کہ ’’گوری! پردیسی کی پیاس نہیں بجھی۔ اور!‘‘ دور پس منظر میں گاؤں کے جوہڑ میں ایک اسٹیمر کھڑا ہے جس کی چمنی کے دھوئیں سے آسمان پر ’’اللہ‘‘ رقم ہو گیا ہے۔ سامنے گلابی گھاس پر ایک سبز رنگ کی گائے چر رہی ہے۔ کونے میں گملا رکھا ہے جس میں گلاب کے پھول میں چنار کے پتے لگے ہیں۔ دائیں جانب ایک کتا دم سے سوالیہ نشان بنائے کھڑا ہے۔ کھیل کے آخری سین سے پہلے منیجر کمپنی ہذا اسٹیج کے کنارے پر کھڑے ہوکر اعلان کرتا کہ پبلک کے پرزور اصرار پر اور ’’کومپنی کی مشہوری کے لیے‘‘ کل بھی یہی کھیل نئی سین سینری کے ساتھ دکھایا جائے گا۔ سین سینری میں نیاپن اس طرح پیدا کیا جاتا تھا کہ انہی پردوں کی ترتیب الٹ دی جاتی تھی۔ مثلاً اسٹیج پر گھمسان کی لڑائی میں کسی کا دم واپسیں دکھایا جا رہا ہے تو پیچھے پنگھٹ والے پردے پر دو چمپئی مٹکے مٹک رہے ہیں۔ سوالیہ دم پوچھ رہی ہے ’’کون سی چال ہے یہ آگ لگاتے نہ چلو‘‘ ایسے میں آنکھوں کا دم نکلے تو کیوں کر نکلے۔ نکاح روبرو، با ادب، با ملاحظہ ہرکھیل میں غزلیں داغ دہلوی اور نعتیں امیر مینائی کی گائی جاتی تھیں۔ غالب، اقبال، حسرت موہانی اور فیض کے وجود کی کمپنی ہذا کو ہنوز اطلاع نہیں ملی تھی۔ داغ کا سکہ گھس ضرور گیا تھا مگر کھوٹا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی تک تو یہ حال تھا کہ اگر داغ کے کلام کے مجموعوں کی تمام کاپیاں تلف ہوجاتیں تو طوائفیں پوری کلیات املا کروا سکتی تھیں۔ ابھی اس کے عینی شاہد موجود تھے کہ اعلیٰ حضرت نظام دکن کے دربار ِدُربار میں جو تازہ غزل استاد داغ پڑھتے تھے، وہ ایک ہفتے میں سینہ بسینہ یعنی حسینہ بہ حسینہ، رؤسائے دلی و لکھنؤ و رامپور تک پہنچ جاتی تھی۔ (آج کل کی طرح اس زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی تو تھے نہیں۔ لہٰذا شعر و شاعری سے بیزار کرانے کا کام صرف قوالوں اور طوائفوں ہی کو انجام دینا پڑتا تھا۔) داغ ہی کے الفاظ میں سارے جہان، یعنی ہندوستان، میں ان کی زبان کی دھوم تھی۔ چنانچہ اس تھیٹر میں اکبر کے دربار میں، فیضی کی موجودگی میں بھی، تان سین داغ ہی کی غزل داغتا تھا۔ قرائن سے تو یہی لگتا تھا کہ اکبر دربار کا ڈھونگ ہی ہمیں یہ غزل سنوانے کے لیے رچاتا تھا۔ کیا شوکت و دبدبہ تھا اس دربار کا! جب طرحدار کنیزوں، چوب بردار جسولنیوں، قلماقنیوں، اردہ بیگنیوں اور راجستانی پاتروں کی دو رویہ قطار سے مغل اعظم کاغذ کا پھول سونگھتے ہوئے نزول اجلال فرماتے تو ایک جاہل نقیب چوب نقرئی ٹھونک ٹھونک کر صدا دیتا، ’’نکاح روبرو! با ادب، با ملاحظہ ہوشیار!‘‘ سارے اسٹیج کی لکڑیاں اور لڑکیاں لرز اٹھتیں۔ خدا جانے اس میں اس کے تلفظ و نیت کا خلل تھا یا ہمارے اپنے حسن سماعت کا دخل۔ نکاح کی شرعی دھمکی کے علاوہ ’’ہوشیار!‘‘ بھی اس گھن گرج سے ادا کرتا جیسے اندھیری راتوں کو چوکیدار لاٹھی بجابجاکر چوروں اور نقب زنوں کو خلق خدا سے ہوشیار خبردار کرتے ہیں۔ اس زمانے میں ہال میں سگرٹ بیڑی پینے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ البتہ اسٹیج کے دائیں چوبی ستون یعنی بلی پر ایک نوٹس آویزاں تھا، ’’شراب پی کر دند مچانا، دنگا کرنا منع ہے۔‘‘ حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ ناظرین نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ بغیر شراب پئے، دنگا فساد کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مرزا راون کے روپ میں سچ تو یہ ہے کہ اسٹیج اور اس کے رموز و لذائذ سے ہماری واقفیت بچپن میں رام لیلا اور بعد میں کالج ڈراما سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور وہ بھی مرزا عبدالودود بیگ کے طفیل و توسط سے۔ مسلمان لڑکوں کو اس زمانے میں رام لیلا میں کوئی رول دینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں تو ہنومان جی (بندر سینا کے سردار جنہوں نے لنکا کو آگ لگائی تھی۔) تک کا پارٹ نہ ملا۔ خیر اس کی تو یہ معقول وجہ ہو سکتی تھی کہ ہمارے دم نہیں تھی۔ صورت بھی اس زمانے میں ان سے نہیں ملتی تھی۔ ان دونوں مرزا (عمر ساڑھے بارہ سال) محلے کی سیتا (عمر ۹ سال) پر جی جان سے فریفتہ تھے۔ بارہا اس کا نام کانپ کے نیچے لکھ کر اس کے گھر کے رخ پتنگ اڑائی ہی نہیں بلکہ محلے کے لونڈوں سے کٹوائی اور لٹوائی بھی۔ دسہرے سے چار روز قبل رام چندرجی کے حواریوں نے راون کی ایسی پٹائی کی کہ کوئی ہندو لڑکا راون بننے کے لیے راضی نہ ہوا۔ اس آڑے وقت میں مرزا نے اپنی خدمات یعنی پیٹھ پیش کی۔ کہنے لگے جب تک میرے دَم میں دَم ہے محلے میں رام لیلا ضرور ہوگی۔ ایک بندریا کے روٹھ جانے سے برندابن سونا نہیں ہوجاتا۔ راون کے رول کی واحد دلکشی ان کے لیے یہ تھی کہ اس میں سیتا کو اغوا کرنے کا موقع ملتا تھا۔ مزید برآں، مرزا کے پاس ایک پالتو ہرن بھی تھا جس کی رام لیلامیں ہر سال ضرورت پڑتی تھی۔ مرزا کو راون کا پارٹ ملا تو انہوں نے ہمیں اپنا مہامنتری مقرر کیا کہ ہم اس زمانے میں بھی ان کی اردلی میں تھے۔ (مرزا آج بھی ہمارے بغیر کوئی مشتبہ و پرخطر کام نہیں کرتے۔ کہتے ہیں پل صراط پر بھی تمہارے بغیر قدم نہیں رکھوں گا۔ گمان غالب ہے کہ وہ ہم پر سوار ہوں گے۔) ہمارا کام یہ تھا کہ جب وہ سیتاجی کو لے کر فرار ہوں تو کم از کم دس منٹ تک ہم ان کے عوض رام چندر جی کے عقیدت مندوں سے مار کھاتے رہیں، تاکہ وہ دوسری گلی میں مغویہ سے جی بھر کے باتیں کر سکیں۔ دوسرا کام ہمارے سپرد یہ تھا کہ جب وہ راون کے دس چہروں والے ’’ماسک‘‘اور پٹائی سے پسینے میں شرابور ہو جائیں تو ہم مورچھل سے انہیں ہوا کریں۔ اور ایک بوتل لیمونیڈ سے چھکا کر لنکا ڈھانے کے منصوبے سمجھائیں۔ ونس مور! یہ ہمیں مرزا عبد الودود بیگ ہی نے بتایا کہ اسٹیج کے پہلے پردے کے اوپرجو جھالر ہوتی ہے اس کی اوٹ میں خالی مٹکوں کی ایک قطار تھی جن کے پیندے ناظرین کی طرف اور منھ ایکٹر کی طرف۔ مقصد ان کا ایکٹر کی آواز میں گونج اور گرج پیدا کرنا تھا۔ یہ مائیکروفون کا نعم البدل تھے۔ مرزا ہی سے مروی ہے کہ ان کی موجودگی کا انہیں اس وقت علم ہوا جب ایک گھڑا سہراب کے سر پر عین اس وقت گرا جب وہ ناخلف اپنے باپ رستم سے ہاتھ چلا چلا کر نہایت مقفیٰ و مسجع اردو میں گستاخانہ گفتگو کر رہا تھا۔ پردہ کھینچنے کے فرائص خود منیجر کمپنی ہذا سیاہ ’’بو‘‘ لگائے اپنے دست خاص سے انجام دیتے تھے۔ ونگ میں دوہرے ہو کر اس طرح کھینچتے تھے جیسے گہرے کنویں کے ڈول کو پنہاری۔ پردہ گرانے میں بھی بعض اوقات اتنی دیر لگتی کہ اسٹیج پرپڑی ہوئی فنا پتھلین (لہو رنگ جو چند منٹ میں اڑ جاتا ہے۔) کے خون میں لت پت لاش میں زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے۔ شائقین کو موت یا قتل کا کوئی سین بطور خاص پسند آتا اور ’’ونس مور! ونس مور!‘‘ کی صدائیں آتیں تو اسے بار بار دکھایا جاتا۔ مقتول اٹھ اٹھ کر حیدرآبادی انداز سے ہاتھ کا اوک بنائے سب کو آداب و تسلیمات بجا لاتا اور پھر انتقال فرما کے دکھاتا۔ دیکھنے والے بالعموم ٹریجڈی پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ بعض ڈرامے ہی ایسے ہوتے تھے جن میں اصل مجرم یعنی مصنف کے علاوہ سب قتل کردیے جاتے تھے۔ ہر کردار کو چن چن کر کیفر کردار کو پہنچادیا جاتا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے پردے کے پیچھے سے کوئی صاحب گھڑے میں منہ ڈال کر گونج دار آواز میں لاکھ برا چاہنے والے مدعی کو مطلع کرتے، وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس سے ان کی مراد وہ تھی، جو کچھ اسٹیج پر ہوتا تھا تو اس کی منظوری کا الزام خدا پر رکھنا، منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کی سریحاً حق تلفی ہوگی۔ ٹریجڈی کو کامیڈی میں بدلنے کا نسخہ اس زمانے کے چلن کے مطابق ٹریجڈی کو کامیڈی کا رنگ دینے کی یہ ترکیب نکالی گئی کہ تمت بلاخیر یعنی آخری سین میں عاشق نامراد کی تربت دکھائی جاتی جس پر ایک ہزار کینڈل پادر کا نور برس رہا ہے۔ سوگوار ہیروئن سیاہ برقع اور سیاہ چوڑیاں پہنے، طباق سا منھ کھولے آتی ہے۔ اسٹیج کے عقب میں خالی کنستروں پر کود کود کر بجلی کڑکنے کا صوتی تاثر دیا جاتا ہے۔ ہیروئن ایک ہاتھ میں چھتری اور دوسرے سے غرارے کے پائینچے اٹھائے ہوئے ہے جس سے بھری برسات کے علاوہ بھری بھری پنڈلی کا سماں بھی دکھانا مقصود ہے۔ وہ ’’السلام علیکم یا اہل القبور!‘‘ کہہ کر قبر سےلپٹ جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے علاوہ اسٹیج پر بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بجلی پھر کڑکتی ہے اور قبر شق ہو جاتی ہے۔ اس میں سے ہیرو مرحوم و مدفون، علی گڑھ کٹ پاجامہ، ترچھی رامپوری ٹوپی اور عطر سہاگ لگائے، کفن پھاڑ کے برآمد ہوتا ہے۔ ہیروئن قبر چھوڑ کر اہل قبر سے بغل گیر ہوتی ہے اور دونوں قبر پر بیٹھ کر بلمپت میں حمد گاتے اور آفات ارضی و سماجی کو للکارتے ہیں۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یاپھر فردوس بریں کا منظر ہوتا ہے جہاں مردوں کی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں۔ مرحومین یعنی شیریں اور فرہاد باغ ارم میں چہلیں کرتے دکھائے جاتے ہیں۔ متوفی بڑھ کر متوفیہ کو آغوش محبت میں کھینچتا ہے تو وہ بامحاورہ اردو میں یہ کہتی ہوئی کہ ’’ہٹو! یہاں بھی کانٹوں میں گھسیٹتے ہو!‘‘ کانٹوں کو گلے سے لگا لیتی ہے۔ ہیرو اس کا جواب عام فہم اور سلیس سسکیوں میں دیتا ہے۔ میت کے پانچ بچے بھی دکھائے جاتے ہیں جن کی عمروں میں صرف ایک ایک مہینے کا فرق ہوگا کہ یہ منشی ریاضت علی سوختہ کی ذہنی کوکھ سے جنمے تھے۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ایسا ڈرامہ ہوتا تھا جس میں فرض اور محبت کی خونیں ٹکر نہ دکھائی جائے۔ مثلاً منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی نے پانچوں انگلیاں خونِ دل میں ڈبو کر ایک رقت انگیز سین لکھا تھا، جس میں شہزادہ سلیم کو اپنے ہی نام کی شاہی جوتی پہنے اسٹیج پر لمبے لمبے ڈگ مارتا، جذباتی کش مکش میں مبتلا دکھایا جاتا ہے۔ ایک طرف فرض ہے۔ دوسری طرف محبت۔ اور تیسری طرف۔۔۔ جدھر منشی جی کی نظر نہیں گئی۔۔۔ عقل سلیم یعنی COMMONSENSE انار کلی کے گریبان میں منھ ڈالے کھڑی ہے۔ آخر میں تینوں لہولہان ہوجاتے ہیں۔ فتح تینوں میں سے کسی کی نہیں ہوتی۔ فتح ہوتی ہے منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کے ایک ناموزوں مصرع کی، جس پر کھیل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اسٹیج کے آلات کشاورزی فرسٹ کلاس میں بیٹھنے والوں کو گرین روم میں جاکر اداکاروں کو مبارکبادکے علاوہ نقدی دینے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ گرین روم کی دیواریں چٹائی کی اور ستون بانس کے تھے۔ چھت یاد نہیں کاہے کی تھی۔ غالباً سیمنٹ کی نہیں تھی۔ چق سے ذرا دور، میک اپ کے لیے، ایک کھوکھے پر چیچک زدہ قد آدم آئینہ رکھا تھا۔ اس آئینے میں چہرہ نظر آنا تو بعد کی بات ہے، خود آئینہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ قدآدم ہم نے اس لیے کہہ دیا کہ آدمی کا قد ساڑھے تین فٹ بھی تو ہوسکتا ہے۔ اس کے پہلو میں تخت طاؤس پڑا تھا جو اچھے دنوں میں ڈینٹسٹ کی کرسی رہ چکا تھا۔ اب اس پر نادر شاہ درانی کے دانت تھے۔ چاروں طرف، بقول پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ناٹک کے آلاتِ کشاورزی بکھرے پڑے تھے۔ نور جہاں کے دو کبوتر، نظام سقہ کی مشک، مجنوں کا گریبان، لات گھونسے کھانے والے ولن کی پیٹھ کا حفاظتی پیڈ، سائیڈ ہیروئن کی چولی بھرنےکے لیے گودڑ جو غالباً کسی تیلی کے لحاف میں سے نکالا گیا تھا اور جس سے بقول حضرت جوش ملیح آبادی ’’جھل جھل کرتی چست انگیا کی کٹوریوں میں زیر تعمیر تاج محل کی ہمکار‘‘دکھانی مقصود تھی۔ (معاف کیجیے جوش صاحب کے مستورہ بالا استعارے کا سہارا ہم نے محض اس رعایت سے لیا کہ دیکھا جائے تو تاج محل کے گنبد تلے آخر دو مردے ہی تو دفن ہیں۔) سائیکل کے اگلے بریک کے دو شاخہ سے بنایا ہوا اسٹیتھس کوپ جسے کانوں سے لگا کر ڈاکٹر مریضہ کے گودڑ کا معائنہ کرتا تھا۔ قارورے ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری سے خریدی ہوئی خالی بوتلیں جنہیں رانا سانگا کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے توڑ کر بابر شراب نوشی سے توبہ کرتا تھا۔ باتھ روم فلش کی زنجیر پر سنہری پینٹ کیا ہوا تھا۔ یہ زنجیر عدل تھی جسے کھینچ کر فریادی جہانگیر سے فوری حاجت روائی چاہتے تھے۔ آئینے کے پاس ویمپ کی ربر کی ناک پڑی تھی جسے وہ حرافہ ہر شب کٹواتی تھی۔ اتوار کو دو دفعہ کٹتی تھی، اس لیے کہ میٹنی شو میں بھی اپنی بدذاتی سے باز نہیں آتی تھی۔ چوڑی دار پاجامہ کھیلوں میں زنانہ ملبوسات کی تراش خراش تو ظاہر ہے وہی تھی جو اس زمانےمیں الٹرا ماڈرن سمجھی جاتی تھی۔ یعنی وہ جو آج کل ہر گھر میں نانیاں دادیاں پہنتی ہیں۔ لیکن ایک نکتہ آج تک سمجھ میں نہ آیا۔ وہ یہ کہ عورت کو جب پاکباز، پتی ورتا یا باعصمت دکھانا مقصود ہوتا تو اسے چنا ہوا دوپٹہ اور سفید چوڑی دار پاجامہ پہنایا جاتا۔ تاڑنے والے مہین مہین چنٹوں اور پاجامے کی چوڑیوں کی تعداد ہی سے عصمت کی شدت کا اندازہ کر لیتے تھے۔ لیکن جب وہ بدراہ یا مائل بہ بدی ہوتی تو ساری زیب تن کرلیتی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی کوئی گل اندام ساری پہن کر اسٹیج پر نمودار ہوتی، ناظرین کے دل کا کنول کھل جاتا۔ پرامید نظروں سے تھپتھپاتے۔ دیر تک تالیاں بجتیں۔ جن کے منھ میں دانت تھے وہ سیٹیاں بھی بجاتے۔ انتہا یہ کہ انار کلی نے مغل اعظم کے سامنے بھی مرہٹی اسٹائل سے ساری باندھ کر زخمی مورنی کا رقص کیا۔ یہ رقص بے مثال و بے نظیر تھا۔ اس لحاظ سے کہ اول تو مورنی کبھی ناچتی نہیں۔ دوم، اس مورنی کے پیر خوبصورت ہونے کے علاوہ محاورۃ بھاری بھی تھے۔ اور اس صورتِ حال کی مبینہ ذمہ داری شہزادہ سلیم کے بجائے ایک شرارتی چوب دار پر عائد ہوتی تھی۔ رقص کے لباس کے معاملہ میں انارکلی کی چھوٹی بہن ثریا اور بھی اختصار پسند واقع ہوئی تھی۔ سینۂ ہمشیر سے باہر ہے دم ہمشیر کا۔ پردہ اٹھتا ہے شوکے اوقات میں تھیٹر یکل کمپنی گھڑی گھنٹے کی غلام نہ تھی۔ ۳ /۲ ہال کے ٹکٹ بک جائیں تو پھر ایک گھنٹہ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر ایک چار فٹ لمبی تختی مستقل لگی رہتی تھی، ہاؤس فل نہیں ہے۔ پردہ اٹھنے سے پہلے تین رہکلے داغے جاتے تھے۔ یہ وہی توپیں تھیں جن کے چلتے ہی ایک کھیل میں غنیم کے ہاتھی اس بری طرح بدکے تھے کہ ایک تو اپنی چپل اور بیڑی کا بنڈل بھی چھوڑ گیا۔ پلاسی کی جنگ میں جب یہ بونی توپیں چلتی تھیں تو جتنی دور گولہ جاتا، اس سے دو چار گز آگے اچھل کر یہ خود پہنچ جاتی تھیں۔ جو عیار فرنگی گولے سے بچ نکلتا وہ ان سے ڈھیر ہو جاتا۔ پردہ اٹھتے ہی سب مل کر سلامی گاتے۔ تھیٹر کی دھنوں کے ٹکڑے، کبھی کبھار ریڈیو کی ٹرانسکرپشن سروس سے نشر ہوتے ہیں تو ایک دوسری دنیا میں لے جاتے ہیں۔ کسی کی یاد سے وابستہ خوشبو کا جھونکا، کسی بھولے بسرے نغمے کی گونج ایک پل میں اس ہمزاد کو سامنے لا کر کھڑا کردیتی ہے جسے زندگی کے کسی موڑ پر تنہا چھوڑ کر ہم آگے چلے آئے۔ وکیل صفائی ڈھائی تین سال تک تو اتوار بھی بینک میں گزرتا تھا۔ بارے فراغت نصیب ہوئی تو اتوار کی صبح پاک بوہیمین کافی ہاؤس میں مرزا عبد الودود بیگ اور پروفیسر قاضی عبد القدوس سے عالمی مسائل پر مناظرہ کرنے جانے لگے۔ اور سہ پہر کو اس تھیٹر میں گنڈے دار حاضری۔ اتوار کا میٹنی شو پابندی سے دیکھنے والوں کو دو آنے رعایت دی جاتی تھی۔ لیکن ہمیں کبھی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے کہ ہم ہمیشہ طاہر صاحب ایڈووکیٹ کے مہمان ہوتے تھے۔ موصوف کمپنی ہذا کے شب اول سے وکیل صفائی تھے (کمپنی ہذا عدالت، کچہری، میونسپل کارپوریشن اور تھانہ میں ہمیشہ مدعا علیہا اور ملزمہ کی حیثیت ہی سے پیش ہوتی تھی۔) طاہر صاحب کمپنی سے نقد فیس نہیں لیتے تھے۔ احباب کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھیر گھار کر لے جاتے جس کا بنیادی مقصد تفریح سے زیادہ کمپنی کو مالی نقصان پہنچانا تھا۔ طلاق اور خلع کے مقدموں کے اسپشلسٹ تھے۔ مشہور تھا کہ ان کی پرچھائیں بھی پڑجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ کراچی سٹی کورٹ کو مرکز بنا کر پرکار سے ۲۰میل کا ایک دائرہ کھینچا جائے تو اس میں خلع کی خواہش مند کوئی عورت بچی ہوگی جس نے ان سے رجوع کر کے اپنا گوہر مراد یعنی طلاق حاصل نہ کی ہو۔ ان سے بھی اکثر و بیشتر فیس نقد نہیں لیتے تھے۔ ایک دیہاتی مثل یاد آرہی ہے کہ آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے۔ ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔ طاہر صاحب کی باتوں میں بلا کا لوچ تھا۔ وہ جھوٹ بھی بولتے تو جی چاہتا کہ خدا کرے یوں ہی ہوا ہو۔ ہمارے مخدوم اور قدردان تھے۔ دور کے جلوے کے قائل نہیں تھے۔ دو تین دفعہ ہاتھ پکڑ کر گرین روم میں لے گئے اور اپنی منظورِ نظر سونے کے دانت والی ایکٹرس سے تعارف کرایا۔ میک اپ کے بغیر وہ اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔ سات آٹھ مہینے بعد طاہر صاحب مسٹر اے۔ ٹی۔ نقوی، کمشنر کراچی، کی جنبش قلم سے علاقہ مجسٹریٹ بن گئے۔ ان کا علاقہ نیپئر روڈ اور جاپانی روڈ (کراچی بازار؟) سے شروع ہو کر غالباً وہیں ختم ہوتا تھا۔ اب کچھ اور ہی طنطنہ تھا۔ گھر پر اہل معاملہ کا ہجوم رہنے لگا۔ داؤں پڑے توبے خرخشہ معاملت بھی کرلیتے۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد شراب اور رشوت میں اعتدال برتنے لگے تھے۔ پرانے دوستوں سےملتے اب بھی تپاک سے تھے مگر، ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں۔ ایک دن سر راہے مڈبھیڑ ہوگئی تو ہم نے شکایت کی، اب آپ مہینوں اپنے نیازمندوں کی خبر نہیں لیتے۔ برا مانے بغیر بولے، اگر کسی سے برسوں ملاقات نہ ہو تو سمجھ لیجیے کراچی ہی میں ہے۔ اور بالکل خیریت سے۔ ہم نے مجرا دیکھا ان کے بیٹے کے ختنے ہوئے تو احباب نے فرمائش کی کہ زندہ ناچ دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔ تو پھر ہو جائے چھن، چھنن، چھنن! چھن چھنن، چھنن! انہوں نے متعلقہ انسپکٹر پولیس تک فرمائش پہنچا دی۔ اشارے کی دیر تھی۔ اس ظالم نے سارے شہر کی طوائفوں کو بجری ڈھونے کے ٹرکوں میں لاد کر لا حاضر کیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ غالباً پہلی رات تھی کہ شہر میں کہیں مجرا نہیں ہوا۔ مجرا یہاں بھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ناظم آباد کے اس چارسو مربع گز مکان میں طوائفیں ایسی ٹھساٹھس بھری تھیں کہ مجرا تو کجا، طبلہ دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ جو جہاں بیٹھی تھی وہیں نرت مدرا دکھا کے بیٹھ رہی۔ ایک منچلی نے بیٹھے بیٹھے ہی طبلے کی تھاپ اور تتکار کے ساتھ کولہا بھی لگایا۔ مگر اس طرح جیسے دفعتاً آنکھ بدشگونی سے پھڑکنے لگے اور سارا جسم دیکھتا رہ جائے۔ پروفیسر قاضی عبد القدوس نے اپنی پاکٹ ڈائری میں حساب لگا کے ہمارے کان میں مژدہ سنایا کہ فی تماشائی ساڑھے ۱۷ طوائفیں پڑ رہی ہیں۔ اور ڈھیر ساری نائیکائیں روکن میں۔ سونے کے دانت والی لڑکی افسوس کہ وہ بساطِ عیش چشم زدن میں الٹ گئی۔ ایک منحوس صبح طاہر صاحب صبح پانچ بجے چل بسے۔ آخر وہ خون کی پھٹکی جو ان کی رگوں میں پانچ سال سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی، دماغ تک پہنچ گئی اور وہ ہنستے کھیلتے اس گھاٹی سے گزر گئے جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔ زندہ دلوں کی طرح وہ بھرا میلہ چھوڑ کر چل دیے۔ میلہ بچھڑنے کا انتظار نہیں کیا۔ دو مہینے بعد سنا کہ اس سونے کے دانت والی لڑکی نے بھی بندر روڈ کے عقب میں ایک عطائی ڈاکٹر کے مذبح خانے میں اسقاط کے آپریشن کے دوران دم توڑ دیا۔ خون کسی طرح بند نہ ہوا۔ اے۔ بی گروپ کا کمیاب خون سڑک کے اس پار سول اسپتال میں دستیاب تھا مگر اسے وہاں منتقل کرنے کے لیے ’’ڈاکٹر‘‘ کسی طور تیار نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم زرد اور آنکھیں بے نور ہوتی چلی گئیں۔ کوئی دم کی مہمان تھی کہ منیجر کمپنی ہذا نے صابن لگا کر اس کی انگوٹھی اتاری۔ پھر لونگ اور طاہر صاحب کی دی ہوئی چوڑیاں اتار کر رکھ لیں۔ دانت پر سے سونے کا پتّر اتارنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اس کی پیشانی پر بالوں کے قریب ابھی رات کے میک اپ کے نشان باقی تھے۔ منشی ریاضت علی اور چار پانچ ساتھی راتوں رات اسے میوہ شاہ قبرستان میں طاہر صاحب کی پائینتی گاڑ آئے۔ اس کے جسم نے ہوس کی بہت مار سہی تھی۔ دوزخ میں اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟ اور اس کے بعد وہ تھیٹریکل کمپنی بھی بند ہوگئی۔ اس زمانے میں بھی کراچی میں سینما گھروں کی کمی نہ تھی۔ انگریزی فلمیں بکثرت دکھائی جاتی تھیں۔ اور ہندوستانی فلموں پر بھی کوئی قدغن نہ تھا۔ اس کے باوجود کراچی کی اس پہلی اور غالباً آخری تھیٹریکل کمپنی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ہمارا شمار تو خیر طفیلیوں میں تھا، لیکن ہم نے یہاں ایسے ایسے نک چڑھوں کو چاؤ سے آتے دیکھا جو ہالی ووڈ کی اچھی اچھی فلموں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بات یہ ہے کہ جسے ایک دفعہ اسٹیج کا نشہ ہو جائے، پھر جب تک آنکھوں میں دم ہے اس کا ہڑکا نہیں جاتا۔ جس نے ایک بار گوشت پوست کا روپ بہروپ دیکھ لیا اس کی تسکین پھر کبھی پرچھائیوں سے نہیں ہوگی۔ یہ اسی کا جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک بے سروساماں تھیٹر کا نام برسبیل تذکرہ آیا اور ہم نے بلا قصد و ارادہ دفتر کے دفتر لکھ ڈالے۔ کون جانے اسی بہانے اس کا حق غمگساری و چارہ گری ادا ہو جائے جس نے ایک گمنام، بے نوا کے نہ جانے کتنے اداس لمحوں میں اجالا کیا۔ باہر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم بیس برس ادھر کی بات ہے۔ ایسا ہی ایک اتوار اور ایسا ہی ایک شو تھا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے ’’منیجر کمپنی ہذا‘‘ نے ناظرین باتمکین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’اب مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم کا ڈرامہ رومیو جولیٹ بمعہ چار کتھک رقص پیش کیا جائے گا۔ مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم انگریزی ڈرامہ کے آغا حشر کاشمیری مرحوم ہیں۔ (ہمیں تو آج تک ان دونوں میں مرحوم ہونے کے علاوہ کوئی اور بات مشترک نظر نہ آئی۔) مصور درد منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی نے مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم کے ڈائلاگ میں سے بیس مخرب اخلاق فقرے نکال کر مسدس حالی مرحوم کے پچیس اخلاقی شعر ڈال دیے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔‘‘ دوسرا ناٹک نگاہیں پردہ اٹھنے کی منتظر تھیں کہ اتنے میں مسٹر اینڈرسن کا ڈرائیور غفار ہمارا کھوج نکال کر ڈھونڈتا ڈھانڈتا یہاں پہنچ گیا۔ یہ نوکر اپنے مالک ہی کے منھ نہیں، اس کی بوتل کے منہ بھی لگا ہوا تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (کہ خود عالم بے بدل و با عمل اور پیر طریقت تھے) نے ایک جگہ بڑے پتے کی بات نقل کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک ظریف کا قول ہے کہ مولویوں اور کسبیوں کے ملازم کاہل ہوتے ہیں۔ کیونکہ جہاں ان کے منھ سے کچھ نکلا، بہت سے حاضر باش کام کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں۔ اس لیے ان کے ملازم بے کار، احدی ہو جاتے ہیں۔ آقاؤں کے اس زمرے میں ہم یوروپینوں کا بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔ وہ اپنا کام آپ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے ان کے نوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے زبان چلاتے رہتے ہیں۔ یہ ڈرائیور بھی بگڑ چکا تھا۔ رات کو چوری کی شراب کے نشے میں دھت نہ ہو تو بینک کی کار چوری چھپے پرائیوٹ ٹیکسی کے طور پر چلاتا تھا۔ رات گئے شہر سے غیر ملکی ملاحوں اور ٹورسٹوں کو ملیر کے ایک پرائیویٹ قحبہ خانے میں لے جاتا جہاں صرف پونڈ اور ڈالر میں محنتانہ وصول کیا جاتا تھا۔ غفار منہ مانگا کرایہ اور جانبین سے دلالی کا کمیشن وصول کرتا۔ ایک رات ملیر سے واپسی میں ایک یونانی ملاح پر مجرمانہ دست درازی کی کوشش میں ناک تڑوا بیٹھا اور کار چھوڑ کر ایسا بھاگا کہ پھر نہ لوٹا۔ صبح گیارہ بجے ڈرگ روڈ تھانے نے ہمیں فون پر مطلع کیا کہ کار مشتبہ حالت میں کھڑی ہے۔ نیز کچے میں اس کی چال سے معلوم ہوتا ہے کہ واردات سے قبل مال مسروقہ نے پٹرول کے بجائے وہسکی پی رکھی تھی۔ اسے لے جائیں۔ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ غفار جودھپور کا رہنے والا تھا۔ اس کے تلفظ اور مارواڑی لہجے کی نقل بہت دشوار ہے۔ ہر لفظ کے آگے پیچھے دو چشمی ھ لگا کر بولیں تو شاید لہجے میں دھڑدھڑاہٹ اور ھمھمہ پیدا ہو جو راجستھانی بولی کا ٹھاٹھ اور سنگھار ہے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا، ’’آپ کو تماش بینی کی پڑی ہے۔ ادھر بڑا صاحب منھ ھندیرے سے ھدھم مچا رھا ھے۔ دارو کا ادھا چڑھا گیا ھے۔ آپ کو تو وہ مرڈر کیس اچھی طریوں یاد ہوگا۔ اس کے یار مسٹر جیمسن کا ننگی حالیت میں قتل۔ جب نمچھئے لونڈے نے شراب کے گلاس میں تیزاب بھر کے اس کی آنکھوں پہ پھینکا۔ پھر جھٹ ڈبل روٹی کاٹنے کی چھری سے ذبح کردیا۔ وہ دن ھے اور آج کا دن۔ بڑا صاحب بوتل سے منھ لگا کے پیتا ھے۔ لطیفی صاحب (ایک بڑے افسر جن سے مسٹر اینڈرسن کی ذرا نہیں بنتی تھی) سے آئینے میں کھڑا توتکار کر رہا ہے۔ بلکہ انگریزی میں فادر مدر کر رہا ھے۔ بڑے بڑوں کی شان میں یکے بعد دیگرے، دیگرے بعد یکے، غستاخی ہو رہی ھے۔ گیارہ بجے اس نے لطیفی صاحب کی کنپٹی پہ کس کے ایسا گھونسا مارا کہ آئینہ کرچی کرچی ہو گیا۔ ساری مغروریت خاک میں مل گئی۔ گھونسا بھی خونم خون ہوگیا۔ ابھی ابھی ڈاکٹر بٹر فیلڈ کو بلا کر پٹی کروائی ھے۔ یقین نہ آئے تو جا کے چشم دید دیکھ لینا۔ آپ کو سلام بولتا ھے۔ آرڈر ھے کہ آپ جس حالیت میں بھی ہوں، گاڑی میں ڈال کے بنفشہ نفیس حاضر کروں۔ قصہ کھوتاھ، آپ کی انتظاری میں چشم بھراہ ھے۔ اپن کو تو لگتا ھے آج کچھ دھرم بھرم ہونے والا ھے۔ سویرے سے مالجادی بائیں آنکھ پھڑکے جارہی ھے۔‘‘ ’’کیا لطیفی صاحب کو بھی بلایا ہے؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ بہت آگ چلموں کی سلگانے والے لطیفی صاحب کے حلقہ معتوبین میں ہم نہایت ممتاز مقام رکھتے تھے۔ دومہینے پہلے وہ ہمارے رزق کا دروازہ بند کرنے کی دھمکی دے چکے تھے اور ہم بھی اتنے عاجز آچکے تھے کہ صبح کا سلام تک بند کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز بند کرنا ہمارے اختیار میں تھا بھی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم دم دبائے رہتے تھے، لیکن اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اس پر کسی کو کھڑا ہونے دیں۔ انہوں نے اپنے گرد منتخب روزگار نااہل جمع کر لیے تھے جو دوسروں کے لیے بھی وہ پسند نہ کرتے تھے جو اپنے لیے ناپسند کرتے تھے۔ یعنی کام۔ ان کا واحد مشغلہ لطیفی صاحب کی ہر ادا او رہر لطیفے پرلوٹ پوٹ ہونا تھا۔ اور ہم بڑے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانے سے اس لیے بھی احتراز کرتے ہیں کہ اگر ہم کسی کی رائے سے اتفاق کریں تو لوگ اسے احمق سمجھنے لگتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد یہ نہیں کہتے کہ اکبر ان پڑھ، جاہل یا کاہل تھا۔ فرماتے ہیں، ’’علوم نے اس کی آنکھوں پر عینک نہ لگائی تھی اور فنون نے دماغ پر دستکاری خرچ نہ کی تھی۔‘‘ گویا سارا قصور اور تمام تر کوتاہی علوم و فنون ہی کی ٹھیری جو سراسر حرام خوری اور کاہلی پر اتر آئے تھے۔ لیکن دربار لطیفی کے تو نورتن بھی اپنے بادشاہ پر پڑے تھے۔ یعنی عینک وغیرہ کے تکلفات سے بے نیاز۔ وہ بغیر عینک کے کہاں سے کہاں پہنچ چکے تھے اور ہم؟ ہم، بقول مرزا، معاشرے کی وہ پسلی ہیں جس میں کہنیاں مار مار کے آگے بڑھنے والے آگے بڑھتے ہیں۔ اب جو ٹھنڈے دل سے محاسبہ کرتے ہیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہماری خواری میں ان کی خصومت سے زیادہ ہماری اپنی ناسمجھی اور ناتجربہ کاری کو دخل تھا۔ ہم جوان تھے۔ بر خود غلط تھے۔ (بر خود غلط تو آج بھی ہیں، مگر پہلی خرابی دور ہو چکی ہے۔) ان کی مسٹر اینڈرسن سے ٹھنی ہوئی تھی اور ہمیں اس کا قرب خاص حاصل تھا۔ مطلب یہ کہ ہم جنرل منیجر کے اتنے قریب ہوگئے تھے کہ اس کے غیظ و غضب کی ابتدا ہم ہی سے ہوتی تھی۔ پشتو کہاوت کے بمصداق سانڈوں کی لڑائی میں مینڈک کچلے جاتے ہیں۔ سو ہمارا بھی قیمہ ہوگیا مگر ٹرانا نہ گیا۔ دیکھا جائے تو لطیفی صاحب کو ہم سے کیا عداوت یا رقابت ہو سکتی تھی۔ ان کا ایک ادنی سا افسرانہ مطالبہ تھا جسے ہماری انا سمجھ نہ پائی، مجھ کو بھی پوجتے رہو تو کیا گناہ ہو۔ لطیفی صاحب کی عمر ہم سے ۱۲ سال، سوجھ بوجھ ۲۴ سال اور تنخواہ ۱۶۰۰ روپے زیادہ تھی۔ لہٰذا اسے صحیح معنوں میں تصادم نہیں کہا جا سکتا۔ ہم خود ریل کی پٹری پر انجن کو چیلنج کرنے کے لیے سینہ تان کر لیٹے تھے۔ تڑپے ہے مرغا قبلہ نما آشیانے میں اونٹ کی کمر جس روایتی تنکے سے ٹوٹی وہ ان کی کرسچین سکریٹری مس راٹھور تھی جس کے ناوک نے زمانے میں صید نہ چھوڑا تھا۔ ان کے مزاج ہی میں نہیں، کام میں بھی دخیل تھی۔ پہلے غرہ ہی غرہ تھا، اب غرانا بھی شروع کردیا۔ ہم سے بھی غرفش کرنے لگی۔ اور بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس یہ نوبت آگئی کہ, تڑپے ہے مرغا قبلہ نما آشیانے میں۔ (پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم۔ اے، سودا کے مصرع ’’تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں‘‘ کو اسی طرح پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ مطلب یہ بتاتے ہیں کہ ذبح ہوتے وقت مرغا اپنا منھ قبلہ کی طرف کر کے تڑپ رہا ہے۔) ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو اسے بھی شیشے میں اتار لیتا یا کم از کم خود اترجاتا کہ یو ں بھی عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی کی ناک ضرور نکلے گی۔ مگر اس کو کیا کریں کہ طبیعت ہی غصیلی اور زود رنج پائی ہے۔ التفاتِ دل دوستاں نہ رہے، یا کاروبارِ دنیا ہماری عین مرضی کے مطابق نہ چلے تو بلبلا اٹھتے ہیں۔ جہانگیر کے عہد میں ہوتے تو ہم چوبیس گھنٹے زنجیر عدل ہی سے لٹکے رہتے۔ اس بچارے کا سونا لیٹنا حرام ہو جاتا۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم سدا سے زبان کے پھوہڑ ٹھہرے اور وہ چغل خور نکلی۔ مولانا احسن مارہروی فرماتے ہیں، ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگِ گلو میں ہے ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ یہ فسادی قطرۂ خوں ہماری زبان میں ہے جس پر ہمیں اتنا ہی قابو ہے جتنا عشاق کو اپنے دل پر ہوا کرتا ہے۔ یار لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ اسٹینو گرافر دن بھر سامنے بیٹھی اپنے باس کو فرمائشیں ڈکٹیٹ کرواتی رہتی ہے۔ ہم نے جب دیکھا سوئٹر بنتے یا موٹی اسامیوں پر مسکراتے ہی دیکھا۔ مرد کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست۔ یہاں اگر مرگ کی بجائے مرد پڑھا جائے تو مصرع اس عورت پر بھی چسپاں ہوتا تھا۔ ویسے لطیفی صاحب کا سارا کام زبانی اور بیشتر حکم احکام ٹیلیفون پر صادر ہوتے تھے۔ لکھنے لکھانے کو تکلف بے جا جانتے تھے حالانکہ بنئے کا مانا ہوا اصول ہے کہ پہلے لکھ، پیچھے دے، بھول پڑے کاغذ سے لے۔ مس راٹھور کا لقب نہ جانے کیوں اور کب سے ’’مس رنتمبھور‘‘ چلا آتا تھا۔ بڑے بڑے افسروں کے ساتھ نتھی رہ چکی تھی۔ وجہ تسمیہ ہمیں معلوم نہیں۔ البتہ قلعۂ رنتمبھور کے بارے میں اتنا یاد پڑتا ہے کہ اس پر ہر بادشاہِ وقت نے لشکر کشی کی۔ کسی نے منجنیق سے سر کیا۔ کوئی اسپِ تازی کو ایڑ لگا کے خندق پھلانگ گیا۔ کوئی سنگلاخ فصیل ڈھاتے ڈھاتے خود ڈھے گیا۔ کسی نے شب خون مارا۔ اور کوئی دن دہاڑے فولادی میخوں کی انی کو بلونت ہاتھیوں کے کے مستک سے موڑتا توڑتا، صدر دروازے کو ریلتا دھکیلتا، پھریرا اڑاتا ہوا قلعہ میں داخل ہوگیا۔ ہم نے تو بس ان معدودے چند بادشاہوں کے نام رٹ لیے تھے جنہوں نے اس قلعہ پر دھاوا نہیں بولا ورنہ امتحان میں ہربادشاہ کا نام اور اس کے بعد ڈیڑھ دو صفحوں میں رنتمبھور کی رٹی رٹائی لفظی تصویر کھینچ کر لکھ دیتے کہ مذکورہ بالا نے مندرجہ ذیل پر یورش کی۔ ڈیوڑھا آدمی؛ لطیفی صاحب نہایت ملنسار، زمانہ شناس، خوش خلق اور خوش تدبیر تھے۔ ان کی اہلیت ان کے حوصلوں کے ساتھ قدم ملاکر نہیں چل سکتی تھی۔ سیدھی سڑک سے انہیں سخت الجھن ہوتی تھی۔ ہمہ وقت ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں رہتے، خواہ وہ کتنا ہی اوبڑ کھابڑ کیوں نہ ہو۔ اس کی تلاش میں اکثر دگنا وقت لگ جاتا۔ گرمیوں میں بھی واسکٹ پہنتے، اس لیے کہ اس کی جیبوں میں انگوٹھے ڈالے بغیر بات نہیں کر سکتے تھے۔ دشمنوں نے اڑارکھی تھی کہ چوری چھپے پانچ بسیں چلاتے ہیں جن کی آمدنی کو ہر مہینے گیارہویں کی نیاز دلوا کر پاک کرلیتے ہیں۔ آخر جنت کا بھی تو کوئی شارٹ کٹ ہوگا۔ نگاہِ بدبیں نے کہاں کہاں ان کا تعاقب نہ کیا۔ اتوار کو دیکھا کہ اینگلو انڈین بھبوکا چھوکریوں کو کار میں بھرکے نہلانے دھلانے سینڈزپٹ لے جا رہے ہیں۔ ابھی کار کی سیٹیں ٹھیک سے ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی ہوں گی کہ دیکھا اسی کار میں اٹاٹٹ مولوی ٹھونسے شبیہ پڑھوانے گھر لے جا رہے ہیں۔ اور ڈکی میں اتنے ہی عدد مرغیاں بھری ہوئی ہیں۔ سنیچر کی رات کو وہ ’’لاگورمے‘‘ میں اس طرح ڈانس کرتے دیکھے گئے کہ دور سے تو یہی لگتا تھا کہ ابھی تو پنجے لڑا رہے ہیں۔ دم کے دم میں گتھ مریں گے۔ اور اہل درد نے انہیں پاک پتن شریف میں روضہ کی جالی پکڑے اشکبار بھی دیکھا۔ خود ہم نے انہیں ۱۹۵۲ میں جھگیوں میں سات روپے سیر کے بمبئی کے الفانسو آم تقسیم کرتے دیکھا۔ کہتے تھے روٹی تو روکھی سوکھی سب کو مل جاتی ہے۔ قلمی آم غریبوں کو برسوں نصیب نہیں ہوتے۔ بقرعید پر پندرہ بیس بکرے ذبح کرتے تھے تاکہ گورنمنٹ کے بڑے افسروں کو سالم رانیں بھیج سکیں۔ چھوٹے بڑے، ہر بزنس مین سے ان کی یاد اللہ تھی۔ سب سے جھک کر ملتے، پورے سے بھی زیادہ سود وصول کرتے اور تاکید و تقاضے میں بھی شہد (پروفیسر قاضی عبد القدوس کہتے ہیں کہ تحریر میں بھی سود کھانے سے لذت پیدا ہوتی ہے۔ مثال میں ہمیں پیش کر دیتے ہیں۔) گھول دیتے۔ اپنا کام نکالنے کا ہنر جانتے تھے۔ زمین میں ذرا سا سوراخ کرنا ہو تو پوری طاقت سےکدال چلانی پڑتی ہے۔ لیکن خاک بسر بیج، کومل اکھوے اور نرم و نازک پنیری کس دھیرج سے اسی زمین کو ایک ادا سے رضامند کرکے نکل آتے ہیں۔ لطیفی صاحب کو کامیاب ہونے میں دیر نہیں لگی، اس لیے کہ دنیا جس زاویہ سے کج ہے اسی زاویہ تک انہوں نے اپنی رفتار و گفتار و کردار میں کجی پیدا کرلی تھی۔ فرماتے کہ ’’بزنس میں صرف گھاٹا حرام ہے۔ باقی سب چلتا ہے۔ ہر پکڑ، ہر داؤں۔ ارے بابا! یہ تو ایک کھیل ہے۔ ناٹک۔ ہر آدمی سوانگ بھر کے اپنا اپنا ڈائلاگ بولتا ہے۔ کھیل ختم، ڈائلاگ خلاص۔ جھوٹ سچ کا سوال کہاں۔ کٹھ پتلیوں کے لیے کیا پاپ، کیا پن۔‘‘ پیسہ کیسے جڑتا ہے۔ روپیہ اپنے آپ کو کس طرح ضرب دیتا ہے۔ زر خدا نہ سہی، لیکن کتنا ’’غالب و کار آفرین، کار کشاو کارساز‘‘ ہے۔ پیسے سے کیا کیا خریدا جا سکتا ہے۔ ناخن زر سے کیسی کیسی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ لکشمی کس کس چیز کی بھینٹ مانگتی ہے۔۔۔ آدمی یہ بیوہار اور بیوپار بہت قریب سے ساری عمر دیکھتا رہے اور آزردہ و دل گرفتہ نہ ہو تو بڑے حوصلے یا پھر اتنی ہی بے حسی کی بات ہے۔ دو ہی راستے ہیں۔ یا تو آدمی کھرا کھوٹا پرکھنےکی کسوٹی نزدیک ترین گٹر میں پھینک کر نچنت ہوجائے یا پھر سارے سنسار سے ناتا توڑ کر اپنی ذات کی گپھا میں اپنا نروان آپ ڈھونڈے۔ یونانی دیو مالا کی دیونی میڈو سا گارگن نے زمین کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد نور سے بنے ہوئے دیوتاؤں کو زیر اور خوار و زبوں کرنا تھا۔ کوئی آدم زاد اسے قتل نہیں کرسکتا تھا، اس لیے کہ جیسے ہی اس کے چہرے پر نظر پڑتی، آدمی پتھر کا ہو جاتا تھا۔ آخرکار، پرسی یس نامی ایک جوان شہ زور نے یہ ترکیب نکالی کہ اپنی جلا کی ہوئی ڈھال میں اس کا عکس دیکھ کر تلوار کے ایک ہی وار سے سرتن سے جدا کردیا۔ تو صاحبو! یہ دنیائے دنی اس وقت تک دلوں کو پتھر میں تبدیل کرتی رہتی ہے جب تک انسان کسی آدرش یا عقیدے کی سپر میں عکس دیکھ کر اس کی شہ رگ نہ کاٹ دے۔ اور ایک بار پھر اس خرابے کو انسانوں کے رہنے کے لائق بنادے۔ نذرِ ارسطو لطیفی صاحب ہی کا قول ہے کہ زندگی کے ہر درد کا مداوا، تمام مصائب کا حل کسی نہ کسی انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے کہ در حقیقت انسان ہی مسبب المصائب ہے۔ اور وہی مشکل کشا۔ لہٰذا اسی کا دامن تھامو۔ اسی سے مدد چاہو۔ پھر بیڑاپار ہے۔ ان کی اپنی نیا نہ صرف منجدھار پار کر چکی تھی بلکہ ریگستانی ساحل کے میلوں اندر گھس گئی تھی۔ اتوار کی صبح کو دلی کی نہاری پر بیس پچیس مسبب المصائب مدعو ہوتے۔ قوالی اور کاک ٹیل کے دلدادہ تھے۔ اکثر فرماتے کہ ’’آدمی کی یہی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ان تقریبوں میں دونوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ (جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آکے دم ہوئے۔) کامیاب بینکر بننے کے لیے پچہتر فی صد یاری، پچاس فی صد عیاری اور پچیس فی صد نہاری درکار ہے۔‘‘ عرض کیا، ’’جناب! یہ تو ڈیڑھ سوفی صد ہوگیا۔‘‘ بولے، ’’اور کیا! یہ پروفیشن تو ڈیوڑھا آدمی مانگتا ہے۔ آدھے پونے آدمی سے کام نہیں چلنے کا۔ یونیورسٹی کی پروفیسری تھوڑا ہی ہے کہ زندگی پر کتابیں پڑھ پڑھ کے ایک کتاب اور لکھ ماری۔ اجی کہیں گئو سے گئو بھی گیا بھن ہوئی ہے؟ انٹلکچوئل لوگ اسپیڈو میٹر دیکھنا جانتے ہیں، اسٹیرنگ وہیل نہیں سنبھال سکتے۔ قسم خدا کی! اگر ارسطو آج قبر سے اٹھ کر آجائے اور اس مارکٹ میں کپاس کی ایک گانٹھ بھی دوپیسے منافع پر بیچ لے تو میں اپنی بھنویں منڈوا دوں۔‘‘ (مونچھیں پہلے ہی کسی ایسی ہی شرط پر نذر ارسطو کر چکے تھے۔ سرپر بھی شرط لگانے کے لیے کچھ نہیں رہا تھا۔) جملۂ تیموریہ ماتحتوں کو اس پیشہ کی نجابت، نفاست اور نجاست سے متعلق نصیحتیں کرتے رہتے۔ گاہے ماہے مہربان ہوتے تو چاند ماری کے لیے ہمیں بھی منتخب فرماتے۔ ان کے ڈیوڑھا آدمی ہونے میں کسے کلام ہو سکتا تھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں لنچ پر سالم مرغی کھا کر اپنی سکریٹری کے سامنے انگلش گریمر پر دست درازی کرتے دیکھا ہے۔ ہم نے آج تک اتنے فراٹے، زور اور اعتماد سے کسی انگریز کو بھی غلط انگریزی بولتے نہیں دیکھا۔ صحیح املا و تلفظ کو اپنے مرتبہ افسری سے پست جانتے تھے۔ ان کا ہر جملہ، جملۂ تیموریہ ہوتا تھا۔۔۔ یعنی لنگڑا اور حملہ آور۔ ان کی دیکھا دیکھی ماتحتوں نے بھی اپنی انگریزی میں شرعی عیب پیدا کرلیے۔ سندھی میں بڑے مزے کی کہاوت ہے کہ کبھی ایک ٹانگ والوں کے دیس میں جاؤ تو اپنی ایک ٹانگ کندھے پر رکھ لو۔ ہم نے توبہ نظر احتیاط اپنی انگریزی کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دی۔ بلکہ اعضائے رئیسہ بھی کاٹ کر پھینک دیے۔ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ اس اپاہج پن سے آگے چل کر ہمیں بے شمار فائدے ہوئے جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ خود آپ نے دیکھا ہوگا کہ خاندانی فقیر اور دور اندیش بھکاری اپنے بچوں کے ہاتھ پاؤں عالم شیر خوارگی میں ہی توڑ دیتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر بچوں کو روٹی کمانے میں آسانی رہے اور ماں باپ کے محتاج نہ رہیں۔ طعن و تشنیع سے ہماری کافی اصلاح ہوئی۔ کتابی باتوں سے احتراز کرنا سیکھ لیا۔ ان جیسے کامیاب لوگوں کی مصاحبت و مجالست کا یہ اثر ہوا کہ ہم نے کتابیں پڑھنے سے توبہ کی اور کتاب لکھنے کا تہیہ کر لیا۔ بچپن کے کھلونے ٹوٹتے ٹوٹتے ہی ٹوٹتے ہیں۔ ڈلن تھامس نے غلط نہیں کہا تھا کہ میں نے جو گیند باغیچے میں کھیلتے ہوئے اچھالی تھی وہ ابھی تک زمین پر واپس نہیں آئی۔ لطیفی صاحب کا چال چلن نارمل تھا۔ یعنی ویسا ہی جیسا کہ ہمارے ہاں نارمل آدمی کا آسانی سے کامیابی اور دولت حاصل ہونے کے بعد ہو جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی کو عمر قید سزا سمجھتے تھے، یعنی محبت بامشقت۔ مشہور امریکی سفیر اور ماہر اقتصادیات پروفیسر گالبریتھ اپنی چٹخارے دار کتاب ’’سفیر کی ڈائری‘‘ میں یورپ میں تعینات ایک رنگین مزاج امریکی سفیر کبیر کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ موصوف ہرمسئلہ، ہرمشکل کا سامنا بند ذہن اور کھلے ازاربند سے کرتے تھے۔ لطیفی صاحب بینکنگ کے پیچیدہ ہی نہیں، غیر پیچیدہ مسائل بھی اسی طریقے سے حل کرنے لگے تھے۔ انہیں ایک دفعہ اچانک رخصت پر کلکتہ جانا پڑا اور ہم ان کے قائم مقام مقرر ہوئے تو حسینوں کے فون اور خود حسین متواتر پندرہ دن تک آتے رہے۔ ڈان کہوٹے کے رازداں خدمت گار کی طرح ہم بھی عصمت دہندگان کی فہرست بڑی محنت سے مرتب کرتے رہے۔ گھڑی تو وقت کا حساب رکھتی ہے۔ وقت سے لطف نہیں اٹھاتی۔ سولہویں دن وہ خود آگئے اور ہماری قائم مقامی ختم ہوئی۔ حیف درچشم زدن صحبت بدآخرشد۔ فرد جرم اتنا طویل تعارف اس لیے اور ناگزیر ہوگیا کہ جب ہم مسٹر اینڈرسن کے حضور لرزاں و ترساں پیش ہوئے تو دیکھا کہ نشہ کو غصہ نے سہ آتشہ کردیا ہے اور وہ لطیفی صاحب کو ناقابل اشاعت گالیاں دے رہا ہے۔ عجیب عجیب بہتان لگا رہا ہے۔ کہنے لگا کہ میں نے جو رسی دراز کی تھی، وہ اس کے لیے پھانسی کا پھندا بن گئی۔ وہ کمیشن کھاتا ہے۔ بسیں چلاتا ہے۔ بینک کے ذریعہ درآمد کیا ہوا سوا روپے گز کا جاپانی لٹھا بالا بالا اپنے ’’بینامی‘‘ پارٹنر کو ۵ آنے گز میں بیچ دیا۔ بینک کے فرنیچر سے میک نیل روڈ پر اپنی گرل فرینڈ کا پلش فلیٹ فرنش کرایا ہے۔ بے شمار قرضے بلا اجازت و ضمانت دیے جن کے سود کے حساب سےتم رات کے بارہ بجے تک مغزمارتے رہتے ہو۔ اور تو اور مسٹر۔۔۔ وزیر حکومت پاکستان کے نام ایک لاکھ روپے کا قرض دکھا کر ایک نئی کمپنی کے شیئرز خریدے جن پر ڈیڑھ لاکھ کا منافع ہوا۔ انکوائری ہوئی تو وزیر نے صاف انکار کر دیا کہ فارموں پر سرے سے میرے دستخط ہیں ہی نہیں! یہی نہیں، لطیفی ایک کاک ٹیل پارٹی میں بلیک ٹائی کے بجائے لاؤنج سوٹ پہن کر گیا اور بینک کی بھد اڑوائی۔ ایک سنگین الزام ان پر مسٹر اینڈرسن نے یہ بھی لگایا کہ انہوں نے ہیڈ آفس سے اجازت لیے بغیر اپنی سکریٹری کے سینڈل کی اونچی ایڑی دو دو انچ کم کرادی تھی۔ فرد جرم سنانے کے بعد مسٹر اینڈرسن نے مطلع کیا کہ کل شام بورڈ آف ڈائرکٹرز نے مسٹر لطیفی کو برخاست کردیا۔ یہ تلوار تو اس کی گردن پر ایک نہ ایک دن گرنی تھی۔ قتل میں عجلت کی فضیلت پر اس نے اپنے ’’فیورٹ کریکٹر‘‘ میکبتھ کا قول دہرایا (اسکول کے اسٹیج پر میکبتھ کے رول میں وہ خود کو کئی مرتبہ کامیابی کے ساتھ قتل کروا چکا تھا)، “If it were done when ‘tis done, then t’were well if it were done quickly…” پھر ہدایت کی کہ اسی وقت میری کار میں بینک جاکر اس کی تجوری، الماریاں اور میز کی درازیں۔۔۔ اور جو کچھ تمہیں اس کا نظر آئے۔۔۔ سیل کردو۔ اس کے حمایتوں کے منہ بھی۔ چٹ پر اپنے دستخط کر کے چپکا دینا اور صبح ٹھیک نو بجے اس سے کیش کا چارج لے لینا۔ وہ باسٹرڈ مجھ سے چارج لینے کے ’’ڈے ڈریمز‘‘دیکھا کرتا تھا۔ ہاہاہا! روپیہ اور عورت کبھی میری کمزوری نہیں رہی۔ اور ہاں! نوٹ گننےکے لیے لعاب دہن کے بجائے کسی دوسرے سیال پر اکتفا کرنا۔ تم اتنے پریشان کیوں نظر آ رہے ہو؟ ترقی مبارک! تم سے زیادہ اس عہدے کا اہل میرے پاکستانی ماتحتوں میں اور کوئی نہیں۔ مجھے تم سے بڑی امیدیں ہیں۔ گڈ لک! اور ہاں! صبح اس کی کار بھی اپنی تحویل میں لے لینا۔ جی تو بہت چاہتا ہے کہ تمہیں شیورلٹ کار لے دوں۔ لیکن بڑی کار میں تو تم اور بھی منے سے لگوگے۔ نظام سقہ ہم رات کے دس بجے تک ہر الماری، کیبنٹ، دراز اور تجوری پر اپنی دستخطی سلپ بجبجاتے گوند سے چسپاں کرتے رہے۔ ازروئے احتیاط ان کے تھرماس پر بھی مہر لگا دی۔ صبح لطیفی صاحب نے ہمیں اپنی کرسی کے کنارے پر نروس بیٹھے دیکھا تو اسے ہماری طبعی شوخی اور دفتری گستاخی پر محمول کیا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ان کی برخاستگی کا پروانہ پیش کیا۔ بھونچکے رہ گئے۔ انہیں اپنی برخاستگی سے زیادہ ہماری ترقی کا صدمہ تھا۔ اور جھوٹ کیوں بولیں، ہماری مسرت کی بھی ترتیب بالکل یہی تھی۔ جس ڈائرکٹر نے سنیچر کی شام کو ان کی برطرفی کی قرار داد بورڈ سے بعجلت منظور کروائی تھی، اس نے اتوار کی صبح کو ان کے ساتھ دلی کی نہاری کھائی اور دن بھر ڈکاریں لے لے کر رمی کھیلی۔ ’’ہنٹ۔‘‘ تک نہ دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لطیفی صاحب نے جھونجھل میں چابیاں اس سیاہ میز پر، جو کل تک ان کی اور آج ہماری تھی، اتنے زور سے پھینک کر ماریں کہ میز پر لگے ہوئے دبیز شیشے میں ایک سورج سابن گیا جس کی کرنیں دور دور تک پھیل گئیں۔ پہلے اس شیشے میں ہمیں اپنی ایک ہی تصویر نظر آرہی تھی۔ ٹوٹا تو ایک ایک کرچی میں اسی کا جلوہ تھا۔ میں ہی آیا نظر، جدھر دیکھا۔ وہ بغیر کچھ کہے سنے چل دیے۔ دن بھر ہم اپنے نئے فرائض نہایت جوش و تندہی سے انجام دیتے رہے۔ رات کو ٹھاٹ سے لطیفی صاحب کی کار میں گھر گئے اور اپنے کوارٹر کی دہلیز پر اس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک باوردی شوفر نے اترکر دروازہ نہ کھولا۔ بچوں نے لالٹین کی روشنی میں ہماری کار اور ترقی کا ہر زاویہ سے معائنہ کیا۔ انہیں ڈرائیور کی ٹوپی بہت پسند آئی۔ بیگم نے مڈگارڈر کو تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ ہلکا سبز رنگ مجھے شادی سے پہلے بھی پسند تھا۔ ماں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا، بیٹا! تم نے آج بھی روٹی کھائی یا نہیں؟ دوسرے دن یوم آزادی کی تعطیل تھی۔ ہم نے سب احباب اور اپنے تمام بہی خواہوں کو دلی کی نہاری کھلائی اور ’’آنکھ کا نشہ‘‘کھیل دکھایا۔ ۱۵ اگست کو دفتر پہنچے تو ایک کرسی پر ایک ڈائرکٹر کے منھ چڑھے افسر نور علی نجم الدین کھانڈ والا کو بیٹھے دیکھا۔ ہماری ہر الماری، کیبنٹ، دراز اور تجوری پر ان کی دستخطی سلپ چسپاں تھی۔ حد یہ کہ ناک میں ڈالنے کے ’’ڈراپس‘‘ کی شیشی جو ہم میز پر بھول گئے تھے، اس پر بھی لال چپڑی کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ہم انہیں اپنے تخت ہمایونی پر متمکن دیکھ کر بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے اپنی تقرری اور ہمارے تبادلہ کا پروانہ دکھایا۔ مسٹر اینڈرسن سے پرسوں سہ پہر کو ایک گھنٹے تک ہماری گفتگو ہوئی تھی۔ ’’ہنٹ‘‘ تک نہ دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم نے چابیاں اس سیاہ میز کے سورج پر، جو پرسوں تک ہماری اور آج ان کی تھی، پھینک کر ماریں اور بغیر کچھ کہے سنے چل دیے۔ ہم آکر اپنی پرانی میز پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد مسٹر اینڈرسن خود ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے، ’’تمہارے بغیر جنرل منیجر کا آفس سونا سونا لگتا ہے۔ ویلکم بیک ہوم! تم سے زیادہ اس عہدے کا اہل میرے پاکستانی ماتحتوں میں کوئی نہیں۔ مجھے تم سے بڑی امیدیں ہیں۔ میری ڈریسنگ ٹیبل میں نیا آئینہ لگوا دو۔ بدذات بلی نے توڑ دیا ہے۔ بیچوں بیچ سورج سابن گیا ہے۔ ایک زخمی ہاتھ کے بجائے سوزخمی ہاتھ نظر آتے ہیں۔‘‘ رات گئے، حسب معمول بس کے ڈنڈے میں بانہیں حمائل کیے، گھر آئے۔ بیگم نے پوچھا کار کہاں گئی؟ بچوں نے پوچھا کیا ڈرائیور بھی چھین لیا؟ ماں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا، بیٹا! تم نے آج بھی روٹی کھائی یا نہیں؟ نظام سقہ کو اس کی مشک واپس مل گئی۔ (پردہ گرتا ہے)
ناول کا موضوع انسانی رشتے ہیں، اس لیے اس میں حقیقت مقررہ، پہلے سے طے شدہ عقائد کے مجموعے کی شکل میں نہیں بلکہ حقیقت کے اس تجربے کی شکل میں ہوتی ہے جس کا ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس لیے ناول پر کوئی نظریہ لاد اجائے تو ناول ناول نہیں رہتا جیسے ویلس کے یہاں۔ ویسے اس میں فن کے آداب کے مطابق ہر نظریے کی عکاسی کی گنجائش ہے۔ ناول تہذیب کا عکاس، نقاد اور پاسبا...
’’میں اصل کا خاص سومناتی آبا میرے لاتی و مناتی‘‘ دہلی سے چھتیس میل دور مرادآباد کی جانب ضلع میرٹھ میں ایک قصبہ ہاپڑ واقع ہے ہم لوگ اس قصبہ کے رہنے والے ہیں اگر آپ ہاپڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کومحلہ قانوں گویاں میں پتھروالے کنوئیں کاپتہ بتادے گا۔ اسی کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے جو آج تک سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے ایک کچے مکان کو منہدم کرکے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو علامہ مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔ ہمارے آبا و اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دَورِ مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمات تھیں۔ یہ سب ہندو تھے اور کایستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب عہدِ شاہجہانی میں مشرف بہ سلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا۔ ان کیاولاد شمالی مغربی ہندمیں جس کو آج کل اترپردیش کہا جاتا ہے، کے تمام اضلاع میں پھیل گئی۔ ان ہی میں سے ہمارے مورثِ اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے۔ جن کی قبرآج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ہاپڑ میں موجود ہے۔ شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا اس میں میرے دادا شیخ علی حسین صاحب مرحوم تھے جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں۔ اولادِ نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم تھے اور اس کے بعد مولوی عبدالحق۔ اب صرف میرے والد جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں۔ بقیدِ حیات ہیں باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ ہمارا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا اور دادا صاحب مرحوم معانی کی آمدنی کے علاوہ خود ملازمت بھی کرتے تھے وہ بہت سوجھ بوجھ کے دور اندیش بزرگ تھے۔ اور اسی لیے اپنی معمولی حیثیت کے باوجود انہوں نے اپنے لڑکوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ یہاں تک کہ زمین بیچ دی اور قرض بھی حاصل کیا، ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لیے کوئی دقیقہ نہ اٹھارکھا۔ مولوی صاحب مرحوم کے بڑے بھائی نے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی۔ لیکن مولوی صاحب نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بلکہ خداداد قابلیت و ذہانت سے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچایا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام باقی رہے گا اور ہم نیز ہماری نسلیں ان پر فخر کریں گی۔ جیسا کہ کئی اصحاب نے اپنے مضامین میں لکھا ہے مولوی صاحب بچپن سے ہی نہایت خاموش اور سنجیدہ واقع ہوئے تھے۔ علی گڑھ کی صحبت اور تعلیم نے وہ کام کیا کہ آج ہم انہیں بلا جھجک سرسید ثانی کہہ سکتے ہیں۔ سرسید سے جو ایک خاص لگاؤ مولوی صاحب کو تھا اور خود سرسید جو شفقت اور مہربانی ان پر فرماتے تھے۔ اس کا ذکر کئی مضامین میں آچکا ہے۔ ملازمت، علمی مشاغل وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جائے گا۔ میرا مقصد یہاں بابائے اردو کے صرف دو پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ کیا چیز ہے جو مولوی صاحب کو دوسرے ادیبوں، شعراء اور مصنفین سے ممتاز بناتی ہے۔ دوسرے ان کا تعلق اپنے رشتہ داروں سے کیا اور کس حد تک تھا۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک انسان خواہ وہ سرسید ہو یا مرزا غالب، اقبال ہو یا بابائے اردو مولوی عبدالحق، اپنی فطری کمزوریوں اور خوبیوں پر اختیار نہیں رکھتا۔ انسان اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے اور کسی بھی شخص کو اگر ہم فرشتہ تصور کرلیں تو خود یہ ہماری فہم کاقصور ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایک شخص میں خوبیاں زیادہ ہیں یا برائیاں اور ان میں سے جن کی تعداد مجموعی طو رپر زیادہ ہو ان کی روشنی میں رائے قائم کی جانی چاہیے۔ پس مولوی عبدالحق بھی ایک انسان تھے اور جہاں ان میں خوبیاں تھیں وہاں کمزوریاں بھی تھیں جن کی وجہ سے انہیں کافی نقصانات اٹھانا پڑے لیکن مرتے دم تک وہ اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پاسکے۔ جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے بے شک وہ اس قدر زیادہ اور زندگی کے ہر پہلو پر اتنی غالب تھیں کہ ان کی برائیاں ماند ہوکر رہ گئیں۔ جو عملِ پیہم، یقینِ محکم مولوی صاحب کی پوری زندگی میں نظر آتا ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ اسی طرح جو ایثار اور قربانی انہوں نے اپنی قومی زبان بالفاظِ دیگر اپنی قوم کے لیے کی۔ اس کامقابلہ بھی شاید کوئی اور مشکل ہی سے کرسکے۔ جس ہمت، خلوص اور پختہ ارادہ کے ساتھ انہوں نے جوانی میں اردو کی خدمت کا بیڑا اٹھایا وہ اکانوے برس کی عمرتک بسترِمرگ پر بھی قائم رہا۔ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی لالچ یا کوئی اور دلچسپی ان کو اپنی راہ سے نہ ہٹاسکی اور یہی ایک انسان کا کمال ہے، یقینِ محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں ہمیں دنیا میں بہت سے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ملیں گے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا مرتبہ بحیثیت ایک ادیب کے مولوی صاحب مرحوم سے بہت بلند ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اپنی زبان کی خدمت اور تحفظ کے لیے جو کچھ مولوی عبدالحق نے کیا اس کی مثال دنیا کے کسی ادب میں نہ مل سکے گی۔ ہر شاعر اور مصنف جو کچھ لکھتا ہے۔ اس سے کسی نہ کسی صورت خود اس کی ذات کو بھی کچھ فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ میرا مقصد صرف نام و نمود سے نہیں بلکہ دیگر مادی فوائد سے ہے جس میں روپیہ پیسہ جائداد سب کچھ شامل ہیں۔ ہمیں مولوی عبدالحق کی ایک تنہا ذات نظرآتی ہے جنہوں نے اپنے فن اور کمال کو اپنی گزر اوقات کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ملازمت کی اور تقریباً پینتالیس سال تک بڑے اچھے اور اونچے عہدوں پر فائز رہے۔ ہندوستان کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے اعلیٰ امتحانات کے ممتحن رہے۔ غرص اپنی محنت سے انہوں نے لاکھوں روپیہ کمایا لیکن ایک انچ زمین، کوئی مکان، جائداد یا بنک بیلنس اپنے پیچھے نہیں چھوڑا اور ہمیشہ تہی دست ہی رہے۔ آخر کیوں؟ جواب یہ ہے کہ ہمیشہ اپنی آمدنی کاایک بڑا حصہ انجمن اور اردو کی نذر کرتے رہے۔ انجمن کے کام اور اردو کے پروپیگنڈے کے لیے انہیں طول و عرض ہندوستان اور پھر پاکستان میں لمبے لمبے سفر کرنے پڑتے تھے۔ وہ ہمیشہ سکنڈ کلاس، فرسٹ کلاس یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے تھے اور ایک معتمد اور ملازم بھی ان کے ہمراہ رہتا تھا۔ یہ تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے برداشت کرتے تھے اور کبھی انجمن کے بجٹ پر اس کا بار نہیں ڈالا گیا۔ جب کبھی انجمن کو روپیہ کی ضرورت ہوتی وہ بلاتکلف اپنے پاس سے دے دیا کرتے تھے۔ خواہ بعد میں ایسی رقومات واپس ملیں یا نہ ملیں یہاں تک کہ سولہ اگست ۱۹۶۱ء کو جب انہوں نے دنیائے فانی سے ابدی دنیا کی طرف کوچ کیا اس وقت بھی انجمن ان کی چار ہزار روپیہ کی مقروض تھی۔ یہ رقم انہوں نے وفات سے چند روز قبل انجمن کو عنایت کی تھی۔ تایا ابا بے حد کھلا ہاتھ رکھتے تھے اور انتہائی فضول خرچ بھی تھے۔ بلاضرورت دعوتیں کرنا، دوسروں پر پیسہ خرچ کرنا ان کی عادت تھی۔ لہٰذا وہ کبھی حسب حیثیت بڑی رقم پس انداز نہ کرسکے۔ پھر بھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بلکہ یقین ہے ۱۹۴۲ء میں جب انجمن کا دفتر دہلی میں تھا ان کے پاس ۵۵ہزار روپیہ بنک میں جمع تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب وہ انجمن کی اپنی عمارت پریس اور کالج کے لیے ہندوستان بھر میں چندہ جمع کرتے پھر رہے تھے۔ میں اس زمانہ میں عربک کالج دہلی میں پڑھتا تھا اور ہر اتوار کو نیز دوسری تعطیلات میں تایا ابا کے پاس جایا کرتا تھا۔ انجمن کا دفتر اور خود ان کی رہائش کوٹھی دارالسلام دریاگنج نمبر /۱ (رہائش گاہ مرحوم ڈاکٹر انصاری) میں تھی۔ ایک دن شام کو جب میں پہنچا تو مولوی صاحب کوٹھی کے وسیع صحن میں اکیلے بیٹھے حقہ پی رہے تھے اور باہر لان پر ان کے معتمدِ خاص رفیق الدین صاحب ٹہل رہے تھے۔ کچھ دیر میں نے رفیق صاحب سے باتیں کیں۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اس دن تایا ابا کسی گہری فکر اور سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد میں ان کے پاس گیا لیکن انہیں معلوم بھی نہ ہوا کہ کوئی آیا ہے۔ یہاں تک کہ رات کے کھانے کا وقت آگیا۔ یہ سردیوں کا زمانہ تھا اور دسمبر کا مہینہ تھا، بڑے دن کی تعطیلات قریب تھیں۔ کھانے کی میز پر اپنے کتب خانے کے متعلق کچھ باتیں کرتے رہے اور آئندہ ان کا کیا پروگرام تھا۔ اس پر بھی کچھ اظہارِ خیال کیا حالانکہ ہم لوگوں سے وہ انجمن کے بارے میں یا اپنی پبلک لائف کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ کتب خانے، انجمن اور فراہمی چندہ کے متعلق جن خیالات اور تاثرات کا انہوں نے اظہار فرمایا تھا متعدد وجوہ کی بناپر اس وقت ان کا اظہار کرنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ میں جس نتیجہ پر پہنچا وہ یہ تھا کہ فراہمی چندے کے سلسلے میں کہیں کوئی گفتگو ایسی ضرور ہوئی تھی جس سے انہیں روحانی اذیت پہنچی۔ اسی وقت شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار انہوں نے مجھ سے ایک خاص کام کے لیے فرمایا، یہ ایک جداگانہ قصہ ہے۔ بہرحال میں کھانے کے بعد کچھ دیر بیٹھا اور پھر چلا آیا۔ کچھ دن بعد تعطیلات میں میں بھوپال چلا گیا اور وہیں تھا کہ ایک دن اخبار میں پڑھا کہ مولوی عبدالحق سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند نے اپنا تمام تر سرمایہ انجمن کے نام منتقل کردیا ہے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے بعد ماہانہ پنشن کے علاوہ جو ان کو ریاست حیدرآباد سے ملتی تھی کوئی اور سرمایہ یا مستقل ذریعہ آمدنی باقی نہیں بچا تھا۔ پاکستان آجانے کے بعد ان کی پنشن جو حیدرآباد سے ملتی تھی بند ہوگئی اور حکومتِ پاکستان نے ان کا وظیفہ مقرر کردیا۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی مالی حالت بے حد خراب اور کمزور ہوگئی تھی لیکن اخراجات اور طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں ان کی بے مثال خدمات کے پیش نظر انہیں شانِ قائد اعظم کے ساتھ دس ہزار روپیہ بطور نقد انعام صدرِ مملکت پاکستان نے مرحمت فرمایا۔ تایا ابا کی وفات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس دس ہزار روپیہ کے چیک کو بھی انہوں نے محض اتنی سی دیر اور اس لیے ہاتھ میں لیا تھا کہ اس کو اردو نیورسٹی کے نام منتقل کرکے دستخط کردیں۔ بڑے اور مخلص لوگ دماغی، جسمانی محنت کرتے ہیں، وقت صرف کرتے ہیں، بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ تایا ابا نے بھی یہ سب کچھ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی سب سے بڑھ کر یہ کیا کہ اپنے تن من اور زندگی کے ساتھ تمام عمر کی کمائی بھی انجمن اور اردو کی نذر کردی۔ اور یہی وہ چیز ہے جو مولوی عبدالحق کو دوسرے ادیبوں اور قومی خدمت کرنے والوں سے ممتاز کرتی ہے، یہی وہ حقیقت ہے جس نے انہیں بابائے اردو کالقب دلوایا اور یہی وہ راز ہے جس کی بناپر اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد انہوں نے وہ عزت اور شہرت حاصل کی جو کسی بڑے سے بڑے ادیب اور مصنف کو بھی مشکل ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ ایک دفعہ جب دادا اور دادی نے ان کی زبردستی شادی کرانا چاہی تو منہ سے تو کچھ نہ کہہ سکے۔ لیکن ایسا طریقہ اختیار کیا کہ یہ زنجیر ان کے پاؤں میں نہ پڑسکی۔ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ’’بھوپال میں شادی کی تھی‘‘ یا ’’کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزاری تھی۔‘‘ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ صحیح اور حقیقی معنی میں ان کی شادی کبھی ہوئی ہی نہیں۔ دراصل ان کی شادی جیسا کہ خود مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا تھا۔ اردو سے ہوچکی تھی وہی ان کی محبوب تھی۔ وہی ان کی اولاد۔ دہلی کے ایک شاعر نے خوب کہا تھا، باقی ہے ترے دم سے جہانِ اردو قائم ہے ترے دم سے نشانِ اردو اس خدمتِ بے لوث کی کیا ہو تعریف اردو ہے تری جان، تو جانِ اردو ان تمام بے مثل خوبیوں، جذبہ ایثار و قربانی، دوسروں کی امداد اور ہمدردی اور بہت سے ان محاسن کے ساتھ ہی ساتھ جو اس زمانے میں مفقود ہیں۔ تایا ابا میں بحیثیت ایک انسان کے خامیاں بھی تھیں۔ مثلاً وہ مردم شناس بالکل نہیں تھے، کبھی صحیح اور مخلص آدمی کو انہوں نے نہیں پہچانا، مدد وہ سب کی کرتے تھے، خلوص ہر ایک کے ساتھ تھا اس میں اچھے اور برے کی قید نہیں تھی لیکن کون کیسا ہے یہ وہ زندگی بھر تمیز نہ کرسکے۔ چونکہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے علیحدہ رہ کر تنہا زندگی گزارنے کے عادی تھے اور گھر میں بھی کوئی عورت رہی نہیں جو امورِ خانہ داری کا انتظام و انصرام کرتی، وہ ہمیشہ کسی ایک شخص پر اس کی ظاہری خوبیاں دیکھ کر بھروسہ کرلیا کرتے تھے۔ مرحوم کے سر پر تو ہمیشہ اردو کی دھن سوار رہتی تھی۔ اور ان کے گھر کاانتظام اور تمام تر اخراجات کسی ایک ایسے آدمی کے سپرد رہاکرتے تھے جس کو وہ غلط یا صحیح اپنا سمجھ لیتے تھے۔ جب سے مجھے ہوش ہے میں نے ہمیشہ ان کے ساتھ کسی ایک ایسے آدمی کو نتھی دیکھا، جو سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ ان اصحاب میں سے آج کئی ایسے ہیں جو ہمارے ملک اور قوم میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے بڑے بڑے آدمی ایسے بھی ہوئے ہیں اور ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کے وظیفوں سے تعلیم پائی ہے۔ میں بلاجھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ سوائے دو اصحاب کے جو مولوی صاحب مرحوم کے خاص معتمد بن کر رہے کوئی ایک بھی ایسا نہ نکلا، جس کے دل میں ان کے لیے سچی ہمدردی اور خلوص ہوتا۔ سب نے اپنا مطلب نکالا، کھایا، کمایا، مولوی صاحب کو بدنام کیا بڑھاپے میں ان کو رسوا کیا اور پھر اپنی راہ لی۔ یہ محض تایا ابا کی خود ایک بہت بڑی کمزوری اور سادہ لوحی کا نتیجہ تھا۔ اس کی ذمہ داری ہم نہ تو کسی پر ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ ہم ظاہراً حالات دیکھ کر صرف اس قدر ہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی ذاتی زندگی اور معاملات میں تایا ابا کو اچھے برے کی تمیز نہ تھی۔ اقبال کاایک شعر ہے، اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے اقبال نے صرف ’’کبھی کبھی‘‘ کے لیے مشورہ دیا ہے لیکن جہاں تک نجی معاملات اور ذاتی زندگی کا تعلق ہے، تایا ابا نے اس ’’کبھی کبھی‘‘ کو اپنے لیے لفظ اکثر و بیشتر میں تبدیل کرلیا تھا۔ اور مرتے دم تک وہ اس پر عامل رہے۔ بے شک وہ بے حد سنجیدہ اور خاموش طبع واقع ہوئے تھے لیکن بے حد کچے کان کے تھے۔ جس نے جو کہہ دیا اس پر یقین کرلیتے تھے اور ایسا یقین ایک آدمی کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ مانا ہوا اصول ہے اور تایا ابا بھی اس نقصان سے محفوظ نہ رہ سکے، جب ان کو غصہ آتا تھا تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور پھر کچھ نہ سوچتے تھے۔ سازش یا کسی کی مخالفت سے ان کو دور کا بھی واسطہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ اپنی افتادِ طبع سے خواہ مخواہ اچھے لوگوں کو بھی اپنا مخالف بنالیتے تھے۔ حالانکہ حقیقت کھلنے پر ایسی مخالفتیں باقی نہ رہتی تھیں۔ مرحوم ہاپوڑ کے قانون گوؤں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا جب غصہ میں بکنے جھکنے پر آتے تو کوئی کمی نہ چھوڑتے تھے۔ یہ خاندانی وصف تھا۔ اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ وہ منکر اور ملحد تھے لیکن یہ غلط ہے۔ اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ نہیں تھے اور بظاہر مذہب سے کوئی واسطہ نہ معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ اور دل سے مسلمان تھے۔ جہاں تک ان کی خامیوں کاتعلق ہے وہ ان کے نجی اور ذاتی معاملات سے زیادہ تعلق رکھتی ہیں، وہ ایک سچے عاشق تھے اور بلاشک و شبہ اردو ان کی معشوق تھی۔ عاشق کے سوچنے اور کام کرنے کا طریقہ بالکل نرالا اور سب سے الگ ہوتا ہے۔ ایک عاشق جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے محبوب کی بھلائی اور بہتری کے ہی لیے کرتا ہے۔ اس کی نیت اور ارادہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیاوی اصولوں کے پیش نظر ہم ایک عاشق کے جذبات اور کاموں پر نکتہ چینی کریں۔ اگر اردو اور اس کے متعلقہ کاموں اور جدوجہد میں دنیاوی اعتبار سے تایا ابا سے کوئی لغزش ہوئی تو اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اپنی محبت، دھن اور پختگیٔ ارادہ کے سامنے وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ مصلحتاً ایسا کرنا درست ہوگا یا نہیں۔ میں نے اکثر احباب اور دیگر اصحاب کو یہ کہتے سنا ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب کو اپنے عزیز و اقارب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تایا ابا کے دورانِ علالت بھوپال میں میری ایک شفیق و مہربان نے جن کا برتاؤ میرے ساتھ بالکل ماں جیسا ہے یہی سوال مجھ سے کیا اور اسی وقت میرے دل میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ بظاہر دور سے دیکھنے والوں کا ایسا محسوس کرنا کچھ غلط بھی نہ تھا لیکن حقیقت بالکل اس کے خلاف ہے جیسا کہ میں اوپر بھی عرض کرچکا ہوں۔ ہمارے خاندان کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی اور جو کچھ تھی بھی وہ تایا ابا مرحوم اور ان کے بڑے بھائی کی تعلیم و دیگر اخراجات کے سلسلے میں بالکل ختم ہوچکی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے بھی ہمارا خاندان کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتا تھا۔ یہ صرف مولوی عبدالحق ہی کی ذات تھی۔ جس نے تعلیم سے فارغ ہوکر سب کو سنبھال لیا۔ اپنے چھوٹے بھائی والدین بڑے بھائی غرض کہ سب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اور آخر میں میں یا میرا بھائی بھی جو کچھ پڑھ سکے تو خدا اور رسولؐ کے بعد یہ صرف تایا ابا ہی کے طفیل تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے خاندان میں مولوی عبدالحق کا پیدا ہونا ہم سب کے لیے، نیز آنے والی نسلوں کے لیے خدا کی رحمت ثابت ہوا۔ مولانا حالی نے خوب کہا ہے۔ اور تایا ابا پر ان کا یہ شعر حرف بحرف صادق آتا ہے، قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا یک ہی شخص مولوی صاحب نے علی گڑھ سے بی۔ اے کرنے کے بعد فوراً حیدرآباد کا رخ کیااور نواب محسن الملک کے توسط سے آصفیہ اسکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور جو ترقی کی وہ سب پر ظاہر ہے۔ ملازم ہوتے ہی اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے والد کو اپنے پاس بلالیا اور ان کو تعلیم دلائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خرچ سے انجینئر کی تعلیم کے لیے رڑکی بھیجا۔ دادا اور دادی کو برابر ماہانہ معقول رقم اخراجات کے لیے تاحینِ حیات بھیجتے رہے اور دادا دادی کے انتقال کے بعد یہی رقم اپنے بڑے بھائی شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم کو بھیجتے تھے۔ ان کے صاحبزادے شیخ ممتاز حسین کو بلاکر اپنے پاس اورنگ آباد میں رکھا اور تعلیم دلائی۔ اپنی مرحوم بہن کے لڑکے شیخ حامد حسین کو بھی ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور ان کی کفالت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ گھر کے دیگر اخراجات اور اپنے بھائیوں کی ہر ضرورت ہمیشہ پوری کی۔ خاندان کے کتنے ہی لوگوں کی پرورش کی اور کتنے بچوں کو تعلیمی وظیفے دیے اس کا حساب یا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تایا ابا ہمیشہ سے بہت کم سخن اور سنجیدہ واقع ہوئے تھے۔ طبیعت میں ظرافت ضرور تھی لیکن بلاضرورت بات نہ کرتے تھے۔ ان کی سنجیدگی، عمر اور پوزیشن کے اعتبار سے ان کے بھائی اور دیگر خاندن کے افراد کا بے حد ادب و لحاظ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میرے سب سے بڑے تایا بھی مولوی صاحب کے سامنے آزادانہ گفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ پورے خاندان میں میں ہی ایک ایسا تھا جو تایا ابا سے بہت بے تکلف تھا اور ہرقسم کی بات نہایت آزادانہ کرلیا کرتا تھا۔ ۱۹۴۹ء تک یعنی پاکستان آنے سے قبل مجھے ان کے ساتھ کچھ مدت تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بناپر یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے عزیز تو ایک طرف وہ غیروں کی امداد بھی دل کھول کرکرتے تھے۔ اس کے علاوہ غریب طلباء، مساکین اور بیواؤں کی امداد کے لیے ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ جہاں تک ہم لوگوں کا تعلق ہے میں چند مثالیں پیش کروں گا۔ جن سے معلوم ہوجائے گا کہ تایا ابا کو اپنے عزیز و اقارب کا کس درجہ خیال رہتا تھا۔ تایا ابا حیدرآباد میں ملازم تھے اور میرے والد بھوپال میں انجینئر تھے۔ اسی بھوپال میں تایا ابا کے احباب میں سرسید، راس مسعود، ڈاکٹر بجنوری اور جناب شعیب قریشی جیسی ہستیاں موجود تھیں۔ یہ اصحاب وزارت اور دوسرے بڑے عہدوں پر مامور تھے۔ تایا ابا اکثر بھوپال آتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد سے دہلی اور شمالی ہند کے دوروں پر جاتے ہوئے بھی ہمیشہ گرانڈ ٹرنک ایکسپریس سے سفر کرتے تھے جو بھوپال ہی سے گزرتی ہے۔ میری یادداشت میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ وہ بھوپال آئے ہوں یا بھوپال سے گزرے ہوں اور انہوں نے مجھے یا میرے والد کو اطلاع نہ دی ہو، جب تک میرے والد بھوپال میں رہے انہوں نے کبھی اپنے کسی وزیر دوست کے یہاں قیام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ریت گھاٹ پر ہمارے چھوٹے سے مکان میں ٹھہراکرتے تھے اور اسی مکان کی چھوٹی سی بیٹھک میں بڑے بڑے آدمی اور وزیر ان سے ملنے آتے تھے، لوگ اصرار بھی کرتے، جھگڑا بھی ہوتا لیکن مرحوم نے کبھی یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے چھوٹے بھائی کے علاوہ کسی اور کے بنگلہ پر یا محل میں قیام فرمائیں۔ جب میرے والد کا تبادلہ سیہور ہوگیا تو پھر ضرور شعیب صاحب کے یہاں قیام کرلیا کرتے تھے، لیکن پھر بھی ہم لوگ کو سیہور سے بلواتے یاخود سیہور تشریف لے آتے تھے۔ میں ایک بار ان کے پاس حیدرآباد گیا تھا جب کہ بنجارہ ہل کی ایک کوٹھی میں ان کا قیام تھا۔ میں تقریباً پندرہ دن ان کے پا س ٹھہرا۔ اس دوران میں انہوں نے میرے لیے نہایت قیمتی اور اعلیٰ کپڑے بنوائے۔ نقد روپیہ دیا۔ بھوپال تک کا اس زمانے کا سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ دلوایا اور چلتے وقت مجھے چھوڑنے اسٹیشن تک آئے۔ میں نے اپنی موٹر کے لیے جب ان سے کہا تو فوراً ایک چیک موٹر خریدنے کے لیے عنایت فرمایا۔ اس رقم سے میں نے بعد میں موٹر خریدی جو ۱۹۵۰ء تک میرے پاس رہی۔ سیہور میں میرے والد ایک دفعہ بیمار ہوئے اور بیماری نے طول پکڑا تب تایا ابا کو حیدرآباد میں اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے ایک معتمدِ خاص عبدالرحیم صاحب کو ایک بڑی رقم دے کر سیہور بھیجا کہ وہ میرے والد کے پاس رہیں۔ علاج و تیمارداری کا انتظام کریں اور روزانہ میرے والد کی حالت سے تایا ابا کو مطلع کرتے رہیں۔ دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں ایم۔ اے کرنے علی گڑھ چلا گیا اور اردو ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ ابھی میں پڑھ ہی رہا تھا کہ معلوم ہوا کہ سیہور میں ایگزیٹو آفیسر کی اسامی خالی ہوئی ہے۔ سیہور میرا مولد و مسکن ہے۔ لہٰذا میں نے چاہا کہ سیہور ہی میں ملازمت مل جائے اور اس کے لیے جدوجہد شروع کی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے دفعتاً مجھے خیال آیا کہ قاعدے اور ضابطے میں میری جدوجہد ناجائز اور نامناسب نہیں ہے۔ اب اگر تایا ابا کے ذریعہ بھی کوشش کرلی جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ لہٰذا میں فوراً دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ صبح کا وقت تھا اور تایا ابا ناشتہ کے بعد دھوپ میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ سلام کرکے میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ صرف ایک سوال مجھ سے کیا ’’کیا میرے چلنے سے تیرا کام بن جائے گا‘‘ میں نے کہا ’’ضرور‘‘ بس فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے سکریٹری رفیق صاحب کو بلاکر کہا کہ میں آج ہی بھوپال جارہا ہوں۔ سیٹ ریزرو کرادی جائے۔ اسی دن شام کو میرے ساتھ بھوپال کے لیے روانہ ہوگئے۔ اب اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں کہ چھ مہینے کے بعد جب میں امتحان دے کر بھوپال آیاتو کچھ ہی دن بعد میرا تقرر حسبِ خواہش ہوگیا۔ میری شادی میں شروع سے اخیر تک برابر شریک رہے حالانکہ ایسا کرنا ان کی طبیعت اور مزاج کے بالکل خلاف تھا۔ میری بیوی کو قیمتی تحفہ بھی دیا۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کردوں، نکاح کے بعد جب سہرے پڑھے گئے توایک صاحب بقاؔ پانی پتی کا سہرا بھی پڑھا گیا۔ ان صاحب نے میرے سہرے میں حسبِ ذیل دوشعر بھی داخل کردیے تھے، مبارک ہو دولھا کے تایا کے سر پر فراست اور حسنِ لیاقت کاسہرا حقیقت میں اس پاک ہستی کے سر پر ہے اردو زبان کی اشاعت کا سہرا مولوی صاحب نے فوراً کسی سے کہا کہ بھئی یہ سہرا محمود کا ہے یا میرا اور یہ کیا موقع تھا۔ میرے متعلق اس طرح سے اشعار کو سہرے میں شامل کرنے کا۔ مجھے محمود کی شادی کی مبارک باد دیتے تو کچھ بات بنتی۔ اپنے بڑے بھائی اور بہنوں کی بیماری سکھ دکھ میں ہمیشہ شریک رہتے کیونکہ ان لوگوں کی مالی حالت کبھی اچھی نہیں رہی تمام تر اخراجات بھی خود ہی برداشت کرتے تھے اور ایسے کاموں سے خوش ہواکر تے تھے۔ میں جب تک دلی میں پڑھتا رہا گھر سے جو معقول رقم اخراجات کے لیے آتی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیشہ تایا ابا سے روپیہ وصول کرتا رہتا تھا اور ان کو کبھی ناگواری نہیں ہوئی، زمانہ تعلیم میں صرف ان کی بدولت کالج میں میری ایک نمایاں پوزیشن رہی اور جہاں تک اخراجات کا سوال ہے یہی وہ وقت تھا جب مجھے جا اور بے جا خرچ کرنے کی عادت پڑی اور آج تک کبھی بھی پیسے کی محبت یا عزت میرے دل میں پیدا نہیں ہوسکی گو کہ بعد میں مجھے مالی پریشانیاں اور مختلف تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔ لیکن میں خوش ہوں کہ پیسہ ان چیزوں میں سے نہیں جو مجھے عزیز ہیں۔ ۱۹۴۶ء میں میں اپنی تایا زاد (شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم کی صاحبزادی) بہن کی شادی میں شرکت کرنے دہلی گیا۔ میرے ساتھ میری بیوی اور بڑی لڑکی نادرہ اقبال بھی تھیں۔ شادی کے بعد ہم لوگ تگایا ابا کے گھر گئے، میری لڑکی کی عمر اس وقت تقریباً ڈیڑھ سال کی تھی۔ تایا ابا اس کو لے کر اپنی کوٹھی کے لان میں اس طرح کھیلتے پھر رہے تھے۔ جیسے ایک بچہ دوسرے بچہ کے ساتھ کھیلے اس کو پھول توڑ کر دیتے تھے پھر پھول پھینک دیتے تھے۔ عرض کہ اس وقت وہ بابائے اردو علامہ ڈاکٹر عبدالحق نہیں تھے بلکہ تمام تر محبت اور ان جذبات کا مجسمہ تھے جو عام طور پر ایک اپنے دادا کے دل میں ایک پوتی کے لیے پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعد میں نادرہ نے ان کا نام ’’پھول والے ابا‘‘ ہی رکھ دیا تھا۔ جب تایا ابا کا انتقال ہوا تو نادرہ کراچی میں ہی تھی۔ آخری دیدار کے وقت میرے والد نے اس کو یہی کہہ کر میت کا دیدار کرایا کہ لو اپنے پھول والے ابا کو آج اور دیکھ لو پھر کبھی نہ دیکھ سکوگی۔ خوش قسمت ہے میرا چھوٹا بھائی مسعود اور میری اولاد کہ بیماری میں اخیر دم تک یہ لوگ تایا ابا کے پاس موجود تھے اور مسعود نے تو ان کی نہ صرف خدمت ہی کی بلکہ قبر میں اپنے ہاتھوں سے اتارا بھی۔ میں بدقسمت ہوں کہ ۱۹۴۹ء کے بعد ان کی شکل بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اب کبھی بھی نہیں دیکھ سکوں گا۔ ۱۹۶۰ء میں میرے والد کراچی میں پھر سخت علیل ہوئے لیکن سب کو ہدایت کردی کہ محمود کو اطلاع نہ دی جائے وہ خود بے حد پریشان ہے۔ میرا حال سن کر اور زیادہ گھبراجائے گا۔ افاقہ نہ ہونے کی صورت میں مسعود نے خاموشی سے مجھے بھوپال اطلاع کردی۔ میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا تھا صرف تایا ابا کو تار دے دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خود علیل تھے اور بغیر سہارے چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن میرا تار ملتے ہی بے چین ہوگئے اور دو آدمیوں کے سہارے پانچ سو روپیہ لے کر موٹر میں میرے والد کے گھر پہنچے، روپیہ دیا۔ علاج کا معقول انتظام کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ والد صحت یاب ہوگئے۔ یہ اور ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو تایا ابا مرحوم کی فراخ دلی اپنے عزیز و اقارب کاخیال رکھنا اور ان کی امداد کرنے کی بین ثبوت ہیں لیکن مرحوم کاایک خاص مشن تھا اور وہ ایک خاص نظریہ واصول رکھتے تھے۔ مرحوم اس کے قائل نہ تھے کہ بلا ضرورت اور بلاوجہ وہ اپنا اوردوسروں کا وقت ضائع کریں۔ خواہ مخواہ لوگ انہیں پریشان کریں۔ نام و نمود اور شہرت سے انہیں نفرت تھی۔ اس کے علاوہ کوئی شخص خواہ ان کاعزیز ہو یا غیراگر کام نہیں کرتاہے یا تعلیم سے اس کو دلچسپی نہیں ہے تو پھر وہ اس سے متنفر ہوجاتے تھے۔ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور اپنے مشن اور مقصد کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ سب سے الگ رہ کر کام کریں۔ جس سے بعض کوتاہ فہم لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی تھی ورنہ ان کے دل میں جذبات ہمدردی و محبت و خلوص کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ وہ جائز امداد کرنے، تعلیمی اخراجات برداشت کرنے اور شفارش کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن ایک آدمی کو با عزت زندگی گزارنے اور روزی کمانے کا اہل بنادینے کے بعد پھر وہ اس کی امداد کرنا برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی انہیں دھوکہ دے کر ان سے فائدہ اٹھالے۔ وہ چاہتے تھے کہ جب تم کام کے لائق ہوگئے ہو تو پھر خود کام کرو، جدوجہد کرو اور اپنی دنیا خود بناؤ۔ دوسروں کے سہارے جینا زندوں کا کام نہیں۔ اپنی دنیاآپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تایا ابا کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے تقریباًدو مہینے ہوچکے ہیں۔ دنیا کہتی ہے کہ بابائے اردو کبھی نہیں مرسکتے، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ہر خیال اور ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے تاثرات کااظہار کیا ہے ان کی خدمات، ایثار، قربانی کے پیش نظر ان کو زندہ جاوید ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ برعظیم ہندو پاکستان کے اور لوگوں کی طرح میں بھی اس رائے اور خیال سے متفق ہوں لیکن مولوی عبدالحق کا سب سے زیادہ چہیتا بھتیجا ہونے کی حیثیت سے میں قدرتی طور پر اس دل و دماغ سے نہیں سوچ سکتا، جس سے دوسرے سوچتے ہیں۔ میرے باپ کا عزیز ترین بھائی اٹھ گیا، میرے تایا ابا ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہوگئے۔ نادرہ اب کس کو ’’پھول والے ابا‘‘ کہے گی اور ہم سب اپنے بدترین دور میں کس کے برتے پر ہر مصیبت اور تکلیف کو ہنس کر گزاردیں گے۔ محض اس امید پر کہ خدا نے ہمیں ایک مستقل سہارا دے رکھا ہے جس کے پاس پہنچ کر ہماری ہر مصیبت ختم ہوجائے گی۔ افسوس صد افسوس کہ اپنے اعمال اور بدقسمتی کے ہاتھوں ایسا جکڑا ہوا ہوں کہ بیماری کی خبریں سن کر بھی ان کے پاس نہیں پہنچ سکا۔ وہ ختم ہوگئے اور میری ’’آہِ سحر گاہی اور فغانِ نیم شبی‘‘ کسی کام نہ آئیں۔ آج بھوپال میں ہزارمیل دور بیٹھ کر خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ وہ تایا ابا کی روح کو ابدی سکون عطا فرمائے اور ان کو بلند سے بلند مرتبہ دے۔ میرے آنسو کراچی نہیں پہنچ سکتے لیکن عالمِ تصویر میں میں تایا ابا کی قبر پر کھڑا ہوں اور یہ میرے دل کی آواز ہے، مثل ایوانِ سحر مرقد فرزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
عزیز احمد، احمد علی، محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں ادب کی وہ شخصیات ہیں جن میں اسکالر اور فنکار کے بیچ ایک مسلسل کشمکش رہی اور سوائے احمد علی کے تینوں کی ا سکالر شپ فنکاری پر غالب آئی۔ احمد علی تخلیقی کام کرتے رہے لیکن اردو میں نہیں انگریزی میں۔ جنہوں نے احمد علی کے افسانے پڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہیں دہلوی اردو پر کیسا عبور حاصل تھا۔ ان کی ناول...
اب اردو شاعری کا بالکل ایک نیا دور شروع ہوا، جس میں وہ حقیقت نگاری سے زیادہ قریب آگئی۔ عورت کے متعلق صرف رومانی باتوں کا دور اب ختم ہوگیا۔ اب وہ ایک نئے موڑ پر آگئی۔ جہاں جنسیات، اس کی مختلف کیفیات کا بیان، عورت کے جسم سے پیدا شدہ لذت کا تذکرہ، اب نوجوان شاعروں نے کھلم کھلا شروع کردیا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ موضوع انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھ...
کچھ دیر یونہی ادھر ادھر رنگ اچھالنے کے بعد میں بھی باہر چلا آیا۔ دنیا کی سب چیزیں اس روز اجلی جلی دکھائی دے رہی تھی۔ لوگوں نے ایسے ہی رنگوں کے نام اودا پیلا، کالا اور نیلا وغیرہ رکھے ہوئے ہیں۔ کسی کو خیال بھی نہیں آیا، ایک رنگ ایسا بھی ہے جو ان کی جمع تفریق میں نہیں آتا اور جسے اجلا کہتے ہیں اور جس میں دھنک کے ساتوں رنگ چھپے ہوئے ہیں۔ میرا گلا تشکر...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books