شمیم کرہانی کا تعارف
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے
شمیم کرہانی کا نام ترقی پسند شاعروں میں بہت نمایاں ہے ۔ ان کی پیدائش 1913 کو کرہان ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام شمس الدین حیدر تھا ، شمیم تخلص کرتے تھے ۔ شمیم کرہانی مشہور ترقی پسند افسانہ نگار علی عباس حسینی کے بھانجے تھے ۔ شمیم کرہانی کی تعلیم وتربیت اعظم گڑھ میں ہی ہوئی کچھ عرصے تک اعظم گڑھ کے مقامی اسکول میں معلمی کے فرائض انجام دئے ۔ اسی دوران فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد انہوں نے فلموں کیلئے گیت بھی لکھے لیکن یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہو گیا اور وہ واپس اعظم گڑھ آگئے ۔ 1950 میں وہ اینگلو عربک ہائر سیکنڈری اسکول (دہلی) میں فارسی کے استاد مقرر کئے گئے اور آخر تک اسی اسکول سے وابستہ رہے ۔
شمیم کرہانی کا پہلا شعری مجموعہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے 1939 میں ’’ برق وباراں ‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ شمیم کرہانی نے زیادہ تر توجہ نظموں پر دی ، ان کی نظموں میں حب الوطنی کے ایک شدید جذبے کے ساتھ انقلابی تیوربھی پائے جاتے ہیں ۔ ان کی غزلوں میں بھی یہ خاص رنگ جھلکتا ہے ۔ مہاتما گاندھی کی شہادت سے متأثر ہوکر لکھی گئی ان کی نظم ’’ جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے ‘‘ بہت مشہور ہوئی ۔
شاعری کے علاوہ انہوں نے ہندی ناولوں کے اردو ترجمے بھی کئے اور بچوں کیلئے انگریزی نظموں کو اردو روپ عطا کیا ۔