Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

سردار گنڈا سنگھ مشرقی

1857 - 1909

سردار گنڈا سنگھ مشرقی کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

عاشق مزاج رہتے ہیں ہر وقت تاک میں

سینہ کو اس طرح سے ابھارا نہ کیجیے

کھولا دروازہ سمجھ کر مجھ کو غیر

کھا گئے دھوکا مری آواز سے

پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا

کوئی پیغام زبانی اور ہے

جو منہ سے کہتے ہیں کچھ اور کرتے ہیں کچھ اور

وہی زمانہ میں کچھ اختیار رکھتے ہیں

شیخ چل تو شراب خانے میں

میں تجھے آدمی بنا دوں گا

ترا آنا مرے گھر ہو گیا گھر غیر کے جانا

مجھے معلوم تھی اس خواب کی تعبیر پہلے سے

پیتے ہیں جو شراب مسجد میں

ایسے لوگوں کو پارسا کہیے

تم جاؤ رقیبوں کا کرو کوئی مداوا

ہم آپ بھگت لیں گے کہ جو ہم پہ بنی ہے

چاہنے والوں کو چاہا چاہئے

جو نہ چاہے پھر اسے کیا چاہئے

گو ہم شراب پیتے ہمیشہ ہیں دے کے نقد

لیکن مزا کچھ اور ہی پایا ادھار میں

ڈرائے گی ہمیں کیا ہجر کی اندھیری رات

کہ شمع بیٹھے ہیں پہلے ہی ہم بجھائے ہوئے

زاہد مری سمجھ میں تو دونوں گناہ ہیں

تو بت شکن ہوا جو میں توبہ شکن ہوا

کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں

آنکھیں سفید ہو گئیں اس انتظار میں

بھول کر لے گیا سوئے منزل

ایسے رہزن کو رہنما کہیے

نہ چلو مجھ سے تم رقیبو چال

انگلیوں پر تمہیں نچا دوں گا

ایک تیر نظر ادھر مارو

دل ترستا ہے جاں ترستی ہے

جب بوسہ لے کے مدعا میں نے بیاں کیا

بولے زیادہ پاؤں پسارا نہ کیجیے

ایک مدت میں بڑھایا تو نے ربط

اب گھٹانا تھوڑا تھوڑا چاہئے

لٹکتے دیکھا سینہ پر جو تیرے تار گیسو کو

اسے دیوانے وحشت میں ترا بند قبا سمجھے

زاہد نماز بھولا ادھر دیکھ کر تجھے

برہم بتوں سے اپنے ادھر برہمن ہوا

دھر کے ہاتھ اپنا جگر پر میں وہیں بیٹھ گیا

جب اٹھے ہاتھ وہ کل رکھ کے کمر پر اپنا

آگے میرے نہ تیکھی مار اے شیخ

رات کا ماجرا سنا دوں گا

اے شیخ اپنا جبۂ اقدس سنبھالیے

مست آ رہے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

گریباں ہم نے دکھلایا انہوں نے زلف دکھلائی

ہمارا سمجھے وہ مطلب ہم ان کا مدعا سمجھے

کس سے دوں تشبیہ میں زلف مسلسل کو تری

فکر ہے کوتاہ اور مضموں بہت ہے دور کا

کعبہ کو اگر مانیں کہ اللہ کا گھر ہے

بت خانہ میں بھی شیخ نہیں کوئی مکیں اور

مزہ دیکھا کسی کو اے پری رو منہ لگانے کا

اب آئینہ بھی کہتا ہے کہ میں مد مقابل ہوں

ہیں وہی انساں اٹھاتے رنج جو ہوتے ہی کج

ٹیڑھی ہو کر ڈوبتی ہے ناؤ اکثر آب میں

خیال ناف میں زلفوں نے مشکیں باندھ دیں میری

شناور کس طرح گرداب سے بے دست و پا نکلے

اے شیخ یہ جو مانیں کعبہ خدا کا گھر ہے

بت خانہ میں بتا تو پھر کون جلوہ گر ہے

Recitation

بولیے