aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : مرزا غالب

ایڈیٹر : خلیق انجم

ناشر : غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی

سن اشاعت : 2006

زبان : Urdu

موضوعات : خطوط

صفحات : 492

معاون : غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی

غالب کے خطوط

کتاب: تعارف

زیر نظر کتاب "غالب کے خطوط" ہیں۔ جن کو خلیق انجم نے چار جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ یہ ممکنہ حد تک خطوط غالب کا ایک مکمل مجموعہ ہے۔ ویسے تو غالب کے خطوط ۱۸۶۹ سے لیکر اب تک کسی نہ کسی صورت میں شائع ہوتے رہے تھے لیکن اس اہتمام اور سائنٹفک انداز میں خطوط غالب کا تنقیدی اور تحقیقی ایڈیشن پہلی بار مرتب کیا گیا ہے۔ ایک ایسا ایڈیشن جو جدید اصول تدوین کی شرطوں پر کھرا اترتا ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اردو میں پہلی باقاعدہ "متنی تنقید" کے مصنف خلیق انجم ہی ہیں، جس میں ترتیب متن کے طریقہ کار سے بحث کی گئی ہے اور غالب کے خطوط میں گویا متنی تنقید کے اصولوں کا عملی روپ پیش کیا گیا ہے۔ مرتب کو اگر خطوط کی اصل غالب کے قلم کی لکھی ہوئی مل گئی تو اس سے مطبوعہ خطوط کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ متن کے ماخذ کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اختلاف نسخ درج کئے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں خطوط کا زمانہ تحریر متعین کیا گیا ہے۔ ان خطوط پر مفید اور قیمتی حواشی سپرد قلم کئے گئے ہیں۔ پہلی جلد میں جو مقدمہ ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس میں خطوط سے متعلق باریک سے باریک معلومات جو ممکن ہوسکتی تھی، ذکر کردی گئی ہے۔ بلکہ پہلی جلد کا بیشتر حصہ غالب کے خطوط، اور اس کی نثر سے متعلق جملہ معلومات پر ہی مشتمل ہے۔ اس جلد کا کچھ حصہ اور بقیہ تین جلدوں میں خطوط ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پانچویں جلد بھی ہے جو ان چاروں جلدوں کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی ہے جسے ایک قسم کا ضمیمہ یا اشاریہ کہا جا سکتا ہے۔ جس میں غالب کے تمام اردو خطوط کی تاریخ وار فہرست مرتب کی گئی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

غالب ؔ کی اولین خصوصیت طرفگئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات ، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو ۔میرؔ کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کردینے سے گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے ۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام عمن اور اثر کے ساتھ ادا کرسکے ۔ اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے اور شدت احساس کے وہ سپردگی اور بے چارگی نہیں ہے یہ شدت اور کرب کو محض بیان کردینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پاجاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بے حسی یا بے پروائی پیدا کرلیتے ہیں ۔ اگر میرؔ نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ۔ مزا جو ں میں یاس آگئی ہے ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی تو غالب ؔ اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالبؔ کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے ۔ باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہئے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق تفکر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔(الخ) اور اسی لیے اس شب و روز کے تماشے کو محض بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے ۔ دین و دنیا، جنت و دوزخ ، دیر و حرم سب کو وہ داماندگئ شوق کی پناہیں سمجھتے ہیں۔(الخ) جذبات اور احساسات کے ساتھ ایسے فلسفیانہ بے ہمہ دبا ہمہ تعلقات رکھنے کے باعث ہی غالبؔ اپنی شدت احساس پر قابو پاسکے اور اسی واسطے طرفگئی ادا کے فن میں کامیاب ہوسکے اور میرؔ کی یک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگ رنگ کھلا سکے۔ ’’لوح سے تمت تک سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یاخوابیدہ موجود نہیں۔‘‘ لیکن غالبؔ کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔ اول اول تو بیدلؔ کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کیامیابی نہ ہوئی سخیوں کہ اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی مجبوراً انہیں اپنے جوش تخیئل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پر لانا پڑا۔ صائبؔ کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری میرؔ کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفیؔ و نظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدلؔ کا سا اغلاق تھا نہ میرؔ کی سی سادگی ۔ اسی لیے اسی متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا ۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالبؔ نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیئل کی باریک تر مضامین کی طرف رہ نمائی کی گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومنؔ کے ) کس نے نہیں برتا تھا ۔ اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں ایک طرفہ لذت نظر آئی ۔ ولیؔ ، میرؔ و سوداؔ سے لے کر اب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالبؔ نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہ نمائی میں اس پر لطف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام و دہن کے ناز تر پہلو نکل آئے ۔ غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر ہندوستان کی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلاً جوش کے موقع پر فارسی کا استعمال اور درد و غم کے موقع پر میرؔ کی سی سادگی کا ) بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب ؔ کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے