Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Tauseef Bareilvi's Photo'

توصیف بریلوی

1991 | بریلی, انڈیا

اردو کے نوجوان افسانہ نگاروں میں شامل، ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

اردو کے نوجوان افسانہ نگاروں میں شامل، ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

توصیف بریلوی کا تعارف

اصلی نام : محمد توصیف خان

پیدائش : 01 Aug 1991 | بریلی, اتر پردیش

توصیف بریلوی کا نام اردو ادب میں زیادہ پرانا نہیں ہے بلکہ 2010 کے بعد اردو افسانے کی دہلیز پر جن ہوشمند اور پڑھے لکھے نوجوانوں نے کامیاب صدا دی، ان میں توصیف بریلوی کا نام اہمیت رکھتا ہے۔ یوں تو وہ کم عمری سے ہی افسانے لکھ رہے تھے لیکن سنجیدگی کے ساتھ انہیں بہتر ماحول اور ادبی فہم 2015 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ میں داخلہ لینے کے بعد ملا۔ مسلم یونیورسٹی میں انہیں ان کے سپروائزر اور اردو ادب کے معروف نقاد پروفیسر مولا بخش، 1970 کے بعد کے اردو افسانہ نگاروں میں نمایاں نام پروفیسر طارق چھتاری، اور اردو کی نئی نسل کے ممتاز شاعر اور نقاد ڈاکٹر مؤید رشیدی صاحب کی قربت حاصل ہوئی، جس کا اثر ان کی افسانہ نگاری پر گہری حد تک پڑا۔
علی گڑھ میں پی ایچ ڈی کے دوران توصیف بریلوی نے عظیم ہندوستانی سماجی مصلح، مفکر، اور تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے والے ماہر تعلیم سر سید احمد خان پر اپنی ادارت میں ایک کتاب "نظرِ سر سید" کے نام سے شائع کی اور مہاجر ہندی ادب کی مشہور شاعرہ، کہانی نویس، اور ناول نگار پُشپتا اوستھی کے کہانی مجموعے "گوکھرو" کا اردو ترجمہ بھی "گوکھرو" کے ہی نام سے کیا۔ 2020 میں توصیف بریلوی کا پہلا افسانوی مجموعہ "ذہن زاد" شائع ہوا، جس کی اردو کے ادبی حلقوں میں خوب چرچا ہوئی۔
توصیف بریلوی کے افسانے 21ویں صدی کے فرد کی ان خوفناک حقیقتوں کا جاندار اور صحیح بیان ہیں جن میں وہ بری طرح سے پھنس چکا ہے۔ کہیں وہ اپنے ہی مذہب کے فرقہ وارانہ اختلافات سے لڑتا ہے، تو کہیں وہ بے بسی کے عالم میں اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدیدیت، اور مغربی ثقافت کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اپنے دور کے نوجوانوں کی بے مقصد اور غیر اخلاقی خواہشات کی تکمیل کی دیوانگی دیکھتا ہے۔ کہیں وہ شہوانیت میں غرق ہو کر اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے، اور کہیں دولت کے حصول کی دوڑ میں ایسا الجھتا ہے کہ آخرکار موت کو پہنچ جاتا ہے یا مادی آسائش اور خوشحالی کی ہوس میں رشتوں کو بھول جانے کی عادت کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔
کچھ افسانوں میں مرد اور عورت کی ازدواجی زندگی کا موجودہ حالات اور عہد کے مسائل کے حوالے سے نفسیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ کہیں محبت اور جنسی تعلقات کو لے کر رشتے کی پائیداری اور اس کے لیے اعتماد اور خوشی کی ضرورت کے داخلی اور خارجی حقائق کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تو کہیں فرد کی زندگی میں محبت اور اس کی ناکامی کے پیچھے چھپے اسباب جیسے کسی خاندان کی سماجی حیثیت برقرار رکھنے کا جذبہ یا محبت کو دولت کے دباؤ میں کچل دینے جیسے نکات پر کھل کر احتجاج کیا گیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان افسانوں میں حیاتیاتی تنقید کے عناصر بھی موجود ہیں، جو کہانی کے ساتھ ہی اپنی موجودگی درج کراتے ہیں۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے