سردار گنڈا سنگھ مشرقی کے اشعار
عاشق مزاج رہتے ہیں ہر وقت تاک میں
سینہ کو اس طرح سے ابھارا نہ کیجیے
کھولا دروازہ سمجھ کر مجھ کو غیر
کھا گئے دھوکا مری آواز سے
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
جو منہ سے کہتے ہیں کچھ اور کرتے ہیں کچھ اور
وہی زمانہ میں کچھ اختیار رکھتے ہیں
شیخ چل تو شراب خانے میں
میں تجھے آدمی بنا دوں گا
ترا آنا مرے گھر ہو گیا گھر غیر کے جانا
مجھے معلوم تھی اس خواب کی تعبیر پہلے سے
پیتے ہیں جو شراب مسجد میں
ایسے لوگوں کو پارسا کہیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم جاؤ رقیبوں کا کرو کوئی مداوا
ہم آپ بھگت لیں گے کہ جو ہم پہ بنی ہے
چاہنے والوں کو چاہا چاہئے
جو نہ چاہے پھر اسے کیا چاہئے
گو ہم شراب پیتے ہمیشہ ہیں دے کے نقد
لیکن مزا کچھ اور ہی پایا ادھار میں
ڈرائے گی ہمیں کیا ہجر کی اندھیری رات
کہ شمع بیٹھے ہیں پہلے ہی ہم بجھائے ہوئے
زاہد مری سمجھ میں تو دونوں گناہ ہیں
تو بت شکن ہوا جو میں توبہ شکن ہوا
کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں
آنکھیں سفید ہو گئیں اس انتظار میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بھول کر لے گیا سوئے منزل
ایسے رہزن کو رہنما کہیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ چلو مجھ سے تم رقیبو چال
انگلیوں پر تمہیں نچا دوں گا
ایک تیر نظر ادھر مارو
دل ترستا ہے جاں ترستی ہے
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب بوسہ لے کے مدعا میں نے بیاں کیا
بولے زیادہ پاؤں پسارا نہ کیجیے
ایک مدت میں بڑھایا تو نے ربط
اب گھٹانا تھوڑا تھوڑا چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لٹکتے دیکھا سینہ پر جو تیرے تار گیسو کو
اسے دیوانے وحشت میں ترا بند قبا سمجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زاہد نماز بھولا ادھر دیکھ کر تجھے
برہم بتوں سے اپنے ادھر برہمن ہوا
دھر کے ہاتھ اپنا جگر پر میں وہیں بیٹھ گیا
جب اٹھے ہاتھ وہ کل رکھ کے کمر پر اپنا
آگے میرے نہ تیکھی مار اے شیخ
رات کا ماجرا سنا دوں گا
اے شیخ اپنا جبۂ اقدس سنبھالیے
مست آ رہے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
گریباں ہم نے دکھلایا انہوں نے زلف دکھلائی
ہمارا سمجھے وہ مطلب ہم ان کا مدعا سمجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس سے دوں تشبیہ میں زلف مسلسل کو تری
فکر ہے کوتاہ اور مضموں بہت ہے دور کا
کعبہ کو اگر مانیں کہ اللہ کا گھر ہے
بت خانہ میں بھی شیخ نہیں کوئی مکیں اور
مزہ دیکھا کسی کو اے پری رو منہ لگانے کا
اب آئینہ بھی کہتا ہے کہ میں مد مقابل ہوں
ہیں وہی انساں اٹھاتے رنج جو ہوتے ہی کج
ٹیڑھی ہو کر ڈوبتی ہے ناؤ اکثر آب میں
خیال ناف میں زلفوں نے مشکیں باندھ دیں میری
شناور کس طرح گرداب سے بے دست و پا نکلے
اے شیخ یہ جو مانیں کعبہ خدا کا گھر ہے
بت خانہ میں بتا تو پھر کون جلوہ گر ہے