aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عرفان صدیقی کی شاعری کا استعاراتی نظام

خان رضوان

عرفان صدیقی کی شاعری کا استعاراتی نظام

خان رضوان

MORE BYخان رضوان

    عرفان صدیقی کی شاعری میں کربلا کے معنوی اور استعاراتی پہلو نمایاں نہ بھی ہوتے تب بھی چوں کہ ان کی شاعری میں خیال، فنی رموز، تخیل کی بلندی، فکری صلابت اس قدر برتے گئے ہیں کہ شاعری دور سے پہچانی جاتی۔ اس میں دورائے نہیں کہ عرفان صدیقی نے کربلا کے تاریخی، مذہبی اورجذباتی واقعہ کوجس خصوصیت اور عصری معنویت سے برت کر انسانی حسیات سے قریب تر کرنے اور عقیدتوں کے چراغ کی مدھم لو کو تیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، وہ واقعہ معجزئہ کربلا کافیض بھی ہے اور معجزئہ فن بھی۔ بہرطور یہ جان لینا چاہیے کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں واقعہ کربلانمایاں اور ابھرا ہوا توضرور ہے مگر ان کی شہرت صرف اس تاریخی واقعہ کے برتنے سے نہیں بلکہ ان کی شاعری کی جملہ خصوصیات نے انھیں جدیدشاعری میں ایک اہم اورنمایاں مقام عطا کیا ہے۔

    عرفان صدیقی کاایک خاص امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری مستقبل کے بجائے ماضی پراثرانداز رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم عصروں اور جونیئر شعرا نے ان کی پیروی کی ہے۔ ایلیٹ نے بڑی اچھی اورمعنی خیز بات کہی تھی کہ نئی اور سچی تخلیقی صلاحیت سے مالامال شاعر اپنے مستقبل پرہی نہیں، اپنے ماضی پربھی اثرانداز ہوتاہے، ایلیٹ کا یہ قول عرفان صدیقی کی شاعری پر صادق آتا ہے۔ ان کے یہاں تلمیحات، تہذیب وثقافت کے مشترکہ علائم، شعری پیکر، اس کی تجسیم اور اظہاریت کے نئے ضابطے، اصول اور تکنیک کے ساتھ قدیم وجدید کاایک تازہ اور انوکھا رویہ معلوم ہوتا ہے، ساتھ ہی ان کی تخلیقی بصیرت لسانی وفنی شعور کے ادراک کاحاشیہ معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے فنی پختگی اورشعوری صلابت کااظہاراستعاراتی پیکرتراشی کے ساتھ عصری منظرنا مے پر خوب کیاہے جوانھیں معاصرادبی منظرنامے سے منفرد کرتی ہے کیونکہ ان کی شاعری پیکر کی جدت، ندرت مضمون، تخیل کی کارفرمائی اور الفاظ کی جدت سے مملو معلوم ہوتی ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں تلخی احساس کا اظہارمعتدل اورباوقار طریقے سے ہوتاہے۔ مگر یہ احساس کی تلخی المیاتی صورت کبھی اختیار نہیں کرتی کیونکہ ان کے ذہن اورفکر کا ارتباط اس قدر مستحکم اوربالیدہ ہے کہ جذبے کی سرشاری میں اپناتوازن برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی دوسری بڑی خوبی تخلیقیت سے پُرذہنی اورفکری رویے کابرتاؤ ہے جس کی صورت میں نئی زمینوں میں غزل کہنے کاعمل ہے جس کے نتیجے میں ندرت مضمون، جدت احساس، شعریت اور شاعری میں پیکر کی جدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے یہاں استعارے سے زیادہ پیکر میں تازگی محسوس کرتے ہیں، جس کی بدولت ہمیں ان کی شاعری میں نئے الفاظ اور نئے فقروں کی کثرت نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اسلو ب میں نیرنگی اورفکر میں جدت ہے اور زیادہ ترجگہوں پرذاتی واردات کاخوبصورت اظہارمعلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایسااظہار ذاتی واردات اورتجربے کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس ندرت اظہار سے ان کے خیالات کی نزاکت اور نوع بہ نوع ڈکشن کے نئے نئے اظہار ان کے شعوری احساس کا رمزیہ نہیں بلکہ خیالات کی رعنائی اور تصورات کی نموپذیری کا لازمہ بنتے ہیں، جس سے ان کی غزلوں میں ایک خاص قسم کی فضا پیدا ہوجاتی ہے اور اظہار کا منفرد برتاؤ قاری کو فوری طور پرمتاثر اور مائل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے،

