Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادیب کی ہماری شاعری

شمیم حنفی

ادیب کی ہماری شاعری

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    یہ چلن عام ہے کہ اپنی ادبی روایت کے پس منظر میں ادب کی تفہیم اور تنقید کا جائزہ لیتے وقت حالی، آزاد اورشبلی کے دور سے نکل کرہم سیدھے ترقی پسندتحریک کے دور میں داخل ہوجاتے ہیں۔ تنقید میں امدادامام اثر، وحیدالدین سلیم، چکبست، دتاتریہ کیفی، سلیمان ندوی، مولوی عبدالحق، حامدحسین قادری، بجنوری، عظمت اللہ، ڈاکٹرزور، نیاز، مسعود حسن رضوی ادیب اوررشید احمد صدیقی کے انفرادی کارناموں کاکچھ تذکرہ توہوجاتاہے مگرہم نے بیسویں صدی کے پہلے تیس پینتیس برسوں کو ادبی ثقافت کے ایک علاحدہ دور اورایک منفردمنظرنامے کے طورپر دیکھنے کی کوشش آج تک کی ہی نہیں۔

    اگر اس دور کوسمجھا بھی گیا تو تصورات کے سلسلے کی ایک نسبتا ًکمزور اورغیراہم کڑی کے طورپر۔ قطع نظر اس کے کہ یہ دورتنقید کے دوبڑے ادوار یعنی آزاد، حالی، شبلی کے دور اورآل احمدسرور، احتشام حسین اورکلیم الدین احمد کے دور میں تسلسل کی نشاندہی کرتاہے، اس دور کی معنویت کے کچھ اور بھی پہلوایسے ہیں جن پر نئے سرے سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ،

    (۱) اسی دور میں تحقیقی تنقید اور تخلیقی یاتاثراتی تنقیدکے کچھ بہت اچھے نمونے سامنے آئے۔ ان کی نوعیت آزاد اورحالی کے عہد کی تنقیدوں سے مختلف تھی۔

    (۲) اس دورکی تنقید مجموعی طورپر ہر طرح کے نظریاتی تسلط سے آزادرہی۔

    (۳) اس دور میں ادب کی تفہیم اور تجزیے کاعمل ایک انفرادی سرگرمی کے طور پر زیادہ نمایاں ہوا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اورروایت کے سیاق میں بھی اس کی معنویت پہلے سے زیادہ روشن ہوئی۔

    (۴) اس دور میں تنقیدلکھنے والوں کا کوئی حلقہ نہیں بنا۔ ایک رومانیت کوچھوڑکر، کوئی اور ایسا تصورنظر نہیں آتاجسے مختلف نقادوں کے ایک حلقے میں قدرمشترک کی حیثیت حاصل رہی ہو اورچونکہ رومانیت کے بنیادی رابطے شخصی اورانفرادی ہیں، اس لئے اس دور کے رومانی نقادوں (مہدی افادی، سجادانصاری، بجنوری، نیاز) کی شناخت کے پیمانے بھی الگ الگ ہیں۔

    (۵) بعد کے زمانوں میں تنقید کے جونظریات اورمکاتب مقبول ہوئے، ان میں سے اکثر کے ابتدائی نشانات اس دور کی تنقیدوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید، عملی تنقید، فلسفیانہ تنقید، جمالیاتی تنقید، تحقیقی تنقید، اسلوبیاتی تنقید، عروضی اورکلاسیکی تنقید، تہذیبی اورسماجیاتی تنقید کی کئی ایسی مثالیں اس دو ر کی تنقیدوں میں ملتی ہیں جوہمارے عہد کے مکاتب کی طرح متعین اور اختصاصی تونہیں ہے، لیکن بیسویں صدی کے پہلے تیس برسوں میں جن نقادوں نے شہرت پائی ان میں سے اکثرمغربی اصول اور نظریات کی آگہی بھی رکھتے تھے اوراپنی اصناف اورروایات پران نظریات کا اطلاق کرسکتے تھے۔

