aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "سپوت"
سید جونؔ ایلیا حسنی الحسینی سپوت جاہ''مگر ناظر ہمارا سوختہ صلب آخری نساب اب مرنے ہی والا ہے
الوپی دین نے کسی قدر جوش سے کہا، ’’فخر خاندان اور بزرگوں کا نام روشن کرنے والا ایسا سپوت لڑکا پاکر پرماتما کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایسے کتنے انسان ہیں جو دیانت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تیار ہوں۔ داروغہ جی! اسے زمانہ سازی نہ سمجھیے۔ زمانہ سازی کے لیے مجھے یہاں تک تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس رات کو آپ نے مجھے حکومت کے زور سے حراست میں لیا تھا آج میں خود بخود آپ کی حراست میں آیا ہوں۔میں نے ہزاروں رئیس اور امیر دیکھے،ہزاروں عالی مرتبہ حکام سے سابقہ پڑا۔ لیکن مجھے زیر کیا تو آپ نے، میں نے سب کو اپنا اور قیمتی دولت کا غلام بنا کر چھوڑدیا۔ مجھے اجازت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کروں؟‘‘بنسی دھر کو ان باتوں سے کچھ خلوص کی بو آئی۔ پنڈت جی کے چہرے کی طرف اڑتی ہوئی مگر تلاش کی نگاہ سے دیکھا۔ صداقت کی گاڑھی گاڑھی جھلک نظر آئی۔ غرور نے ندامت کو راہ دی۔ شرماتے ہوئے بولے۔ ’’یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے، فرض نے مجھے آپ کی بے ادبی کرنے پر مجبور کیا ورنہ میں تو آپ کی خاک پا ہوں جو آپ کا ارشاد ہو گا بحد امکان اس کی تعمیل میں عذر نہ کروں گا۔‘‘
کبھی تو بات بھی خفیکبھی سکوت بھی سخن
سوال کوئی نیا نہیں۔ ہر صدی میں، ہر برس میں، ہر ماہ میں، ہر روز ہر لمحہ یہی سوال انسانیت کے سامنے پیش آتا ہے۔ یہ نیا لمحہ جو افق کے پھلانگ کے سامنے موجود ہوا ہے، کیا ہے؟ کس کی غمازی کر رہا ہے، تاریخ کے کس دھارے کا مظہر ہے، اس آگ کو ہم کیسے باندھ سکتے ہیں، اس شعلے کی تربیت کیوں کر ممکن ہے۔ عام لوگوں کے لئے امام دین اور گنگا رام کے لئے شاید یہ سوال اہم نہیں ہے۔ امام دین کا بیٹا فتح دین ہوگا اور گنگا رام کا سپوت جمنا رام ہوگا ۔ سیدھا سادا دستور یہ ہے کہ ہر نئی چیزکو ماضی کے ساتھ جکڑ دیا جائے نہایت آسان بات ہے۔ کیونکہ ماضی جانی بوجھی سوچی سمجھی ہوئی کہانی ہے۔ وہ آنے والا تجربہ نہیں۔ گزرنے والا تجربہ ہے۔ ایک ایسا مشاہدہ جو تکمیل کو پہنچ گیا جس کی نیکی بدی کی حدود انسانی اوراک کے جغرافیئے میں درج کردی گئی ہیں۔ یہ کام سب سے آسان ہے اور دنیا یہی کرتی ہے اور حیرت اور سچائی اور نیکی اور ترقی کا شب و روز خون کرتی ہے۔شاید مجھے بھی یہی کرنا چاہئے مگر ابھی تلک تو یہ بچہ میرے لئے اتنا بنا ہے کہ میں اس خاکے کو چھوتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ اس کے نام ہی کو لے لیں۔ ہر روز اصرار ہوتا ہے، بیوی بھی کہتی ہے، احباب بھی پھوچھتے ہیں، اس کا نام کیا ہے؟ اس کا نام تو کچھ رکھو، میں سوچتا ہوں اس کا نام، اس کا نام میں کیا رکھوں؟ پہلے تو یہی سوچنا ہے کہ مجھے اس کا نام رکھنے کا بھی کوئی حق ہے؟ کسی دوسرے کی شخصیت پر میں اپنی پسند کیسے جڑدوں، بڑی مشکل بات ہے، بالفرض محال میں اس غاصبانہ بے انصافی پر راضی بھی کر دیا جاؤں۔ تو اس کا نام کیا رکھوں؟ اس کی دادی کو شرون کمار نام پسند ہے۔ اور اس کی ماں کو دلیپ سنگھ۔ میرے ذہن میں تین اچھے نام آتے ہیں۔رنجن، اسلم، ہنری،صوتی اعتبار سے یہ نام بڑے پیارے ہیں۔ کم ازکم مجھے اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن صوتی اعتبار کے علاوہ سیاسی اور مذہبی الجھنیں بھی ان ناموں کے ساتھ لپٹی ہوئی ہیں۔ کاش کوئی ایسا نام ہو جو ان الجھنوں سے الگ رہ کر اپنی شخصیت رکھتا ہو۔رنجن ہندو ہے، اسلم مسلمان ہے، ہنری عیسائی ہے۔ یہ لوگ ناموں کو اس قدر محدود کیوں کر دیتے ہیں۔ اس قدر کمینہ کیوں بنادیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے یہ نام نہیں ہے پھانسی ہے، پھانسی کی رسی ہے جو زندگی سےموت تک بچے کے گلے میں لٹکتی رہتی ہے جو آزادی دے سکے۔ ایسا نہیں جو کسی قسم کی سیاسی مذہبی سماجی غلامی عطا کرتا ہو پھر وہ نام کیا ہو، یہاں آکر ہمیشہ گھر میں اور دوست احباب میں جگھڑا شروع ہوجاتا ہے اور میں سوچتا ہوں ابھی میں اس کا نام کیوں رکھوں، کیوں نہ اسے خود موقعہ دوں کہ بڑے ہو کر یہ اپنا نام خود تجویز کر لے۔ پھر چاہے یہ اپنا نام ٹرارام، کو مل گندھار یا عبدالشکور رکھتا پھرے مجھے اس سے کیا واسطہ۔
صلاح الدین میرے چچا کا اکلوتا سپوت تھا۔ پھوٹی آنکھ کایہی تو ایک تارا تھا۔ اتنی لڑکیاں پیدا ہوئیں کہ چچا چچی بولا گئے۔ اور پھر آپ تشریف لائے۔ جناب کی انگلی دکھے تو بکرے صدقے کیے جانے لگیں۔ منتیں مانی جائیں۔ گھر میں کوئی زور سے نہ بولے۔ جوتے اتار کر چلو۔ برتن نہ کھڑکے۔ لاڈلے کی آنکھ کھل جائے گی۔ گھر میں اسی لیے کوئی کتا نہ پلتا۔ مرغیاں نہ رکھی جاتیں کہ ننھے میاں کی کبھی نیند نہ خراب کردیں اور ہم بیچارے نہ لاڈ جانیں نہ لاڈ کریں۔ پھر بھی ماں بہنوں کا لاڈ اسے کڑوا لگنے لگتا تھا اور وہ سارے وقت مجھی سے الجھتا۔ لوگوں کے ’نان وائلنس‘ سے وہ تنگ آگیا تھا۔ یہی بات تھی کہ وہ جان جان کر مجھے چھیڑتا۔ کیونکہ میں اسے بری طرح ڈانٹ دیتی اور کبھی کبھی چپت بھی رسید کردیتی۔لاڈلے پوت دبلے اور سوکھے تو ہوتے ہی ہیں اور اوپر سے پتلا بانس جیسا قد، اماں تو نظر بھر کے نہ دیکھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں اونٹ صاحب کو نظر نہ لگ جائے اور یہاں یہ کہ جہاں لمبی لمبی ٹانگیں پھینکتے آئے اور چھیڑے گئے۔ یہ عادت سی ہوگئی تھی کہ کالج سے آئے اور اماں کو بلائیں دے کر اور داداکو نبض دکھاکر سیدھے میری جان پر نزول۔ کیا مجال جو گھڑی بھر نچلا بیٹھے یا بیٹھنے دے۔ بہنوں کو چھیڑنا کسی کے گدگدی کی، کسی کے گلےمیں جھول گئے، کسی کے کندھے میں کاٹ لیا۔ میرے پاس آئے اور میں نے تھپڑ دیا۔
آج پورے ساٹھ سال کے بعد مجھے اپنے وطن، پایرے وطن کا دیدار پھر نصیب ہوا۔ جس وقت میں اپنے پیارے دیس سے رخصت ہوا او رمجھے قسمت مغرب کی جانب لے چلی، اس وقت میں کڑیل جوان تھا۔ میری رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا اور یہ دل امنگوں اور بڑے بڑے ارادوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے بھارت ورش سے کسی ظالم کے جوروجبر یا انصاف کے زبردست ہاتھوں نے نہیں جدا کیا تھا، نہیں۔ ظالم کا ظلم اور قانون کی سختیاں مجھ سے جو چاہیں کراسکتی ہیں۔۔۔ مگر مجھ سے میرا وطن نہیں چھڑا سکتیں۔ یہ میرے بلند ارادے اور بڑے بڑے منصوبے تھے جنہوں نے مجھے دیس سے جلا وطن کیا۔۔۔ میں نے امریکہ میں خوب تجارت کی، خوب دولت کمائی اور خوب عیش کیے۔ خوبیٔ قسمت سے بیوی بھی ایسی پائی جو حسن میں اپنی آپ ہی نظیر تھی۔ جس کی خوبصورتی کا شہرہ سارے امریکہ میں پھیلا ہوا تھا اور جس کے دل میں کسی ایسے خیال کی گنجائش بھی نہ تھی جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو۔ میں اس پر دل و جان سے فدا تھا۔ وہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ میرے پانچ بیٹے ہوئے خوش رو، قوی ہیکل اور سعادت مند، جنہوں نے تجارت کو اور بھی چمکایا۔۔۔ اور جن کے بھولے ننھے بچے میری گود میں بیٹھے ہوئے تھے جب میں نے پیارے وطن کا دیدار کرنے کے لئے قدم اٹھایا۔ میں نے بے شمار دولت، وفادار بیوی، سپوت بیٹے اور پیارے پیارے جگر کے ٹکڑے ایسی بے بہا نعمتیں ترک کردیں اس لئے کہ اپنی پیاری بھارت ماتا کا آخری دیدار کرلوں۔ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں۔ دس برس اور زندہ رہوں تو پورے سو برس کا ہوجاؤں اور اب میرے دل میں کوئی آرزو باقی ہے تو وہ یہی ہے کہ اپنے وطن کی خاک کا پیوند بنوں۔
اصل بات یہ ہے کہ ملک کی شاعری اس کے تمدن کے تابع ہوتی ہے۔ جو سوسائٹی جس رنگ میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے، اسی کی جھلک اس کی نظم ونثر میں آجاتی ہے۔ اگر ہم اس زمانے کے لکھنؤ کو دیکھیں اور اس کے تمدن پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اہل لکھنؤ کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس، آداب و اطوار غرض تمام طرز معاشرت میں سراسر تصنع اور تکلف پایا جاتا تھا۔ انہیں سوچ سمجھ کر کسی خاص امتیاز کے پیدا کرنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ جو عام روش زندگی کے ہرشعبہ میں نظر آتی تھی اسی میں ان کا علم وادب بھی رنگا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ منطق و فلسفہ اور علم کلام کی ممارست نے ان کے علم وادب پر اثر ڈالا لیکن اس سے قبل دلی میں بھی ان علوم کا چرچا تھا اور دور دور سے طالب علم ان علوم کی تحصیل کے لیے وہاں آتے تھے لیکن وہاں کی بول چال اور نظم ونثر پر کبھی ایسابرا اثر نہیں پڑا مگر اس زمانے کے لکھنؤ کی ممتاز خصوصیت، تصنع اور تکلف تھی اور یہ ان کے تمدن کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں صاف نظر آتی ہے۔ وہ نئی تراش خراش اور جدت پر مٹے ہوئے تھے اور عوام و خواص میں اس کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ اس کے لیے سب کے سب ادھر ہی ڈھل گئے اور ساری ہمت تکلفات میں صرف کر دی۔ سادگی کی جگہ بناوٹ نے اور فطرت کی جگہ صنعت نے لے لی۔ میرؔ اور ان کے ہمعصروں کا اثر زائل ہو گیا اور ان کے بجائے دوسرے استاد پیدا ہوئے جو اس سوسائٹی کے سپوت اور اس تمدن کے پروردہ تھے۔ حضرت ناسخؔ اور ان کے بعد کے خواجہ وزیرؔ، صبا، رشکؔ اور امانت وغیرہ کے کلام میں سوائے ضلع جگت، لفظی مناسبت اور تلازمہ اور دیگر تکلفات کے کچھ بھی نہیں، نثر میں اس کا سب سے عمدہ نمونہ مرزا رجب علی بیگ سرور کا ’فسانہ عجائب‘ ہے۔
’’بیٹھیے جناب سب ہندوستانی برابر ہیں، سب بھائی ہیں، سب بھارت ماتا کے سپوت ہیں، کوئی کسی سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔ اب سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس کے فرق کو بھول جائیے۔ سب کو برابر کا سمجھیے، جائیے تشریف رکھیے نہیں تو تھرڈ کلاس میں بھی جگہ نہ ملے گی۔‘‘ہم یہ کھرا جواب سن کر منہ لٹکائے ہوئے اپنے درجہ میں آگئے جہاں ہماری جگہ پر قبضہ ہوچکا تھا اور ہم کو یہ طے کرنا پڑا کہ کھڑے کھڑے سفر ہوگا یا غسل خانہ میں جگہ ملے گی۔ مجبوراً اپنا ٹرنک گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئے اور گاڑی چھوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔
صاحبو! یہ نوجوان سپوت بھول رہے ہیں کہ ہم کیا ہیں۔ ہم کون ہیں۔ اجی! ہم وہی ہیں کہ کچھ دن پہلے ان ہی کی طرح جوان تھے۔ جی ہاں، جوان بھی ایسے کہ جس کی مثال آج بخدا نہیں مل سکتی (آوازیں۔۔۔ دریں چہ شک) لیکن یہ ہماری کمزوری اور دب کر رہنے کا نتیجہ ہے کہ نوجوان ہمیں آنکھ نہیں لگاتے۔ خدا کی قسم، یہ چار دن کے چھوکرے اسکول اور کالج میں پڑھ کر نہ جانے خود کو کیا سمجھتے ہیں کہ ہماری باتوں پر دھیان دینا تو درکنار الٹا ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اسی پراکتفا کرتےتوہم صبرکرلیتے۔ لیکن یہ نوجوان بار بار ہمیں جولائی طبع دکھلاتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ بڈھا ٹرٹرائے جارہا ہے وغیرہ وغیرہ (آواز۔۔۔ شیم شیم) تو کیا آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ان کے اندر یہ جرأت و ہمت کیوں کر پیدا ہوئی۔۔۔ بات بالکل صاف اور واضح ہے، کیونکہ ہماری کوئی تنظیم نہیں، ہم میں یکجہتی اوراتفاق نہیں۔ ہم کو ہڑتال اور مرن برت کی توفیق نہیں۔۔۔ ہاں! آج بھی اگر ہمارا سنگٹھن ہو جائے اور ہم سب ایک ہی پلیٹ فارم پرآجائیں، توپھردیکھئےہماری عزت و وقعت۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں آنکھیں دکھلانا تو ایک طرف، بغیر ہماری خوشنودی اور اجازت کے ان نوجوانوں کو اپنے سسرال جیسے عزیز گھرانے میں قدم رکھنے کی ہمت نہ پڑے، بلکہ بغیر ہمارا تحیریری حکم حاصل کئے سنیما یا تھیٹھر چلے جائیں یا چھپ چھپ کر سگریٹ پی لیں تو میرا نام ستارۂ آسمانی نہیں۔۔۔ افسوس صد افسوس ہماری موجودہ حالت پر۔(سسکنے کی آوازیں)
روگی ہوا ہے دھوپ کو ترسا ہوا بدناے مامتا سپوت کو گھر سے نکال دے
دشمنی کیوں ہو مدارا کیوں نہ ہوہم ہیں ہندوستان کے سچے سپوت
آج پھر گھات میں بیٹھا ہے سمندر کا سکوتہم کو اک دوسرے سے دور ہی رہنا ہوگا
رات کے کتنے پہر ہوتے ہیں اور یہ ان میں سے کونسواں پہر گزر رہا تھا،جانے؟ سفید کھدر کے لیمپ شیڈ کے نیچے وہ ابتدائے رات سے اپنے سے دگنی وزن کی کتاب لے کر بیٹھی تھی۔ گلاس میں رکھے دودھ پر یخ ہو کر کریم کی موٹی تہ جم گئی تھی۔ چوکیدار کی ڈرادینے والی سیٹی کبھی بہت دُور سنائی دیتی تھی کبھی نزدیک۔ ہر آدھ گھنٹہ بعد اس کا راؤنڈ ان کے گھر کے سامنے ہوتا تھا۔ اور کتنے ہی ایسے آدھے آدھے گھنٹے گزر بھی گئے تھے۔ وہ اس وقت انگلیوں پر گھنٹے نہیں، میڈیسن رٹ رہی تھی۔ جینرک نام۔ کمپنی کا نام۔ اجزائے ترکیبی۔ ڈاکٹر فاروق کا یہ پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ راؤنڈ لیتے لیتے اچانک چونکا دینے کے لیے مائی سین فیملی کی گردان سننے لگتے۔ کتنی ڈوز؟ کتنی ملی گرام؟ سکس آرلی؟ فور آرلی؟ اور اگر کہیں کسی نے کنفیوز ہو کر گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی۔ ہنڈرڈ ملی گرام۔ نہیں نہیں، ٹین ایم جی۔ فور آرلی۔ نہ نہ سکس آرلی۔ وہ کلائی پر بندھی ایک تسلسل سے چلتی رہنے والی گھڑی دیکھتے۔ ’’معاف کیجیے آپ کے مریض کو مرے اصولاً پندرہ منٹ گزر چکے ہیں۔‘‘ طالب علموں کے ساتھ ان کا سخت رویہ سب کو دہلا دیتا۔ لالہ ان کی ہونہار شاگرد تھی۔ وہ اس سے محبت بھی کرتے تھے اور اس پر فخر بھی۔ صرف ان کی نظر میں سرخ رُو ہونے کے لیے اس کو کیا کیا جتن نہ کرنے پڑتے۔ امی گھر کی بتیاں بجھا کر سب سے آخر میں اس کے کمرے میں آتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں، لالہ پڑھاکو ہے اور کتابوں میں سرگھسا کر اسے شاید ہی کسی چیز کا ہوش رہتا ہو۔ وہ دودھ کا گلاس رکھتیں۔ کافی کا ڈبہ۔ چینی۔ وہ سامنے کھڑی رہتیں تو گلاس میں کافی اور چینی گھول کر غٹ غٹ چڑھا جاتی ورنہ پڑا پڑا ٹھنڈا ہوتا رہتا۔ ’’دیکھو غسل خانے کا دروازہ بند کرنا نہ بھولنا!‘‘ وہ ایسی بہت سی نصیحتیں کانوں کے راستے بھیجے میں گرا کر بھول جانے کی عادی تھی۔ لیکن وہ ماں تھیں،جب تک وہ دودھ چڑھا نہ جاتی اور بادام چبا نہ لیتی، اور وہ غسل خانے میں گھس کر باہر والا دروازہ ٹھونک بجا کر لان میں جھانک نہ لیتیں ،ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ کونے میں ٹمٹماتا سا ناکام بلب لان کو روشن رکھنے کے لیے ناکافی ہوتا لیکن وہ ایک نظر غسل خانے کے دروازے سے باہر کی طرف ضرور جھانکتیں ۔گھاس پر درختوں سے ٹوٹ کر گرے سوکھے پتوں کا ڈھیر جمع ہو گیا تھا۔ پچھلی سڑک پر قطار بنائے خاموش اور سیدھے کھڑے اچھے طالب علموں ایسے سفیدے کے تنے کچھ اداس اور ویران سے تھے۔ ان درختوں سے پرے دُور کسی سرونٹ کوارٹر سے پرانے گانے کی آواز آرہی تھی۔ ع ’’نہ جی کو جلانا مجھے بھول جانا ۔۔۔ میری یاد میں تم۔۔۔‘‘ ’’یہ کم بختی مارا عبدل ہمیشہ سے ایسے نحستی بھرے گانے سنتا آرہا ہے۔ جانے اس کا یہ کیسٹ کب ٹوٹے گا۔‘‘ انہوں نے بے دردی سے طلعت محمود پر دونوں پٹ بند کر دئیے۔ غسل خانے کا بلب جلایا۔ اپنی طرف سے انہوں نے لالہ کے سب کام سنوار دئیے تھے۔ اب لالہ کو امتحانوں سے فرصت ہو تو ان کو اپنی ذمے داریوں سے کچھ نجات ملے۔ دروازے سہولت سے بند کر کے وہ باہر چلی گئیں۔ اور اس وقت سے وہ اِس کتاب پر دھیان لگائے بیٹھی تھی۔ وہ صبح سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے سوتی تھی۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر فاروق کے ساتھ وارڈ میں کلاس ہوتی، جس میں لیٹ ہونے کا مطلب پوسٹ مارٹم پر جانا تھا۔ وہ تیار ہو کر نکلتی تو چائے، تھرموس اور ناشتے کے لیے سینڈوچ، ٹفن میں تیار ملتے۔ میڈیکل کالج کی بس اپنے پوائنٹ پر ہارن دیتی تووہ دوڑتی دوڑتی نکل جاتی۔ عموماً اس وقت کالج کی یونین کی خریدی ہوئی سب سے پرانی بس اسے ملتی۔ بس میں سفر کرنے والے دوستوں نے اس بس کا نام ہیمامالنی رکھا ہوا تھا۔ وہ بھاگم بھاگ ہیما مالنی پکڑتی کہ ڈاکٹر فاروق کا شیڈول بہت تنگ ہوتا۔ سرجیکل میں لیکچر۔ اس کے بعد آپریشن تھیٹر کا چکر۔ پھر ہسپتال سے ملحق کالج میں پڑھائیاں۔ واپسی سے پہلے ڈاکٹر شکیلہ ایمرجینسی میں ان کی اٹینڈنس (حاضری) لگاتی تھیں۔ یہ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا کوئی نیا اور سنہری اصول تھا۔ اس سے شروع کے پیریڈ اٹینڈ کر کے بھاگ جانے والے طالب علموں کی گنتی ہو جاتی تھی۔ اور جب ہیما مالنی اسے گھر چھوڑتی تو سورج اپنا سفر ختم کرنے والا ہوتا۔ وہ اتنی تھک جاتی تھی کہ گھر میں گھستے ہی سب سے پہلے ریڈیو آف کر دیتی۔ خواہ وہ کسی نے بھی لگا رکھا ہو۔ کتابیں پڑھنے ،گانے سننے، ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے، حتیٰ کہ ہنسنے بولنے ،اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی تھی۔ یہ اس کا فائنل تھا اور فائنل گزر جائے تو وہ فرصت سے برسوں کے رکے کام نکال کر پورے کرے گی۔ ٹی وی پر ان دنوں کون سے سیریل مقبول ہو رہے ہیں۔ کون سا سینٹر فلاپ ڈرامے دے رہا ہے۔کس گلوکار کا کیسٹ بازار میں دھڑا دھڑ فروخت ہو کر سابقہ گلوکاروں کے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ اس وقت کون سیاسی پارٹی کس سیاسی جماعت کے خلاف برسر پیکار ہے؟ خالہ راشدہ نے اپنی بیٹی کے لیے اتنے اچھے رشتے سے کیوں انکار کر دیا؟ اسد بھائی کا خط تین ماہ سے کیوں نہیں آیا؟ اسے کتابوں سے سر اٹھانے کی فرصت ملتی تو ان سب مسائل کی طرف توجہ دیتی۔ چھٹی کے دن خوب سو سو کر اسے پچھلی نیندیں پوری کرنی ہوتی تھیں۔ پھر نہانے دھونے کا نمبر آجاتا ۔تھوڑی دیر کے لیے وہ اخبار کا فرائیڈے ایڈیشن دیکھ لیتی۔ جمعہ ہی کو ٹی وی نصیب ہوتا۔ اور ہفتے سے وہ پھر محاذ پر ڈٹ جاتی۔ ایسی ہی ایک روکھی سوکھی اور خشک سی شام جب وہ خون بہاتے ،درد سے چلّاتے مریضوں کے درمیان حاضری لگا کر جا رہی تھی تو ڈاکٹر شکیلہ نے اسے روک لیا۔ آج آن ڈیوٹی ڈاکٹر ناصر کی چھٹی کی درخواست آگئی تھی۔ اور یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں تھی ،ان کی جگہ کسی بھی ڈاکٹر کو فوری طور پر طلب کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ڈاکٹر شکیلہ اس کی محبت میں اس کے تجربات میں اضافے پر تلی ہوئی تھیں۔ آج ہی شام آپی پہنچ رہی تھیں۔ امّی نے چلتے چلتے جلدی آنے کی تاکید تھی۔لیکن ڈاکٹر شکیلہ چغل خور بھی بہت تھیں۔ اور یہ اس کا فائنل تھا۔ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔ ’’میں تو تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہی تھی۔‘‘ ڈاکٹر شکیلہ نے اس کا بگڑتا منہ دیکھ کر ناگواری سے کہا۔ ’’وہ ایک مریض لائے ہیں ۔روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ ہے۔ وہ بہت زخمی ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایسا مریض ہاتھ میں لینا بڑے تجربے کی بات ہو گی۔‘‘ وہ برآمدے میں بنچ پر ہی اپنی چیزیں پھینک آئی تھی۔ اس کا خیال تھا ،وہ حاضری لگا کر چپکے سے باہر کے باہر بھاگ آئے گی، نظر بچا کے ۔اب تو ظاہر ہے ناممکن ہی ہو گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں اٹھانے آئی تو لمحہ بھر کو ڈر ہی گئی۔ لکڑی کے تختے پر لیٹا شخص زخموں سے چور تھا۔ خون میں نہایا ہوا، ہوش و حواس سے بیگانہ ، وہ کراہ رہا تھا۔ سرجن کمال کو سٹاف، ایڈمیشن رپورٹ پڑھ کر سنا رہی تھیں۔ ’’سر اس کو راہ گیر اٹھا کر لائے ہیں۔ یہ سڑک کے کنارے زخمی حالت میں پڑا تھا۔ غالباً اس کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے سر۔ اس کے بازو میں گولی لگی ہے۔ زخمی پہچانا نہیں گیا سر اور پولیس کہیں بھی نہیں ہے۔‘‘ اس کو اس تختے پر وارڈ بوائے اٹھا کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے گئے۔ سرجن کمال زبانی سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سٹاف نے بھیگے پھاہوں سے اس کے زخم صاف کیے۔ کھرونچوں اور زخموں سے نچا چہرہ تکلیف کی شدت سے نیلا تھا ۔اس کو جنرل انستھیزیا دے کر ٹانکے(Stiches) لگانے کی باری لالہ کی تھی۔ ابھی تک اس کو کوئی زخمی اتنے قریب سے دیکھنے اور چھونے کو نہیں ملا تھا۔ یہ بھی ڈاکٹر ناصر کی مہربانی تھی کہ وہ چھٹی پر تھے۔ ورنہ یہاں آپریشن کرنے والے مریض کو چھونے کے لیے ترستے ہی رہتے۔ آدھ گھنٹہ آپریشن تھیٹر میں گزار کر جب اس کو جنرل وارڈ کی طرف دھکیلا جا رہا تھا تو اسے شدید دُکھ نے آگھیرا۔ یہ مفلس سا نادار، لاوارثوں کی طرح پڑا شخص بھی کسی ماں کی نامقبول دعا تھا۔ اسد بھائی نے کب سے خط نہیں لکھا تھا اور امی دن رات جائے نماز پر ان کی سلامتی اور صحت کی دعائیں مانگا کرتی تھیں۔ کیا پتا، اس غریب کی ماں تخت پر بیٹھی اس کے لیے کون کون سی دعائیں نہ مانگتی ہو۔ وارڈ بوائے خون کی تھیلی ساتھ لیے سٹریچر کے ساتھ آئی سی یو کی طرف دوڑ رہا تھا۔ درد سہہ کر پیدا کرنے والی اور تکلیف جھیل کر پرورش کرنے والی ماں کے لاڈلے سپوت کے خون سے تربتر کپڑے پولی تھین کے ایک تھیلے میں ڈال کر کونے میں رکھ دئیے گئے تھے۔ اگر وہ بروقت بری صحبت سے بچا لیا جاتا تو آج اس کا خون یوں بے در، بے عزت نہ ہوتا۔ پتا نہیں، وہ محض معمولی اٹھائی گیر تھا یا کوئی بڑا چور ڈاکو۔ خدا معلوم یہ ایسے ہی بے راہ لوگوں کی اولاد تھا یا یار دوستوں کی محبت نے اسے ان حالوں میں پہنچایا۔ اس نے اپنا بیگ ،اسٹیتھوسکوپ اور پرس اٹھایا۔ آئی سی یو کے راستے میں اس کا گیٹ پڑتا تھا۔ جتنے قدم وہ اس کے ساتھ چل سکتی تھی ،چلتی گئی۔ مریض ابھی تک اینستھیزیا کے اثر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس لیے سکون سے آنکھیں بند کیے وہ بالکل غافل تھا۔ سرجن کمال نے بتایا تھا اس کا خون بہت ضائع ہو گیا ہے۔ اگر یہ تھیلی سوٹ کر گئی تو شاید اس کی جان بچ جائے۔ اس کا گاؤن خون سے بھرا ہوا تھا۔ وہ بے خیالی میں اسے بھی اٹھائے اٹھائے رکشا میں آبیٹھی تھی۔اسے اس خون سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کسی کے جان دار جسم سے نکلا یہ جیتا جاگتا خون معلوم نہیں اس کی زندگی بچا لے گا یا اجاڑ دے گا۔ دُکھی ماں کی نالائق اولاد نے اسے بے حد افسردہ کر دیا۔ باہر تاریکی بڑھ رہی تھی ۔وہ گھر پہنچی تو اس کا چہرہ پیلا تھا اور دن بھر کی مشقت نے اسے تھکا کر چور کر دیا تھا۔ آپی کب کی آئی بیٹھی تھیں۔ وہ خالہ راشدہ کو سمجھانے کے لیے بلائی گئی تھیں۔ اچھے رشتے روز نہیں آتے ۔یوں وہ ناک اونچی رکھنے کو باتیں بنا لیں تو کل کو پچھتائیں گی۔ خالہ راشدہ اگر دنیا میں کسی کی سنتی تھیں تو آپی کی۔ ’’اوئی یہ جراثیموں سے بھرا کوٹ اٹھا کر گھر لے آئی۔ دے جا کر دھوبن کو۔ وعلیکم السلام۔ کیسی ہے تو؟‘‘ وہ آپی سے لپٹ گئی۔ وہ بہت مدّت بعد آئی تھیں لیکن ویسی کی ویسی ہی تھیں۔ ’’اری شکل دیکھی کیسی پیلی پھٹک ہو رہی ہے۔ ارے ڈاکٹر کہیں ایسے ہوتے ہیں ۔جنہیں اپنی صحت کا دھیان نہ ہو دوسروں کی صحت پر خاک توجہ دیں گے۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی کوٹ لانڈری میں پھینک کر غسل خانے کے آئینے میں صورت دیکھنے لگی۔ ’’آپ کو میری شکل اچھی نہیں لگی آپی۔ اب سب آپ کی طرح چندے آفتاب چندے ماہتاب تو نہیں ہو سکتے ناں۔‘‘ اس نے دونوں ہتھیلیوں پر صابن رگڑ کر منہ پر تھوپا۔ بے تحاشا پانی کے چھپکے مار کر وہ مسکراتی باہر آگئی۔ ’’تو کپڑے بدل آ۔ میں نے تو تیرے انتظار میں شام کی چائے بھی نہیں پی۔‘‘ وہ ان کے نزدیک کوئی گندی سی پلید چیز تھی۔ حدّت دیتی چائے کی پیالی نے اس کی ساری تھکان اتار دی۔ جب تک وہ دوسری پیالی بناتی خالہ راشدہ کی سیاست بیچ میدان میں آگئی تھی۔ آپی غصے سے ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ غریب فاطمہ کی کھوٹی قسمت کا دکھڑا اسے زیادہ اپیل نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنی پیالی اٹھا کر آپی کے نومولود سے کھیلنے لگی۔ رات کو ڈاکٹر سہیل نے ابو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اناٹومی کا چوتھا چیپٹر اسے سمجھا جائیں گے۔ وہ کتنے دن سے کرم کانٹے بنا کر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی۔ اس نے ڈرائنگ روم سے آپی کی آمد کی خوشی میں بکھرے کشن سمیٹے۔ صوفے کی گدیاں ٹھیک کیں۔ آپی وغیرہ خالہ راشدہ کی طرف چلے گئے۔ ڈاکٹر سہیل اس پر رات گئے تک مغز مارتے رہے۔ وہ فارغ ہو لیتی تو وہ بقیہ گفتگو کے لیے ابو کو نشانہ بناتے۔ ان کے اور ابو کے درمیان سیاست ایسے زیر بحث آتی جسے پاکستان کے تمام معاملات انہی کے ہاتھوں سے نکل کر انجام پاتے ہوں ۔وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں ان کے رٹے رٹائے ہوئے فارمولے مزید رٹتی رہی۔ یہ گزشتہ روز کی تھکان ہی تھی کہ اس کو صبح اٹھنا دوبھر ہو گیا۔ صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر فاروق اپنا لیکچر شروع کر دیں گے۔ اس کے بعد وارڈ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور کسی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ صبح اسے بھاگتے دوڑتے دیکھ کر آپی جھلاّنے لگیں۔ ’’پڑھائی نہ ہوئی دُم چھلا ہو گئی۔ جی کا جنجال بن گئی۔ ہم نے بھی پڑھا تھا ،یوں سر پر سوار نہیں کر لی تھی پڑھائی۔ تین بجے تک ضرور آجانا۔ مجھے بازار جانا ہے۔‘‘ بس مس ہو گئی تھی۔ اس نے رکشا پکڑا اور دروازے بند ہونے سے پہلے پہنچ گئی۔ اس کے بعد پرندہ بھی پر مارنے کی جرأت نہ کرتا۔ سٹاف کی میز کے پاس انہوں نے مریض کی فائلز نکلوا کر پہلے زبانی لیکچر دیا۔ پھر راؤنڈ شروع کیے۔ سارے ہی دیکھے بھالے مریض تھے ،کچھ کل داخل ہوئے،کچھ پرسوں۔ کچھ بہت پرانے تھے۔ وہ ہر مریض کے پاس گزرتے نہایت تفصیل میں جا رہے تھے۔ پھر وہ آئی سی یو کی طرف نکل گئے۔ ہفتے تک سرخ کمبل ڈالے خون کی تھیلی سوئی کے ذریعے بازو میں گھونپے وہ ہوش اور بے ہوشی کی درمیانی کیفیت میں تھا۔ لالہ نے اسے لمحے بھر میں پہچان لیا۔ وہ اب خطرے سے باہر تھا۔ خون کی یہ آخری تھیلی اس کو لگائی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر فاروق نے اس کی فائل کھولی اور سٹوڈنٹس کی طرف پلٹ گئے۔ وہ اس کے زخموں کی تفصیل کی بابت سمجھا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ اس کی سانس ہموار نہیں تھی۔ جسم سے اٹھتے والے درد کی ہر تکلیف اس کے چہرے پر پڑھی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر فاروق نے فائل واپس سٹاف کو دے دی۔ وہ اگلے مریض سے ہو کر دروازے سے باہر چلے گئے۔ لیکن وہ کھڑی رہ گئی۔ اس کی آتی جاتی سانسوں کو گنتی، اس کی تکلیف کو محسوس کرتی رہی۔ ’’اے۔ تم جو کوئی بھی ہو، میری بات سنو۔‘‘ اس نے اس کے بستر پر جھک کر آواز دی۔ مریض نے میکانکی انداز میں آنکھیں کھول دیں۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ وہ بہت دیر تک ماحول کو پہچاننے کے لیے آنکھیں پٹپٹاتا رہا۔لالہ کے لیے مریض کا یہ رویہ بالکل اجنبی نہیں تھا۔ اینستھیزیا کے زیر اثر مریض اسی طرح غافل ہوتا ہے۔ لیکن اس نے سُن رکھا تھا اس کے دماغ میں کچھ ڈالنے کے لیے اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہوتا۔ ’’تم جوان آدمی ہو۔ وطن کا سہارا ہو۔ اگر تم چاہو تو محنت مزدوری کر کے کام کاج کر کے اپنے وطن کی عزت بنا سکتے ہو۔ تمہیں یہ غنڈہ گردی، مارپیٹ ،دادا گیری سے کیا ملتا ہے۔ تم نے دیکھا اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم مر جاتے تو تمہیں یہاں جاننے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اور تمہاری ماں ساری عمر تمہارا انتظار کرتی رہتی۔‘‘ اس نے ذہن پر زور دینے کی کوشش کی۔ اس کی تیوریاں سکڑ گئیں۔ لیکن شاید وہ اس بات کا مفہوم سمجھنے سے بالکل قاصر تھا۔ کتنی دیر اس نے آنکھیں اس پر مرکوز کیے رکھیں، پھر تھک کر بند کر لیں۔ ’’تم نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ تم تعمیری کام کرنا نہیں چاہتے۔ راتوں رات بس دولت مند بننے کے خواب دیکھتے ہو۔ اپنا خون ایک دوسرے سے لڑکر بہانے کی بجائے وطن کی خاطر بہاؤ۔ سنا تم نے۔‘‘ لیکن اس نے شاید کچھ سنا تھا اور کچھ نہیں۔ وہ ابھی مسکن سیال کے زیر اثر تھا۔ خون کی بوٹی کی طرح سرخ آنکھیں اس نے ایک مرتبہ کھو لیں اور کچھ کہنا چاہا۔ لیکن اس کو قے آگئی۔ وہ جانتی تھی آئی سی یو کے کسی مریض سے اس طرح پیش آنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہ الٹے قدموں دوڑ کر اپنے گروپ کے ساتھ جا ملی۔ اپنے طور پر اس نے تبلیغ کر لی تھی۔ وہ اس سوئے ہوئے شخص کے لاشعور میں کام کرنے کی خواہش گھسیڑ آئی تھی۔ وہ پنجوں کے بل دوڑتی گئی اور راؤنڈ کرتے لوگوں کے ساتھ اس طرح مل جل گئی جیسے درمیان سے وہ غائب ہوئی ہی نہ تھی۔ کتنی مرتبہ اسے لگا وہ خون میں لتھڑا مریض چاقو لے کر اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ وہ ٹھنڈے لمبے برآمدوں میں پلٹ کر دیکھتی تو گھبراتی۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ اس دن سڑک پر رش گم تھا ،یا ہیما مالنی تیز دوڑی تھی، لیکن وہ کلاس شروع ہونے سے دس منٹ پہلے پہنچ گئی۔ یونہی بے فکری سے برآمدوں میں ٹہلتے تیر کی طرح ایک نیا اچھوتا خیال اس کے دماغ سے ٹکرایا۔کل اس نے جو بکواس کی ،جانے اس نے جاگتے سنی بھی یا سن کر سو گیا اور بھول گیا ہو۔ آج وہ یقیناًہوش میں ہو گا۔ اسے اس کا ذہن بہت سا درست کرنا تھا۔ آئی سی یو کے بند دروازوں کے پیچھے نسبتاً نیم اندھیرے میں اس کے بستر تک پہنچ کر اس کو پہچاننے میں اسے کچھ وقت لگا۔ وہ تیز روشنی سے آئی تھی اور آنکھیں اندھیرے ماحول سے مانوس نہیں ہو پا رہی تھیں۔ لیکن اتنا تو اس نے فوراً ہی دیکھ لیا، اس کے بستر پر کوئی نیا مریض داخل ہو چکا تھا۔ وہ کچھ دیر کو ششدر سی رہ گئی۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اتنی جلدی مر جائے گا۔ حالاں کہ اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کو ایک مہذب شہری کی صورت میں دیکھے۔ اگر اس نے مرنے میں اتنی جلدی نہ کی ہوتی تو اس نے اس کو کامیاب انسان بنانے کا تہیہ رات ہی کو کر لیا تھا۔ یہ بھی اس کے پیشے کا ایک حصہ تھا۔ اس نے سٹاف کی طرف دیکھا ،وہ تن دہی سے رجسٹر پر جھکی ہوئی تھی۔ وہ افسردہ سی رہ گئی۔ ہم سب لوگ ایک دن انسان سے روبوٹ بن جاتے ہیں۔ ہم پر سردوگرم اثر کرتے ہیں نہ کسی کی زندگی موت۔ وہ سٹاف کی میز پر جھکی۔ تھوڑی دیر اس نے سوچا۔ واقعی ا س کو اپنی طبیعت کا ملال ختم کر کے اپنے آپ کو ڈھب پر لانا ہو گا۔ تھوڑی دیر میں سر فاروق دروازہ بند کر وا دیں گے۔ اس نے کلائی پلٹ کر وقت دیکھا۔ وہ کبھی لیٹ نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی تھی۔ اسی لیے غالباً وہ سر فاروق کی چہیتی سٹوڈنٹ تھی۔ وہ مرے مرے قدموں سے برآمدوں کو عبور کرتی سرجیکل میں چلی گئی۔ کبھی کبھی کسی معمولی بات کا انسان پر بڑی شدت سے اثر ہوتا ہے۔ سر فاروق فریکچر کمپاؤنڈ کے بارے میں سمجھا رہے تھے۔ انہوں نے وزن کے سہارے پاؤں لٹکائے کسی مریض کے بارے میں بڑی تفصیل سے پڑھایا تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں اس طرح نہیں آیا، جیسے ہمیشہ آجاتا تھا۔ پھر وہ ساتھ ساتھ راؤنڈ پر نکل جاتے۔ بیڈ نمبر ایک۔۔۔ دو۔۔۔تین۔۔۔ وہ باری باری ہڈیوں اور جوڑوں کی ٹوٹ پھوٹ کی تفصیل میں جاتے بڑی سہولت سے سمجھا رہے تھے۔ وہ مریض کے سرہانے کھڑے ہو کر فائل کسی بھی سٹوڈنٹ کو پکڑا دیتے۔ وہ بلند آواز سے پڑھتا جاتا۔ درمیان درمیان میں ڈاکٹر فاروق ٹوک کر سمجھا دیتے۔ اگلے مریض کی فائل لالہ کے ہاتھ میں تھی کہ وہ اچانک ٹھٹک گئی۔ اے ہاں واقعی۔ اس نے یہ کیوں نہیں سوچا۔ وہ اب پہلے سے بہتر تھا۔ اس لیے وہ آئی سی یو سے یہاں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ گولی اس کے بازو کو معمولی سا چیرتی گوشت میں چوٹ لگا کر گزر گئی تھی۔ ہڈی میں معمولی سی چوٹ لگی۔ اس کا یہ فریکچر کمپاؤنڈ نہیں تھا۔ گویا وہ آج کا موضوع نہیں تھا۔ ڈاکٹر فاروق نے فائل واپس رکھنے کا حکم دیا اور اگلے مریض کی طرف نکل گئے، اپنے ریوڑ کے ساتھ ساتھ۔ لیکن وہ وہیں کھڑی رہ گئی اسی طرح۔ ’’فائل رکھ دو۔‘‘ اس نے ڈاکٹر فاروق کا حکم بھی نہ سنا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی شکل دیکھتی رہی۔ یہ شخص پرسوں جب یہاں آیا تو بے تحاشا خون بہ جانے کے باوجود صحت مند لگ رہا تھا لیکن اس وقت سرخ کمبل سینے سے اوپر تک پھیلائے ناہموار سانسوں میں برسوں کے مریض کی طرح پیلا پھٹک ہو رہا تھا۔ ’’لقمان۔ لقمان صاحب۔‘‘ اس نے تیز لہجے میں آواز دی۔ وہ شاید سو نہیں رہا تھا۔ اس نے سفید کوٹوں کی یلغار سے بچنے کے لیے آنکھیں میچ لی تھیں۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھو لیں۔ بے رنگ آنکھوں سے اس کو گھورا۔ وہ اس کو جتا دینا چاہتا تھا کہ وہ اس کے آرام میں مخل ہو رہی ہے۔ اور جانے کیا چاہتی ہے۔ بتاتی تو ہے نہیں۔ ’’میں تمہاری ڈاکٹر ہوں۔ ڈاکٹر لالہ رخ۔ میں نے تمہارا آپریشن کیا تھا۔‘‘ ’’اوہ۔‘‘ اس کی سوال کرتی آنکھیں آرام سے بند ہو گئیں۔ ’’مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ اس نے اس کو سوجانے کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ’’ہوں؟‘‘ ’’سنا ہے سڑک پر تمہارا کسی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ خوب چاقو گولیاں چلی تھیں۔ تم کسی کی اولاد ہو۔ اے کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ اس نے فائل کور دیکھا۔ ’’ہاں لقمان۔ لقمان صاحب۔ تو کوئی تمہارے ماں باپ ہوں گے۔ بہن بھائی ہوں گے۔ یابیوی بچے۔ اور کوئی نہیں تو یہ ملک تو تمہارا اپنا ہی ہے۔ کیا تمہیں افسوس نہیں ہوتا ،تم اپنی طاقت اور جوانی کن ناکارہ باتوں پر گنوا رہے ہو۔ اگر تم فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ کسی کارخانے میں ملازم ہو جاؤ تو نہ صرف معاشرے کے لیے بلکہ اپنے گھر کے لیے بھی کارآمد شہری بن سکتے ہو۔‘‘ وہ جانتی تھی پندونصائح سننا آسان نہیں۔ اس کے چہرے پر بکھری ناگواری اس سے چھپی نہیں تھی اور کمبل کے پیچھے اس کا بے چین ہوتا وجود بتا رہا تھا کہ اس کو اختیار ہوتا تو اس کی بکواس پر ایک چاقو اس کی گردن میں بھی بھونک کر اسے ہمیشہ کے لیے چپ کرا دیتا۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوئی۔ ’’تم تو چاہتے تھے دوسروں کو زخمی کرو اور قسمت دیکھو کہ زخمی خود ہوئے ہو۔ اگر تم مر جاتے تو سوچو۔ ایک لاری کے نیچے دب کر مر جانے والے کتے بلی میں اور تم میں کیا فرق ہوتا۔ بے کار۔ بے مقصد۔ یہی جان تم اپنے وطن کی خاطر گنواؤ، ملک کی خاطر لٹاؤ تاکہ تم مرو تو قوم تم پر فخر کرے، صرف گھسیٹ کر سڑک کے کنارے نہ ڈال دے۔‘‘ مریض نے اپنی آنکھیں پوری کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں نفرت تھی،غصہ تھا، حقارت تھی۔ لیکن جو چیز ہر جذبے پر حاوی تھی، وہ نقاہت تھی۔ اس نے کتنی مرتبہ منہ کھولا۔ اس کے ہونٹ کپکپائے جیسے مخاطب کو جی بھر کر گالیاں دینے کی خواہش ا س کو بے چین کر رہی ہو۔ لیکن پھر وہ ہونٹ دانتوں میں دبا کر چپ ہو گیا۔ ’’میں جب آپریشن تھیٹر میں تمہارا خون صاف کر رہی تھی تو پہلا خیال مجھے پتا ہے کیا آیا تھا؟ یہ جو بے دریغ خون کسی جھگڑے کے نتیجے میں بہا ہے، اس جھگڑے کی نوعیت کیا ہو گی؟ شاید سونے کی چند چوڑیاں۔ نہیں تو چند ہزار روپے۔ اور یا کوئی ایسی ہی پیسوں والی چیز۔ بس یہی ہے تمہاری اوقات؟ لعنت ہے ایسے پاکستانی نوجوانوں پر۔‘‘ اس نے دوڑتے دوڑتے ڈاکٹر فاروق کے گروپ کو پیچھے سے جا لیا۔ وہ وارڈ سے باہر نکل ہی رہے تھے۔ اس نے جلدی جلدی سائرہ سے نوٹ بک لے کر کاپی کی۔ ’’تم کہاں رہ گئی تھیں؟‘‘ سائرہ نے اس کا ہاتھ دبایا۔‘‘ ڈاکٹر فاروق پوچھ رہے تھے۔‘‘ کہاں رہ گئی تھی۔ اس نے پلٹ کر وارڈ کی طرف دیکھا۔ وہ گردن ذرا سی اٹھائے اصلاحِ معاشرہ کی اس جنونی لڑکی کو بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ ’’کوئی واقف ہیں تمہارے؟‘‘ اس نے وارڈ سے باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ وہ پرسوں سے اس شخص کے بارے میں جو کچھ سوچتی آرہی تھی، سب اگل آئی تھی۔ اس لیے جب وہ گھر آئی تو بہت ہلکی پھلکی اور بشاش تھی۔ اس نے آپی کے بچے کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی، چھوٹے کے کپڑے بدلوائے اور گھر میں خالہ راشدہ کی بیٹی والے ہنگامے میں حتی المقدور دلچسپی لے کر اظہارِ رائے بھی کیا۔ ’’اے کوئی فاطمہ کی مرضی بھی تو پوچھے۔‘‘ ’’اے ہٹو فاطمہ کی مرضی۔‘‘ آپی نے گُھرکا، ’’یہ مرضیاں ورضیاں بھی ایک نئی بیماری نکلی۔ لڑکی کیا مرضی۔ جو ماں باپ کی، وہ لڑکی کی۔‘‘ وہ چپ چاپ ہٹ آئی۔ ڈاکٹر احسان پاگلوں کی طرح ٹیسٹ لیتے تھے۔ اس نے کمرے میں کیمپ آن کیا۔ ڈاکٹر سہیل کے سمجھائے نوٹس آہستہ آہستہ پڑھنے لگی ۔اسے اتفاق سے ڈاکٹر فاروق ہی کی نہیں، ڈاکٹر احسان کی آنکھ کا تارا بھی بننا تھا۔ ایک مرتبہ آپ غلطی سے کلاس میں کوئی پوزیشن لے لیں تو ساری عمر اسی پوزیشن کو برقرار رکھنے میں گزر جاتی ہے۔ وہ کتابوں میں غرق تھی، جب امی نے غسل خانے کا دروازہ بند کرنے، دودھ پی لینے اور بادام کھا کر فوراً سو جانے کی ڈانٹ بھری بھبکی دی تھی۔ آج کی پڑھائی سے اس کا دھیان بار بار پلٹ رہا تھا۔ کبھی اس کی توجہ عبدل کے گانے کی طرف جاتی۔ وہ اس کے بول سننے اور دہرانے کی کوشش میں کتابوں سے دُور ہو جاتی۔ غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بے قرار کر۔۔۔ پھر اسے لگتا چوکیدار کی سیٹی عبدل کے کیسٹ کے سروں کے ساتھ مل کر ماحول کو اور زیادہ بھیانک بنا رہی تھی۔ لیکن دراصل اسے صبح کا انتظار تھا۔ صبح آئے تو وہ صرف یہ دیکھے کہ ا س کی اتنی لمبی چوڑی تقریر کا اس پر کچھ اثر بھی ہوا۔ سنتے تو آئے ہیں تقریریں انسان کی تقدیریں بدل دیتی ہیں۔ میڈیکل لائن میں آنے سے پہلے جب وہ کبھی کبھار فاطمہ وغیرہ کے ساتھ فلم دیکھنے جایا کرتی تھی، تب اس نے یہی دیکھا تھا۔ اچھا بھلا ولن ایک لمبی چوڑی تقریر سے مومن ہو جاتااور گاؤں کی ساری عورتوں کو بے سوچے سمجھے اپنی بہن بنا لیا کرتا۔ اسے اتنی بہت کی توقع نہیں کی تھی۔ لیکن اپنے بارے میں اس کو بڑے گمان تھے۔ اس نے اپنے خیال میں تو ایسی دل پذیر تقریر کی تھی کہ اب وہ یہاں سے ڈسچارج ہوتے ہی معزز اور نیک شہری بن جائے گا بلکہ اصلاحِ معاشرہ کے تمام کام اب اس کی سپردگی میں انجام دئیے جائیں گے۔ لیکن کل آئی تو اس کا بستر دلہن ایسے سرخ کمبل میں جھڑا پونچھا ،کسی نئے آنے والے کا منتظر اور اس کے جانے کا نوحہ پڑھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکی۔ ’’سسٹر !یہ بیڈ نمبر تیرہ کہاں گیا۔‘‘ ’’السلام علیکم ڈاکٹر۔ وہ تو چلے گئے ہیں ڈاکٹر۔ وہ تو بہتر تھے پہلے سے۔ سرجن نے کہا ہے ہفتہ کے روز آ کر Stiches کٹوا لینا۔ اور ہاں ڈاکٹر۔ ڈاکٹر شکیلہ نے یہ نوٹ بھیجا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ چوں کہ یہ Stiches آپ نے لگائے تھے ،اس لیے آپ ہی ان کو Remove کریں گی۔‘‘ بعض شخصیتیں بڑی عجیب ثابت ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں تو انسان ان کے بارے میں بہت سوچتا ہے اورجب چلی جاتی ہیں تو انسان ان کو بالکل بھول جاتا ہے۔ یہی آپی کے ساتھ اور اس مریض کے ساتھ ہوا۔ کیا نام تھا بھلا اس کا؟ اس نے وزنی کتاب دھڑ سے بند کر دی۔ اور عجیب ستم تھا کہ اس نے آنکھیں بند کر کے مریض کے نام پر ذہن پر بڑا زور دیا۔ لیکن ایک تو اس پر دل کی بائیولوجی طاری رہی (کل کیوں کہ ایک اہم لیکچر رہا تھا) اور دوم آپی کے ایک دم واپسی کے ارادے نے اس کی سابقہ یادداشتوں کو تھوڑا سا متاثر کر دیا۔ اس نے آپی کی منتیں خوشامدیں کیں۔ چند دن اور رُک جائیں۔ تھوڑے دن ٹھہر جائیں۔ ابھی تو اس کا جی ان کے آنے سے سیر بھی نہیں ہوا تھا۔ اور ان کی رونقیں۔ ’’لو اس کی بات سنو۔ صبح سے شام تک تم میڈیکل کالج سے ہسپتال اور ہسپتال سے ایمرجینسی کے چکر لگاتی پھرتی ہو، گھر آتی ہو تو ٹیوشن پڑھنے بیٹھ جاتی ہو۔ رات ہوئی تو کمرہ بند کر کے کتابیں۔ اس صبح سے اگلی صبح تک سوائے کتابوں کے تمہارا رشتہ دار ہی کون ہے۔‘‘ ’’پلیز آپی۔‘‘ ’’کاہے کو۔‘‘ آپی نے جھڑکا،’’ میں تو اپنے ماں باپ سے ملنے آئی تھی بس مل لی۔ اچھا دیکھو۔ ‘‘وہ اس کی خوشامدوں کے آگے نرم پڑیں۔ ’’آج میں جا رہی ہوں۔ آج تم کالج نہ جاؤ تو جانوں۔‘‘ اس نے جوش میں آ کر درخواست لکھی اور بڑا احسان کا ٹوکرا لاد کر سائرہ کے ہاں بھجوا دی۔ اور سارے چکر میں اسے لمحہ بھر کے لیے بھی یاد نہیں آیا کہ ہفتہ کا دن آج تھا۔ چغل خور ڈاکٹر شکیلہ کی تحریری ناراضی پڑھ کر ذرا حیران سی ہوئی۔ ’’ہائیں سٹاف، انہوں نے یہ کیا لکھا ہے۔ بیڈ نمبر 13 مریض بنام لقمان احمد۔ مجھے کس مریض کو ہفتے کے روز۔ اوہ ہاں۔‘‘ اس نے سر پکڑ لیا۔ ’’لقمان احمد۔ یہی تو تھا اس کا نام لقمان احمد۔‘‘ اسے ہنسی آگئی۔’’ ریموو (Remove) ہو گئے اس کے ٹانکے؟ کس نے کیے ہیں؟ اچھا۔‘‘ اس کو بڑا دکھ ہوا۔ آپی بھی عجیب ہیں خوامخواہ اس کی چھٹی کرا دی۔ اس میڈیکل لائن میں ۔۔۔شاید یہ اس کی دوسری یا تیسری ہی چھٹی تھی۔ وہ لمبی چوڑی چھٹیاں لینے کی قائل ہی نہ تھی۔ وہ سرجن کمال کو ڈاکٹر شکیلہ کا لیٹر دے کر وضاحت دینے چلی گئی۔ پھر شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے یہ واقعہ بھول ہی گیا۔ ہسپتال بہت بڑا ہے اور ہر روز یہاں ایک نیا واقعہ رونما ہو کر پچھلے واقعہ کو بھلا ڈالتا ہے۔ اس پر امتحان جیسا مہلک مرض۔ وہ سب کچھ آہستہ آہستہ بھول گئی۔ امتحان نزدیک آتے آتے کل پرسوں کی بات رہ گئے تھے۔ ہاں! وہ ایسی ہی ایک تاریک رات تھی جس میں عبدل کا کیسٹ بھی تھک کر سو گیا تھا۔ امی نے اس کا گلاس اور چھلے ہوئے بادام رکھ کر جمائیاں لیتے کہا تھا، ’’دیکھو ،دروازہ دیکھ لینا۔‘‘ پھر وہ چلی گئیں۔ آج رات اس کا جلدی سونے کا پکا پکا پروگرام تھا۔ ڈاکٹر شجاعت نے کل بے آرام ہونے پر بڑی دلنشیں تقریر کی تھی۔ اور یوں بھی کتاب پر ایک ہی رخ بیٹھے بیٹھے اس کے کندھوں کے اعصاب میں کھچاؤ آگیا تھا۔ ’’ابھی سوتی ہوں‘‘ سوچتے سوچتے اس نے ایک سو بیس صفحے پلٹ ہی دئیے تھے۔ اچانک اس کی توجہ بٹی۔ اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہوئی۔ جیسے سناٹے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔ جیسے کوئی وزنی سی چیز گری اور اس نے خاموشی کا اسرار توڑ دیا۔ کتابوں سے اس کی توجہ ہٹ گئی۔ کتنی دیر سے وہ اتنی مشغول تھی کہ باہر کی طرف سے اس کی توجہ بالکل ہٹی ہوئی تھی۔ کیا ہوا ہو گا؟ اس نے ذہن پر زور دے کر سوچنے کی کوشش کی۔ کوئی کتا بلی کے تعاقب میں دیوار سے کودا ہے یا کسی نے گھر کا کوئی دروازہ زور سے بند کیا ہے۔ ایک تو امّی کو پتا نہیں کیوں رات کو نیند نہیں آتی اور وہ گھر بھر میں ٹہلتی پھرتی ہیں۔ اس نے کتاب میں نشانی کاکارڈ لگا کر اٹھنے کی کی۔ امی کو سونے سے پہلے ویلیم لے لینی چاہیے۔ وہ خوامخواہ دنیا بھر کی سوچوں میں غلطاں۔۔۔ جیسے شور اس کے دماغ میں پلٹ آیا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، اس نے جو شور سنا،وہ دروازہ بند کرنے کا نہیں تھا۔ وہ دھم یادھپ سے ملتا جلتاتھا۔ کبھی کبھی وہ جب صحن میں سویا کرتی تھی تو بلی دیوار سے کو د کر اسی طرح اسے خوف زدہ کر دیتی تھی۔ ابھی اس نے دوبارہ کتاب کھولی ہی تھی کہ سڑک بھاگتے دوڑتے قدموں اور چوکیدار کی تیز سیٹی سے گونج اٹھی۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسے اچانک فضا میں کچھ اسرار سا محسوس ہوا۔ دوڑتے بھاگتے لوگ اور چوکیدار کی سیٹی آگے نکل گئی۔ ’’اوہ!‘‘اس نے پینسل، کتاب میں رکھ کر کتاب بند کر دی۔’’ ہو نہ ہو یہ کسی چور کا تعاقب ہو رہا ہے۔‘‘ وہ کتنی مدّت سے راتوں کو جاگ کر پڑھ رہی تھی لیکن ایسی واردات آج تک نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بے ساختگی میں کلاک پر نگاہ ڈالی۔ تین بجنے میں بیس منٹ رہ گئے تھے۔ ایسی ویران سی سڑک پر چور اور سپاہیوں کا تصور کر کے اس کو بڑا خوف آیا۔ وہ بزدل نہیں تھی لیکن ایسی تاریک رات میں وہ لان میں جھانک کر دیکھ نہیں سکتی تھی۔ کیا چور بہادر ہوتے ہیں؟ اس نے سوچا۔ انہیں تاریک راتوں ویران سڑکوں کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔ خیر!اس نے خوف زدہ ہو کر سوچا۔ اگر چور اس گھر میں کودا بھی ہے تو پولیس کے جانے کے بعد لان سے واپس ہو جائے گا۔ کتنی دیر خوف کی شدید لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی سے سنسناتی گزرتی رہی۔ اس نے کتنی مرتبہ سوچا وہ اٹھ کر امی کے کمرے میں جا سوئے لیکن دہشت نے اس کو یہاں تک ساکن کر دیا کہ وہ ہل جل بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے جگ میں سے انڈیل کر ایک گلاس پانی پیا۔ کتاب بند کر کے سرہانے رکھی۔ یہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس نے سکون سے سوچا۔ وہ جو بھی تھا اب گزر گیا۔ پولیس اس کے پیچھے ہے۔ ظاہر ہے کوئی چور صرف ہمارے گھر آنے کے لیے تو اپنی جان کی بازی لگا کرنکلا نہیں۔ پتا نہیں کیوں ہمیں ہمیشہ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے چور صرف ہمارے گھر آنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ اس کا خوف آہستہ آہستہ زائل ہو گیا۔ وہ شاید پانی کے گلاس کی تاثیر تھی یا اس کے سوتے سوتے دماغ کا کرشمہ جو اچانک بیدار ہو گیا تھا۔ اس نے کونے میں پڑی اناٹومی کی کتاب پر نظر ڈالی۔ کیا حرج تھا اگر سونے سے پہلے وہ اب تک کے پڑھے ہوئے کا خلاصہ دیکھ لے۔ وہ دوبارہ کرسی پر جا بیٹھی۔ لیمپ شیڈ جھکا کر اس نے کتاب پر نظر ڈالی۔ پاؤں چپلوں کی قید سے آزاد کیے ۔ آرام اور سکون کی حالت میں وہ کتاب میں منہمک ہونے کی کوشش کر رہی تھی کہ پوری جان سے کانپ گئی۔ غسل خانے میں کوئی چیز گرنے کی آواز آئی۔ ایسی آوازیں وہم سے نہیں آتیں۔ ’’کون ہے؟‘‘ بے ساختگی میں اس کی آواز معمول سے بلند ہوئی۔ کتنی دیر غسل خانے میں خاموشی رہی۔ پھر دروازہ ہلکے سے چرچرایا اور وہ سامنے آگیا۔ ’’اوف!‘‘ اس نے منہ سے نکلتی بھیانک چیخ کو مشکل سے روکا۔ ’’پلیز چیخیں نہیں۔‘‘ اس نے منّت سے کہا، ’’وہ ذرا آگے نکل جائیں تو میں چلا جاؤں گا۔ آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں۔‘‘ اس نے اِدھر ادھر خوف زدہ نظروں سے دیکھا اور دَبے پاؤں چلتا وہ خاموشی سے سامنے والی کرسی پر آبیٹھا۔ ’’میں آپ کا مریض ہوں لقمان۔‘‘ ’’کون لقمان؟‘‘ اس نے خوف زدہ بے توجہی سے پوچھا۔ ’’آپ نے میرا آپریشن کیا تھا۔‘‘ اس نے بے چینی سے زبان ہونٹوں پر پھیری،’’ مجھے شاید پیاس لگ رہی ہے۔‘‘ اس نے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر ایک سانس میں چڑھا لیا۔ لالہ نے آہستگی سے اس کی طرف نگاہ اٹھائی۔ وہ رات کے لباس میں تھا اور اس کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی۔ شاید اسی لیے اس کے پاؤں زخمی ہو گئے جن کو وہ قالین پر آہستہ آہستہ رگڑ رہا تھا۔ ’’میں نے آپ کو غسل خانے سے دیکھا تو پہچان لیا۔ میں زیادہ دیر ٹھہر کر آپ کو پریشان نہیں کروں گا۔ میں خاموشی سے وہاں سے واپس جا سکتا تھا مگر میں نے سوچا یہ بے ایمانی ہو گی۔ مجھے اپنے آپ کو آپ پر ضرور ظاہر کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے خاموشی سے نگاہ اٹھائی۔ یہ کس قسم کا انسان ہے۔ اور دیکھو کس ڈھٹائی سے ایمان داری کے ٹوکرے اٹھائے پھر رہا ہے۔ ’’اچھا۔ تو تم وہ ہو۔‘‘ اس نے بہت دیر بعد سکون سے کہا۔ ’’اب خدا کے واسطے کوئی تقریر نہ کیجیے گا۔ ویسے بھی آپ کی تقریر اتنی مؤثر نہیں ہوتی۔‘‘ ’’وہ تو میں دیکھ ہی رہی ہوں۔‘‘ اس نے بے ساختگی سے کہا۔ وہ ہنس دیا۔ لالہ نے دیکھا، اس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہو رہاتھا ،اس کی جگہ نہایت سکون سے وہ سپاہیوں کو پیچھے چھوڑ آنے کی تھکن اتار رہا تھا۔ ’’اور کیا سوچ کر یہاں آئے ہوکہ میں تمہیں بچا لوں گی؟ تمہارا خیال ہے میں چوروں ڈاکوؤں کا علاج کرتی ہوں تو ان کو قانون کے خلاف اپنی حفاظت میں بھی رکھتی ہوں۔‘‘ ’’نہیں رکھتیں۔ نہ سہی۔ وہ ایک شعر ہے ناں: جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ ’’اس کا کیا مطلب؟‘‘ اس نے تلخی سے پوچھا، ’’اٹھو اب تم جاؤ یہاں سے۔ میرا خیال تھا تم کچھ سدھر گئے ہو گے۔‘‘ ’’مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جان خدا کی دی ہوئی ہے، لہٰذا اسی کو لوٹانی ہے۔ لہٰذا آپ نے اگر خدا کی راہ میں جان دی بھی تو کوئی احسان نہیں کیا۔ لیکن میرا مطلب اس وقت جان بچانے سے تھا۔‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے دھیان سے بات سن کر بے توجہی سے پوچھا۔ ’’بھئی ایک مرتبہ مرتے مرتے آپ نے بچایا تھا، آپ دوبارہ موت کے منہ میں دے دیں۔ آپ کا حق۔ لگتا ہے ڈاکٹری کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔‘‘ ’’اور لگتا ہے تمہیں ڈکیتی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ تمہارے بارے میں میرا اندازہ درست تھا۔‘‘ اس نے سکون سے کہا۔ ’’کون سا اندازہ؟‘‘ ’’یہی کہ تم پڑھے لکھے خاندان سے ہو لیکن بری صحبت نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے۔‘‘ ’’بجا فرمایا۔ لیکن آپ بولتی زیادہ ہیں افسوس اور سوچتی کم۔ کبھی سوچا بھی کریں۔ آپ کے پاس چائے ہو گی؟‘‘ ’’یہ ہوٹل نہیں ہے۔‘‘ ’’نہ سہی۔ مجھے معلوم نہیں تھا یہ آپ کا گھر ہے۔ چلئے اچھا رہا۔ آپ کا شکریہ ادھار تھا ،اب ادا کر دیتا ہوں۔ لیکن چائے پئے بغیر نہیں جاؤں گا۔ آپ دیکھ رہی ہیں میری حالت کتنی بری ہے۔ اور آپ چاہتی ہیں میں ان کے ہاتھ لگ جاؤں اور چیل کووّں کی طرح وہ میرا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں۔‘‘ اس کو کراہیت سے جھرجھری کی ایک لہر آئی۔ ’’آئی ایم سوری ڈاکٹر لالہ رُخ۔ میں نے شاید آپ کو خوف زدہ کر دیا۔ کیا میں ایک سگریٹ سلگا لوں؟‘‘ ’’سلگا لو۔ لیکن میری امی کا کمرہ یہاں سے زیادہ دُور نہیں۔‘‘ ’’اوہ۔‘‘ اس نے جلائی ہوئی تیلی پھونک مار کر بجھائی۔ ایش ٹرے کی تلاش میں نگاہ اِدھر ادھر گھمائی۔ ’’ہاں۔ یہاں ایش ٹرے نہیں ملے گی۔ یہ کافی کا ڈبہ تو ہے آپ کے پاس۔‘‘ اس نے اٹھ کر ڈسٹ بن میں تیلی پھینکی تو اس کی نگاہ پڑ گئی۔‘‘ چلئے آج زبردستی کی مہمان داری کر ہی ڈالیے اور روزروز کہاں ہم آپ کے مہمان ہوں گے۔‘‘اس نے شیشوں کے پاس ٹھہر کر دوبارہ سڑک پر کچھ ڈھونڈتے ہوئے کہا۔ ’’کافی بنانے کے لیے کچھ اور سامان بھی تو چاہیے۔ اس کے لیے دوڑ کر کچن میں جانا پڑے گا۔ اچھا۔‘‘ وہ رُکی،’’میں ایک شرط پر تمہیں چائے پلوا سکتی ہوں۔ مجھ سے وعدہ کرو ،آج کے بعد تم چوری نہیں کرو گے۔‘‘ ’’میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد چوری نہیں کروں گا۔‘‘اس نے میکانکی لہجے میں شیشے سے باہر اسی طرح جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’صرف چائے کی ایک پیالی کی خاطر جھوٹا وعدہ کر رہے ہو۔‘‘ ’’جھوٹا؟‘‘وہ ایڑیوں پر گھوما۔’’ بالکل سچا وعدہ۔ میں نے آج تک چوری نہیں کی۔‘‘ چور اور چتر۔ وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔ ’’اگر چوری نہیں کرتے تو راتوں کو سڑکوں پر دوڑ دوڑ کر چوکیداری کرتے ہو۔‘‘ ’’سڑک پر دوڑنے پر بھی مجھے ان ہی لوگوں نے مجبور کیا ہے۔ میں تو اطمینان سے گھر میں سو رہا تھا بلکہ آپ کی مسیحائی کے بعد کے مزے لوٹ رہا تھا۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’میرا خیال ہے آپ اچھی ڈاکٹر بن جائیں گی۔ اچھا چلئے، آپ خود بتائیے آپ کس قسم کی ڈاکٹر بنیں گی؟‘‘ ’’کس قسم کی؟‘‘ وہ گڑ بڑائی،’’ کیا مطلب ؟جس طرح کے سب ڈاکٹر ہوتے ہیں۔‘‘ ’’یہ تو بڑی مایوسی کی بات ہے۔ میرا خیال تھا آپ عام لوگوں سے مختلف ہوں گی۔ حالاں کہ ہمارے اندازے عام لوگوں سے مختلف ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے سخت مایوسی سے کہا۔ ’’اچھا۔ حد ہے ڈھٹائی کی۔‘‘ اسے غصہ آگیا،’’کوئی معزز شہری ایسے کہے تو بات بھی بنتی ہے۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔‘‘ وہ بے ساختگی میں اتنی زور سے ہنسا کہ اس کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ چاروں طرف دیکھتے اس نے اپنی ہنسی کی آواز روک لی۔ لالہ ہنسنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ ’’لوگ عموماً سنی سنائی بات کرتے ہیں۔ آپ کو کیا پتا ڈاکٹر کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے؟ وہ عام مزدور کے مقابلے میں کتنی زیادہ مشقت کرتا ہے۔ اس کے گھر میں اس کی بیوی بچے۔ آپ اس غریب سوسائٹی کا ایک حصہ نہیں ہیں۔ آپ کو کیا معلوم اس معاشرے میں کیا کیا المناک پہلو ہیں۔‘‘ ’’واقعی۔ درست کہتی ہیں آپ۔‘‘ وہ بالکل سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے بے ساختگی میں سگریٹ منہ میں رکھی اور واپس نکال لی۔ ’’یہ معاشرے کے المیوں سے واقفیت بھی بڑا دکھ دیتی ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر اسی سنجیدگی سے اطراف کا جائزہ لیتا رہا۔ ’’بہت بڑے گھر میں رہتی ہیں آپ۔ ہر روز رات کو اتنی دیر تک پڑھتی ہیں؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ’’لیکن ہر روز آپ کے ساتھ ایسا واقعہ تو نہیں ہوتا ہو گا۔ آپ کی اجازت سے۔‘‘ا س نے اس کی کتابوں کو چھوا ۔گہرا سانس لے کر اس نے اس کی کتابیں واپس رکھ دیں۔ ’’میں نے آپ کو ڈرایا تو نہیں؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ’’آپ کے اور بہن بھائی ہیں؟‘‘ ’’ایک بہن ہے۔ اپنے گھر رہتی ہیں۔‘‘ ’’تو گویا ان دنوں اکلوتی ہیں۔ پھر تو آپ بہت لاڈلی ہوں گی۔‘‘ ’’نہیں آپی زیادہ لاڈلی ہیں۔‘‘ وہ خوش ہو گیا، ’’ہمیں ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے۔ میری بھی بہن مجھ سے زیادہ لاڈلی ہے۔‘‘ ’’کیا آپ کے بھی بہن بھائی ہیں؟ کہاں رہتے ہیں وہ؟‘‘ وہ چپکا رہ گیا۔ ’’بہت دیر پہلے آپ نے ایک وعدہ لیا تھا۔ چائے پلانے کے وعدے پر؟‘‘ وہ خجل سی ہو گئی۔ ’’میں پانی ابال کر لاتی ہوں۔ اتنے میںآپ اس بستر پر آجائیں ۔کچھ سوکھا دودھ ہے میرے پاس۔ میں آتی ہوں۔‘‘ وہ جاتے جاتے پلٹ آئی۔ وہ اسی طرح کرسی پر بیٹھا تھا۔ ’’ہیٹر چلا دوں؟‘‘ ’’نہیں شکریہ۔‘‘ ’’یہ کمبل لے لیں۔‘‘ اس نے اپنا گرم کمبل اس کی ٹانگوں پر ڈال دیا۔’’ اگر کوئی آنے لگے تو آپ باہر چلے جائیے گا۔ غسل خانے میں نہیں۔ امی غسل خانے میں ضرور جاتی ہیں۔‘‘ ’’بہت بہتر۔‘‘ اس نے اپنے جسم کے چاروں طرف کمبل لپیٹ کر زور سے سانس کھینچا۔ ’’اس میں سے خلوص کی جو مہک اس وقت آئی ہے، وہ پہلے نہیں آئی تھی۔‘‘ وہ بہت تیزی میں باورچی خانے میں گئی۔ بغیر بجلی جلائے اس نے چولہے پر پانی رکھا۔ بغیر کھڑکا دھڑکا کیسے اس نے برتن اکٹھے کیے۔ بلی کی طرح دبے پاؤں چلتی جب وہ ٹرے لگا کر کمرے میں آئی تو وہ جا چکا تھا۔ اس نے بے ساختگی میں اپنی دراز کھولی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی جیولری وہاں محفوظ تھی۔ میز پر پڑھنے سے پہلے اتار کر رکھی ہوئی کانوں کی بالیاں اور رِنگ اسی جگہ پڑی تھی۔ اس نے غسل خانے میں جھانکا۔ باہر نکل کر دیکھا وہ سب طرف سے جا چکا تھا۔ کتنے ہی عرصے اس کے دل پر وحشت طاری رہی۔ کتنی ہی رات اس نے جاگ کر پڑھائی نہیں کی۔ اسے لگتا تھا ،وہ اپنے گھر میں بالکل غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ اس خوف ناک اکیلی رات میں اس کے ساتھ کوئی بھی بڑا حادثہ پیش آسکتا تھا۔ اور بڑے حادثے کی کیا پہچان ہوتی ہے۔ کیا معلوم حادثہ اسی کو کہتے ہوں۔ وہ امی کے کہے بغیر رات کو سونے سے پہلے غسل خانے کی کنڈی لگا لیتی تھی، دودھ پی لیتی تھی، بادام کھا لیتی تھی۔ رات گئے تک پڑھنے کی بجائے وہ شروع رات ہی سے امی کے کمرے میں آ کر سو رہتی۔ امی کا دل تو چاہتا تھا وہ اپنی پڑھائی میں اوّل دوم آیا کرے لیکن جس طرح اس نے دن رات کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، وہ ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ وہ سرِ شام سوجاتی تھی۔ پڑھائی اس پر بھوت کی طرح سوار نہیں رہی تھی۔ بلا سے نمبر اچھے نہیں آتے نہ آئیں۔ وہ کالج میں بہت مختلف سی لگنے لگی تھی۔ لمبے لمبے کوریڈورز میں ڈاکٹر فاروق کے گروپ سے بہت پیچھے مرے مرے قدموں سے چلتی ،وہ اپنے آپ سے بیگانہ سی ہو رہی تھی۔ شام کو ڈاکٹر سہیل آتے تو وہ بہانے سے بنانے لگتی اور اپنی ڈھونگی بیماری کے اتنے باریک نکات بیان کرتی کہ ڈاکٹر سہیل اس کی میڈیکل علمیت پر حیران رہ جاتے۔ وہ کیوں اتنی بدل گئی ہے۔ اس کے استادوں کا عملہ، اس کے دوست اس سے باری باری پوچھتے۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتی رہتی، واقعی وہ کیوں اتنی بدل بدلی سی ہو گئی ہے۔ وہ یہ بھید پانہیں سکی۔ پھر اس نے ایک چھٹی کا جشن منانے کا پروگرام بنایا۔ کبھی کبھی ہم پر اَن دیکھی سستی کاہلی طاری رہتی ہے۔ جی کسی کام میں نہیں لگتا۔ اس نے صبح چھٹی کی درخواست دے کر سر میں تیل چپڑا۔ ہاتھ پاؤں پر کولڈ کریم کی مالش کی۔ ناخن تراشے اور زندگی کے بہت سے پروگرام ترتیب دینے کے لیے اس نے خود کو تازہ دم کر لیا۔ تیل اس نے ابھی لگایا تھا ،ابھی تولیہ کندھے پر ڈال کر نہانے چلی تھی کہ امّی نے ٹوک دیا،’’کتنی راتوں کے جگار سے سر میں خشکی ہو گئی تھی۔ ذرا مغز تک چکنائی جانے دو۔‘‘ وہ جانتی تھی چکنائی کسی صورت بھی مغز تک نہیں جا سکتی لیکن وہ ماں کو میڈیکل سائنس پڑھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس نے خاموشی سے ہلکی دھوپ ہلکے سائے میں بیٹھ کر رسالہ اٹھا لیا۔ ورق الٹتے الٹتے وہ بور ہو گئی، اسے ایسی رومان بھری کہانیاں اکتا دیتی تھیں۔ رسالہ پٹخا تو ہفت روزہ میگزین اٹھا لیا۔ اس میں دل نہ لگا تو اخبار کھول دیا۔ حالاں کہ اس کو نہ اخبار سے دلچسپی تھی نہ میگزین سے نہ رسالے سے۔ لیکن یہ آدھا گھنٹہ تو امی کے حکم کے بہ موجب اسے گزارنا ہی تھا۔ لاؤ دیکھیں تو سہی اخبار میں کیا لکھا ہوتا ہے۔ پہلا ،دوسرا، تیسرا، چوتھا ،سب صفحے فضول تھے۔ لوگ لوگوں کے خلاف بیان دیتے تھے یالوگ لوگوں کو قتل کیا کرتے تھے۔ اس نے اکتا کر اخبار بند کیا ہی تھا کہ وہ چونک سی گئی۔ انہی صفحوں پر اسے کچھ مانوس سا دکھائی دیا تھا۔ اس نے گرایا ہوا اخبار اٹھا کرپھر کھولنا شروع کر دیا۔ کیا نظر آیا تھا بھلا وہ مانوس سا! اندر کے صفحوں میں وہیں تیسرے چوتھے کالم میں اوپر لگی اس شخص کی تصویر سے وہ ناواقف نہیں تھی۔ کتنی دیر وہ تصویر دیکھتی رہی۔ حیران پریشان۔ گم صُم۔ واقعی وہ کتنی بے خبر تھی، اس کو ملال سا ہوا۔ اس کی رہائی کے لیے پارٹی کے دفتر سے اپیل شائع ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کے نام تھے۔ اس نے کتنی مرتبہ خبر پڑھی۔ کتنی دفعہ نام دیکھا۔ کتنی ہی دفعہ تصویر کا جائزہ لیا۔ بعض اوقات ہم انجانے میں کسی کو کتنا دُکھ دے جاتے ہیں۔ نہا دھو کر وہ باہرنکلی تو کہیں جانے کو تیار تھی۔ شکر ہوا۔ امی کو خوشی ہوئی ،ان کی بیٹی آدمیت کی جون میں آرہی تھی۔’’ سائرہ کی طرف جا رہی ہو؟