شفیقہ فرحت کے طنز و مزاح
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
اس گردش ِ ایام نےکسی اورکو بگاڑا ہو یا نہ بگاڑا ہو مگرعشق کوعرش سےفرش پروہ پٹخنی دی ہےکہ اگراس دورمیں آنسوؤں پراتنا شدید پہرہ نہ ہوتا تو یقیناً اس کی بے کسی پررونا آجاتا۔ یوں دہائی دیتےتو پھربھی لوگ نظر آ ہی جاتے ہیں، پھرتے ہیں دشت دشت دوانے کدھر
حضرت آلو
سادگی ہائے تمنا یعنی پھروہ آلوئےبےرنگ یاد آیا اور کیوں نہ آئے۔ آلو تو سبزیوں اور زردیوں کا غالب اور اقبال ہے۔کھیت سے لے کر Cold Storage تک، اور ٹھیلے سے لے کر کھانے کی میز تک۔ یا اس تیہری ان ون جھلنگا چارپائی تک جو بیک وقت آپ کے ڈرائنگ روم
ذرا دھوم سے نکلے
اب تک یہی سنتےچلےآئےہیں کہ ’’شامتِ اعمالِ ما صورتِ غالب گرفت‘‘ وہ بزم ہو یا تنہائی۔۔۔ کلاس روم ہویاامتحان کا پرچہ،یا کوئی انٹرویو بورڈ،غالب نے ہرباہوش کو بےہوش بنا رکھا تھا۔ ایک سےایک نامورادبی پہلوان میدان میں آئےاورغالب کےایک شعر نےوہ چومکھی گُھمائی