    تیرے لیے میں دوستوں سے کرتا رہا جنگ

    تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

    چلو اب آسماں سے اور کوئی ربط سوچیں

    بہت دن ہوگئے حرفِ دعا سے کچھ نہیں ہوتا

    یہ پہلی چیخ نہیں ہے ترے خراب میں

    کہ حشر اٹھے ہیں میری فغاں سے پہلے بھی

    کہ جیسے میں سر دریا گھرا ہوں نیزوں میں

    کہ جیسے خیمہ صحرا سے تو پکارتاہ ہے

    عاشقی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

    زخم کھایاہے تو کیا حشر اٹھانے لگ جائیں

    عرفان صدیقی اپنے تیور کے شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی بانگ دور تک اور دیر تک سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد لہجے اور دھار دار تیور کے مہتم بالشان شاعرتھے۔ وہ اپنے لہجے میں جب خدا سے شکوہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا سے شرف ہم کلامی سے سر شار ہوکر سلسلہ دراز کرنا چاہتے ہیں، یہی ان کی شاعری کا حسن ہے۔ پہلے شعر میں شاعر اپنے رب سے سوال کرتا ہے کہ اے میرے رب میں اپنے دوستوں سے صرف اور صرف تیری خاطر بر سر پیکار ہوں اور ایک تو ہے کہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوے بھی خاموش ہے۔ آج دانگ عالم میں قوم مسلم بد حال اور پریشان ہے، تیرے دشمنوں کا عتاب ان پرآے دن سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے، ان کی عزت نا موس پامال کی جا رہی ہے، چہار سو خون ارزانی کا بازار گرم ہے، انھیں تہہ تیغ کیا جارہا ہے، تو پھر بھی خاموش ہے۔ یہ بات محل نظر رہے کہ شاعر خدا کی خدائی کا منکر نہیں ہے اور نہ ہی وہ خدا کے جلال وجمال کا منکر ہے، چوں کہ وہ عابد ہے اور وہ معبود تو بندے کا اتنا تو حق بنتا ہی ہے کہ وہ اپنے برے حا لات میں اپنے خدا سے دست سوال دراز کرے، شاعر جب یاس وناامیدی کے گھنھگور بادل کو مزید سیاہ ہوتے دیکھتا ہے تو اس کی مایوسی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ شاید آسمان والا مجھ سے خفا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری دعاوں کی رسائی آسمان تک نہیں ہو رہی ہے یا پھر ہماری دعا اثر کھوچکی ہے، تو چلو کچھ اور تدبیر کرتے ہیں۔ شاعر جیسے جیسے یاسیت کی وادی میں قدم بڑھا تا جاتا ہے، اس کی نا امیدی اور بڑھتی جا تی ہے، اس کے سوال کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا جاتا ہے۔ دوسرے شعر میں وہ مجبور ولا چار اپنے رب سے دست سوال دراز کرتا ہے کہ اے پرور دگار عالم تیرے اس خرابے میں جنگ وجدال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، قتل وغارت گری اور خون ریزی کا یہ بازار تو ازل سے گرم ہے، اگر دنیا میرے اس سوال پر بدنداں ہے کہ جس نے مجھے گویائی عطا کی میں اسی سے ہی الجھ بیٹھا، تو ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ ہابیل نے جب قابیل کا خون کیا تھا تو روے زمین پر گر نے والا یقینا وہ پہلا خون تھا مگر یہ سلسلہ آج تک دراز ہے، یہ اور بات ہے کہ میری فغاں اور میرا اظہار کرب اوروں سے زرا مختلف ہے، مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا میں جو حشر آج بپا ہے، اس سے پہلے کبھی بپا ہو ہی نہیں، بلکہ اس سے پیش تر بھی حشر بپا ہوتا رہا ہے اور خلق خدا نے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کیا ہے مگر ان کی فغاں نہ تب سنی گئی تھی اور نہ اب سنی جا رہی ہے۔ جب شاعر کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ میری فغاں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے تو پھر شاعر اپنی بات کو موثر بنانے کے غرض سے دوسرے وسیلئہ اظہار کو اپنا وطیرہ بناتا ہے۔

    اردو شاعری کی روایت میں واقعہ کربلا اہم واقعہ مانا جاتا ہے اور اس واقعہ کو وسیلئہ اظہار بنانا موثر اور کامیاب وسیلہ مانا جاتا رہا ہے، جب شاعر کا کرب انجزابی کیفیت اختیار کر لیتا ہے تو اس کیفیت کا اظہار بھی شاعر شدت سے کرتا ہے۔ شاعر اس حوالے سے تیسرے شعر میں اظہار غم کرتے ہوے کہتاہے کہ جب حضرت عباس پانی کی طلب میں نیزوں کی زد میں رہ کر بھی تجھے پکار تے ہیں المدد المدد اور ادھر دشمن بر سر پیکار ہے کہ مو قع پاتے ہی حضرت عباس کا سر تن سے جدا کردے، اے میرے رب امت پر آج بھی ویسے ہی نامساعد حالات ہیں اور پوری دینا چیخ رہی ہے اور چہار جانب سے تجھے مدد کے لیے پکا را جاراہا ہے، اے کاش میرے اس صدا کی رسا ئی تجھ تک ہو جاتی، مایو سی کے باوجود شاعر پر امید نظر آرہاہے کہ خدا تعالی ایک نہ ایک روز ضرور میری صدا سنے گا در اصل یہی شاعر کی کامیابی ہے اور صاحب ایمان ہونے کی علامت بھی، اسی پر امیدی میں شاعر کے لہجے میں تھوڑی سی نرمی آجاتی ہے اور لہجے کی یہی تبدیلی بتا رہا رہے کہ شاعر اب کامیاب ہونے والا ہے، اس کی صدا کی رسائی بارگاہ رب میں عنقریب ہونے ہی والی ہے۔ لہذا شاعر چوتھے شعر میں کہتا ہے کہ بندے اور اللہ تعالی کے درمیان دو طرفہ اور پاکیزہ رشتہ محبت ہے، بایں ہمہ عشق میں زخم کھانے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ واویلا کھڑا کیا جاے، آہ وبکا کیا جاے اور حشر بپا کیا جاے، بلکہ عشق میں ملنے والے زخم جگر، رنج الم اورذہنی اذیتیں در اصل عاشق کا سرمایہ حیات ہوا کرتی ہیں، اسے قدر کی نگا سے دیکھنا چاہیے اور یہ مصیبتیں کم ہی لوگوں کے نصیب کا حصہ بنتی ہیں بلکہ حقیقی شاعر تو انہیں سنجوکر رکھتا ہے، عرفان صدیقی بھی میر تقی میر کی طرح پاس ناموس عشق کا خیال کرکے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

    پانی پہ کس کے دست بریدہ کی مہر ہے

    کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا

    در ماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

    دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا

    جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف

    یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آگئے ہیں

    کوئے قاتل کی روایت ہی بدل دی میں نے

    ورنہ دستور یہاں لوٹ کر آنے کا نہیں

    مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

    خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

    پھر اک نو برگ نے روئے بیاباں کر دیا روشن

    میں ڈر تا تھا کہ حاصل ایسی ویرانی سے کیا ہوگا

    ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں

    ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

    اس چراغ شب ہجراں کو ہوا ہی لے جائے

    کوئی یہ رات گزرنے کی بشارت مجھے دے

    لہو کی نہر میں کس شہر کے حوالے کروں

    کسی زمیں سے کوئی رشتئہ نمو بھی تو ہو

    گھروں میں آنکھ دروں میں چراغ جلتے ہوئے

    یہ خواب دربدری میں کہاں سے آتے ہیں

    کبھی سینے میں دھڑکنے کی صدا بھی نہ سنوں

    ہے کبھی درد کی آواز میں شامل مرا دل

    آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی

    ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو

    آسماں سر پہ رہے، بند سبھی شہرپناہ

    کہیں رک جاؤں گا شب بھر کا گزارہ ہی تو ہے

    جان وتن عشق میں جل جائیں گے، جل جانے دو

    ہم اسی آگ سے گھر اپنا اُجالے ہوئے ہیں

    عرفان صدیقی کے یہاں ہمیں کثرت مضامین کے ساتھ متنوع خیالات کی پیکرتراشی ملتی ہے، جس سے شعرکاجمالیاتی حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ان کے یہاں فکر و خیال میں سنجیدگی، شائستگی اور اظہار و بیان میں سلیقہ اوررکھ رکھاؤ کے ساتھ لہجے کی تازگی کوبخوبی محسوس کیاجاسکتا ہے، جس سے قدیم و جدید تہذیبی فضا کی ایک نئی قوس وقزح مطلع شعر پر نمو پذیر ہوتی ہے۔ ان کے یہاں ہمیں دیگر زبانوں کی واقفیت کااحساس وادراک ہونہ ہو مگر فارسی اور بالخصوص عربی زبان وادب سے گہری واقفیت کا ادراک ضرور ہوتاہے۔ انھوں نے اردو اور فارسی شاعری بالخصوص جدید غزل کے حوالے سے ذہنی وفکری یکسانیت اور مناسبت کااحساس دلایا ہے۔ ساتھ ہی اپنی روایت کے عناصر کو جذب کرکے نئی شاعری میں اس طرح اور اس خوبصورتی اورہنرمندی سے برتا ہے کہ ایک نئی فضا اور کیفیت پیداہوگئی ہے۔ ان کی شاعری محسوسات وکیفیات کی شاعری ہے۔ اس کاایک بڑا حصہ کیفیتوں سے عبارت ہے، ان کے یہاں زندگی کئی رنگ میں رقصاں نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے مختلف مظاہرنظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی شاعری میں رنج وراحت، نشاط وغم، بیم ورجا، یاس و امید سب محبت ہی کی گوناگوں کیفیتوں سے عبارت نظر آتی ہیں اور ان کی غزلوں میں ایک المیاتی وقار اور جہدرائیگاں کی تلخی کااحساس ہوتاہے۔

    دراصل عرفان صدیقی کی غزلوں کے جتنے رنگ نمایاں ہیں، ان میں ان کے جذبات کی جدت، مضمون کی نیرنگی، خیال کی تازگی، الفاظ کی ندرت، استعاروں کی چمک، نئی زمینوں کی روش، اصلاحات اورترکیبوں کی جدت طرازی کابڑاکمال ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے ان عناصر کو جس خوش اسلوبی اورفن کے معجزانہ طورطریق سے برتاہے، معاصر شاعری میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں جن الفاظ کو مرکزیت حاصل ہے وہ یہ ہیں، سنگ، تلوار، وحشت، آفتاب، کشتی، سفینہ، سحر، کوچہ، بادصبا، پتھر، دعا، موسم، ندی، عکس، خوشبو، سراغ، راکھ، شعلہ، مژگاں، زنجیر، وصل، جان، بدن، دیوار، مسیحا، دشت، صحرا، جنوں، ستم گر، زوال، ختن، منظر، خیمہ، مٹی، تمثال، رت جگا، چنگل، پہاڑ، سخن، پیراہن، شہر، صدا، ستارہ، دریا، سمندر، لہو، پھول، ظلم، ستم، موسم، دھوپ، چھاؤں، پیاس، بارش، قریہ، رات، صدا، خنجر، آسماں، لشکر، فغاں، حشر، خاک، چراغ، دل، خون، حمائل، عکس، آئینہ، در، ہوا، محراب، دھواں، جسم، رقص، حجرہ، سایہ، پیکر، طناب وغیرہ۔ ساتھ ہی انھوں نے نئی نئی ترکیبوں کاسہارا لے کر اپنی شاعری کو ایک نیاآہنگ عطاکرنے میں کامیاب ہیں بالآخر یہی تراکیب اورلفظیات ان کی شاعری کاشناخت نامہ ہے۔

    دست عصائے معجزہ، فریاد کشت گاہ، چشم اعتبار، فصیل شب، چراغ راہ گزار، نبض عالم، دھوپ کا صحرا، ابر عنایت، بازوئے حمایت، چوب شجر، درد محبت، نقش ظفر، سرنوشت، لہوروشنائی، دست بریدہ، ستارئہ بدن، فہرست چاکراں، حزینہ گوہر، شورعزا، جذب

    عشق، گلوئے بریدہ، خانہ در، فاقہ سوار، زندانی ہجر، شہرطلسمات، خواب آسودگی، ترنگارملال، اذن سفر، دست غائبانہ، جوئے وصال، مسافت ہجر، ہوائے وصال، چشم غزال، شام زوال، شہاب چہرہ، باب وصال، دنیائے جاں، زیرمحراب، خلوت جاں، چراغ شب ہجراں، حلقہ زنجیر، زنجیرگراں، حسن خداداد، موج ہوائے غم ناک، برگ خزاں، قریہ نفاق، دل تکیہ نشیں، تبریک نان جویں، خریطہ زر، ستارہ داغ جبیں، اجازئہ بیعت، خاک فراموشی، ربط نوا، بازار سمن، بلائے پیرہن، زنجیر سفر، خون دوعالم، قریہ وصال، شب سفر، اتصال ظلمت، خوش خصال، سرمطلع مثال، طرف کوچہ ملال، عطیہ ترک طلب، شہر۔ شہربلقیس، نشینان یمن، گردہ خنجر، دیدئہ گریاں، جوئے تنگ آب، پیرہن تنگ، دشت بریدہ، سکوت خوف، لمس ہنر، مسند خاک، صدائے گریہ، غبارتیرہ شبی، کوفہ نامہرباں، ہلاکِ وفا، صف دوستاں، رفاقتوں کے چراغ، نعرئہ ہو، لوح طلسم، بساط رقص، شب نورد، طلم سیم، شاخ شجر، ساعت رفتہ، طاقِ تنہائی، سایۂ شب، غرفہ حیرت، نامہ جاں، بدن صحرا، شاخِ جاں، سخن سرا، یوسف شہر، غبارشب، خاک بدن، جوطشت موج، مآل شب غم، نقش کف پا، سکہ زر، گوہر ارزاہ، لذت یکجائی، سرشوریدہ، خیمہ شب، غرفہ خالی، بادیہ پیمائی، خوش بدنی، دریدہ پیرہن، بانوئے وغیرہ۔۔۔

    عرفان صدیقی نے جن الفاظ اور تراکیب کے سہارے اپنی شاعری کی بلند وبالاعمارت تعمیر کی ہے وہ کوئی بہت نئی نہیں ہیں اور نہ وہ ان لفظیات اورترکیب کے موجد ہیں، لیکن اتنا ضرورہے کہ انھوں نے جن لفظیات اورتراکیب کواپنے خیال کامرکز بنایاہے اور اپنے اشعار میں برت کر مرکزیت عطاکیاہے، اس میں جدت اورتازگی کا تڑکا ضرور لگا دیا ہے۔ روایتی الفاظ اورترکیب کو اپنے خیال وفکر کا محوربنانے کی روایت نوعرفان صدیقی کے یہاں بھی ملتی ہے مگراس کے ذریعہ سے وہ نئی بات اورنئے خیال کو برتنے میں کامیاب ہیں اوریہی ان کی فکرکی تازگی اورخیال کی جدت ہے۔ کیوں کہ انھوں نے لفظیات اور تراکیب کوبرتنے میں کم وبیش اپنے پیش روؤں کاتتبع کیاہے اوران کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ان میں قدیم متقدمین میں شاہ نصیر، ذوق، مصحفی اورمیرقابل ذکر ہیں اور جدید دورمیں مرزاغالب سرفہرست ہیں۔ اسی طرح اپنے ہم عصروں میں بندش الفاظ اورتراکیب وخیال سے ظفراقبال اورافتخارعارف کے قریب ہیں۔ اپنے متقدمین سے عرفان صدیقی کی قربت کہیں لفظیات کی سطح پرہے کہیں لہجے اور ردیف وقوافی کی سطح تک ہمیں ملتی ہے اورظاہر ہے اتنی قربت ایک دوسرے کوایک زنجیرمیں باندھنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ ایک ہنرمند اورباکمال شاعرماضی سے مستفید ہوکر اپنی راہ اور جہت خودمتعین کرلیتاہے اوریہ کمال انھوں نے کربھی دکھایاہے۔ چنداشعار ملاحظہ کیجیے،

    ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں

    آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہوجاؤ

    روح میں کیسی تھکن ہے کوئی تدبیر کرو

    شاید آسودئہ سر بستر تن ہوجاؤں

    عمر کیا چیز ہے احساس زیاں کے آگے

    ایک ہی شب میں بدل جاتی ہے صورت کیسی

    وہ خوش بدن ہے نوید بہار میرے لیے

    میں اس کو چھولوں تو سب کچھ نیا نیا ہو جائے

    یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

    تمام شہر میں نخل دعا نکل آئی

    یہ تیز روشنیوں کا دیار ہے ورنہ

    چراغ تو کسی تاریک گھر کا میں بھی ہوں

    یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر

    رکھ دیے دل میں مرے سات سمندر اپنے

    ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہوجانا

    نعرئہ ہو ہے تو کیا، شور سلاسل ہے تو کیا

    میرا جسم اور کہیں، میرا خیال اور کہیں

    مجھ کو لے جائے گی یہ موجِ وصال اور کہیں

    اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے

    انتظارِ صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

    شہر میں ایک ویرانی کا لشکر صف بہ صف

    ہر طرف تاراج بازار و سرا کرتا تھا رات

    میں تیری منزلِ جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

    مگریہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

    وہ شعلہ ہے تو مجھے خاک بھی کرے آخر

    اگر دیا ہے تو کچھ اپنی لو بڑھائے بھی

    اردوشاعری کے منظرنامے پرعرفان صدیقی قدرتاخیر سے نمودار ہوئے مگرخوبی یہ ہے کہ وہ جتنی تاخیر سے نمو دارہوئے اتنی ہی جلدی اپنی الگ شناخت قائم کرنے اورانفرادی شان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے اندر بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں پوشیدہ تھیں خواہ اسلوب کی سطح پر ہو یا ڈکشن کے اعتبار سے ہو اور وہ بھی اس وقت جب غزل کی دنیا میں چھوٹے بڑے ہرطرح کے شاعر زورآزمائی کررہے ہوں اور نمائندہ شعرا کی قابل لحاظ تعداد پہلے سے صف بستہ ہو، ایسے میں نوواردوں کے لیے بڑاچیلنج در پیش ہوتا ہے مگر عرفان صدیقی سنگ گراں تراش کر اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

    یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی شاعری میں کھراپن اورتجربات ومشاہدات کے ساتھ سچی شاعری ہونے کا صاف احساس ہوتا ہے، انہی خوبیوں کی وجہ سے اردو دنیا میں ان کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھاجاتاہے۔ عرفان صدیقی نے صحت مندفکری رویے کے ساتھ اپنے روایتی دائرے میں محصور ہوکر اپنے زمانے کے مسائل کواستعاروں کے خوبصورت پیکر میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کربلا کے استعارے کونہایت ہی خوبصورتی اورہنرمندی کے ساتھ برتاہے۔ جس شعرمیں کربلا کو بطور استعارہ برتا گیا ہے، تلازمات، معنویت اورجامعیت کے اعتبار سے وسیع تناظر کا اشارہ دیتے ہیں۔ انھیں وجوہ اورخصوصیات کی بنیاد پر وہ جدیدغزل میں اپنانمایاں اور منفردمقام بنانے میں کامیاب ہیں۔ کیوں کہ ان کے اندرجدید ترشاعری کی وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجودہیں جو ہونی چاہئیں۔ انھوں نے فردیت، تنہائی اوروجودیت جیسے موضوعات کے حصار سے باہر نکل کر دیگر موضوعات اور دوسری چیزوں کواپنے وجدان وشعور کاحصہ بنایاہے، جس کی وجہ سے استعارے، علامات اورتلمیحات نے معنیات کی نئی دنیا وجودمیں لادی ہے، جو کسی طور طلسماتی کرشمہ سے کم نہیں ہے۔ ان کی پوری شاعری میں لفظیات اورتراکیب کی سطح پر جوسب سے زیادہ ابھراہوا پہلو ہے وہ یہی ہے کہ عہدنو کی آمد کی بشارت نوع بنوع انداز اورطریقوں سے دی گئی ہے اور یقین وگمان کی شمع ہرآن روشن نظر آتی ہے۔ اس طرح ان کاشعری کینوس وسیع سے وسیع تر ہوگیاہے۔ چنداشعار ملاحظہ کیجیے،

    مرے زوال کے ساتھی، مرے ستارۂ ہجر

    افق کے آخری منظر میں تو ہے کتنی دیر

    دف بجاتی ہوئی صحراؤں سے آئے گی ہوا

    اور پھر ہوں گے یہیں رقص کناں دوسرے لوگ

    دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ملال

    ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

    کس کو یہ کشور بے تاج ونگیں ملتی ہے

    غیب سے شام وسحر نانِ جویں ملتی ہے

    خدا سے آخر رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں

    کہ اب کے ہے مرا دستِ دعا نشانے پر

    پاؤں میں خاک کی زنجیر پڑی ہے کب سے

    ہم کہاں چلتے ہیں نقش کف پا چلتا ہے

    مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو

    پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے

    وہ تھکن ہے کہ بدن ریت کے دیوار سا ہے

    دشمن جاں ہے، وہ پچھوا ہو کہ پروائی ہو

    اڑ گئے آنکھ سے سب لمحہ موجود کے رنگ

    رہ گئے نقش گر رفتہ و آئندہ ہم

    جراحتیں مجھے کارِ رفو سکھاتی ہیں

    مرا عدو ہی مرا چارہ گر نکلتا ہے

    عرفان صدیقی کے یہاں ہمیں خارجی حقائق سے زیادہ باطنی حقائق کا حوالہ ملتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں کہیں متصوفانہ طرزاظہار کارنگ تھوڑا گہرا ہوگیاہے۔ گوکہ وہ کوئی صوفی شاعرنہیں ہیں مگر بزرگوں کی نسبت، خانقاہوں سے رشتہ اورولیوں کے خانوادے سے ہونے کی وجہ سے ان کاناطہ روایت سے بہت گہراہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ہمیں صوفیانہ رنگ وآہنگ بھی مل جاتے ہیں جو ان کی تہذیبی روایت کے امین ہونے کاثبوت فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے جہاں ہنرمندی اورفن کے ساتھ اپنی کلاسیکی روایت کو نکھارتے رہے، وہیں بقائے حیات اور زمانے سے آگاہ بھی رہے۔ اس احتیاط اورقدیم وجدید کے ربط و تعلق نے ان کے نطق ’گویائی‘ کی چمک کو مزید تیزکردیاہے، جس سے ان کے فن کا ابعادی پہلو ہمیں متحیر کیے بغیر نہیں رہتا۔ عرفان صدیقی کی شاعری اپنے عہد کی نمائندہ شاعری ہے، جس کا شعری افق کافی کشادہ ہے۔ اوریہ اپنے ورثے سے مربوط رہنے کا عطیہ ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے