aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "دھوبی"
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، "تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہیمن کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑاپار کرے گا۔ دھوبن مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔سب کو سیویّاں چاہئیں۔ کس کس سے منہ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے۔ ان کی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے بچّے کو خدا سلامت رکھے یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا۔ میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا۔ ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے۔۔۔؟‘‘ نارائن باوا نے کہا، ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اٹھا،
یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔۔۔ خاص کر آج کا زمانہ۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے ،اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے ۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہے، ادھر یار لوگ اس کا توڑ سوچ لیتے ہیں، اس کے علاوہ اپنے بچاؤ کی کئی صورتیں پیدا کر لیتے ہیں۔کسی اخبار پر آفت آنی ہو تو آیا کرے، اس کا مالک محفوظ و مامون رہے گا، اس لیے کہ پرنٹ لائن میں کسی قصائی یا دھوبی کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کے درج ہوگا۔ اگر اخبار میں کوئی ایسی تحریر چھپ گئی جس پر گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو اصل مالک کے بجائے وہ دھوبی یا قصائی گرفت میں آ جائے گا۔ اس کو جرمانہ ہوگا یا قید۔ جرمانہ تو ظاہر ہے اخبار کا مالک ادا کر دے گا، مگر قید تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان دو پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر قید ہوئی تو وہ اس کے گھر اتنے روپے ماہوار پہنچا دیا کرے گا۔ ایسے معاہدے میں خلاف ورزی بہت کم ہوتی ہے۔
ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازاربند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
جھینگر نے لڑکے کو گودی سے اتاردیا اور اپنا ڈنڈا سنبھال کر بھیڑوں کے سر پر گیا۔ دھوبی بھی اتنی بے دردی سے اپنے گدھوں کو نہ مارتا ہوگا، کسی بھیڑ کی ٹانگ ٹوٹی کسی کی کمر ٹوٹی۔ سب نے زور سے ممیانا شروع کیا۔ بدھو خاموش کھڑا ہوا اپنی فوج کی تباہی، اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہاوہ نہ بھیڑوں کو ہانکتا تھا، اورنہ جھینگر سے کچھ کہتا تھا۔بس کھڑا ہوا تماشا دیکھتا رہا۔ دو منٹ میں جھینگر نے اس فوج کو اپنی حیوانی طاقت سے مار بھگایا۔بھیڑوں کی فوج کو تباہ کرکے فاتحانہ غرورسے بولا۔ اب سیدھے چلے جاؤ، پھر ادھر سے آنے کا نام نہ لینا۔بدھو نے چوٹ کھائی ہوئی بھیڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جھینگر، تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ پچھتاؤ گے۔
’’میں کیا جانوں؟‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھونکیں مارنے لگی۔اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو بھی نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی مگر میں کہا کرتی تھی، ’’آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔‘‘ اور وہ مسکرا کر کہتی، ’’پگلی‘‘ اور اپنے کام میں لگ جاتی۔ ویسے وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔ ہر وقت کوئی اسے کسی نہ کسی کام کو کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔ ادھر بدو چیختا، ’’آپا میرا دلیا۔‘‘ ادھر ابا گھورتے، ’’سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟‘‘ بیچ میں اماں بول پڑتیں، ’’بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے؟‘‘ اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔ یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اس کے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا تھا۔ زیادہ سے زیادہ وہ مسکرا دیا کرتی تھی اور بس۔
دنیا میں کیا ہورہا ہے، علم وحکمت کے کن کن ایجادوں میں مصروف ہے، بحروبرپر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی کسی کو خبرنہ تھی۔بٹیرلڑرہے ہیں تیتروں میں پالیاں ہورہی تھیں کہیں چوسرہورہی ہے۔ پوبارہ کا شور مچا ہوا ہے کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ فوجیں زیروزبر ہورہی ہیں۔ نواب کا حال اس سے بد تر تھا و ہاں گتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔ خط نفس کے لیے نئے لٹکے، نئے نئے نسخے سوچے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فقر ا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کی بجائے مدک اور چنڈوکے مزے لیتے تھے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اوربدلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے قلم بند کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کورسااور ذہن کو تیزکرنے کے لیے شطرنج کیمیا سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر مرزاسجّاد علی اور میر روشن اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ تو کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔ ہاں جہلا انھیں جو چاہیں سمجھیں۔ دونوں صاحبوں کے پاس موروثی جاگیر یں تھیں۔ فکر معاش سے آزاد تھے۔ آخر اورکرتے ہی کیا۔ طلوح سحر ہوتے ہی دونوں صاحب ناشتہ کرکے بساط پر بیٹھ جاتے۔ مہر ے بچھالیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کردیتے تھے پھر انھیں خبر نہ ہوتی تھی کہ کب دوپہر ہوا، کب سہ پہر، کب شام۔ گھر سے باربار آدمی آکر کہتا تھاکھانا تیار ہے یہاں سے جواب ملتا تھاچلو آتے ہیں۔ دسترخوان بچھاؤ۔مگر شطرنج کے سامنے قورمے اور پلاؤ کے مزے بھی پھیکے تھے۔ یہاں تک کہ باور چی مجبور ہوکر کھانا کمرے میں ہی رکھ جاتا تھااور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کرکے اپنی باریک نظری کا ثبوت دیتے تھے۔ کبھی کبھی کھانا رکھا ہی رہ جاتا۔ اس کی یاد ہی نہ آتی تھی۔ مرزاسجّاد علی کے مکان میں کوئی بڑا بوڑھا نہ تھا اس لیے انہی کے دیوان خانے میں معر کہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مزراکے گھر کے اورلوگ اس مشغلہ سے خوش تھے۔ ہر گز نہیں۔ محلّہ کے گھر کے نوکر چاکروں میں، مہریوں ماماؤں میں بڑی حاسدانہ حرف گیریاں ہوتی رہتیں تھیں۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر کو تباہ کرکے چھوڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو اس کی چاٹ پڑے۔ آدمی نہ دین کے کام کار ہتا ہے۔نہ دنیا کے کام کا ۔بس اسے دھوبی کا کتّا سمجھو، گھر کا نہ گھاٹ کا۔ بُرا مرض ہے۔ستم یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھی آئے دن اس مشغلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھیں۔ حالانکہ انھیں اس کے موقع مشکل سے ملتے۔ وہ سوتی ہی رہتی تھیں کہ ادھر بازی جم جاتی تھی۔ رات کو سوجاتی تھیں۔ تب کہیں مرزا جی گھر میں آتے تھے۔ ہاں جولا ہے کاغصّہ داڑھی پر اتاراکرتی تھیں۔ نوکروں کو جھڑکیاں دیا کرتیں۔ کیا میاں نے پان مانگے ہیں۔ کہدو آکر لے جائیں ۔کیا پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ کیا کہا ابھی کھانے کی فرصت نہیں ہے؟ کھانے لے جاکر سر پر پٹک دو۔کھائیں یا کتّوں کو کھلائیں یہاں ان کے انتظار میں کون بیٹھا رہے گا۔ مگر لطف یہ تھا کہ انھیں اپنے میاں سے اتنی شکایت نہ تھی جتنی میر صاحب سے وہ میر صاحب کونکھٹو، بگاڑو، ٹکڑے خور وغیرہ ناموں سے یاد کیا کرتی تھیں۔ شاید مرزا جی بھی اپنی بریت کے اظہار میں سارا الزام میر صاحب ہی کے سر ڈال دیتے تھے۔
مہمانوں نے کھانا کھایا۔ گھروالوں نے کھایا۔باجے والے دھوبی چمار بھی کھا چکے لیکن بوڑھی کاکی کو کسی نے نہ پوچھا۔ بدھ رام اور روپا دونوں ہی انھیں ان کی بے حیائی کی سزا دینے کا تصفیہ کر چکے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر، بے کسی پر، فتور عقل پر کسی کو ترس نہیں آتا تھا۔ اکیلی لاڈلی ان لے لیے کڑھ رہی تھی۔لاڈلی کو کاکی سے بہت انس تھا۔ بے چاری بھولی، سیدھی لڑکی تھی۔طفلانہ شوخی اور شرارت کی اس میں بُو تک نہ تھی۔ دونوں بار جب اس کی ماں اور باپ نے کاکی کو بے رحمی سے گھسیٹا تو لاڈلی کا کلیجہ بیٹھ کر رہ گیا۔ وہ جھنجھلا رہی تھی کہ یہ لوگ کاکی کو کیوں بہت سی پوریاں نہیں دے دیتے ۔ کیا مہمان سب کی سب تھوڑے ہی کھا جائیں گے اور اگرکاکی نے مہمانوں سے پہلے ہی کھا لیا تو کیا بگڑ جائے گا؟ وہ کاکی کے پاس جاکر انھیں تسلّی دینا چاہیتی تھی۔ لیکن ماں کے خوف سے نہ جاتی تھی۔ اس نے اپنے حصّے کی پوریاں مطلق نہ کھائی تھیں۔ اپنی گڑیوں کی پٹاری میں بند کررکھی تھیں۔ وہ یہ پوریاں کاکی کے پاس لے جانا چاہتی تھیں۔ اس کا دل بے قرار ہورہا تھا۔ بوڑھی کاکی میری آواز سنتے ہی اٹھ بیٹھیں گی۔پوریاں دیکھ کر کیسی خوش ہوں گی۔ مجھے خوب پیار کریں گی۔
’’تو چلو پھر اب چلیں۔ ‘‘ ’’ہاں وہ تو چلیں گے ہی۔ میں سوچ رہا تھا آج ذرا کپڑے بدل لیتے خدا جانے دھوبی کمبخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔ ‘‘
گوکہ ظاہر بین نگاہ کو یہ متوازی الاضلاغ نظر آتی تھی مگر مرز انے مجھے پہلےہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارش سے پیشتر یہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جو کان آ گئی تھی، اس سے مجھے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس لیےکہ مرزا نے ازراہ تکلف ایک پائے کے نیچےڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتا رکھ کر سطح درست کر دی تھی۔ میرا خیال ہےکہ تہذیب کے جس نازک دور میں غیور مرد چارپائی پر دم توڑنے کی بجائےجنگ میں دشمن کے ہاتھوں بےگوروکفن مرنا پسند کرتےتھے، اسی قسم کی مردم آزار چارپائیوں کا رواج ہوگا۔ لیکن اب جب دشمن سیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دہ ہو گئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اور باعزت طریقےدریافت ہو گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ہاں ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے اور بقیہ اس کی آرزو میں! بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے جو بساطِ محفل بھی ہے اور مونسِ تنہائی بھی۔ اس کے سہارے وہ تمام مصائب انگیز کر لیتی ہیں۔ خیر مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مئی جون کی جھلسا دینے والی دوپہر میں کنواریاں بالیاں چارپائی کے نیچے ہنڈیا کلہیا پکاتی ہیں اور اوپر بڑی بوڑھیاں بیتے ہوئے دونوں کو یاد کر کے ایک دوسرےکا لہو گرماتی رہتی ہیں (قاعدہ ہےکہ جیسے جیسے حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اور بھی سہانا معلوم ہوتا ہے!) اسی پر بوڑھی ساس تسبیح کے دانوں پر صبح و شام اپنے پوتوں اور نواسوں کو گنتی رہتی ہے اور گڑگڑا گڑگڑاکر دعا مانگتی ہےکہ خدا اس کا سایہ بہو کے سر پر رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیر سے بہری بھی ہے۔ اس لیے بہو اگرسانس لینے کے لیےبھی منہ کھولے تو گمان ہوتا ہے کہ مجھے کوس رہی ہوگی۔ قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کا تکیہ بنائے اٹواٹی کھٹواٹی لےکر پڑتی تھی اور آج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سےہاتھ نکال کرپانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اور گشتی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنےبچوں اور سوکنوں کی تعداد پوچھتی ہیں۔ لیکن جن بھاگوانوں کی گود بھری ہو، ان کے بھرے پرے گھر میں آپ کو چارپائی پر پوتڑے اور سویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظر آئیں گی۔ گھٹنیوں چلتے بچے اسی کی پٹی پکڑکر میوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اور رات برات پائینتی سے مدمچوں کا کام لیتے ہیں۔ لیکن جب ذرا سمجھ آ جاتی ہےتو اسی چارپائی پر صاف ستھرے تکیوں سےلڑتے ہیں۔ نامور پہلوانوں کے بچپن کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلےگا کہ انھوں نے قینچی اور دھوبی پاٹ جیسے خطرناک داؤاسی محفوظ اکھاڑے میں سیکھے۔
لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں، جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔ طلباء کی کئی قسمیں ہیں۔ جن میں سے چند مشہور ہیں۔ قسم اولٰی جمالی کہلاتی ہے۔ یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں، بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں، اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سنیما یا سنیما کے گردونواح میں:رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ہمارے پڑوس میں ایک میاں بی بی رہتے ہیں جن کا جوڑا پوری طور سے مل گیا ہے۔ یہ دونوں آدمی انتہا درجے کے کاہل، پرلے سرے کے جھوٹے اور حد کے نکارے ہیں، مگر جب دیکھیے دونوں قمریوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور گل بہیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، کسی نے ان بچوں کا دھویا ہوا منھ کبھی نہیں دیکھا۔ کپڑے ان لوگوں کے تن پر سے کٹ کے گرجاتے ہیں مگر دھوبی کو دینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بچوں کے کپڑوں میں ذرا سی پھونک بڑھ کے نیچے سے اوپر تک پہنچ جاتی اور پھٹ کر علیحدہ ہوجاتی ہے مگر سوئی تاگے کی شرمندہ نہیں ہوتی۔ میں نے ایک دن اس عورت سے پوچھا کہ تمہارے میاں تم کو چاہتے ہیں، کہنے لگی کہ اتنا چاہتے ہیں کہ کھانا لیے بیٹھے رہتے ہیں، مگر بغیر میرے نہیں کھاتے۔ دوسری مثال محبت کی دی کہ کل صبح بٹیر کے شکار کو جارہے تھے، میں نے کہا روز جاتے ہو مگر کبھی ایک پر بھی گھر میں نہ آیا۔ بس غصے میں ایک ڈنڈا میری پیٹھ پر رسید کیا، میں بھی دوپہر تک منھ پھلائے رہی اور نہیں بولی۔ تب دوڑے گئے، تیل کی جلیبیاں لے آئے، تب میں بولی، کبھی برابر کے جوڑ میں لطف آتا ہے، کبھی ایک نرم اور ایک گرم، زندگی کو آرام دہ بنادیتے ہیں۔ کسی رانڈ بیوہ کے یہاں ایک طوطا پلا تھا۔ وہ ہروقت اس عورت کو مغلظات سنایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے یہاں ایک پیرصاحب تشریف لائے۔ طوطے کو سن کر کہنے لگے، ارے تیرا طوطا بڑا فحاش ہے، پنجرا کھول دے یہ اڑے جائے، کہنے لگی، رہنے دیجیے میاں صاحب گھر میں مردوے کی ایسی بولی تو سنائی دیتی ہے۔
’’جی اچھی ہوں۔‘‘ وہ وہیں بیٹھ گئی جہاں کھڑی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اماں بولیں، ’’اب میں مکھن نکالنے لگی ہوں، برا نہ ماننا۔۔۔ نیت بری نہ ہو تب بھی نظر لگ جاتی ہے! ابھی پچھلے دنوں نوراں نے مجھے مکھن کا پیڑا نکالتے دیکھا تھا تو دوسرے دن مرغی کے انڈے کے برابر مکھن نکلا۔۔۔ اور اس سے اگلے دن چڑیا کے انڈے کے برابر۔۔۔ گائے کو تین دن مرچوں کی دھونی دی تو نظر اتری۔‘‘
سرتاج کی قربت نے سجاد پر عجیب اثر کر رکھا تھا۔ ایوننگ انِ پیرس، سامگری اور کارنیشن کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو ہر لمحے پاس والی کرسی سے پارسیوں کی آگ بن کر دہکتی رہتی۔ یہ مخلوط خوشبو بڑی سان چڑھتی تھی۔ بار بار اس خوشبو کا سانپ اسے اپنے ذہن سے اتارنا پڑتا، لاکھوں بار جی کو سمجھانا پڑتا کہ بہن کا رشتہ پاکیزہ اور پرعظمت ہے۔ ایسے رشتوں کا خوشبوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا۔ باقی سارے دریودھن تو دروپدی کو کھو کر خاموش ہو بیٹھے لیکن ادریس کی مشکلات اور پوزیشن مختلف تھی۔ اس کی حیثیت میر کارواں جیسی تھی۔ سرتاج کو کسی دوسرے کے ہاتھ کا باز بنا دیکھا تو اس کے اپنے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ پہلے تو دو چارمرتبہ کھے اڑائی پھر تمسخر سے سجاد کو گانسنا چاہا لیکن لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ سجاد تو پہلے ہی چار قدم ہٹ جانے والا شخص تھا۔سالانہ مباحثے والے دن کی بات ہے۔ سجاد سفید نیکر اور آستینوں والی بنیان پہنے گیلری میں آ رہا تھا کہ ادریس کھونچ لگاکر گزرا۔ سجاد یک دم رک گیا اور گہری نظروں سے ادریس کو دیکھ کر بولا، ’’راستہ تو دیکھ کر چلا کر۔‘‘ یہ جملہ التزاماً انگیخت کرنے کے لیے نہ کہا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ادریس کو ایسے موقع کی تلاش تھی۔ ایک جست میں ادریس نے سجاد کو دھوبی پٹرے کا شکار کیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔
’’کسی زمانے میں راجپوتوں اورعربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر الٰہی کی نشانی تصورکی جاتی تھی۔ ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائید لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑ دینے کے حق میں تھے۔ ’’چہرے، چال اور تیور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈی میں ان کی عمارتی لکڑی کی ایک معمولی سی دوکان ہے۔ نکلتا ہوا قد۔ چلتے تو قد، سینہ اور آنکھیں، تینوں بیک وقت نکال کر چلتے تھے۔ ارے صاحب! کیا پوچھتے ہیں۔ اول تو ان کے چہرے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، اور کبھی جی کڑا کر کے دیکھ بھی لیا تو بس لال بھبوکا آنکھیں ہی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ نگہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد۔ رنگ گندمی، آپ جیسا، جسے آپ اس گندم جیسا بتاتے ہیں جسے کھاتے ہی حضرت آدم، بیک بیوی و دوگوش جنت سے نکال دیئے گئے۔ جب دیکھو جھلاتے تنتناتے رہتے۔ مزاج، زبان اور ہاتھ کسی پر قابو نہ تھا۔ دائیمی طیش سے لرزہ براندام رہنے کے سبب اینٹ، پتھر، لاٹھی، گولی، گالی کسی کا بھی نشانہ ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ گچھی گچھی مونچھیں جنہیں گالی دینے سے پہلے اور بعد میں تاؤ دیتے آخری زمانے میں بھؤں کو بھی بل دینے لگے۔ گٹھا ہوا کسرتی بدن ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چنی ہوئی آستین اور اس سے بھی مہین چنی ہوئی دو پلی ٹوپی۔ گرمیوں میں خس کا عطر لگاتے۔ کیکری کی سلائی کا چوڑی دار پاجامہ۔ چوڑیوں کی یہ کسرت کے پاجامہ نظر نہیں آتا تھا۔ دھوبی الگنی پر نہیں سکھاتا تھا۔ علیحدہ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔ آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر بلائیں تو چوڑی دار ہی میں بر آمد ہوں گے۔
جہاں کسی شان دار فلم کمپنی کا دفتر ہوا کرتا تھا، وہاں چولہے سلگ رہے ہیں۔ جہاں کبھی شہر کی بڑی بڑی رنگین ہستیاں جمع ہوتی تھیں،وہاں دھوبی میلے کپڑے دھو رہے ہیں۔دو برس میں اتنا بڑا انقلاب!
دھوبی، ڈرائی کلینر، ٹیلرماسٹرحضرات مشاعرہ کرائیں توان کے حسبِ مطلب بھی اساتذہ بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ منجملہ،دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے
شاعر جس کی ساری عمر کوٹھوں پر اور شراب کے ٹھیکوں میں گذری ہو موت کے بعد حضرت مولانا اور رحمتہ اللہ علیہ بنادیا جاتا ہے۔ اگر اس کی لائف لکھی جاتی تو اس کو فرشتہ ثابت کرنا سوانح نگار اپنا فرض سمجھتا ہے۔ آغا حشرؔ کی ساری زندگی کسبیوں میں گذری ،مگر موت کے فوراً بعد ہی اس کے سارے کر یکٹر کو دھوبی کے ہاں بھیج دیا گیا، جب وہاں سے واپس آیا اور لوگوں نے دیکھا تو اس میں کوئی داغ، کوئی شکن نہیں تھی۔ گدھے، گھوڑے، خچر، اونٹ غرضیکہ ہر جاندار اور بے جان شے پر اخلاق مردتسمہ پا کی طرح سوارہے۔ ادب پر شاعری پر تاریخ پر ہرانسان کی گردن پر اخلاق بٹھا دیا گیا ہے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر ماسٹر نثار گوئیے تک سب کے سب اخلاق زدہ ہیں۔ سعید حق بجانب تھا کہ راجو کی سد امتبسم آنکھوں میں آنسو نظر آئیں اور وہ ان آنسوؤں کو اخلاق سے بے پرواہ ہو کر اپنی انگلیوں سے چھوئے،وہ اپنے آنسوؤں کا ذائقہ اچھی طرح جانتا تھا، مگر وہ دوسروں کی آنکھوں کے آنسو بھی چکھنا چاہتا تھا،خاص کر کسی عورت کے آنسو! چونکہ عورت شجرِ ممنوعہ ہے اس لیے اس کی یہ خواہش اور بھی تیز ہوگئی۔
لاہور، ۲۱ جنوریدھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی۔ بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔
’’ارے وہی سسرا دکھیا چمار ہے۔ کہا ہے تھوڑی سی لکڑی چیڑ دے۔آگ ہے تو دے دو۔‘‘پنڈتانی نے بھنویں چڑھا کر کہا، ’’تمہیں تو جیسے پوتھی پڑے کے پھیر میں دھرم کرم کی سدھ بھی نہ رہی۔ چمار ہو، دھوبی ہو، پاسی ہو، منھ اٹھائے گھر میں چلے آئے۔ پنڈت کا گھر نہ ہوا کوئی سرائے ہوئی۔ کہہ دو ڈیوڑھی سے چلا جائے، ورنہ اسی آگ سے منھ جھلس دوں گی۔ بڑے آگ مانگے چلے ہیں۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books