‘‘ اس نے شاید سنا نہیں، اس لیے جواب نہیں دیا۔ وہ گھر سے نکلی تو سیدھی پارٹی کے دفتر گئی۔ اسے کچھ معلومات درکار تھیں اور دفتر میں بہت زیادہ چہل پہل تھی۔ وہ زیادہ دیر ٹھہری نہیں۔ اسے فوراً حوالات جانا تھا۔ یہاں تک تو اس نے سارے کام نمٹا دئیے تھے لیکن پولیس کی وردی میں ٹوٹی کرسیوں اور روغن اکھڑی میزوں کے پاس وہ پولی تھین کے کھڑ کھڑکرتے تھیلوں میں بے شمار پھولوں کا ڈھیر لے کر بیٹھی ہکلاتی رہی۔ پولیس آفیسر نے رجسٹر کھولا،’’آپ کا نام؟‘‘ وہ کتنی دیر چپ رہی اور جب وہ یہاں آہی گئی تھی اور موسلی میں سردے بیٹھی تھی تو ان دھکوں کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔ ’’آپ کا نام؟‘‘ اس نے قلم روک کر گھور کر پوچھا۔ ’’جی لالہ رخ۔‘‘ ’’والد کا نام؟‘‘ وہ چپ رہی پھر اس نے آہستگی سے بتا ہی دیا۔ وہ اس کو تھوڑی دیر حیرت سے دیکھتا رہا۔ ’’آپ نے پہلے نہیں بتایا اور آپ کے پاس اجازت نامہ ہے؟ نہیں ،کوئی بات نہیں جی۔ یہ تو ایسے ہی فورمیلٹی ہے۔ آئیے میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔‘‘ وہ جوتوں سے دھمک پیدا کرتا آگے آگے چلا۔ لاک اپ میں اندھیرا تھا----- نچلی چھتوں والے کمرے کے اندر سلاخوں کے پیچھے ----- کتنے ہی محروم ومجبور سے چہرے اس کو دکھائی دئیے۔ وہ خوف زدہ ہو کر ٹھٹک گئی۔ وہیں ایک ستون سے ٹیک لگائے وہ لرزتی رہی۔ پتا نہیں اسے ٹھیک بتایا گیا ہے یا نہیں۔ وہ یہاں ہو گا بھی؟ اس کے ہاتھوں میں پھول لرزنے لگے۔ وہ دائیں طرف سے چلتا آیا اور ایک دم رک گیا۔ ’’تم؟‘‘ اس نے دیکھا ،وہ اس کے گھر کا ہی کمبل اوڑھے تھا۔پتا نہیں اس کمبل کی گمشدگی کی طرف اس کا دھیان کیوں نہیں گیا۔ ’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ اس نے خفت سے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں ہمیشہ آپ کو غلط سمجھتی رہی۔‘‘ وہ چپ چاپ سلاخوں کے اس طرف کھڑا رہا۔ اس نے دیکھا وہ کس قدر زرد اور کمزور ہو رہا تھا۔ ’’میں آپ کو ملک دشمن، چور ،غنڈہ سمجھتی رہی۔ حالاں کہ آپ ۔۔۔یہ پھول میں آپ کے لیے لائی ہوں۔‘‘ ’’تم نے بڑی حماقت کی۔‘‘ اس نے پولیس آفیسر کے جانے کے بعد غصے سے کہا۔ ’’تمہیں کیا ضرورت تھی میرے پیچھے یہاں آنے کی۔ تمہیں پتا ہے اب تمہارے جاتے ہی ایک آدمی تمہارے پیچھے لگ جائے گا۔ تمہیں بھی اسی پارٹی کا سرگرم رکن سمجھا جائے گا۔ تمہارے گھر چھاپے پڑیں گے۔ کیوں اپنے باپ کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہو۔ تمہیں شاید علم نہیں یہاں کون سا جرم ہے جو میرے سر نہیں تھوپا جاتا۔ تین قتل۔ پانچ بینک ڈکیتی۔ چار اقدامِ قتل۔ میں جیل میں ہوں تو کم از کم محفوظ تو ہوں۔ کوئی نیا جرم تو مجھ پر نہیں ٹھونسا جارہا۔ کیا تمہاری خواہش ہے تمہیں بھی اس گروپ کا سرغنہ سمجھ لیا جائے۔ وہ کہیں ایک حسین دوشیزہ۔ اور۔۔۔‘‘ وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک بڑا سا لالہ کا پھول گلدستے میں سے نوچ لیا۔’’ بہت بہت شکریہ اور آئندہ یہاں مت آنا۔‘‘ وہ درشتی سے کہہ کر مڑ گیا۔ وہ ساکت خاموش وہیں کھڑی رہ گئی۔ وہ دو قدم بڑھا کر چلا ہی تھا کہ ایک دم رُک گیا۔ ’’اور ہاں یہ اپنا کمبل بھی لیتی جاؤ۔ میں اس کی اس سے زیادہ حفاظت نہیں کر سکتا۔‘‘ ’’کسی ضرورت مند کو دے دینا۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔ وہ اتنی آہستگی سے بول رہا تھا کہ غنیمت ہوا کہ آس پاس کھڑے لوگوں نے اس کی بات نہیں سنی۔ اس کے باوجود وہ اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے سے باز نہ رہ سکے۔ اتنی رسوائی، اتنی بے عزتی کے تصور سے اسے پسینہ آگیا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ اس بری طرح پیش آئے گا۔ وہ غصے سے جلی بھنی باہر نکلی ۔بے حد اہتمام سے خریدے رنگ برنگے پھولوں کا گلدستہ اس نے وہیں زمین پر پٹخ دیا۔ باہر کھڑی خالی ٹیکسی اس کی منتظر تھی۔ اس نے دائیں بائیں نہیں دیکھا۔ جانے کس کس نے اس کی بے عزتی کا یہ منظر دیکھا تھا۔ وہ گئی تو چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ،واپس آئی تو ساری چاندنی ماند پڑ چکی تھی۔ وہ غصے میں بھری سیدھی اپنے کمرے میں گئی۔ کتنی دیر رنجیدہ رہی۔ پھر اس نے الماری میں رکھ کر بھولی ہوئی کتابیں نکالیں۔ میز پر لیمپ اپنی جگہ رکھا۔ کافی کا ڈبہ ،سوکھا دودھ ،ہر چیز اپنی جگہ پر رکھ کر وہ قرینے سے دوبارہ پڑھائی کی طرف جم گئی۔ بھاڑ میں جائے لوگوں سے ہمدردی اور دلچسپی ،یہ اس کا فائنل تھا۔ اسے لوگوں سے زیادہ اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بہت سے لوگوں کی بہت زیادہ امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ پھر اس کے سب دوستوں اور استادوں نے دیکھا، وہ دنیا سے غافل ہو کر امتحان کی تیاری میں جت گئی۔ وہ غالباً جس کسی مسئلے میں بھی گرفتار تھی، اس نے اس کو سلجھا لیا تھا۔ دوستوں ہی نے دیکھا ،اس کو اچانک اخباروں سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ سارے دن میں سے آدھا پون گھنٹہ نیوز پیپر کے ڈائس پر ضرور گزارتی۔ وہ صرف ایک ہی اخبار پر اکتفا نہیں کرتی تھی۔ انگریزی اردو میں چھپنے والے تمام اخباروں کا وہ لفظ لفظ چھان مارتی۔ صفحہ صفحہ کھنگالتی۔ اور تو اور ایڈیشن کے سیاسی حصے تک پڑھنا نہیں بھولتی تھی۔ حالاں کہ اسے سیاست کی اے بی سی کا بھی علم نہیں تھا۔ وہ اب بھی راتوں کو دیر تک پڑھتی۔ ڈاکٹر سہیل سے ٹیوشن لیتی۔ زندگی میں کچھ عرصے کے لیے جو ہلچل آئی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ اسی لیے شاید امتحانوں میں اس کی اچھی پوزیشن آئی۔ آپی اور دیگر عزیزوں کو تار ارسال کیے گئے، ڈاکٹر سہیل کو خوب شاباشی ملی۔ ابو نے ایک پارٹی ارینج کی۔ اس وقت اس کا شدت سے دل چاہتا تھا وہ کسی اور کو بھی اپنی کامیابیوں کے بارے میں اطلاع دے اور اپنی آئندہ زندگی کے منصوبوں سے آگاہ کرے۔ حالاں کہ کسی کو اس کی زندگی اور آئندہ منصوبوں سے دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو ساری محفل پھیکی پھیکی لگی۔ یہ کتنی عجیب بات تھی، ہم بہت سے لوگوں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن جس ایک شخص کے لیے اہم نہیں ہوتے ،اس کے بغیر خود کو کتنا ناکارہ اور ادھورا سمجھتے ہیں۔ پھر اس کی ہاؤس جاب کے تکلیف دہ ایام شروع ہو گئے۔ کتنی مدّت وہ سب کچھ بھولی رہی۔ ہاں اگر نہیں بھولتی تھی تو اخبار پڑھنا۔ اس لیے اخبار اس کی چھیڑ بن گیا اور غالباً اسی لیے سب سے پہلے اس کو ہی پتا چلتا رہا کہ وہ شہر شہر جیل بدلتا رہا ہے۔ آج وہ ساہیوال ہے۔ پھر وہ فیصل آباد تھا۔ پھر دوبارہ لاہور آگیا۔ ان دنوں اے سی کینٹ کی طرف سے تفتیش ہو رہی تھی۔ پھر کہیں سے اطلاع ملی اس کو دو سال کی قید ہو گئی۔ پھر کسی اخبار نے لکھا ،وہ جیل سے فرار ہو گیا ہے۔ اس نے اخبار خاموشی سے تہ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ آج تو اسے کسی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ لکھنی تھی۔ اسے کبھی کبھی یہ اہم ذمہ داریاں جو باعث فخر ہوتی ہیں ،چبھنے لگتیں۔ جتنی دیر کام میں ہو رہی تھی ،اتنی اس کو بے چینی لگ گئی تھی۔ وہ دوڑتی دوڑتی گھر گئی اور اس نے غسل خانے کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھول دیا۔ اسے پہلی دفعہ پتا چلا، لان میں جھاڑ پھونس کا کتنا ڈھیر جمع ہو گیا۔ پرانے پودے سوکھ کر کتنے برے لگتے ہیں اور جب موسم بہار عین عروج پر ہوا ور جامنی رنگ کے پھول گلی گلی کھل رہے ہوں تو آپ کا بے رونق سا چٹیل میدان کیسا برا لگتا ہے۔ وہ غسل خانے کے راستے باہر نکل آئی۔ ابو کو کبھی لان اور گھر وغیرہ کا بڑا شوق تھا۔ جرنلزم میں رہ کر وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو گئے تھے۔ اس نے جھاڑو اٹھایا۔ سبز گھاس میں سے پرانی سوکھی گھاس علیحدہ کر کے کونے میں ڈالی۔ ٹوٹے ہوئے گملوں کو کونوں میں چھپایا۔ پتھر چنے۔ اس نے صفائی کرنے میں اتنی محنت نہیں کی تھی، جتنی کوڑا اٹھانے میں مشقت کرنی پڑی۔ لان تھوڑا تھوڑا سا چمکاچمکا لگنے لگا تھا اور اس قابل ہو سکا تھا کہ کوئی شخص زخم کھائے بغیر لان پار کر سکے۔ اس نے کمرا چمکایا۔ نئی چادریں اور تکیے کے غلاف بدلے۔ ایک مدت بعد کمرے کے درودیوار چمکائے۔ ابھی تک اس کی کورس کی وہ کتابیں شیلف میں لگی ہوئی تھیں، جن کی اس کو اب ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ ان سب کو سٹڈی میں ٹھونس کر اس نے دروازہ لاک کر دیا۔ اب اس کے پاس کوئی کام نہ تھا، سوا اس کے کہ رات کا انتظار کرے۔ اس نے ابلتے ہوئے گرم پانی کا تھرموس بھر لیا۔ کافی کا ڈبہ۔ ملک پیک کا تھیلا۔ چینی دان۔ مگ۔ چمچ۔ ضرورت کی ہر چیز اس نے اپنے کمرے میں جمع کرلی۔ ’’دیکھو دروازہ بند کرنا نہ بھولنا۔‘‘ امی نے عادتاً کہا اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ وہ امی کے جانے کے انتظار میں خاموش بیٹھی رہی۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ چلی گئی ہوں گی اور اب انہوں نے کمرے کا دروازہ بھیڑ کر آیت الکرسی کا ورد کر کے گھر کو چاروں طرف سے اللہ کی حفاظت میں دے کر انگلی کے اشارے سے جھاڑ دیا ہو گا تو اس نے غسل خانے کا دروازہ کھول دیا۔ ایک دن۔ دوسرے دن۔ تیسرے دن۔ شاید وہ کسی دن بھی بند دروازہ کھولنا نہیں بھولتی تھی۔ لیکن یہ وہی شخص تھا، جو جا کر آنا بھول گیا تھا۔ راستہ بھول گیا تھا۔ یا شاید اس نے کبھی اس راستے کو یاد کرنے کی زحمت بھی نہ کی تھی۔ اس کی تلاش میں پولیس چھاپے مار رہی تھی۔ لیکن وہ تھا کہ چھپ کر اپنے جرائم کی تعداد میں اضافہ کیے دے رہا تھا۔ فیصل آباد میں بم پھٹا۔ ساہیوال میں جلوس نکالا گیا۔ نوشہرہ کے جلسوں میں گڑ بڑ ہوئی۔ کرفیو کی پابندی کی خلاف ورزی ہوئی۔ کئی دنوں تک وہ اس کا نام پڑھتی رہی۔ وہ انسان تھا یا چھلاوہ۔ بہ یک وقت وہ پاکستان کے کئی شہروں میں مسلسل وارداتیں کر رہا تھا۔ پھر اغوا، ڈکیتی، قتل وغیرہ کے سلسلے میں اس کا نام لیا جانے لگا۔ بہت سے اغوا، بہت سی اہم شخصیتوں کے قتل، بینکوں، پٹرول پمپ کی ڈکیتیوں میں اس کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرورہوتا۔ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ وہ سرحد پار کر گیا ہے۔ جب سے اس کی ٹیوشن ختم ہوئی، ڈاکٹر سہیل کا آنا جانا برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ اس دن وہ آئے تو اس کو جیل سے بھاگے چھے ماہ گزر چکے تھے۔ اس کو گھر میں کسی کا آنا جانا بہت برا لگنے لگا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سہیل ،ابو کے ساتھ بحث کیے بغیر شاید جی ہی نہیں سکتے تھے۔ برائے بحث سیاست جیسا موضوع اس کو بہت چبھتا تھا۔ وہ صرف چائے لے کر گئی تھی لیکن اس کے قدم وہیں جم گئے تھے۔ زیر بحث شخص نے اس کے الٹتے قدموں کو روک دیا۔ ابو اور ڈاکٹر سہیل دو مختلف گروپ تھے۔ ابو ایسے لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔ ڈاکٹر سہیل کا خیال تھا اس قسم کے الزامات تھوپ دئیے جاتے ہیں۔ اسے ڈاکٹر سہیل اس سے پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں لگے تھے۔ وہ جاتے جاتے رُک گئی۔ اس نے بطورِ خاص اہتمام سے پیالیوں میں چائے انڈیلی اور بنا کر مہمانوں کو پیش کی۔ ٹی وی پر ابھی ڈرامہ ختم ہوا تھا۔ مہناز کسی پرانی گلوکارہ کے گانے کو دہرا رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر سروس کرتی رہی۔ ابھی خبرنامہ شروع ہونے کو تھا۔ وہ خبروں سے پہلے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ ڈاکٹر سہیل نے اور چائے منگوالی۔ کچھ دنوں سے اس کو خبروں سے بیزاری ہونے لگی تھی۔ کوئی خبر اس کے لیے نہیں آتی تھی۔ اور شاید یہ خبر بھی اس کے لیے نہیں آئی تھی۔ پیالی میں چینی گھول کر وہ چلی ہی تھی کہ وہیں جم گئی۔ نیوز کاسٹر اپنے خوب صورت چہرے اور باوقار انداز میں خبریں سناتی بے جان مشین کا ایک حرکت کرتا پرزہ دکھائی دے رہی تھی۔ پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے مجبوراً گولیاں چلانی پڑیں،جس سے ڈاکوؤں کے گروہ کے تین افراد ہلاک ہو گئے۔ دو شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیے گئے۔ اس آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ اس کے ہاتھ سے گرم پیالی چھوٹ کر ڈاکٹر سہیل کے گھٹنے پر گری۔ اگر وہ لوگ اس کا نام نہ بھی لیتے تو اس سے گئی گزری حالت میں بھی وہ اس کو پہچان سکتی تھی۔ وہ خون میں تربتر تھا۔ اس کا جسم زخموں سے گُدا ہوا اور چہرہ نچ کھچ کر تباہ ہو چکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول کی بجائے کوئی سوکھا ہوا پرانا سا پھول تھا۔ اس نے اسے بھی پہچان لیا تھا اور اس کے نام کو بھی۔ لیکن اس پھول کو پہچاننے سے بالکل عاجز تھی۔ ایسے وقت میں اس کے ہاتھ میں پستول کی بجائے لالہ کا یہ باسی سا سوکھا پھول کس کام آسکتا تھا۔ وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں آگئی۔ بند کھڑکی کے پٹ کھول کر اس نے تازہ ہوا کا سانس لیا۔ موسم بہار کب کا جا چکا تھا۔ تندوتیز ہواؤں سے درختوں کے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے اور باہر گرتی کالی سیاہ رات کسی کی منتظر نہیں تھی۔ عبدل نے کیسٹ آن کر دیا تھا۔ نہ جی کو جلانا مجھے بھول جانا ’’دیکھو دروازہ بند کر کے سونا۔‘‘ ’’اچھا امی۔‘‘ اس نے تابعداری سے کہا۔ اب اس کو دروازہ کھلا رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ خاموشی سے اندھیروں کی طرف رخ کر کے آنسو بہانا کتنا اچھا لگتا ہے۔ اس نے عبدل کے گانوں پر دروازے کے پٹ بند کر دئیے۔
یہ لوگ صرف واقعہ نگار نہیں تھے، بلکہ ایک زبردست روایت عظمی کے سپوت اور وارث تھے۔ ہم کو اس سے بصیرت حاصل کرنا چاہئے۔ گورکی، الکسی ٹالسٹائی، کتیئف، گلیدکاف، لیونیف، شولوخاف، فیدین، جن کوسویت روس کے ممتازترین ادبی معمار کہا جائےگا، سب کے سب انقلاب سے پہلے کے تربیت یافتہ تھے اور ان ادبی دبستانوں سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق رکھتے تھے جن کو رمزیت Symbolism اور عوامیت ٖPopulism کہتے ہیں اور ان دبستانوں کے زندہ اور صحت افزا اثرات ان تمام ادبی شخصیتوں کی بہترین تخلیقی کوششوں میں سرایت کئے ہوئے ہیں اور انہیں اثرات کی بنا پر جن کو باقیات الصالحات کہنا چاہئے یہ لوگ اتنے بڑے ادیب ہو سکے۔ہمارے اس دعوے کا ایک سلبی ثبوت یہ ہے کہ شولوخاف کے بعد جو عرصہ سے عزلت گزینی اور سکوت اختیار کئے ہوئے ہے سویت روس میں کوئی اس حیثیت کا دوسرا افسانہ نگار نہیں پیدا ہو سکا جس کی آواز میں آفاقی تاثیر ہو۔ اس وقت روس میں جو ناول، افسانے یا منظومات لکھے جا رہے ہیں ان کی وقتی اہمیت مسلم، وہ سوویت روس، اس کے وچار مالا (نظام فکر) کی اشاعت اور ترقی میں بہت مددگار ثابت ہوں گے، لیکن وہ ادب کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ وہ زیادہ سے زیادہ صحافتی ادب کی صف میں نمایاں جگہ پا سکتے ہیں۔
’’ہاں۔ آج صرف چند گھنٹوں کے لیے آرہے ہیں۔ انہیں اب امریکہ کی ایک سائنس کانفرنس میں۔۔۔‘‘ پروفیسر کی بات سنے بغیر سوگندھی لال دوکان کے گاہکوں کی طرف دیکھ کر بڑے فخر کے ساتھ بولے، ’’پروفیسر صاحب کے سپوت، بہت بڑے سائنٹسٹ ہیں بھارت کے پوکھران دھماکے میں جس ٹیم نے حصہ لیا اس میں چندر موہن صاحب بھی شامل تھے۔‘‘
ایک دن کا کام نہ تھا۔ اس میں صدیاں لگیں۔ یہ ہمارے بزرگوں کی (جس میں ہرقوم و ملت کے لوگ تھے) مسلسل مشقت اور محنت و کوشش اور جاں کاہیوں، دل سوزیوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اردو کے سچے حامی تھے۔ یہ ہمارے لیے ے بے بہا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جس کے ہم وارث ہیں۔ جو لوگ بزرگوں کے ورثے کو قائم رکھتے اور ترقی دیتے ہیں وہ سپوت کہلاتے ہیں، جو اس سے غفلت برتتے اور تلف کرتے ہیں وہ کپوت یعنی ناخلف ہیں۔ ہم ان بزرگوں کا ذکر خیر سے کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے ایسا عظیم الشان کام کیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی نیکی سے یاد کیاجائے تو ان کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ ہم پر بڑی ذمے داری ہے، اس لیے کہ وقت نازک اور سخت ہے۔ اردو یوں ہی ایسی شیریں، وسیع اور علمی و ادبی زبان نہیں بن گئی۔ اس نے بڑی بڑی مصیبتیں اور آفتیں جھیلیں ہیں، بڑے بڑے مقابلے کیے ہیں۔ اس نے دیسی بولیوں کو نیچا دکھایا، اس لیے کہ وہ مقامی اور محدود نہیں۔ اس نے فارسی کو نکالا اس لیے کہ وہ غیر تھی۔ اس نے دوسری بولیوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل کی اس لیے کہ اس میں ہندو مسلم دونوں کی تہذیبوں اور دونوں کے اتحاد کی جھلک تھی اور اس لیے کہ اس کے حامیوں نے اس کے سنوارنے، بنانے اور ترقی دینے میں دل و جان سے جد و جہد کی اور اپنی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اب پھر وہی چال آپڑی ہے، شہ مات بچنے کے لیے پہلے سے زیادہ جد وجہد اور سعی کی ضرورت ہے۔ اردو کو جو حیثیت اور اہمیت حاصل ہو چکی ہے، اسے قائم رکھنا حامیان اردو کا فرض ہے۔ اگر ہم نے اسی ہمت اور حوصلے سے کام لیا جو بزرگوں کا شیوہ تھا تو بلاشبہ جیت ہماری ہے۔ دل میں لگن ہو اور نیت میں خلوص تو آدمی کیاکچھ نہیں کر سکتا۔
اس کا منتظر رہامگر وہ ہند کا سپوت
یہ وہ دن تھے۔ جب گاؤں میں کھیت بسنتی ڈوپٹے اوڑھ لیتے ہیں۔ شہر کے کسی تنگ سے کمرے میں بیٹھ کر گاؤں کے کھیتوں کے بسنتی رنگ و روپ کے تصور جبکہ نیوٹن کے ’’ایکشن ری ایکشن‘‘ کے کلیے زیر غور ہوں عجیب سے لگتے ہیں۔واقعہ یہ تھا کہ گاؤں سے ماں جی کی زمینوں کا مزارع آیا ہوا تھا۔ وہ بیچ آنگن سوت کی رنگین پایوں والی چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ ماں جی سیاہ جارجٹ کے ڈوپٹے کا چھوٹا سا گھونگھٹ کاڑھے اس کی طرف قدرے پیٹھ موڑے بیٹھی اس سے باتیں کرتی تھی۔
پھر ان کےتعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرادی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممولالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہوکر رہ گیے۔لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھااور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کاکھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔
۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کل رات پھر ریڈیو چیختا چلاتا رہا۔ آزادی! آزادی! آزادی! آج ہم فرنگی سامراج کی قید سے آزاد ہیں۔ ممتاز خوش ہے کہ ہماری سیاست کا اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھا۔ میں صبح صبح اپنے چہرے کو مجسم کرب اور غم بنائے ہوئے اسی کے کمرے میں داخل ہوا۔ ممتاز! سنا تم نے، رات کے ۱۲بج کر ایک منٹ کے بعد ہم آزاد ہوگئے ہیں اور رات بھر گولیاں چلتی رہیں۔ اللہ اکبر، ہر ہر مہادیو، اور ست سری کال، ابھی تک قید میں ہیں اور رات بھر گونج گونج کر چیخ چیخ کر اچھل اچھل کر احتجاج کرتے رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ تم نے ہمیں کیوں آزاد کردیا۔ ہم آزاد ہونا نہیں چاہتے۔ ہمارا کوئی جرم نہیں ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں آزاد ہوکر ہم مرجائیں گے!‘‘ میری حالت کچھ ایسی تھی جیسے میں رات بھر کسی زہر کے تالاب میں ڈبکیاں لگاتا رہا ہوں۔ طنز اور وحشت اورطنفرت اور دیوانگی میرے جسم کے ہر حصہ سے تیکھی تیکھی چنگاریوں کی طرح پھوٹی پڑتی تھی اور میں ایک مصرع گنگنا رہا تھا، یہ کون سامقام ہے کہاں ٹھہر گئی ہے تو؟ ممتاز نے مجھ سے کہا، ’’تمہیں آزادی سے دکھ ہوا ہے؟‘ لیکن میں بدستور گنگنائے جارہا تھا۔۔۔ ’’آؤ ہم سب مل کر آزادی کا استقبال کریں۔‘‘ اس نے جیسے خلوص کے ساتھ مجھے کھوکھلی ڈھارس دینے کی کوشش کی۔ ہاں ہاں!سچ کہتے ہو ممتاز! ہمیں مل کر اس اپسرا کا استقبال کرنا چاہیے۔ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں کی لاشوں کے انباروں سے، بموں کے ہولناک دھماکوں سے، جلتی ہوئی خوبصورت عمارتوں سے ہمیں اس کا سواگت کرنا چاہیے۔ تم نے سنا نہیں؟ دہلی اور کراچی رات بھر دلہن بنے رہے ہیں۔ نقارے، شہنائیاں اور رقص اور شراب سے اپنا بیاہ رچاتے رہے ہیں۔ یہ ان کی سہاگ رات تھی۔ شب عروسی تھی اور ان نو عروسوں کی سہاگ رات میں، اس اسم مبارک پر ہم نے، ہمارے پنجاب نے، ہمارے لاہور نے، سوہنی کے گھڑے نے، ہیر کی چوڑیوں نے، لہلہاتے ہوئے کھیتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور اپنے معصوم بچوں، اپنی جوان کنواریوں، اپنے سپید سپید بوڑھوں اور کڑیل جوانوں کے تحائف پیش کیے تھے۔ اور جواہر لال نہرو نے لال قلعہ پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہوئے اور قائد اعظم نے ہلالی پرچم بلند کرتے ہوئے راوی اور چناب کی طرف مسکراکر دیکھا تھا۔ شاباش بہادرو! شاباش، قربانیاں کیے جاؤ۔ قربانیوں سے ہی قوم کی تاریخ گلرنگ ہوتی ہے۔ اپنے خون کی سرخی سے اس شفاف اور محبوب دھرتی کو لہولہان کردو۔ شاباش! شاباش! شاباش! ’’تم چائے پیوگے؟‘‘ وہ میری جذباتی تقریر سے تنگ آکر کہنے لگا۔ اس کی آنکھیں جیسے کہہ رہی تھیں کہ اس شخص کے اندر یہ زہر کہاں سے آگیا؟ یہ حقیقت کو جذباتیت کے پردے میں کیوں چھپا رہا ہے؟ حقیقت یہی ہے۔ اس حقیقت کو اس کے چمکیلے آنسو فنا نہیں کرسکتے۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ سکریٹریٹ پر ہلالی پرچم لہراتے ہوئے نوجوان کو جو مسرت حاصل ہوئی ہوگی یہ اس مسرت سے نفرت کرتا ہے اور اس کی یہ نفرت۔۔۔؟ نہیں نہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ شاید ایسا نہ ہو۔ شاید یہ اس مسرت سے نفرت نہ کرتا ہو۔۔۔ بلکہ۔۔۔ بلکہ۔۔۔ شاید اس کا دماغ پھر الجھ گیا تھا وہ میری اس نفرت کا تجزیہ کیوں نہیں کرسکتا؟ وہ جو نفسیات کا ماہر ہے وہ جو انسانی دلوں کے راز جانتا ہے مجھے کیوں نہیں سمجھ سکتا۔ اسے یقین ہوتا جارہا تھا کہ میں ضرور بیوقوف ہوں۔ بے وقوف، میں کتنا بے وقوف ہوں ممتاز! سارا ہندوستان ناچ رہا ہے۔ طرب اور نشاط کے نغموں سے جھوم رہا ہے لیکن نشاط کی وہ لہریں میرے اندر کیوں مرگئی ہیں؟ مجھے ان لہروں کی موت کے اسباب بتاؤ ممتاز۔۔۔! میں چھت کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتا جارہا تھا۔ مگر۔۔۔ بھلا وہ کیوں کر میری ان لہروں کی موت کا راز جان سکتا تھا۔ یہ راز آسمان میں نہیں زمین میں پیوست ہے میں نے باتوں میں کل اسے بتایا تھا کہ میں نے اچھرہ کی طرف آنے والی سڑک پر ایک لرزہ خیز منظر دیکھا تھا۔ مشتعل ہجوم لاٹھیاں لیے ہوئے ایک عبادت گاہ کے سامنے جمع تھا۔ عبادت گاہ کے باہر ایک ملٹری ٹرک پر پجاریوں کی جلی ہوئی کالی سیاہ لاشوں کے ڈھانچے لادے جارہے تھے۔ عبادت گاہ رات بھر جلائی جاتی رہی تھی اور پجاری اس کے اندر بھنتے رہے تھے۔ ان کی آہوتیاں دی گئی تھیں اور صبح قنوج کے گرانڈیل بہادروں نے آکر ان کی لاشوں کو بچالیا تھا اور اب ان لاشوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اور اب وہ عمارت میں سے نکالے جارہے تھے اور ٹرک پر پھینکے جارہے تھے۔ جلے بُسے سڑے ہوئے لاشے، گڑ کی بوریاں۔۔۔ اور ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ ’’اللہ اکبر‘‘! اور ہر نعرے کے ساتھ ایک لاش نکال کر ٹرک میں بڑے توازن اور لہراؤ اور نغمگی کے ساتھ پھینک دی جاتی تھی۔ راز فاش ہو رہا تھا اور ممتاز گھر میں تھا۔ میں اور ممتاز آج آزادی کے دن گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ ہم اپنے کمرے ہی میں قید رہے۔ اور میرے گلے میں کوئی چیز بار بار آکر اٹک جاتی تھی۔ ہم دن بھر چائے پیتے رہے، پان کھاتے رہے، سگریٹ یتے رہے۔۔۔ اور باتیں کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ممتاز کہتا رہا آؤ ذرا باہر گھوم آئیں۔ آج تمام عمارتوں پر قومی جھنڈے لہرا رہے ہوں گے، یونین جیک اتار دیے گئے ہوں گے۔ لوگ آزادی کی خوشی میں متوالے ہو رہے ہوں گے۔۔۔ لیکن میرے قدموں کو جیسے چلنا بھول گیا تھا۔ میری آنکھیں بوجھل ہوئی جارہی ہیں۔ مجھ سے یہ متوالا پن نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ میرا حسد تھا اور میں اسی حسد سے محبت کرتا تھا۔ یہ کیسا متوالا پن ہے جس میں مستی نام کو نہیں۔ یہ کیسی شراب ہے جس میں سرور کی کوئی موج ہی نہیں۔ یہ کیسا نغمہ ہے، جو آنسوؤں سے لبریز ہوکر باہر نکل رہا ہے۔۔۔ اس نغمے کو بند کردو! اس بربط کو مت چھیڑو۔ اور تم سوجاؤ۔۔۔ سوجاؤ۔۔۔ آنکھیں میچ لو۔۔۔ اور جائنٹ ڈیفنس کونسل کو اپنا دربان بناکر کھڑا کردو! باؤنڈری کمیشن کو جاگ جاگ کر پہرہ دینے دو! تاکہ جب تمہاری آنکھ کھلے تو نوے لاکھ آدمیوں کو آگ اور خون میں شرابور دیکھو۔۔۔ اجڑی ہوئی بستیاں، مسمار شدہ شہر، جلتی ہوئی کھیتیاں، اور سوکھی ہوئی ندیاں ہماری بیداری کا استقبال کریں گی اور محافظ جاچکے ہوں گے۔ ہماری آنکھ کھلنے کے بعد محافظوں کو تکلیف دینے کی بھلا کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔ مکان کی نچلی منزل سے دہاڑیں مارنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ ممتاز نے مجھے بتایا کہ امرتسر سے ایک خاندان آیا ہے پانچ پانچ سال کے دو بچے، تیس سال کی ایک ادھیڑ عورت اور ایک بوڑھا سسر۔۔۔ پندرہ آدمیوں کے کنبے میں صرف یہی بچ کر آئے ہیں۔ ’’اوہ! میرے خدا!‘‘ ۱۷/ اگست دودن سے بڑی ہولناک اور وحشت انگیز خبریں آرہی ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد ہم توقع اور امید کے خلاف چین سے نہیں بیٹھ سکے۔ لاہور اور امرتسر نے اپنی آگ کے شعلوں کو مشرق اور مغرب میں دونوں طرف بڑی دور دور تک پھیلادیا ہے۔ پنجاب کے بارہ ضلعوں کو فساد زدہ علاقہ قرار دے کر انہیں انگریز کپتان کی حفاظت میں دے دیا گیا ہے۔ اور اس لیے دے دیا گیا ہے کہ آزاد حکومتوں کے شہنشاہوں کو جشن نشاط منانے سے فرصت نہیں ملتی۔ انہیں اب انگریز کی دیانت پر کوئی شک و شبہ نہیں رہا جو قوم ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو لوٹا سکتی ہے، اس سے اخلاقی بددیانتی کی امید رکھنے والے شرارت پسند ہیں۔ انگریز کپتان پنجاب کی مشترکہ تہذیب کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے ہندو اکثریت والے ضلعوں میں مسلمان ملٹری اور مسلم اکثریت والے ضلعوں میں ہندوسکھ ملٹری تعینات کردی ہے تاکہ آزاد ملک کی یہ آزاد فوج آزادی کے ساتھ اپنے عمل کو سرانجام دے سکے۔۔۔ لیکن اس پرخلوص اور دیانت دارانہ عمل کے باوجود ہولناک اور وحشت ناک خبریں آرہی ہیں۔۔۔ لاشیں آتی ہیں، زخمیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ آتے ہیں، روتے چیختے ہوئے لوگ آتے ہیں۔ یہ لاشیں یہ زخمی، یہ چیخ چلاہٹ کیوں ہے؟ کہتے ہیں کہ فوجی سپاہی غنڈوں کو تہس نہس کر رہے ہیں لیکن غنڈوں کی لاشیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس غارنگری کی ذمہ داری ہندوسکھوں پر عائد ہوتی ہے اور ہندوسکھ مدبروں کا خیال ہے کہ یہ قتل و غارت تباہی اور بربریت کے ذمہ دار مسلمان غنڈے ہیں۔۔۔ چنانچہ دونوں طرف سے ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لاشوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم پتھر اور دھات کے زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔ انگریز سیاست داں اور مدبروں کا مشورہ ہے کہ جب تک آپ حضرات پتھر اور دھات کے زمانے کا رخ نہیں کریں گے آپ کو نروان، یعنی نجات یعنی آزادی کا صحیح لطف حاصل نہیں ہوسکتا۔ آج صبح اور دوپہر کے ریڈیو نے مژدہ جانفزا نہیں سنایا جس کے لیے سارا پنجاب لڑتا، مرتا، کٹتا ہوا پنجاب گوش برآواز تھا۔ ریڈ کلف کا فیصلہ ابھی تک محفوظ تھا۔ اس فیصلے میں وہ لکیر پنہاں تھی، وہ سانپ پوشیدہ تھا، جو کالی داس کی بھادوں، وارث شاہ کی ہیر، ٹیگور کی گیتانجلی، اقبال کی خودی اور غالب اور میر کی غزلوں کے درمیان اپنے پتلے، لمبے اور زہریلے جسم کو پھیلادے گا۔ اور انہیں کہے گا، ’’اپنا اپنا منہ ادھر کرلو، اُدھر دیکھو، ادھر دیکھو، کتو! تمہارے حصہ کی بوٹی ادھر پڑی ہے اور تمہارے حصہ کی ادھر، اپنی اپنی بوٹی پہچان لو اور انہیں نوچ کھاؤ۔۔۔! اور بھوک کے مارے ہوئے کتے انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن سانپ ریڈ کلف کی پہاڑی میں بند تھا۔ یہ سانپ کہاں سے آیا تھا؟ تمہیں معلوم ہے ممتاز! تم نے چرچل کی وہ تقریر سنی تھی جو اس نے ہندوستان کی طرف آزادی کی دوبوٹیاں پھینکے جانے پر مداریوں کی رقص گاہ میں کی تھی۔ ’’لیبر گورنمنٹ کا یہ اقدام تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔‘‘ اور یہ تقریر سن کر میرے سامنے چرچل کا ماضی پھیلنے لگا تھا۔ اندھیرا! اندھیرا! اندھیرا۔۔۔! اطلانتک چارٹر! اطلانتک چارٹر۔ اور اس اندھیرے میں چرچل خوش تھا۔ جواہر لال خوش تھا۔ جناح خوش تھا اور گاندھی کلکتہ میں بیٹھا ہوا امن کی بھیک مانگ رہا تھا۔ لیکن بھیک دینے والے ان داتا، پنجاب کے ایک ایک شہر، ایک ایک قصبے اور ایک ایک گاؤں میں پھیل گئے تھے اور بے وقوف غلاموں کوسنگینوں کی نوکیں چبھو چبھو کر، ان کی جھونپڑیوں کو جلا جلا کر، انہیں اپنے کھیتوں، گھروں اور گلیوں سے باہر نکال کر آزادی کا احساس دلا رہے تھے۔ میں اور ممتاز اکتا کر گھر سے باہر نکل آئے۔ سڑکوں پر اور مکانوں پر آزاد ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان کی طرف منہ اٹھائے فریاد کر رہے ہوں۔ جھنڈوں کی پھڑپھڑاہٹ میں وہ نشاطیہ آہنگ نہیں تھا، وہ مدہوش کن اور لاابالیانہ پرواز نہیں تھی جو یونین جیک میں ہوا کرتی تھی۔ لوگ سڑکوں پر کھڑے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بناکر سرگوشیاں کر رہے تھے۔ ان سرگوشیوں میں شکستگی تھی، اداسی تھی اور تھکن۔ جیسے ان کے لٹکتے ہوئے چہرے کہہ رہے ہوں کیا فائدہ ہے؟ کیا فائدہ ہے۔۔۔؟ چھوٹے چھوٹے لڑکے، چھوٹے چھوٹے سرسبز جھنڈے لیے کہہ رہے تھے، ’’ایک آنہ بابوجی! ایک جھنڈے کا ایک آنہ۔‘‘ ’’میرا جھنڈا اچھا ہے بابوجی۔‘‘ ’’نہیں میرا‘‘ ’’نہیں میرا۔۔۔‘‘ لڑکوں کا ایک ہجوم ہمارے گرد جمع ہوگیا تھا۔ ممتاز نے لپک کر ایک جھنڈا خرید لیا میں نے کہا کیا فائدہ ہے؟ کہنے لگا، اس طرح ہم مستند ہوجائیں گے۔ مستند مسلمان! سمجھے کسی غنڈے کو ہم پر شبہ نہیں گزرے گا۔ ’’ٹھیک ہے! ٹھیک ہے میں بڑبڑایا اور جھنڈی والا لڑکا ایک آنہ لے کر بیڑی والی دکان کی طرف لپکا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے میں پھر بڑبڑایا۔۔۔ آزاد ملک کا آزاد لڑکا۔۔۔ ایک جھنڈا۔ بیڑی کا بنڈل، ایک جھنڈا۔ اسلامی مہر تصدیق۔۔۔ تو کیا یہ جھنڈا اسلامی مہر تھا؟ یہ جھنڈا۔۔۔؟ میں نے سائیکل پر لہراتے ہوئے جھنڈے پر پیارے ہاتھ پھیرتے ہوئے ممتاز سے کہا، ممتاز! میں پاکستان کا وفادار شہری بنوں گا، ہے نا۔۔۔؟ اور سنا تم نے؟ امرتسر کی ڈسٹرکٹ کورٹ پر ترنگا جھنڈا نہیں لہرانے دیا گیا۔ کیوں کہ اس سے گورونانک کی توہین ہوتی تھی۔ گوروکی نگری میں گورو کا ہی جھنڈا لہرایا جانا چاہیے۔ ترنگا تو ہندوؤں، مسلمانوں، اچھوتوں، عیسائیوں اور نہ جانے کتنی الم غلم قوموں کا جھنڈا تھا لیکن گورو کا جھنڈا ان سب سے الگ تھا۔ سب سے بلند۔۔۔! دھرم کا جھنڈا۔ مذہب کا جھنڈا۔ ہندو کا جھنڈا۔ اسلام کا جھنڈا۔ سکھ کا جھنڈا۔ انارکلی ایک لاش کی طرح محسوس ہو رہی تھی اور ایک بے حس اور بے جان مردے کی طرح لیٹی ہوئی تھی۔ اداس اور غم ناک اور حزیں۔۔۔ ایک بلڈنگ ابھی تک جل رہی تھی۔ کہتے ہیں اس بلڈنگ میں لاکھوں کا مال تھا۔ ایک بہت بڑے ہندو سوداگر کا۔ اس کے بالکل سامنے ایک مسلمان سوداگر کی عظیم الشان دوکان راکھ کا ڈھیر بنی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں اس مسلمان سوداگر نے جنگ میں لاکھوں روپے بلیک مارکیٹ میں کمائے تھے اب اس عمارت کی جلی ہوئی دیوار پر پوسٹر چسپاں تھا۔ ’’اب یہ پاکستان کی دولت ہے۔‘‘ ایک پان والے کی دوکان پر ٹیڑھی ٹوپی سر پر جمائے ایک غنڈہ ہمیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ’’السلام علیکم!‘‘ ممتاز نے پنواڑی کی دوکان کے قریب جاکر کہا۔ ’’ایک پان لگادیجیے قبلہ!‘‘ اور ٹیڑھی ٹوپی نے ہمیں مایوس کن نگاہوں سے دیکھا اور چھڑی ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ہم بھی آگے بڑھ گئے۔ انار کلی چوک کی گھڑی سات بج کر چھ منٹ پر ٹھہر گئی تھی۔ وقت تھم گیا تھا، اس کے پاؤں جامد ہوگئے تھے۔ پنڈولم خاموش تھا، گم سم، شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ شاید وہ سوچ رہاتھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ صدیوں کے قیدیوں کی ہتھکڑیاں کیوں کر ٹوٹ گئی ہیں! وہ آزاد ہوکر خونیں ناچ اور آتشیں راگ رنگ میں مصروف ہیں۔ وہ محوحیرت تھا۔ آخر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ شاید تاریخ نے غلطی کھائی ہے شاید وق اپنی رفتار کا توازن قائم نہیں رکھ سکا اور بے اختیار آگے بڑھ گیا۔ چوک کے ساتھ کا عظیم الشان مندر جل رہا تھا، بے دھڑک کھلے بندوں اور اسے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ دھوئیں کے غبار اٹھ اٹھ کر فضا میں پھیل رہے تھے۔ اس مندر میں بیسیوں دیوتا قید تھے کرشن، رام، شوجی، پاربتی، ہنومان اور سبھی جل گئے تھے۔ منوسمرتی، رامائن، رگ وید، شاستر، گیتا سب جل گئے تے۔ سب قفس عنصری کے قید مکان سے آزاد ہوگئے تھے۔ اور بڑا پجاری بھاگ گیا تھا اور اس کے ساتھ اس کی محبوبائیں بھی اس کی دیوداسیاں بھی۔ ہنومان کی ایک بڑی سی مورتی مندر کے صحن میں چار ٹکڑے ہوکر پڑی تھی۔ کتنا جری اور بہادر تھا ہنومان! کہتے ہیں بچپن میں وہ ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے گرکر ایک بہت بڑے بھاری پتھر پر آپڑا تھا لیکن اس سخت جان اور شیردل کو ذرا بھی آنچ نہیں آئی تھی۔ کتنا کڑا کلیجہ تھا اس کا۔ کتنا دلیر سپوت تھا مندر کے صحن میں چارٹکڑے ہوکر پڑا ہوا تھا۔ اٹھتے ہوئے دھوئیں میں چندن اور صندل کی خوشبو ملی ہوئی تھی۔ آج انسانوں کے یگیہ میں دیوتاؤں کی آہوتیاں دینے کا مبارک دن تھا۔ میں نے مندر کے دروازے پر اونگھتے ہوئے ایک بلوچ سپاہی سے پوچھا کیوں جی! اس مندر کا پجاری اب کبھی نہیں آئے گا؟ سپاہی کا منہ فرطِ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ’’بابوجی! مذاق مت کیجیے اللہ کا نام لیجیے۔۔۔‘‘ اور میں اور ممتاز اللہ کا نام لینے کے لیے سگریٹ سلگاکر پینے لگے۔ اور مندر سے آگے سڑک پر مکانوں کی ایک طویل قطار، بھڑ بھڑاتی ہوئی آگ میں رقص کر رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اب مکانوں کو جلنے کی عادت سی ہوگئی ہے، جیسے یہ ان کے روزمرہ کے فرائض میں داخل ہوچکا ہے۔ اب تو جلتے ہوئے مکانوں کو دیکھ کر ایک مختصر سا کلمۂ تاسف بھی منہ سے نہیں نکلتا۔ ممتاز! اگر مکانوں کو جلنا ہی ہے تو دوسرے تیسرے روز جلا کریں۔ ہفتہ میں دوبار جلاکریں۔ ہر روز جلنا۔۔۔ ہر روز جلنا۔ کچھ چارم نہیں رہتا۔ اس طرح! اور ممتاز میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا مجھے آگے لے گیا۔ اس نے میرے اندر چھپے ہوے زہریلے آنسو دیکھ لیے تھے۔ اور وہ میری خیر منانے کی فکر میں تھا۔ اسے یقین سا ہوچلا تھا کہ اگر یہ زہر اس کے اندر پھیلتا گیا تو ایک دن۔۔۔ ایک دن۔۔۔ ممتاز نے جاتی مرتبہ ایک آنے کا جھنڈا خریدا۔ جان کی خیر منانا نہایت ضروری تھا۔ ۱۹/اگست ریڈکلف نے اپنا ایوارڈ شائع کردیا۔ بنگال کا تمدن، آرٹ رقص اور موسیقی تقسیم کردی گئی۔ پنجاب کے ہل، کھیتیاں، نغمہ اور رومانس بانٹ دیے گئے۔ اس بانٹ کا ایک پہلو نہایت عجیب تھا کہ مسلمان اور ہندو دونوں اس سے غیرمطمئن تھے لیکن ان کی غیر اطمینانی سے کیا ہوتا ہے؟ یہ تو تقدیر کا فیصلہ تھا۔ اور تقدیر ریڈ کلف کی پٹاڑی میں بند تھی۔ بعض سنجیدہ مزاج اصحاب اس جذباتی بے اطمینانی کو مہمل ٹھہرا رہے تھے کیوں کہ ان کے نقطہ نگاہ سے لیڈروں نے یہ فیصلہ ہونے سے پہلے ہی اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا عہد کرلیا تھا۔ ممتاز بازار سے ایک نقشہ خرید لایا تھا، پنجاب کانقشہ۔ اور ریڈیو پر فیصلہ سنتے سنتے وہ نقشہ پر پینسل سے لکیر کھینچتا جارہا تھا۔ سانپ بناتا جارہا تھا، کئی ہزار میل لمبا سانپ اور سانپ نے اس کی جنم بھومی بٹالہ کو ہندوستان میں پھینک دیا تھا اور میری جنم بھومی تونسہ کو پاکستان میں اور ممتاز کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ مجھے اس تمتمائے ہوئے چہرے میں لاکھوں تمتمائے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے تھے جو احتجاج کر رہے تھے، جو چیخ رہے تھے۔ ہماری جنم بھومی پاکستان میں کیوں شامل نہیں کی گئی۔ ہماری جنم بھومی کو ہندوستان میں آنا چاہیے تھا۔ لاکھوں چہرے تمتما رہے تھے، جھلملا رہے تھے، مایوس ہو رہے تھے۔ لیکن سانپ تو برہما جی نے بھیجا تھا اور برہما جی کو نہ مفتی سے غرض تھی نہ بٹالہ سے۔ اسے تو حکم الٰہی پر عمل کرنا تھا۔ ’’یہ بہت بڑی شرارت ہے۔‘‘ جیسے ممتاز کے گلے میں آنسوؤں کی ایک بوچھار سی باہر نکل آیا چاہتی تھی اور وہ چیخ چیخ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر محلے کے دوسرے بابوؤں کے فیصلے کی تفصیل اور اس کے نتائج بتا رہا تھا اور دل ہی میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بٹالہ میں اسی فیصدی مسلمانوں کی آبادی ہے۔ وہ ہندوستان میں کیوں کر جاسکتا ہے؟ یہ ناانصافی ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ فن کار ممتاز کی رگیں تن گئیں تھیں، وہ کسمسا رہا تھا۔ مجھے اس کی صورت دیکھ کر نہ جانے کیوں خوف کا ایک عجیب و غریب احساس ہونے لگا تھا۔ میں اسے متوازن کرنے کے وسائل سوچ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے اس چھوٹے سے مسئلے سے اٹھاکر بین الاقوامی دنیا میں لے آؤں۔ دیکھو۔ دیکھو ممتاز! ذرا اپنے بٹالے کے خون سے باہر نکل آؤ! یہ اجتماعی غم ہے۔ تم کہ ایک انفرادیت پسند آرٹسٹ ہو۔ لیکن انفرادیت کی کون پرواہ کرتا ہے۔ دنیا تیزی کے ساتھ دو محاذوں میں ر تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ زمین کا سیارہ گھومتے گھومتے ایک ایسے مقام پر آگیا ہے جسے دوراہا کہتے ہیں اور سیاروں کے ماہرین تاک لگائے اس کی چال دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان توایسی چال کا ایک جزو ہیں۔ ممتاز! تم کیا ہو؟ تمہارا اسلام کیا ہے؟ میرا ہندوازم کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم تو مہرے ہیں مہرے۔ کھلاڑی ہمیں جہاں چاہتا ہے رکھ دیتا ہے۔ بٹالے کو ہندوستان میں رکھ دیتا ہے، ننکانہ صاحب کو پاکستان میں لے آتا ہے اور دونوں مہرے چیخ رہے ہیں، ’’ہم یہ بساط الٹا لیں گے، ہم یہ کھیل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ لیکن کھیل ہو رہا ہے۔ یہ بازی تو اب ختم ہوکر رہے گی ممتاز! کاش! ہمارے سامنے ہمارے سینے میں وہ چنگاری ہوتی، وہ شعلہ جو عرب اور ہمالہ کو چین اور مصر کو بٹالہ اور ننکانہ صاحب کو ایک روشنی عطا کردیتا ہے۔ ایک سوز، ایک خلش! اور ہم پھر دیکھتے کہ اس الجھی ہوئی تاریکی میں اس پھیلے بڑھتے ہوئے اندھیرے میں ہمیں کس طرح لوٹا جارہا ہے۔ لیکن ممتاز نیچے اتر گیا تھا۔ اس کے اضطراب اور کرب میں دماغ کو پاش پاش کردینے والی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ میں اسے پکارتا رہا، پکارتا رہا۔ ممتاز! تم ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کے نل کے نیچے بیٹھ جاؤ اور نہالو، نہاتے رہو، نہاتے رہو۔ نہیں تو تم پاگل ہوجاؤگے۔ آج کل پاگل پن کا دورہ ہے۔ دیوانگی اور وحشت اپنے پنکھ پھیلائے فضاؤں میں منڈلاتی پھر رہی ہے۔ دیکھو! اگر تمہارے کلیجہ کا ٹکڑا ’’اچھا‘‘ اور تمہیں جنم دینے والی ماں اور تمہارا سارا خاندان بٹالے میں ہے اور بٹالہ ہندوستان کے چنگل میں پھنس گیا ہے اور ہندوستان میں وحشی سکھوں اور غنڈوں اور درندوں کا راج ہے تو تم کیا کرسکتے ہو؟ میری بچی اور میری بیوی بھی تو پاکستان میں ہیں۔ کیا ہوا اگر پاکستان کے دیوتاؤں نے میری بیوی اور بچی کی موت سے لذت حاصل کرلی ہوگی۔ کیا ہوا؟ کیا ہوا آخر؟ مجھے دیکھو! میں کس چین اور اطمینان سے بیٹھا ہوا ہوں۔ اور ریڈیو سن رہا ہوں۔ اقبال پڑھ رہا ہوں۔ گوئٹے کامطالعہ کر رہا ہوں اور میرے دماغ کی کھوپڑی پھٹنے کے قریب ہے۔ میرے اعصاب میں ہلچل مچی ہوئی ہے لیکن میں مطمئن ہوں۔ مجھے تو ریڈ کلف میں بددیانتی اور شرارت کا کوئی عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ تمہارا پیارا اور لاڈلا ’’اچھا‘‘ تمہیں ضرور مل جائے گا اگر تمہیں محبت کے خلوص اور تقدس پر یقین ہے تو تمہیں تمہارا پیارا ’’اچھا‘‘ ضرور ملے گا، ضرور ملے گا۔ لیکن ممتاز جاچکا تھا اور خلاء کی طرف گھور گھور کر جیسے تقریر کر رہا تھا۔ نوکر نے آکر مجھے بتایا کہ ممتاز صاحب ٹرک کی تلاش میں گئے ہیں۔۔۔ نہ جانے اب کیا ہوگا؟ نہ جانے اب کیا ہوگا بابوجی! ممتاز صاحب تو جیسے دیوانے ہو رہے ہیں۔ ممتاز شام تک نہیں آیا۔ اور میری گھبراہٹ بڑھ رہی ہے۔ کبھی ہنستا ہوں، کبھی مسکراتا ہوں کبھی رونے کی ناکام کوشش کرتا ہوں اور کبھی اچانک خامش ہوجاتا ہوں۔ خاموشی کے پھیلتے ہوئے سمندر میں میں دور دور تک چلا جاتا ہوں لیکن کنارہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ دور دور تک ایک ہنگامہ اور طوفان اور لڑائی دکھائی دے رہی ہے۔ خون خون، آگ آگ اور یہ آگ پھیل کر کہاں سے کہاں پہنچ گی ہے۔ شہروں سے گزر کر دیہاتوں میں، چوپالوں پر کھیتوں پر، جھونپڑیوں تک اس کی لپک اور جھپٹ دکھائی دے رہی ہے۔ سارا پنجاب جلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بٹالے میں ’’اچھا‘‘ کی پیشانی تک آگ کا شعلہ جاپہنچا ہے! تونسہ میں میری بیوی کی ساڑھی کا پلو اس بھڑبڑھراتی ہوئی آگ میں جھلس رہا ہے۔ میں کہاں آپہنچا ہوں۔ میں اپنے گاؤں میں آگیا ہوں۔ میری بچی کھیلتے کھیلتے محلے کے علی محمد بٹ کے گھر چلی گئی ہے۔ اور علی محمد نے اسے اٹھا کر زور کے ساتھ زمین پر پٹخ دیا ہے اور اس کی نرم نرم ہڈیاں چکنا چور ہوگئی ہیں۔ علی محمد میرے بچپن کا ساتھی دوست ہے۔۔۔ ہم محلے میں ایک ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ اب وہ گاؤں کا ایک بڑا زمیندار ہے اور مجھے محبت بھری چھٹیاں لکھا کرتا ہے۔ اور وہ میری مردہ بچی کو اٹھاکر میرے گھر میں لے آیا ہے۔ معاف کردو دوست! یہ ٹہنی میں نے نہیں توڑی۔ ہوا کا ایک سخت اور زوردار جھونکا آیا۔ اور یہ ٹہنی تڑاخ سے ٹوٹ کر میرے صحن میں آگری۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہیں۔ اور گاؤں بھر میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ٹھائیں! ٹھائیں! ٹھائیں! شاید مسعودی قبائل نے ہمیشہ کی طرح پھر گاؤں پر حملہ کردیا ہے اور ہندو مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہندو سکھ ملٹری نے مسلمانوں کو بھوننا شروع کردیا ہے اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو بھوننا شروع کردیا ہے۔ اور میری بچی زمین پر مری پڑی ہے اور علی محمد اپنے چھ سالہ ننھے منے بچے رشید کو میرے ہاتھوں میں دے رہا ہے۔ ’’پٹخ دو اسے فکر بھائی! اسے زور کے ساتھ زمین پر پٹخ دو! میرا گناہ بھی معاف ہوگا! میرا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہوگا۔ میرے جرم کی بھی تلافی ہوگی۔ پٹخ دو! پٹخ دو دوست۔۔۔! اور میں نے رشید کو کلیجے سے لگالیا۔ ’’جاؤ جاؤ‘‘! علی محمد! تم دیوانے ہو! جاکر علاج کیوں نہیں کراتے۔ جاؤ۔ جاؤ! میں رشید کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ رشید میرا بیٹا ہے! ۲۵/ اگست! گذشتہ چار پانچ دنوں سے میں جیسے ہوا میں معلق رہا ہوں۔ جیسے کوئی خواب میں زندگی گزارتا ہے۔ اتنی جھنجھوڑ دینے والی شدید ترین اور سنگین حقیقتیں چاروں جانب سے نمودار ہو رہی ہیں، لیکن میری نیند نہیں کھلتی۔ ممتاز مجھے چار دنوں سے نہیں ملا۔ میں اندھیرے میں بھٹک رہا ہوں۔ ممتاز اندھیرے میں بھٹک رہا ہے۔ ساری کائنات اتھاہ اور پھیلی ہوئی ظلمت میں بگولوں کی طرح چکراتی پھرتی ہے۔ میں لاکھ اپنے آپ کو ایک خاص نقطۂ نظر پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن ہر چیز میرے ہاتھ سے پھسل کر نکل جاتی ہے۔ کوئی چیز گرفت میں نہیں آتی۔ میرے پاس ہوائی جہاز ہوتے تو میں ان سکھ غنڈوں اور درندوں پر تابڑ توڑ بم برسانا شروع کردیتا جو معصوم اور بے گناہ لوگوں کو گاڑیوں میں ہلاک کر رہے ہیں اور پھر وہ لہولہان گاڑیاں لاہور ریلوے اسٹیشن پر آتی ہیں اور پلیٹ فارم پر لاشوں کے انبار لگ جاتے ہیں اور پھر امرتسر کے، جالندھر کے، لدھیانہ کے پلیٹ فارموں کو خون سے شفق رنگ کرنے کے لیے مسلمان مجاہدوں کی ٹولیاں پاکستان سے گزرنے والی ہندو سکھ گاڑیوں پر جھپٹ پڑتے ہیں تاکہ ہندوستان کے لوگ انہیں بزدل اور بے غیرت نہ سمجھنے لگیں۔۔۔ غیرت اور دلیری کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ یہ کیسی دیوانگی ہے؟ اُف میری نیند کھل کیوں نہیں جاتی؟ ممتاز کی نیند کیوں نہیں کھلتی؟ جواہر اور جناح کی پکیں کیوں بوجھل ہیں؟ اب تو پاکستان اور ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں بن گئی ہیں۔ اور اب عوام ان حکومتوں کی بقا چاہتے ہیں اور عوام اپنے لیڈروں کے ساتھ ہیں۔ ان کے حکم پر گردنیں کٹوانے کو تیار ہیں۔ پھر یہ عوام، یہ جتنا لیڈروں کے حکم کے بغیر کیوں گردنیں کٹوا رہی ہے؟ لیڈروں نے تو انہیں یہ حکم نہیں دیا کہ کٹ مرو۔ اپنی بستیاں اجاڑ دو۔ ہندو کو پاکستان سے نکال دو۔ مسلمان کو ہندوستان میں نہ رہنے دو۔۔۔! نعرے کا یہ روپ کہاں سے آیا ہے؟ اس کے نقش و نگار مانوس تو نہیں ہوتے۔ پھر؟ پھر۔۔۔؟ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ کیا صرف لڑنا؟ بغیر مقصد کے لڑنا؟ آزادی ملے دس دن ہونے کو آئے لیکن آزادی ملنے کے بعد یہ کیسی لڑائی لڑی جارہی ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ نفرت کا ایک مبہم سا غیر واضح سا سیلاب ہے جس میں ہم سب بہے چلے جارہے ہیں۔ ایک جنون ہے جو لہکتا، جھپٹا ہوا ہر ایک کے سر میں سمایا جارہا ہے۔ ممتاز ہر روز صبح سے گھر سے نکل جاتا ہے۔ اسے ایک ایسی لاری کی تلاش ہے جو اس کے پیارے ’’اچھے‘‘ کو اور ماں اور بہنوں اور رشتہ داروں کو بٹالہ سے لاہور لے آئے۔ لیکن ہر شام کو وہ منہ لٹکائے ناکام لوٹ آتا ہے۔ کیوں کہ لاری کا پٹھان مالک ایک ہزار روپیہ مانگتا ہے۔ ایک ہزار روپیہ روزانہ اور ممتاز کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ اور اس کا اچھا بٹالہ میں اس کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ’’اچھا‘‘ جو اس کی پرانی محبت کی یادگار ہے، اور یہ یادگار خطرے میں ہے۔ اس کا تاج محل خطرے میں ہے اور ممتاز اسے نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ محبت منڈی ایک جنس بن چکی ہے۔ اور منڈی کے سوداگر اس جنس سے ہر روز ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔ وہ محبتوں کو بازار میں لا لاکر فروخت کرتے ہیں۔ ممتاز ہر روز اسی بازار میں جاکر گھومتا رہتا ہے۔ اس کی محبت ایک پٹھان کی لاری میں محبوس ہے اور پٹھان جیسے ہر روز اسے دکھا دکھا کر چڑاتا ہے، ’’محبت خریدوگے۔ لاؤ نکالو دام! خریدوگے لیکن تمہارے پاس ہے کیا؟ افسانوں کی ایک کتاب؟ جنسی نفسیات کا ایک ہجوم۔۔۔ فرائڈ اور ایڈلر کی تحلیل نفسی۔ آرٹ برائے زندگی۔۔۔ ہنھ! یہ تو نہیں چلے گا۔۔۔ ان کھوٹے سکوں کو کون لے گا یہاں۔‘‘ اور ممتازہر روز منہ لٹکائے ہوئے گھر آجاتا ہے۔ میں ٹکٹکی باندھے ہوئے، سامنے کی چھت پر بیٹھی ہوئی ایک نحیف و نزار بڑھیا کو دیکھتا رہتا ہوں جو دور سے مجھے ایک بت معلوم ہوتی ہے۔ یہ بت ہر روز صبح آکر چھت پر نصب ہوجاتا ہے اور شام تک آسمان کی طرف خلا میں گھورتا رہتا ہے۔ ممتاز نے مجھے بتایا تھا کہ ایک ہفتہ پیشتر اس بت میں جان بھی تھی۔ اس کا سانس بھی چلتا تھا۔ بولتا تھا، ہنستا تھا۔ چلتا پھرتا تھا۔ لیکن سنا ہے کہ اچانک ایک دن آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا۔۔۔ اور اس کی آنکھیں چندھیاگئیں، سانس رک گئی۔ بڑھیا کا خیال ہے وہ ستارہ اس کے کلیجے کا ٹکڑا تھا لیکن سکھ غنڈے کا خیال ہے کہ سالا مسلمان تھا اور گردن زدنی تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس بت کو یہاں بھیج دیا تاکہ وہ یہاں مسلمان کے اس ملک میں جاکر اپنے اس ستارے کو ڈھونڈے اور وہ صبح سے شام تک آسمان کی طرف گھور گھور کر اپنی بے رونق، بے بنیاد اور سرد آنکھوں سے اسے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ آہ میں کیا کروں ممتاز! تم فسادات کی خبروں پر تبصرہ مت کیا کرو! مجھ میں سننے کی تاب نہیں رہی۔ تمہارے تبصرے میں ایک خلا ہوتا ہے اور وہ خلا صرف ’’اچھا‘‘ ہی پورا کرسکتا ہے۔۔۔ اور تمہارا ’’اچھا‘‘ تمہیں مل جائے گا۔ تم کہتے ہو کہ میں تمہیں کھوکھلی تسلیاں دے رہا ہوں۔ میرے دوست! تم میں ایک حیرت ناک تبدیلی آرہی ہے۔ ہمارے اندر کا افلاطون مرگیا ہے۔ تم ایک تڑپتا ہوا پارہ بنے ہوئے ہو۔ تم کو اپنے اوپر اعتماد نہیں رہا۔ میں محبتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہوجاتے ہو۔ تم مجھے بھی پاگل کردوگے اور اپنے آپ کو بھی۔ لیکن میں پاگل نہیں ہونا چاہتا۔ میں چلاجاؤں گا؟ میں تمہارے ہاں سے چلاؤں گا ممتاز؟؟ آج شام کو میں قتیل کے یہاں گیا تھا۔ اس رومانوی شاعر کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس کے گھنگھریالے بالوں میں ایک تازہ اور نیا نیا سا نکھار پیدا ہوگیا تھا۔ چہرے پر ایک نئی تابندگی کی لہریں دمک رہی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی ہندو ایکٹریس دوست کے ساتھ آج شادی کرلی ہے۔ محلے کی مسجد میں مولوی نے پانچ روپے لے کر نکاح پڑھادیا تھا اور کہا تھا اگر اب کلمہ شریف پڑھنے کے بعد بھی کوئی اس کو ہندو لڑکی سمجھ کر قتل کرنا چاہے تو مجھے خبر کردینا۔ میں انہیں ٹھیک کردوں گا۔۔۔ میں نے کہا قتیل! مولوی کی بات چھوڑو، تم نے پانچ روپے میں ایک انسان کی جان بچالی۔ میرے لیے یہی احساس مسرت کافی ہے۔۔۔ ہاں! یہ بتاؤ تمہارے چہرے پر یہ جلال کیسا ہے؟ ’’رومانس کی تکمیل!‘‘ قتیل نے آسمان کی طرف سگریٹ کے مرغولے اچھالتے ہوئے جواب دیا۔ قتیل کو اب ایک نئے مکان کی تلاش تھی کیونکہ مسلمان مالک مکان نے اسے کہا تھا کہ تم ایک ہندولڑکی کے ساتھ بیاہ کرکے، اس مکان میں نہیں رہ سکتے، ورنہ غنڈے میرے مکان کو بھی فلیتہ دکھادیں گے۔ ۲۹/اگست مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا تھا۔ یہ بت تویونہی خلا میں گھورتا رہے گا۔ اور ستاروں کی تلاش کرتا رہے گا۔۔۔ لیکن اب ٹوٹا ہوا ستارہ اسے کہاں ملے گا؟ میں ایک بے چینی کے عالم میں گھر سے باہر نکل کھڑا ہوا۔ گردوپیش کی زندگی میں ابھی تک وہی جمود اور وہی ٹھہراؤ تھا۔ لیکن اس ٹھہراؤ میں ایک نئی قسم کی چہل پہل نے جنم ضرور لے لیا تھا۔ اس چہل پہل میں ایک پیچیدگی ایک تھکن سی تھی۔ وائنٹن اسکول میں پناہ گزینوں کے لیے ایک کیمپ کھل گیا تھا۔ اور کیمپ کھلنے سے ایک نیا ہنگامہ سا برپا ہوگیا تھا۔ لوگ آرہے تھے، جا رہے تھے۔ لاشوں سے بھری ہوئی کئی لاریاں میرے سامنے سے گزریں جو خون سے لت پت تھیں۔ یہ لاشیں ہندوستان والوں نے پاکستان والوں کی طرف آزادی کی سوعات کے طور پر بھیجی تھی اور سوغات قبول کرنے والے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ان میں ایک چہل پہل سی بیدار ہو رہی تھی۔۔۔ جیسے ان کے چہرے کہہ رہے ہوں ہم اپنے دوستوں کے گھر میں اس سے بھی عمدہ اور عظیم سوغات بھیجیں گے تاکہ برادری میں ناک نہ کٹ جائے۔ محبت کا ایک بیکراں دریا امنڈتا ہوا بڑھ رہا تھا۔۔۔ یہ محبت کس قدر خوفناک تھی۔ اس کی لہروں میں رقص اور آہنگ کا توازن نہیں تھا۔ جیسے زور زور سے کوئی کسی کے کندھے جھنجھوڑ دے اور کہے مجھ سے محبت نہیں کروگے تو چھرا گھونپ دوں گا۔ میں بڑھتا گیا، چلتا گیا، دیکھتا گیا اور نگاہوں کو اپنے محبوب اور آشنا لاہور سے کئی مرتبہ پھر مانوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ عمارتیں کس شہر کی ہیں؟ یہ سڑکیں کہاں سے لائی گئی ہیں، یہ آدمی کدھر سے گھس آئے ہیں؟ جی چاہتا ہے چوراہے پر کھڑا ہوکر زور زور سے چلانا شروع کردوں بھائیو! وحشیو! میرے شہر سے نکل جاؤ! اور اپنے آبا و اجداد کے جنگلوں میں جاکر بس جاؤ۔۔۔ تمہیں شہر میں آنے کے لیے کس نے کہا تھا۔ جنگلیو! جاؤ جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ کہ تمہیں انسان بننا ابھی میسر نہیں آیا۔ لیکن میں چوراہے پر زور زور سے نہ چلا سکا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ اب لاہور میں ایک بھی ہندو سکھ نہیں رہ سکتا۔۔۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ میرے دماغ پر ایک ضرب سی پڑی۔ کیوں۔ آخر میں یہاں کیوں نہیں رہ سکتا۔۔۔ میں، کہ ان گلیوں میں گھوما ہوں۔ ان سڑکوں پر اپنے نغموں کے نقوش ثبت کیے ہیں۔ ان عمارتوں کی چوٹیوں میں میرے آنسوؤں کی چمک، میرے قہقہوں کی گوجیں، میری مسکراہٹوں کے پھول پوشیدہ ہیں۔ مجھے یہاں رہنے سے کون روک سکتا ہے؟ نہیں، نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔ پاگلو! میں اسٹیٹ کی ذمہ داری تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ میں نے یہاں ذہنی ریاضت کی ہے میں نے یہاں کے در و دیوار میں اپنے زنگ بھرے ہیں۔ یہ میرا شہر ہے میرا۔ تم کیا جانو؟ کسی کا شہر کیسا ہوتا ہے؟ جاکر جواہر اور جناح سے پوچھو تو سہی کہ انھوں نے کبھی میری طرح ان سڑکوں کی اینٹوں کا لمس محسوس کیا ہے؟ کبھی تو ان کی نظریں اس چوراہے کے زاویوں اور موڑوں سے ٹکرائی ہیں! ان سے مانوس اور محبوب لذت اخذ کی ہے۔۔۔؟ اگر نہیں تو انہیں کیا حق ہے کہ مجھے یہاں سے نکل جانے کا حکم دے سکیں۔ مال روڈ پر ایک کونے پر سستاتے ہوئے تانگہ بان سے میں نے پوچھا، ’’بابوجی اسٹیشن چلوگے؟‘‘ تانگہ بان مسلمان تھا، لیکن اگر وہ مسلمان تھا تو مجھے دیکھ کر اس نے چھرا کیوں نہیں بھونکا۔ نہیں، نہیں یہ مسلمان کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں حیرت کے ساتھ اچک کر تانگہ پر سوار ہوگیا۔ تانگہ اسٹیشن کی طرف چلنے لگا۔ وہی راستہ تھا، وہی سڑک تھی، وہی خم تھے اور وہی موڑ۔۔۔ کہیں بھی ہندو یا سکھ کا نشان نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ اتنی بڑی مخلوق کہاں سماگئی آخر؟؟ کہتے ہیں چار لاکھ کے قریب ہندو سکھ اس شہر میں رہتے تھے۔ چار لاکھ! وہ کدھر گئے؟ اور تانگے والے نے بھی یقین اور اعتماد کے ساتھ بتایا کہ وہ سارے کافر کیمپوں میں چلے گئے ہیں۔ اسٹیشن۔۔۔ لاہور کا عظیم الشان اسٹیشن گنگ بنا ہوا تھا۔ جیسے کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو۔ خاموش صُمٌّ بُکمٌ۔ ہزاروں آدمیوں کے شور وغل سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ لیکن یہ نیا اور اجنبی شور و غل اسٹیشن کی خاموشی کو ختم نہیں کرسکا تھا۔ اسٹیشن کے اردگرد نئی قسم کی آہنی باڑھ لگادی گئی تھی اور اس پر ملٹری کا پہرہ تھا۔ اور لوگ پلیٹ فارم سے زخمیوں کو لارہے تھے۔ چیخ رہے تھے، آنسو بہا رہے تھے۔ آہ و بکا اور کراہوں سے اسٹیشن ماتم کدہ معلوم ہوتا تھا۔ ریلیف کیمپ بھی لگا ہوا تھا اور والنٹیر لاریوں میں بھر بھر کر زخمیوں کو لے جارہے تھے۔ میں نے سر کو ایک زور کا جھٹکا دیا جیسے کوئی گرد و غبار کو جھٹکتا ہے اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ معمولی اور روزمرہ کی سی کیفیت اپنے اوپر طاری کرکے میں بکنگ آفس کی طرف بڑھا۔ بکنگ پر کوئی غیرمعمولی تعینات تھا، کوئی فوجی تھا شاید۔ ’’ملتان کا ایک ٹکٹ۔۔۔‘‘ اور فوجی کلرک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میری طرف متحیر نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ اس شخص کو اتنا بھی علم نہیں کہ آج دُنیا وہ نہیں رہی جو کل تھی۔ ’’گاڑیاں بند ہوچکی ہیں!‘‘ اسے اپنے جواب کی صداقت پر کتنا بھروسہ تھا۔ میں پھر مال روڈ پر آگیا۔ کافی ہاؤس بند تھا۔ چائنا لنچ ہوم بھی اور سامنے کی سڑک سنت نگر کو جاتی تھی، جہاں میرا گھر تھا۔ نہ جانے کیوں لمحہ بھر کے لیے آج مجھے اس سڑک کی اجنبیت کا احساس ہوا اور پھر جی کڑا کر کے میں اس طرف ہولیا۔ سنت نگر کی ساری آبادی میں ویرانی تھی۔ ایک متنفس بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک سانس بھی چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر ایک مکان تالوں سے آراستہ ہوچکا ہے، میں نے کئی مکانوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن سوائے کوؤں کائیں، کائیں اور بھوکے پیاسے پرندوں کی چیخوں کے مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ سب لوگ چلے گئے تھے۔ یہ سب لوگ کتنے بے رحم تھے، اپنی گلیوں کو سونا کر گئے تھے۔ یہاں پان والے کی دکان تھی، یہاں ہسپتال تھا۔ یہاں ایک بڑھیا بیٹھ کر چرخا کاتا کرتی تھی۔ یہاں بوڑھا موچی پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ وہ سب چلے گئے، سب کے سب۔ گلیوں کے نل ابھی تک پانی کی دھاریں چھوڑ رہے تھے جیسے مجھ سے پوچھ رہے ہوں، شاعر! ہمارا یہ اُجلا اُجلا شفاف پانی بے کار جارہا ہے، اس دیس کے وہ پیاسے کہاں گئے؟ تم ہی ایک گھونٹ پی لو۔۔۔! میں نے بے تابانہ بڑھ کر نل سے پانی کا ایک گھونٹ پی لیا۔ ملٹری کے سپاہی چوکوں پر کھڑے اس ویرانی کو شاید سنبھالا دے رہے تھے۔ گائیں اور بھینسیں منہ اٹھائے آوارہ پھر رہی تھیں۔ ان کی چھاتیوں میں دودھ بھرا ہوا تھا لیکن اس سیم رنگ شیریں اور حسین دودھ کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ساری فضا یتیم ہوچکی تھی۔ جنت اجڑ چکی تھی اور آد و حوا نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ ایک بار پھر میرا جی چاہا کہ ایسے زور سے قہقہہ لگاؤں کہ ان مکانوں کی چھتیں اڑجائیں۔ نل سے چھوٹتی ہوئی پانی کی دھاریں سیلاب بن کر، بلند ہوکر بادلوں سے مل جائیں اور جب میں آنکھیں کھولوں تو ایک ہو کا بیابان میرے سامنے ہو۔ اور میں تنہا، اکیلا اس بیابان میں ایک نئی وادی کی تخلیق کروں۔ ایک نئی زندگی کو جنم دوں، نئے پھل پھول اور گاؤں اور۔۔۔ اور۔۔۔ لیکن میرا قہقہہ رک گیا۔ کیونکہ جب میں نے آنکھ کھولی تو میں ہندو سکھ پناہ گزینوں کے کیمپ میں کھڑا تھا۔ جنت چھوڑ کر آدم و حوا یہاں دوزخ میں آبسے اور خوش تھے کہ ان کا دھرم بچ گیا۔۔۔ ایک ہاؤ ہو۔ ایک چیخ و پکار۔ ایک شور و غل۔ لوگ ٹرکوں پر سامان لاد کر کہیں جارہے تھے۔۔۔ سراسمیگی اور پریشانی اور اضطراب کے ملے جلے سائے چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔ کہاں جارہے ہو دوستو! رشیوں منیوں کی اولادوں کہاں جارہے ہو؟ سب کے چہروں پر ایک مبہم سا فتح مندانہ تبسم دکھائی دے رہا تھا۔ ’’ہم ہندوستان جارہے ہیں۔ اپنے ملک میں، اپنے دیس میں!‘‘ اور میں اپنے دیش باسیوں کے کیمپ سے نکل کر بدیس ملک میں آگیا۔ ممتاز ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ وہ شاید اپنی محبت کو لاری والے پٹھان کے چنگل سے ابھی تک نہیں چھڑا سکا۔۔۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books