Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فکشن نگار کی تنہائی

رحمن عباس

فکشن نگار کی تنہائی

رحمن عباس

MORE BYرحمن عباس

    بیسویں صدی کے آواخر اور اکیسویں صدی کی شروعات میں قومی سیاست اور سماجی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہوئی ہے جس میں اب ایران اور برما بھی شریک ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں جاری جنگ میں لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہہ چکا ہے۔ امریکی فارین پالیسی ناکام ہو چکی ہے اورمسلمانوں میں امریکہ کے خلاف نفرت حد درجہ بڑھ گئی ہے۔ ان تمام تبدیلیوں اور کرب ناک حالات نے کیا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کیا ہے کہ اس سیاسی اور سماجی پس منظر میں ادب اورادیب کا رول کیا ہو سکتا ہے؟ کیا ہے؟

    میں بطورِ فکشن رائٹر ان سوالات سے نبرد آزما ہوں کہ ان حالات میں ادب کی ضرورت کیا ہے؟ میں کس کے لیے لکھتا ہوں؟ کن افراد کے بارے میں لکھتا ہوں؟ کیا میں بھی شمس الرحمن فاروقی اور قاضی عبدالستار کی طرح تاریخ کے تذکروں میں پناہ لے کر اپنے عہد سے چشم پوشی نہیں کرسکتا؟ ایسے افسانے لکھنے پر قناعت نہ کروں جن کو رسائل میں شائع کرنا آسان ہوتا ہے۔ دو افسانے فسادات پر، ایک قومی یگانگت پر، ایک خانگی رشتوں میں درآئی دراڑ پر، ایک جنسی نا آسودگی پر۔۔ یہ سارا کھیل ’پیکٹ پروڈکٹ افسانے‘ ہوتے ہیں۔ جس کا کاروبار بیشتر اردو افسانہ نگار کررہے ہیں۔ جن میں نہ انفرادیت ہے، نہ آرٹ ہے، نہ تجربے کا حسن ہے۔

    دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں سب چھوڑ چھاڑ کر قرۃالعین حیدر کی ضخیم نالوں میں ہندوستان کی تہذیبی تاریخ کے بکھرے عناصر پر مضامین لکھ کر سمینار ز کی بھٹی میں خود کو جھونک دوں۔ لیکن میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مجھے عینی کے ناول اس قدر لبھاتے نہیں کے میں اپنی آنکھوں کا نور ضائع کروں۔ قرۃ العین کے ناول (زیادہ تر) کم صلاحیت پروفیسروں کی غذا ہیں جن کے بارے میں وارث علوی نے بجا فرمایا ہے کہ’پروفیسر نقاد۔۔ عالمِ برزخ میں جیتے ہیں جو ایم اے اور پی ایچ ڈی کے بیچ واقع ہے۔ ان کی پوری طاقت طالبِ علمانہ نوٹس کو پروفیسرانہ مقالات میں تبدیل کرنے پر صرف ہوتی ہے۔‘ (ادب کا غیر اہم آدمی، ۳۳) یا میں وارث علوی کی طرح منٹو اور بیدی کے افسانوں کی تشریح اور تعریف میں اپنی توانائی صرف کروں اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے نقادوں کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دوں۔ ایک جگہ اپنی اس ابلیسی جبلت کا ذکرانھوں نے یوں کیا ہے ’احمقوں کو بے نقاب کرنے میں نقاد کو جو ابلیسی لذت ملتی ہے، فاروقی نے وہ چکھی ضرور ہے لیکن خاکسار کی طرح وہ اس سے سرشار نہیں ہوئے ہیں۔‘ (ادب کا غیر اہم آدمی، ۳۵)

    پھر سوچتا ہوں کیا میں جارج ارویل، گارسیا مارکیز، ورہان پاموک، بین وکری، نجیب محفوظ، یوسف ادرس اور جے ایم کوئٹزی کی طرح اپنے ملک اور سماج کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی مسائل پر قلم نہ اٹھاؤں؟ کیا ایسا کرنا اردو معاشرے میں آسان ہے؟ آسان تو خیر، ورہان پاموک، نجیب محفوظ اور یوسف ادرس کے لیے بھی نہیں تھا۔ تو کیا یہ مسئلہ مسلم معاشروں میں مشترک ہے، جو اپنے ادیبوں کو اپنی اخلاقیات سے باہر جا کر تحریر کی آزادی دینے سے ڈر تا ہے۔ دوسری طرف جارج ارویل، گارسیا مارکیز، بین وکری نے انتہائی سفاکی کے ساتھ اپنے معاشروں کو پیش کیا باوجود اس کے ان کے معاشروں نے ان کی پذیرائی کی ہے۔ ان کے خلاف مقدمات درج نہیں کئے، نہ ان پر جان لیوا حملے کیے۔ جن سے نجیب محفوظ اور اورہان پاموک گزرے ہیں۔ لیکن کیا یہ بات افسوس ناک نہیں کہ اردو میں عصمت اور منٹو پر بھی مذہبی او ر سماجی اخلاقیات کے خود ساختہ محافظوں کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے۔

    منٹو جس کرب اور تنہائی سے گزرا تھا اسے قریب نصف صدی گزر گئی ہے۔ لیکن منٹو کی تنہائی کا بھوت ہر اچھے اردو فکشن رائٹر کے دل کی گہرائی میں بیٹھا ہوا ہے اور اکثروبیشتر بیدار ہوکر اپنا ندبہ سناتا ہے جس سے منٹو کی اداسی اور مایوسی کا احساس گہرا جاتاہے۔ افسوس ہے نصف صدی بعد بھی اردو فکشن کی بساط پر کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہوئی۔ بلکہ اردو فکشن رائٹرز کے لیے نئی صدی زیادہ مصیبتیں لے کر آئی ہے۔ آج کا اردو رائٹر بھی منٹو کی طرح تنہائی کا شکار ہے جو دن بہ دن اس کے کرب میں اضافہ کررہی ہے۔ اس تنہا ئی کے کئی اسباب ہیں۔

    فکشن کا تعلق شاعری کی نسبت سماج سے گہرا ہے بلکہ فکشن کی شعریا ت کا سارا دارومدار ہی سماجی زندگی سے متشکل ہوتا ہے۔ فکشن کاکینواس تخیل کے بجائے عام آدمی کی کیفیات، ماحول، اس کے آس پا س جاری سیاست، اس کے مواقف اور اس کے احتجاج سے شروع ہوکر اس کی داخلی حالتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ شاعری میں آپ استعاورں اور کنایوں کی وادیوں میں بھٹک کراپنے عہد کی سفاکانہ حقیقتوں سے راہِ فرار تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن فکشن ادیب کو مجبور کرتا ہے کہ وہ سماجی، سیاسی، تمدنی، اساطیری، اسطوری اور فلسفیانہ منظراور پس منظر میں سانس لے اور اس بات کا مشاہدہ کرے کہ اس فضا میں آدمی کس طرح زندگی گزار رہا ہے اور خارجی عوامل شخصیت پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

    اردو فکشن میں ناول کی تاریخ اور اس پرتنقید کی جو صورتِ حال ہے اس کا مشاہدہ اس کرب میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ بھی صداقت ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں اچھے ناول ہمارے یہاں لکھے نہیں گئے۔ تھیم اور موضوع کے لحاظ سے ان میں تازگی اور ندرت کی شدید کمی رہی ہے جبکہ ناول کا مطلب ہی ہوتا ہے، نیا، تازہ، اور منفرد ہونا۔ ناول زندگی کی رنگینی اور تجربے کی انفرادیت کو بیان کرتاہے۔ ذات کے نہاں خانے میں مچلنے والے احساسا ت اور شخصیت کے اسرار کو بیان کرتا ہے۔ ناول کا کام ہی فرد کی زندگی کے نشیب و فراز کو ایک کائناتی رنگ عطا کرنا ہے۔ آدمی کی جبلت کو آشکار کرنا ہے۔

    اس سے بری بات یہ ہوئی کہ کمزور نقادوں نے کمزور ناولوں کو تعلقا ت سازی کے لیے بانس پر چڑھایا اور خود سیمنا ورں کی سیج پر لیٹ گئے جس کا نقصان یہ ہوا کہ ناول کی فنی اہمیت پر عمدہ تنقید اردو میں نہ ہوسکی اور ادبی گفتگو کو بچوں کے معیارِ اخلاقیات سے جوڑ دیا گیا۔ جدید نقادوں میں شمس الرحمن فاروقی، وارث علوی اور گوپی چند نارنگ سے اردو دنیا کو بہت سی امید یں تھیں۔ اردو دنیا ان تینوں کی آنکھوں سے ہر شئے کو دیکھنے والوں کی ایک محدود دنیا میں بدل گئی تھی۔ ’فاروقی کی دلچسپی موضوع میں نہیں فارم میں ہے لیکن فارم کا ان کے پاس کوئی شعور نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک بھی ناول یا افسانہ نگار پر وہ کوئی معنی خیز تنقید نہیں لکھ سکے۔‘ (ناول بن جینا بھی کوئی جینا ہے، وارث علوی) یہ بات وارث علوی نے دو ٹوک کہہ دی ہے، جو درست بھی ہے۔ لیکن مجھے شکایت اس با ت پر ہے کہ وارث علوی جیسے تخلیقی نقاد نے بھی اپنی تنقیدی بصیرت کا بڑا سرمایہ فاروقی اور نارنگ کے فکشن کے شعور پر حملے کرنے میں صرف کردیا۔ اس کے باوجو د افسانوں پر ان کے مضامین نئی نسل کے لیے وٹامن سی کی گولیوں کو کام کریں گے۔ گوپی چند نارنگ نے فکشن کی تنقید میں سب سے نمایا ں کردار ادا کیا ہے لیکن وہ بھی افسانوں تک محدودر ہے۔ گوپی چند نارنگ ناول کے آرٹ بہت کم لکھا ہے۔

    بعض فکشن نگار وں کی اذیت کا ایک سبب یہ تھا کہ اٹھارویں صدی کی قصیدہ خوانی کرنے والے سرکش ناقد انھیں اس فکر میں الجھائے رہے کہ پہلے یہ ثابت کیجئے کہ آپ کتنے جدید ہیں؟ یا یہ ثابت کیجئے کہ آپ مابعد جدیدیت کی کشتی میں سوار ہونے کے دعوے دار ہیں یا نہیں۔ حالانکہ تخلیقی ادب کا یہ مسئلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ادب کا مسئلہ اور بطورِ فکشن نگار میرا مسئلہ فلسفہء جمالیات یا لسانیات کی ذیلی شاخوں کا مطالعہ نہیں ہے۔ یہ خالص نظری تنقید کے دبستان ہیں جنھیں شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کی بصیرت افروز چشمک نے ادیب کے موقف میں بدل دیا۔ ان دونوں عالم و فاضل حضرات نے علم کی تاویلوں کی بنیاد پر اردو معاشرے کو تخلیقی فنکاروں کی نسبت ناقد کی اہمیت میں گرفتار کیا جس کے مثبت اثرات کم دکھائی دیے۔۔ ا لبتہ خوش آئندہ بات یہ ہے مابعدجدیدیت کی تعبیر و تشریح کے ساتھ ہی گوپی چند نارنگ نے ادب کی جمہوریت کی آواز بلند کی اور فن کار کی آزادی کو یکساں اہم قرار دیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ نظری تنقید کے علمی مباحث کے سبب شاعری، افسانے اور ناول کو بڑی حد تک نقصان ہوا۔

    فکشن کی تنقید میں نئے مباحث کو راہ بھی ملی لیکن فن کار کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ یعنی ادیب کا سماجی سیاسی تبدیلیوں کے درمیان کیا موقف ہونا چاہیے؟ ادب کا بنیادی رول کیا ہے؟ ہم کون ہیں جن سے یہ سوالات ٹکرا رہے ہیں؟ ادب کی بنیادی اقدار کیا ہیں؟ ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟

    جدید یت، مابعد جدیدیت، مارکسی، غیر مارکسی یہ سب تو ملبوسات ہیں۔ ادیب کا ان سے تعلق ہے بھی تو تھوڑا بہت۔ یہ باتیں ادب کا بنیادی موضوع نہیں ہیں۔ ادب کا بنیادی موضوع ’آدمی اور انسان کی کشمکش‘ ہے۔

    اب اس بات پر غور کیا جائے کہ جن سیاسی سماجی مسائل کے ساتھ ہم نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں اس میں ’انسان کون ہے؟‘ انسان کہاں ہے؟ انسان کی شناخت کیا ہے؟ کیا سارے انسان یکساں طور پر انسان ہیں؟ انسان اور غیر انسان میں فرق کیا ہے؟ وہ کونسی قوتیں ہیں جو انسان کی ازلی دشمن ہیں؟ کیا انسان دشمن قوتیں بھی انسانیت کے دائرے میں آتی ہیں؟ کیا یزیداورہٹلر ایسے ہی انسان ہیں جس طرح گاندھی اور ٹالسٹائی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مدح سرائی سردار جعفری، جاوید اختر اور بشیر بدر کرچکے ہیں۔ تو کیا انسانوں کو تقسیم کرنے اور لڑانے والی پارٹی ’فیل گوڈ‘ کے اشتہار کے بعد انسان نواز بن جاتی ہے۔ کیا سیاست کے دہرے چہرے کو حسبِ ضرورت تسلیم کرتے رہنا چاہیے؟

    ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی بنیاد پرست مذہبی تنظیم کے ساتھ وابستہ رہ کر، کوئی ادیب جمہوری اور سیکولر بھارت کے نام پر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کا مخالف ہو سکتا ہے؟ حیر ت ہوتی ہے اردو شاعر بنیا د پرست مسلم مذہبی تنظیموں کے اسٹیج سے مشاعرہ پڑھتا ہے اور دوسرے فرقہ پرستوں کو گالیاں بکتا ہے۔ کیا ادیب اور شاعر پر یہ لازم نہیں کہ وہ یہ طے کرے کے اس کا موقف کیا ہے۔ کیونکہ جو عالمی سیاسی منظر نامہ ہے اور برِصغیر میں قومیت کے نام پر اقلیتوں پر مظالم کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس فضا میں تخلیقی فنکار ’دونوں طرف‘ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اسے خود سے پوچھنا ہوگا کہ وہ کون ہے؟ اسے کن افراد کا فسانہ تحریر کرنا ہے؟ کس کے سینے کی جلن اس کے کرب میں اضافہ کرتی ہے؟

    یہ تو ممکن نہیں کہ آپ فسادات کی ہولناکی پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں اور خود بھی بنیاد پرست تنظیموں کے کارکن ہوں۔ کیا اردو کا ادیب منٹو، بیدی اور عصمت کی اخلاقیات کو فراموش کر چکا ہے؟ سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ کیا اردو معاشرے میں منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی کی انسان دوست غیر مذہبی اخلاقیات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے؟ کیا سبب ہے کہ اردو سماج میں سارا ڈسکورس ’علاماؤں‘ کی ملیّ اور مسلکی خدما ت کے ارد گر د گھوم کر وہیں پر دم توڑ دیتا ہے۔

    اس صورتِ حال میں ایک طرف وہ طبقہ ہے جو منافقین اور خوشامد پسند افراد پر مشتمل ہے جس کا ادب اور ادب کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جو صرف چند ہزار روپیوں، ایک عدد شال اور سپاس نامے کے لیے غیر اخلاقی حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔ میرا خیال ہے موجودہ ادبی صورتِ حال میں یہ طبقہ سب سے زیادہ قابلِ نفرت ہے۔ اس طبقے کا نہ ضمیر ہے نہ ادبی و سیاسی موقف۔ مفاد پرست افراد کا موقف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے اردو کی محفلوں میں یہ کبھی ٹخنوں تک پائجامہ چڑھائے، کبھی شراب کے نشے میں گم صم، کبھی نعت و حمد کی عطر پاشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے بدلتے ہوئے معاشی و سیاسی منظر نامے، ادبی صورت حال، زبان وبیان کے اسالیب اور مجموعی طور پر انسانی زندگی کے اسڑگل سے ان کا کوئی رشتہ نہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ ان موضوعا ت پر سنجیدہ گفتگو شر وع ہوتے ہی یہ لوگ کنی کاٹ لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ادب سے لاتعلق بھی نہیں رہتے بلکہ ادب کو داشتہ سمجھتے ہیں۔ جس کا سودا کرکے یہ اپنی دولت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے میر ی نفر ت کا بنیادی سبب یہی ہے۔

    اردو فکشن رائٹر کی تنہائی اور اس کے دل کی جلن کا ایک سبب اردو کا مزاج بھی ہے۔ جو درباروں، حویلیوں اور محلوں کی چارد یواروں میں پروان چڑھا اور ترقی پسندی کے دور کے خاتمے کے ساتھ ہی مدرسوں کی سیٹریوں پر سانس لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ پہلے مرحلے سے تو خیر کیا نقصان ہوتا۔۔۔۔ اس نے اردو کو مالا مال ہی کیا کہ یہ سارے مقامات مشترکہ کلچر کی آماجگاہ تھے۔ اسی سبب ’امرا ؤجان ادا‘ ہندوستان کی دوسری زبان میں لکھا نہیں جا سکا۔ لیکن دوسرا پڑاؤ جہاں اب اردو جا ٹھہر ی ہے وہ اردو کی کثیرالمشربی کے لیے خطرہ ہے کہ اب مدرسوں کی اخلاقیا ت اردو کی آزادی پسندی، رواداری، سیکولر کردار، اور تشکیک و بدمستی کو ہندؤں کے اثرات سمجھنے کی حماقت کررہی ہے۔

    دوسری جانب اردو کا مزاج بڑانازک ہے۔ زبان کی چاشنی میں لوگ ذات کی ویرانی کو فراموش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ گویا زبان افیم کا رول ادا کرنے لگ گئی ہے۔ یہ بھی فکشن رائٹر کی پریشانی کا ایک سبب ہے۔ اردو زبان کی جمالیات شاعری کی شعریات سے مستعار ہے۔ جبکہ فکشن کی جمالیات کا رشتہ زندگی کی جمالیات اور انسانی اقدار سے ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فکشن کی جمالیات انسانی جمالیا ت سے منسلک ہیں اسی لیے شاعری کی جمالیات سے ٹکرانے والا فکشن سامنے آتا ہے تو اسے رد و قبول کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جب سے اردو مدرسوں کی سیڑھیوں پر جا بیٹھی ہے طالبان کے تصورِ مذہب (جو مذہب کا بہت محدود تصور ہے) سے ذہنی ربط رکھنے والے افراد نے منٹو اور عصمت پر قدغن لگا نا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف اردو زبان کی جمالیات پر مذہب کا بھی خاصہ اثر رہاہے اس لیے ہر تحریر کو مذہبی اخلاقیات کے کئی ٹسٹ دینے پڑھتے ہیں۔ اسی سبب غالب، میر، یگانہ، منٹو، عصمت، رشید جہاں،، میراجی، ساراشگفتہ، فہمیدہ ریاض، افتخار نسیم اور سلام بن رزاق کو احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

    جس طرح پالاسٹک کی تھیلیوں نے ماحولیاتی آلودگی کو تیز کیا ہے اردو میں ادب کو مشاعرہ کلچر نے اسی طرح متاثر کیا ہے۔ مشاعرہ ایک ایسی وباء ثابت ہوا ہے جس کا شکار شاعروں کے علاوہ باقی سبھی ہوتے ہیں۔ انتہائی گھٹیاں سیاسی وابستگیاں اور نوٹنکی کا نمونہ عہدِ حاضر کے بیشتر مشاعرے پیش کرتے ہیں۔ (یقیناًبعض مشاعرے اس فلو کا حصہ نہیں ہیں) مشاعرہ کلچر تعلیم سے دور معاشرے میں ادب کا مترادف تصور کیا جانے لگا ہے۔ یہ بھی خسارے کی ایک علامت ہے۔ اس کا نقصان فکشن کو بھی ہوا ہے۔ لوگ باگ جو مشاعروں کی تفریح سے پرلطف ہونے کے عادی ہوئے ہیں ا گرفکشن کی نشستوں میں بھولے بھٹکے آجاتے ہیں تو ان کے سر پر آسمان گر جا تا ہے۔ ان کی تو قعات افسانہ نگار سے بھی سستی تفریح کی ہوتی ہیں۔ بیچارہ افسانہ نگار سماں باندھنے کی شاعرانہ مشق اور قوم کو اپنے شاندار ماضی کا حوالہ دینے کا عادی نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسے کہانی پڑھنے کے دوران رک رک کر فقرے کسنے کاہنر آتا ہے۔ چناچہ اس کی کہانی ختم ہونے تک سامع نہ صرف محفل سے اٹھ کر جاچکا ہوتا ہے بلکہ بعض دوبارہ اس طرح کی محفلوں میں نہ آنے کی قسمیں بھی کھا چکے ہوتے ہیں۔ یہ زوال کی نشانی ہے جس کا تعلق عام اردو سماج سے ہے جس کی بابت یہ کہنا عیب نہیں ہوگا کہ اردو معاشرہ بہت محدود ہوگیا۔ قرۃ العین حیدر نے ایک بار اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو کا کلچر سمٹ رہا ہے۔ اب یہ سمٹا ہوا معاشرہ ذوق سے محروم ہے۔ اس صورت حال میں تخلیقی متن سے لطف اندوز ہو نے والے افراد بھی بہت کم ہیں۔ افسوس کہ وہ لو گ بھی جو خود کو ادیب اور شاعر کہتے ہیں اور انگریزی میں کارڈ چھپواتے ہیں جس پر درج ہوتا ہے ’اردو پوئٹ یا اسٹوری رائٹر‘ ان میں بھی زیادہ تر کند ذہن اور کم صلاحیت لوگ ہیں۔ اب تو ایسے لوگ بھی نہیں ہیں جن سے اردو فکشن پر کچھ دیر گفتگو کی جائے۔ ان کا مطالعہ نہ صرف کمزور ہوتا ہے بلکہ ان کے سمپرک میں آنے والے افراد کے لیے نقصان دے بھی ہوتا ہے۔ وارث علوی نے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعدکی نسل کے بارے میں لکھا تھاکہ ’یہ نسل ناول اور افسانے پڑھنے والی نسل نہیں ہے۔ دراصل اس نسل نے پڑھنے والے نہیں لکھنے والے پید ا کیے ہیں۔ ہر آدمی ادیب یا شاعر بننا چاہتاہے۔ خراب لکھتا ہے اور خراب پڑھنے والے پیدا کرتا ہے۔ جو پھر خراب لکھنے والے بن کر خراب پڑھنے والے پید ا کرتے ہیں۔ آج ادب عبارت ہے اسی خانہ خرابی سے۔‘ (ناول بن جینا بھی کوئی جینا ہے ۹۲)

    آج صورت حال اس سے زیادہ خراب ہے۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں دس اچھے ناول بھی اردو میں لکھے نہیں گئے، حالانکہ ناول تو بہت لکھے گئے ہیں۔ لیکن خراب ناولوں پر مضامین کی بھرمار ہے، جو نقاد کے جعلی ہونے کی دستاویز ہوتے ہیں۔ اردو میں جو دوسرے درجے کے نقاد ہیں وہ اتفاق سے ’لیکھ راج‘ اور’ڈاکٹر‘ کہلاتے ہیں۔ ان کے سرٹیفیکٹس نما مضامین ادب کو مزید زوال کی طرف د ھکیل رہے ہیں۔ ان کی ناول کی سمجھ اتنی ہی ہوتی ہے جتنی چار سال کے کسی معصوم بچے کی معلومات اس کی والدہ کے دوبارہ حاملہ ہونے کے بارے میں ہوتی ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی فکشن کی تنقید کرنے لگے ہیں جو ناول میں آج بھی جزئیات، کردار نگاری اور معاشرے کے بیان کے پرانے نظام کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ یک کرداری، وجودیاتی کرائسس اور تکنیک کے نئے پن کو سمجھنے سے محروم ہیں۔ حالانکہ اپنے مضامین کو مزّین کرنے کے سارے گر ان کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ یک رخی رویہ ہے جس سے تنقید کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی نقصان ہوتا ہے۔

    اردو فکشن رائٹر کی تنہائی میں جو باتیں اضافہ کرتی ہیں ان میں آخری بات فکشن کے قاری کافقدان ہے۔ اردو تعلیمی نظام اس قدر بانجھ ہو گیاہے کہ وہ ایسے افراد بھی پیدا نہیں کرپا رہا ہے جو آنگن، آگ کادریا، اداس نسلیں، علی پور کا ایلی، خدا کی بستی، ایسی بلندی ایسی پستی، ٹیڑھی لکیر، بستی، چراغِ تہہ داماں، بہاؤ، اور فائرایریا میں بیان کی گئی دنیا سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں۔ اب یونی ورسٹی کی سطح پر بھی بہت کم طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو پریم چند، کرشن چندر اور منٹو کے علاوہ کسی نام سے واقف ہوں۔ لیکن وہ بھی یہ بتانے سے محروم ہوتے ہیں کہ ’پوس کی رات‘ کس کا افسانہ ہے۔ اس صورت حال میں میرے ذہن میں یہ سوال کروٹ لیتا ہے کہ لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ کس کے لیے لکھا جائے؟

    جواب مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں۔ یہ مایوسی کئی فکشن رائٹرز کو تنہائی کا شکار کئے ہے۔ ایسی تنہائی جس میں ذات اور شخصیت ایک باطنی کرب سے گرتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یا د رکھنا ہوگا کہ فکشن کا ایک کام مایوسی کے خلاف لڑنا بھی ہے، یا کم از کم اس سے پیدا ہونے والے احساسِ زیاں کو درج کرنا ہے۔ میں اپنے حصے کی مایوسی کو رقم کرنے کے لیے بھی لکھتاہوں جس سے میری تنہائی میں کمی در آتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے