محمد حسن عسکری کے مضامین
آدمی اور انسان
کوئی آٹھ سال ہوئے ہیں، میں نے ایک مضمون ’’انسان اور آدمی‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ آج اس مضمون کا دوسرا حصہ یا ضمیمہ لکھتے ہوئے نہ تو میں ان خیالات کی تردید کر رہا ہوں نہ انہیں دہرا رہا ہوں۔ اگر نئے تجربات کا تقاضا ہو تو میں اپنی رائے بڑی بے شرمی
اردو ادب کی روایت کیا ہے؟
ظاہری حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اب دنیا سے شعر و ادب کا چل چلاؤ ہے، عموماً لوگ اس کی توجیہ یوں کرتے رہتے ہیں کہ سائنس اور صنعت کاری کے مقابلہ میں ادب کا ٹھہرنا مشکل ہے، لیکن آج کل ہم یہ تماشا بھی دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں نوجوان
منٹو
(۱) منٹو مر گیا۔ وہ میرا دوست تھا، اس کے مرنے پر میں روؤں یا نہ روؤں، یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کے متعلق ماتمی مضمون لکھتے ہوئے میں پوری سنگدلی سے کام لوں گا۔ یعنی منٹو ہی کی روایت پر عمل کروں گا۔ گاندھی جی، قائد اعظم، اختر شیرانی۔۔۔ تین آدمیوں
ادب اور انقلاب
ادب اور انقلاب کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ ادب کو انقلاب کے کام میں معاون ہونا چاہئے، یا نہیں؟ اگر ہونا چاہئے تو کس حد تک؟ یہ سب سوال ایسے ہیں جن کا جواب سوچنے سے پہلے ہمیں انقلاب کے مفہوم کا تعین کرنا چاہئے کیونکہ عموماً جو لوگ انقلاب پسند ہوتے ہیں انہیں
روایت کیا ہے؟
باہر سے مکان کی ساخت اقلیدسی، ڈیوڑھی روکو کو Rococo انداز کی، دیوان خانے میں ملکہ این کے زمانے کا فرنیچر، نشست گاہ میں نئی اطالوی کرسیاں، کھانے کے کمرے میں بجلی سے برتن دھونے کے انتظام کے ساتھ ساتھ جاپانی طرز کا دسترخوان، سونے کے کمرے میں ریڈانڈین لوگوں
انسان اور آدمی
اس مضمون کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس پر کئی ہفتے صرف ہوئے ہیں۔ یہ وقت میں نے لکھنے میں نہیں لگایا، سوچنے میں بھی نہیں۔ اگرمجھ میں کسی نظریاتی موضوع پر اتنی دیر مسلسل اور متواتر سوچنے کی صلاحیت ہوتی تو بھی یہ امر مشکوک رہتا کہ اس قسم کی صلاحیت
فن برائے فن
بعض حضرات کو مجھ سے شکایت ہے کہ یہ اچھے خاصے علمی مضمون کو کرخنداروں کی زبان میں ادا کرکے مبتذل بنا دیتا ہے۔ خدا جانے ان بزرگوں کو میری ایک اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اور بنیادی ابتذال پسندی کا احساس ابھی تک کیوں نہیں ہوا۔ بڑے بڑے نظریوں اور مذاہب فکر
مزے دار شاعر
جرأت پر مضمون لکھنے میں اس انداز سے بیٹھا ہوں جیسے امتحان میں پرچہ کرنا ہو، بلکہ اپنا امتحان لینے کے لئے ہی میں نے یہ مضمون چھانٹا ہے۔ میں نقاد نہ سہی، مگر ایسے مضمون تو لکھتا ہی رہتا ہوں جن میں مختلف قسم کے لکھنے والوں پر اپنی راؤں یا اپنے تعصبات
مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی
انسانی تاریخ اور انسانی تفکر کی تاریخ میں مارکسیت کی جو حیثیت اور اہمیت ہے، وہ اتنی مسلم ہے کہ بار بار اس کا ذکر کرنا بھی تضیع اوقات ہے۔ تعصب کی دشواریاں حائل نہ ہوں تو یہ بات مان لینے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ مارکسیت نے انسانی زندگی کو سمجھنے کی
فسادات اور ہمارا ادب
۴۷ء کے فسادات مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا قومی حادثہ ہیں، جس کے اثرات ہم میں سے ہر آدمی کی زندگی پر پڑے ہیں، کسی کی زندگی پر کم کسی کی زندگی پر زیادہ مگر پڑ ے ضرور ہیں۔ غالبا ایسے واقعات دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ چونکہ بات اتنے قریب کی تھی
محاوروں کا مسئلہ
کم بخت ادب میں جہاں اور بیس مصیبتیں ہیں وہاں ایک جھگڑا یہ بھی ہے کہ اس کے ایک عنصر کو باقی عناصر سے الگ کر کے سمجھنا چاہیں تو بات آدھی پونی رہ جاتی ہے۔ یہاں وہ ڈاکٹروں والی بات نہیں چلتی کہ کوئی کان کے امراض کا ماہر ہے تو کوئی ناک کی بیماریوں کا،
منٹو فسادات پر
پچھلے دس سال میں نئےادب کی تحریک نے اردو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافے کئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر و بیشتر نئے افسانوں کی محرک تخلیق کی اندرونی لگن نہیں تھی بلکہ خارجی حالات اور واقعات، خواہ ان کا تعلق خود مصنف کی ذات سے
ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لئے تھے جنہیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہےاور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس
میر جی
میرے خیال میں ہرتنقیدی مضمون کا آغاز معافی کی درخواست سے ہونا چاہئے۔ معافی کی درخواست نہ سہی، ’’یاد دہانی سہی‘‘ اس ضرورت کی عمومیت کو دیکھتے ہوئے اگر پڑھنے والے ہر مضمون سے پہلے یہ تشبیب فرض کر لیا کریں تو غالباً بہت سے صدموں سے بچ جائیں۔ جائے پیدائش
استعارے کا خوف
انیسویں صدی میں جن لوگوں نے ہمارے ادب میں پیروی مغربی کی تحریک شروع کی انہوں نے خود کبھی مغربی ادب نہ پڑھا تھا۔ دوسروں سے ترجمہ کرا کے سنا تو ادب سے نہیں، چند خیالات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ چونکہ فاتح قوم کا رعب دل پر جما ہوا تھا اور ان کی ہر بات کو رشک
ہیئت یا نیرنگ نظر؟
’’پراسرار آدمی! ذرا یہ تو بتا کہ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتا ہے؟ اپنے باپ سے، ماں سے، بہن سے یا بھائی سے؟ میرا نہ تو کوئی باپ ہے نہ ماں، نہ بہن، نہ بھائی۔ اپنے دوستوں سے؟ یہ تو تم نے ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس کا میں آج تک مطلب نہیں سمجھا۔
ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟
اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے۔۔۔؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشترحصہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور
فنی تخلیق اور درد
ایزرا پاؤنڈ نے کہا ہے کہ نقاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہئیں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے۔ ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہونے چاہئیں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچ سکے نہ ادب کو۔ اسی قسم کا ایک سوال میں نے پچھلی دفعہ اٹھایا تھا،
کچھ فراق صاحب کے بارے میں
فراق صاحب نے اپنی کسی غزل میں کہا ہے، ’’حقیقتوں کے خزانے لٹا دیے میں نے‘‘ اس پر کسی صاحب نے اعتراض کیا کہ فراق صاحب ذرا بتائیں تو سہی کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں کون سی حقیقتوں کے خزانے لٹائے ہیں۔ خیر، یہ بات تو بعد میں دیکھیں گے فراق صاحب نے کیا
میر اور نئی غزل 1
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ہماری غزل پر غالب کے بجائے میر کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ محض تنوع پسندی نہیں ہے۔ اب ہمارے غزل گو نئی ذہنی اور روحانی ضرورتیں محسوس کر رہے ہیں جو غالب کی شاعری سے پوری نہیں ہوتیں۔ اب ان کے سامنے ایسے مسئلے ہیں جنہیں
میر اور نئی غزل 2
ابھی دو ایک مہینے ہوئے، میں نے ذکر کیا تھا کہ پچھلے دو تین سال کے عرصہ میں غزل پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مقبول ہو گئی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے شاعروں کی ذہنی عادتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں واقع ہوئی، نہ ان کے تجربات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے،
بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
کوئی پچھلے سو سال سے یعنی جب سے اردو اور ہندی کا جھگڑا شروع ہوا ہے، یہ سوال وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ہم اپنا رسم الخط برقرار رکھیں یا لاطینی رسم الخط اختیار کر لیں۔ اس مسئلے پر ایک توعملی نقطہ نظر سے بحث ہوئی ہے اور دوسرے علمی
ستارہ یا بادبان
فرانس میں ایک بڈھے کرنل صاحب تھے جنہیں کچھ لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ عمر سپاہیوں کو لیفٹ رائٹ کراتے گزری تھی۔ فوج سے الگ ہوئے تو ادیبوں کو پریڈ کرانے کی سوجھی۔ چنانچہ ایک ادبی رسالہ نکال بیٹھ گئے اور ادیبوں کو
تاریخی شعور
ادبی جمود کے اسباب سیاسی بھی ہوسکتے ہیں، معاشی بھی۔ مگر من جملہ اور باتوں کے ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اہل فکر سے جو مطالبات زمانہ کر رہا ہے وہ ان کے لیے بڑے غیرمتوقع ہیں، چنانچہ وہ شش و پنج میں پڑگئے ہیں۔ ہر طرف سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک نئی قسم