    ایسی ہی کئی اورباتیں بھی اس دور کی تنقید کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں۔ یہاں ان کی طرف اشارے کا مقصدصرف یہ ظاہرکرناہے کہ تنقیدی معیاروں، رویوں، خیالوں کی جیسی رنگارنگی ہمیں اس صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں دکھائی دیتی ہے، ا س سے ایک خاصے کشادہ فکر، روادار اورمتحرک ادبی کلچر کی تصویرابھرتی ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوتاہے کہ مجموعی تناظر کی وسعت کے باعث اس دور کے لکھنے والوں میں ایک ساتھ مکالمے کی کتنی بہت سی سطحیں موجود تھیں۔ ادب پڑھنے والے، ادب کی تعبیروتشریح کا مشغلہ اختیار کرنے والے زندگی کوچاہے ایک ہی زاویے سے دیکھے جارہے ہوں، مگرادب کو سمجھنے سمجھانے کے لئے وہ بیک وقت کئی زاویوں سے کام لیتے تھے۔ معاشرہ منظم بہت تھا۔۔۔ کہ نظام اقدار کم وبیش یکساں تھا اوراپنی معاشرت، اپنے ماضی، اپنے مجموعی تہذیبی اور علمی مقاصد کے سلسلے میں لوگ بالعموم ہم خیال تھے۔

    اس دور کے نقادوں میں اختلاف تھا توزبان و بیان کے معاملے میں، ہرایک کی اپنی ترجیحات اورانفرادی میلان او رمذاق کی بنیادوں پر۔ چنانچہ اس دور کے شاعروں کی باہمی چپقلش اورنوک جھونک اپنی جگہ پر، مگرتنقید لکھنے والوں کے یہاں مختلف قسم کے تجربوں سے انہماک آمیز شغف ایک جیسا تھا۔ تنقید ان کے لئے ایک ذریعہ تھی ادب سے لطف اندوز ہونے کا اورچونکہ ادب کی تخلیق اورتعبیر اس عہد کی عام تہذیبی سرگرمی کا حصہ تھے، اس لئے اپنی علمیت کوبھی وہ ادبی ذوق کی ترویج کا ایک واسطہ بناتے تھے۔ ان کی تنقید یں علمی مباحث سے بوجھل نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے احساسات کی دنیا بھی اسی لئے بہت بھری پُری نظر آتی تھی۔

    یہ ایک طرح کی بازیافت تھی، اپنی سرگزشت کے ایک گمشدہ تجربے کی۔ انیسویں صدی کے اصلاحی میلانات نے ہماری اپنی روایت کے کئی عناصر اوربہت سی بنیادوں کوپس پشت ڈال دیاتھا۔ پھر آزاد، حالی اورشبلی نے تنقید کو جس درجہ کمال تک پہنچادیاتھا اورسماجی وسائنسی علوم کی افادیت اور شعر وادب پران کے تفوق کا غلغلہ جس طورپر بلندہوا تھا، اس کے نتیجے میں ہمارا ادبی کلچر اپنی عوامی بنیادسے دھیرے دھیرے کچھ کٹتا جارہا تھا۔ ادب کی فہم رکھنے والے بھی ادب کوکاربیکاراں قسم کی چیز سمجھنے لگے تھے۔

    بیسویں صدی کے ساتھ خاص کر دوسری دہائی کے ختم ہوتے ہوتے عقلیت کا غرورٹوٹنے لگا۔ ہمارے ادب کی مقصدیت اورافادیت کے تصور کولوگ شک کی نظر سے دیکھنے لگے اور بیرونی اصولوں کی گرفت سے آزاد، خودمختار ادبی رویو ں کی آبادی کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوا۔ یہی دورصنف غزل کے احیاء کا بھی ہے۔ اجتماعی ترقی اور تعمیر کے جوش میں کچھ باتیں جوبھلادی گئی تھیں، اب پھر سے دوہرائی جانے لگیں۔

    ہماری شاعری کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۷ء میں چھپا۔ ادیب کی زندگی میں کل ملاکر اس کتاب کے بارہ ایڈیشن شائع ہوئے، آخری ایڈیشن ۱۹۶۴ء میں۔ گویا کہ سینتیس برس کی مدت میں جس تواتر کے ساتھ ہماری شاعری کی مختلف اشاعتیں سامنے آئیں، اس دور کی کوئی اورکتاب اس طرح کی توجہ کامرکز نہیں بن سکی، ہماری شاعری کا خیرمقدم ہرحلقے میں کیاگیا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اسے مقدمہ شعروشاعری کا تکملہ کہا۔ ڈاکٹرعابدحسین کے خیال میں ’’اس کتاب کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ ذہنی آزادی کی اس تحریک کا ایک اہم حصہ تھی جوہمارے ملک میں مغرب کی سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے شروع ہوچکی تھی۔‘‘ غرضیکہ اس زمانے میں ہماری شاعری نے مقدمہ شعروشاعری کے بعد اردوتنقید کی سب سے فکرانگیز کتاب کی حیثیت اختیارکرلی۔

    ادیب کے معاصرین میں اپنی وسعت مطالعہ، بصیرت اور تجزیہ کاری کے لحاظ سے ممتاز اصحاب کی کمی نہیں تھی۔ ان میں سے کئی کاذکر ادبی تنقید کے سلسلے میں ادیب سے زیادہ عام ہے۔ (امدادامام اثر، عبدالسلام ندوی، عبدالحق، نیازفتح پوری، رشیداحمد صدیقی) مگر ادیب کا یہ امتیاز نمایاں اوربے مثل ہے کہ اس دو رکے ادبی کلچرکی ترجمانی اور اس کلچر میں اپنی مقبولیت کے لحاظ سے وہ سب میں آگے ہیں۔ اس صورت حال کے اسبا ب پرغور کیاجائے تو ایک ساتھ کئی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔

    آنکھیں بند کرکے مغرب کی تقلید کرنے والوں میں یہ ایک عام غلط فہمی رواج پاچکی ہے کہ مشرقی مزاج تجزیے کے عمل سے مناسبت نہیں رکھتا۔ کلیم الدین احمدتذکروں سے وہ کچھ طلب کررہے تھے جو ان کو بیٹسن اورلیوس کے توسط سے پہنچا۔ اس پرمزید ستم یہ ہواکہ تذکروں کے زمانی اور ذہنی سیاق کونظرانداز کردینے کی وجہ سے مشرقی شعورنقد کے بارے میں جوعمومی رائے انہوں نے قائم کی تھی، کم وبیش اسی رائے کی روشنی میں انہوں نے اردوکی پوری تنقیدی روایت کا محاسبہ کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ بے شک مشرقی ذہن تجزیے سے زیادہ تحسین اور تاثرآفرینی کا عادی رہاہے اور اسے ایک مظہر کے مختلف عناصر کوالگ الگ کرنے سے زیادہ دلچسپی انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرکے دیکھنے میں رہی ہے۔ لیکن سنسکرت، عربی، فارسی شعریات میں ادب کی ہیئت ترکیبی اور اس کے جذباتی ونفسیاتی عوامل کا بہت گہرا تجزیہ بھی ملتاہے۔ ہماری شاعری میں ادیب نے بھی سرسری رائے زنی کے بجائے استدلال کاطریقہ اپنایا اوراپنے نکات زبان وبیان کے علاوہ مختلف انسانی جذبوں اور تجربوں کی منطق کے حوالے پیش کیے۔

    ادیب نے استدلال کاجوطریقہ اوراسلوب اختیارکیا، اس کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے شعور کی اوپری پرتوں کے ساتھ ساتھ اس کارشتہ ہمارے احساسات سے بھی قائم رہتاہے۔ ان کی تحریر یں پڑھتے وقت سوچنے اورمحسوس کرتے جانے کاعمل بیک وقت جاری رہتاہے۔ شاید اس کا سبب یہ رہا ہوکہ تحقیقی اورعلمی مسئلوں کے علاوہ ادیب کو انسانی جذبوں اوراحساسات سے خاص دلچسپی تھی۔ اسٹیج اورڈرامے، پھرمراثی کی تحقیق وتنقید میں ان کے انہماک سے اسی رویے کا اظہارہوتاہے۔ ہماری شاعری کے مباحث انسانی شعور کی کارکردگی اورہمارے اجتماعی نظام جذبات کی نوعیت سے یکساں طورپر متعلق ہیں۔

    مبہم تاثرات کا مفہوم متعین کرنے کی کوششیں حالی اورشبلی نے بھی کی تھیں۔ حالی نے تہذیب کے بیرونی مظاہر کے پس منظر میں اورشبلی نے وجدانی تقاضوں اور تحریکات کے سیاق میں۔۔۔ مقدمہ شعروشاعری، موازنہ انیس ودبیر، شعر العجم میں تاثرکی ایسی کئی صورتوں اور بصیرتوں کااظہار ہواہے جنہیں اصطلاحوں میں ڈھالنا آسان نہیں۔ ادیب نے اس سلسلے کو اورآگے بڑھایا اور شعرکی خوبیوں کے دوگروہ بنائے، معنوی اور لفظی۔ اصلیت، سادگی، جوش کے ساتھ ساتھ انہوں نے بلند خیالی، تاریکی، تڑپ کامفہوم، حسی وفکری دائرہ استدلال کی سطح پر بنانے کی جستجوکی۔ چنانچہ اس واقعے کے باوجود کہ ادیب لفظوں کی ترتیب، قواعد، زبان، اصول بیان، تشبیہ سازی کاخاصا پرانا اور روایتی تصوررکھتے تھے، ان کی تنقیدی تحریریں شعرکی فکری، حسی، جذباتی خوبیوں اور اس کے لسانی، اسلوبیاتی، صوتی اوصاف کا تجزیہ ایک ساتھ پیش کرتی ہیں۔

    ادیب کے نزدیک، ’’کامل شعرسے سمجھناچاہئے جوعروضیوں کے نزدیک بھی شعر ہواور منطقیوں کے نزدیک بھی۔ یعنی جس پر عروضی اور منطقی دونوں تعریفیں صادق آئیں۔ اس لئے کامل شعر کی تعریف یا شعر کی کامل تعریف یہ ہوگی کہ موزوں اور بااثر کلام کوشعر کہتے ہیں۔‘‘ (ہماری شاعری)

    اورموزونیت کی تعریف یہ ہے کہ، ’’کلام ایسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیاجائے جن کواداکرتے وقت آواز میں ایک خوبصورت تسلسل یا ترنم پیدا ہوجائے اور جن میں باہم ایک لذت، ایک تناسب اور توازن ہو۔‘‘ (ہماری شاعری)

    اس سلسلے میں ایک اوراقتباس پرنظرڈالنا بھی کارآمدہوگا۔ شاعری کیاہے؟ اس کی وضاحت ادیب نے ان لفظوں میں کی ہے کہ، ’’شاعری جذبات کی ترجمانی ہے اور انسان کے گہرے جذبات فطرۃً موزونیت اور موسیقیت کے ساتھ ظاہر ہوناچاہتے ہیں۔‘‘ گویا کہ ادیب نے تجربے، بیان اورآہنگ کوایک اسرار آمیز وحدت کے ترکیبی اجزاکے طورپر دیکھا ہے۔ سب سے گہرے جذبات وہ ہوتے ہیں جن کی تہہ میں افسردگی اورملال روپوش ہواوریہ جذبات سب سے زیادہ مؤثر اس صورت میں ہوتے ہیں جب شعر کہنے والا اپنے اضطراب کوایک نغمے میں منتقل کردے۔ ادیب نے شعر کی داخلی ہیئت اوراس کی خارجی ہیئت کے امتزاج سے صورت پذیر ہونے والی ا کائی پرتوجہ د ی ہے۔ اسی لئے ان کا مجموعی رویہ شاعری کے فن کا روایتی تصور رکھنے والوں سے الگ اور نئی شعریات سے قریب ترہوجاتاہے۔

    ہماری شاعری میں کچھ اور بھی ایسے نکتے زیر بحث آئے ہیں جن کا ذکر ادیب کے پیش روؤں کے یہاں نہیں ملتا اور جن تک رسائی کی کوئی شہادت ہمیں ادیب کے کسی معاصر کی تحریر میں بھی نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر انگریزی شاعری اور مشرقی شاعری (اردو) کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے ادیب نے لکھا تھا، ’’انگریزی شاعری کا عام موضوع ہے کائنات (نیچر) اور اس کا تعلق انسان سے۔ اردو شاعری کا عام موضوع ہے انسان اور اس کا تعلق اپنے بنی نوع اور خدا سے۔ دونوں کی منزلیں جدا جدا اور راستے الگ الگ ہیں، پھر حالات سفر کیونکر یکساں ہو سکتے ہیں۔‘‘

    پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب کے منصفانہ مزاج رکھنے والے دانشوروں کے ایک حلقے نے مشرقی اور مغربی روایات کی تفریق اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر کی تھی۔ اس حلقے کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ مغرب کو اپنی نجات کے لئے آئندہ مشرق کی دکھائی ہوئی یہی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ اور یہ کہ آنے والے زمانوں کے ادب کا بنیادی مسئلہ انسان اور ایک مابعد الطبیعاتی غیبی طاقت کے رابطوں پر مبنی ہوگا۔ یہ مبحث بنیادی طور پر فلسفے اور سریات کا ہے۔ یہاں اس کی طرف اشارہ یوں ضروری تھا کہ ادیب کی فکر میں مغرب اور مشرق کو دو متوازن میلانات اور جذبہ و احساس کے دو مختلف نظاموں کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی ایک واضح کوشش نظر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے فلسفے اور علوم کی اصطلاحوں کے بغیر براہ راست اضافہ میں اور عام انسانی سطح پر دو تہذیبوں اور ان تہذیبوں سے وابستہ دو ادبی روایتوں کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہماری شاعری اسی لئے ایک ہمہ گیر ثقافتی تناظر اختیار کر لیتی ہے اور اس کتاب کا مطالعہ محض ادبی تنقید کا مطالعہ نہیں رہ جاتا۔

    ادیب کے مجموعی ادبی کارناموں سے اندازہ ہوتاہے کہ انہیں جذبات کے کلچر کی تفہیم وتعبیر سے خاصی دلچسپی تھی۔ داخلی شاعری کی سمجھ کے معاملے میں بھی وہ اپنے زمانے بالخصوص لکھنؤ اسکول کی روایت کے عام شارحین سے بہت آگے تھے۔ ادیب اس رمزسے آگاہ تھے کہ انسانی ذہن کی اعلیٰ ترصلاحیتوں اورتقاضوں کی نوعیت اصلاً لفظ اوربیان سے آگے کی چیز ہے۔ حسن بیان، حسن خیال کے بغیرکسی دوررس اورپائدار نتیجے تک نہیں پہنچتا۔

    ’’دنیا میں جوکچھ رونق اورچہل پہل ہے وہ جذبات کی بدولت ہے۔ اگرخوشی، غم، محبت، عداوت، نفرت، خوف، ہمدردی وغیرہ یہ سب جذبے ناپیدہوجائیں تودنیا میں ایک سناٹاچھاجائے۔ شاعری جس کا مقصدہی جذبات کا اظہار اوراحساسات کا اشتعال ہے، اس کے لئے پیرایہ فطری ہونا کسی دلیل اوربحث کامحتاج نہیں معلوم ہوتا۔‘‘

    اس نوع کے نکتہ آفریں بیانات، ہماری شاعری میں جابجا ملتے ہیں۔ اس ضمن میں ادیب کی بصیرت اورطریق استدلال کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ اگرچہ ہماری شاعری بہتوں ے نزدیک جواب آں غزل (مقدمہ شعروشاعری) کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ادیب کا لہجہ کہیں بھی مناظراتی یاجارحانہ نہیں ہے۔ مشرقی و مغرب کے میلانات کا تقابل بھی وہ صرف انہی اصولوں اورافکار کے حوالے سے کرتے ہیں جو مشرقی یا مغرب سے مخصوص ہوں۔ ادیب کے یہاں یہ شعوربھی ملتاہے کہ مشرق اور مغرب کے ادبی معیاراور تنقیدی تصورات کا بہت سا حصہ نسل انسانی کے دماغ اور اس کے عمل سے تعلق رکھتاہے۔ چنانچہ اس پرغور وفکربھی عام انسانی سطح پر کی جانی چاہئے اور ہرمسئلے کومشرق ومغرب کی آویزش میں الجھانا درست نہ ہوگا۔

    اسی متوازن، ہمہ گیراور شعریا ت کے بنیادی ضابطوں سے نسبت رکھنے والے رویے نے ادیب کے مقدمات کوہرادبی حلقے کے لئے لائق توجہ بنایا۔ جدید اور قدیم یا دلی اورلکھنؤ کے تنازع سے اوپراٹھ کر ہماری شاعری کے حقیقی موقف کوسمجھنے کی جیسی کوششیں سامنے آئیں، ان سے اندازہ ہوتاہے کہ ادیب اس کتاب کے واسطے سے تنقید کا ایک اساسی فریضہ اداکرناچاہتے تھے۔ یہ فریضہ ہے تنقید کے ذریعے ادبی ذوق کی تربیت اوراپنے معاشرے میں ایک آزادانہ ادبی شعور کوعام کرنے کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری کوحالی کی تنقید کے جواب سے زیادہ اس کے تکملے کی صورت میں قبول کیاگیا۔ اس کتاب کے کم سے کم د س ایڈیشن اس دور میں شائع ہوئے جسے روایتی تصورات سے رہائی اور ایک نئی بوطیقا کی تلاش کادور کہنا چاہئے، یعنی کہ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۶۴ء کے عرصے میں۔

    جدید تر میلانات سے قطع نظر ترقی پسند تحریک کے عہدعروج میں بھی یہ کتاب عام ادبی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ یہ واقعہ قدرے حیران کن ہے کیونکہ ادیب کے ذہنی اورجمالیاتی رویے ترقی پسندی کے معیارسے مختلف ہی نہیں، منحرف بھی تھے۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے، ہماری شاعری تنقید کے اولین اوربنیادی فریضہ کی کماحقہ ادائیگی کے باعث بحث طلب ہونے کے باوجود متنازعہ نہیں سمجھی گئی۔ اس کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے ادیب نے لکھاتھا، ’’شعرکا صحیح ذوق، سخن فہمی کا ملکہ اورنقدشعر کی قوت پیدا کرنا اور اردوشاعری کا روشن رخ نمایاں کرکے تعلیم یافتہ طبقے کی نگاہوں میں اس کا وقار قائم کرنا اس تصنیف کے اہم مقاصد ہیں۔‘‘ (ہماری شاعری)

    ادیب کوغالباً خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ ہماری شاعری نہ تو کسی طرح کا بیان صفائی ہے نہ مغربی روایات پرمشرق کی ادبی روایت کی برتری کا کوئی دعوی۔ بے شک اس کے بہت سے حصے اردو کی کلاسیکی شاعری سے وابستہ تصورات کی وضاحت پرمشتمل ہیں، مگر اسی کے ساتھ ساتھ ادیب نے اپنے بہت سے مقدمات کومشرق ومغرب کی بحث سے بالاتربھی رکھاہے۔ چنانچہ ہماری شاعری کا انتساب انہوں نے اسٹی ونسن، سعدی اورمحمد حسین آزاد کے نام کیاہے جوتین مختلف ادبی روایتوں کے ترجمان ہیں۔

    میراخیال ہے کہ وضاحتی اورامتزاجی تنقید کے ایک اعلیٰ نمونے کے طورپرہماری شاعری کی اہمیت سے قطع نظر اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بھی برقرار رہے گی کہ اردو تنقید کی تاریخ میں انسانی حواس اور جذبات کے تماشے کااحاطہ کرنے والی یہ پہلی اہم کتاب ہے، جس نے اپنے معروضات کا حوالہ بھی اردوشاعری کوہی بنایا۔ شبلی کی شعر العجم ظاہر ہے کہ اپنے موضوع کے باعث اس قصے سے الگ ہوجاتی ہے اورحالی کے مقدمے میں غیر ادبی مقاصد کا جبر اس درجہ حاوی ہے کہ ان میں اپنی روایت کے معروضی مطالعے کی صلاحیت دب کر رہ جاتی ہے۔ حالی اردو کے سب سے بڑے نقاد تھے، لیکن اپنے کام کاکچھ حصہ وہ آنے والے زمانوں کے لئے چھوڑگئے تھے۔ اس کی طرف پہلا مؤثر قدم ادیب نے اٹھایا۔ چنانچہ ہماری شاعری کے تاریخی رول کی اہمیت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔

    مأخذ:

    تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ (Pg. 240)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے