فاروق نازکی کے اشعار
اب فقیری میں کوئی بات نہیں
حشمت و جاہ و کرّ و فر دے دے
سنگ پرستوں کی بستی میں شیشہ گروں کی خیر نہیں ہے
جن کی آنکھیں نور سے خالی ان کے دل ہیں آہن آہن
مجھ سے کیا پوچھتے ہو نام پتہ
میں تو بس آپ کا ہی سایہ ہوں
تو خدا ہے تو بجا مجھ کو ڈراتا کیوں ہے
جا مبارک ہو تجھے تیرے کرم کا سایہ
بہکی ہوئی روحوں کو تسلی دے کر
کھوئے ہوئے اجسام کی جنت ہو جا
ستارے بوتی رہیں نیند سے تہی آنکھیں
ادھر یہ حال کہ دامن بھی تر نہیں ہوتا
جب کوئی نوجوان مرتا ہے
آرزو کا جہان مرتا ہے
جنوں آثار موسم کا پتہ کوئی نہیں دے گا
تجھے اے دشت تنہائی صدا کوئی نہیں دے گا
میں ہوں مضطرؔ بدن کی نگری میں
میرے حصے میں لا مکاں لکھنا
بھٹک نہ جاتا اگر ذات کے بیاباں میں
تو میرا نقش قدم میرا راہبر ہوتا
قدروں کی حدیں توڑ نئی طرح نکال
دم تجھ میں اگر ہے تو باغی ہو جا
حصار خوف و ہراس میں ہے بتان وھم و گماں کی بستی
مجھے خبر ہی نہیں کہ اب میں جنوب میں یا شمال میں ہوں
کانچ کے الفاظ کاغذ پر نہ رکھ
سنگ معنی بن کے ٹکراؤں گا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سنا ہے لوگ وہاں مجھ سے خار کھاتے ہیں
فسانہ عام جہاں میری بے بسی کا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