Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

مرثیہ نگاری کی طویل فہرست میں انیس و دبیر کے نام سر فہرست آتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انیس کے مرثیے میں جزئیات نگاری اور تصویر کشی کا رجحان غالب ہے جبکہ انیس کے یہاں منظر نگاری، جذبات نگاری ، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کا کمال بدرجہ اتم ہے۔ کتاب میں انیس کے آٹھ اور دبیر کے پانچ مرثیوں کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ مرثیوں کے انتخاب میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ دونوں حضرات کے نمائندہ کلام کو پیش کیا جائے جس سے دونوں کی خصوصیات پوری طرح سامنے آسکیں۔ اس مجموعے کے مطالعہ سے قاری کو انیس و دبیر کے مراثی کی خوبیوں سے شناسائی ملے گی۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف


مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔
مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑہنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔انہوں نے دہلی سے لکھنّو کی طرف ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔
مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مرزا دبیر کے والد صاحب کے نام کے حوالے سے دو نام ملتے ہیں۔ ایک ’’غلام حسین‘‘ دوسرا ’’مرزا ٓغاجان کاغذ فروش‘‘۔ مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں وہیں پر دفن کیا گیا۔

ادبی خدمات:
انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا جس کا پہلا شعر تھا:
’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘
اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘

آپ کے چند مشہور مرثیے:
1۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
2۔ دست ِخدا کا قوتِ بازو حسینؑ ہیں۔
3۔ جب چلے یثرب سے ثبت مصطفٰےؐؐ سوئے عراق۔
4۔ بلقیس پاسبان ہے، یہ کس کی جناب ہے۔
5۔ پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔
اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔

مرزا دبیر اور میر انیس کا تقابل
اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے کام پر جو کتابیں لکھیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ موازنہِ انیس و دبیر (مولانا شبلی نعمانی)
2۔ انیس و دبیر (ڈاکٹر گوپی چند نارنگ)
3۔ مجتہد نظم مرزا دبیر (ڈاکٹر سیّد تقی عابدی)
4۔ مرزا سلامت علی دبیر (ایلڈر ۔اے۔مینیو)(انگریزی میں)

اردو ادب کے شعراء کو سلام
انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبو اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔
اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے انکشاف کیا کہ اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔ انہوں نے بتایا نذیر اکبر آبادی نے 8500 الفاظ استعمال کیے مرزا دبیر نے 120,000 جبکہ میر انیس نے 86000 الفاظ استعمال کیے۔

نذرانہ عقیدت
3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبے انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔

وفات
مولانا محمد حسین آذاد کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ کے مطابق مرزا دبیر کا انتقال 29 محرم 1292 ہجری بطابق (1875-76ء) میں ہوا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی۔

ورثہ دبیر
مرزا دبیر اور میر انیس نے اردو ادب پر، خاص طور پر مرثیہ نگاری کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے مرثیہ نگاری میں بہترین اسلوب اور اصنا ف متعارف کرائیںاور الفاظ کا بہترین چناؤ اور استعمال کیا۔
مرزا دبیر اور میر انیس نے مرثیہ نگاری کو جو پہچان دی وہ صرف انہیں سے منصوب رہے گی۔ ان کی مرثیہ نگاری نے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے پر بہت ذیادہ مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا نے ہمیشہ سر فہرست لکھا جائے گا۔


.....مزید پڑھئے

میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے رثائی شاعری کو جس مرتبہ تک پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔ 

میر ببر علی انیس 1803 میں فیض آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد میر مستحسن خلیق خود بھی مرثیہ کے ایک بڑے اور نامور شاعر تھے۔ انیس کے پر دادا ضاحک اور دادا میر حسن(مصنف مثنوی سحر البیان)تھے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس خاندان کے شاعروں نے غزل سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالی اور جس صنف کو ہاتھ لگایا اسے کمال تک پہنچا دیا۔ میر حسن مثنوی میں تو انیس مرثیہ میں اردو کے سب سے بڑے شاعر قرار دئے جا سکتے ہیں۔ 

شاعروں کے گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے انیس کی طبیعت بچپن سے ہی موزوں تھی اور چار پانچ برس کی ہی عمر میں کھیل کھیل میں ان کی زبان سے موزوں شعر نکل جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں ہی حاصل کی۔ مروجہ تعلیم کے علاوہ انہوں نے سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ ان کا شمار علماء کی صف میں نہیں ہوتا ہے تاہم ان کی علمی معلومات کا سب کو اعتراف ہے۔ ایک بار انہوں نے سر منبر علم ہیئت کی روشنی میں سورج کے گرد زمین کی گردش کو ثابت کر دیا تھا۔ ان کو عربی اور فارسی کے علاوہ بھاشا(ہندی) سے بھی بہت دلچسپی تھی اور تلسی و ملک محمد جائسی کے کلام سے بخوبی واقف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکپن میں خود کو ہندو ظاہر کرتے ہوئے ایک برہمن عالم سے ہندوستان کے مذہبی صحیفے سمجھنے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب پاس پڑوس میں کسی کی موت ہو جاتی تھی تو وہ اس گھر کی خواتین کی نالہ و زاری اور اظہار غم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے جایا کرتے تھے۔ یہ مشاہدات آگے چل کر ان کی مرثیہ نگاری میں بہت کام آئے۔ 

انیس نے بہت کم عمری میں ہی باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی۔ جب ان کی عمر نو برس تھی انہوں نے ایک سلام کہا۔ ڈرتے ڈرتے باپ کو دکھایا۔ باپ خوش تو بہت ہوئے لیکن کہا کہ تمہاری عمر ابھی تحصیل علم کی ہے۔ ادھر توجہ نہ کرو۔ فیض آباد میں جو مشاعرے ہوتے، ان سب کی طرح پر وہ غزل لکھتے لیکن پڑھتے نہیں تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں والد نے اس وقت کے استاد شیخ امام بخش ناسخ کی شاگردی میں دے دیا۔ ناسخ نے جب ان کے شعر دیکھے تو دنگ رہ گئے کہ اس کم عمری میں لڑکا اتنے استادانہ شعر کہتا ہے۔ انہوں نے انیس کے کلام پر کسی طرح کی اصلاح کو غیر ضروری سمجھا، البتہ ان کا تخلص جو پہلے حزیں تھا بدل کر انیس کر دیا۔ انیس نے جو غزلیں ناسخ کو دکھائی تھیں ان میں ایک شعر یہ تھا۔

سبب ہم پر کھلا اس شوخ کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

تیرہ چودہ برس کی عمر میں انیس نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں گھر کی زنانہ مجلس کے لئے ایک مسدس لکھا۔ اس کے بعد وہ رثائی شاعری میں تیزی سے قدم بڑھانے لگے اس میں ان کی محنت اور ریاضت کا بڑا ہاتھ تھا۔ کبھی کبھی وہ خود کو کوٹھری میں بند کر لیتے، کھانا پینا تک موقوف کر دیتے اور تبھی باہر نکلتے جب حسب منشاء مرثیہ مکمل ہو جاتا۔ خود کہا کرتے تھے، "مرثیہ کہنے میں کلیجہ خون ہو کر بہہ جاتا ہے۔" جب میر خلیق کو، جو اس وقت تک لکھنؤ کے بڑے اور اہم مرثیہ نگاروں میں تھے، پورا اطمینان ہو گیا کہ انیس ان کی جگہ لینے کے قابل ہو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو لکھنؤ کے باذوق اور نکتہ رس سامعین کے سامنے پیش کیا اور میر انیس کی شہرت پھیلنی شروع ہو گئی۔ انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ محمد حسین آزاد کہتے ہیں کہ انیس قد آدم آئینہ کے سامنے، تنہائی میں گھنٹوں مرثیہ خوانی کی مشق کرتے۔ وضع، حرکات و سکنات اور بات بات کو دیکھتے اور اس موزونی اور نا موزونی کی خود اصلاح کرتے۔ کہا جاتا کہ سر پر صحیح طریقہ سے ٹوپی رکھنے میں ہی کبھی کبھی ایک گھنٹہ لگا دیتے تھے۔

اودھ کے آخری نوابوں غازی الدین حیدر، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے زمانہ میں انیس نے مرثیہ گوئی میں بے پناہ شہرت حاصل کر لی تھی۔ ان سے پہلے دبیر بھی مرثئے کہتے تھے لیکن وہ مرثیہ خوانی کو کسی فن کی طرح برتنے کی بجائے سیدھا سادہ پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور ان کی شہرت ان کے کلام کی وجہ سے تھی جبکہ انیس نے مرثیہ خوانی میں کمال پیدا کر لیا تھا۔ آگے چل کر مرثیہ کے ان دونوں استادوں کے الگ الگ مداح پیدا ہو گئے۔ ایک گروہ انیسیا اور دوسرا دبیریا کہلاتا تھا۔ دونوں گروپ اپنے اپنے ممدوح کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے اور دوسرے کا مذاق اڑاتے۔ انیس اور دبیر ایک ساتھ کسی مجلس میں مرثیہ نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک بار شاہی گھرانے کے اصرار پر دونوں ایک مجلس میں یکجا ہوئے اور اس میں بھی انیس نے یہ کہہ کر کہ وہ اپنا مرثیہ لانا بھول گئے ہیں، اپنے مرثئے کی بجائے اپنے بھائی مونس کا لکھا ہوا حضرت علی کی شان میں ایک سلام صرف ایک مطلع کے اضافہ کے ساتھ پڑھ دیا اور منبر سے اتر آئے۔ مونس کے سلام میں انہوں نے جس فی البدیہ مطلع کا اضافہ کر دیا تھا وہ تھا۔ 

غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر

یہ در اصل دبیر پر چوٹ تھی جنہوں نے حسب روایت مرثیہ سے قبل بادشاہ کی شان میں ایک رباعی پڑھی تھی۔ اس کے باجود عمومی طور پر انیس اور دبیر کے تعلقات خوشگوار تھےاور دونوں ایک دوسرے کے کمال کی قدر کرتے تھے۔ دبیر بہت منکسر المزاج اور صلح کل انسان تھے جبکہ انیس کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کی پیچیدہ شخصیت اور نازک مزاجی کے واقعات اور ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی نے انہیں ایک افسانوی شہرت دے دی تھی اور ان کا شمار لکھنؤ کے ممتاز ترین شہریوں میں ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں انیس کی شہرت کا یہ حال تھا کہ صاحب اقتدار امیر، نامور شہزادے اور عالی خاندان نواب زادے ان کے گھر پر جمع ہوتے اور نذرانے پیش کرتے۔ اس طرح ان کی آمدنی گھر بیٹھے ہزاروں تک پہنچ جاتی لیکن اس فراغت کا زمانہ مختصر رہا 1856 میں انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر لیا۔ لکھنؤ کی خوشحالی رخصت ہو گئی۔ گھر بیٹھے رزق پہنچنے کا سلسلہ بند ہو گیااور انیس دوسرے شہرں میں مرثیہ خوانی کے لئے جانے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے عظیم آباد(پٹنہ)، بنارس، الہ آباد اور حیدرآباد میں مجلسیں پڑھیں جس کا اثر یہ ہوا، دور دور کے لوگ ان کے کلام اور کمال سے واقف ہو کر اس کے مداح بن گئے۔ 

انیس کی طبیعت آزادی پسند تھی اور اپنے اوپر کسی طرح کی بندش ان کو گوارہ نہیں تھی ایک بار نواب امجد علی شاہ کو خیال پیدا ہوا کہ شاہنامہ کی طرز پر اپنے خاندان کی ایک تاریخ نظم کرائی جائے۔ اس کے لئے نظر انتخاب انیس پر پڑی۔ انیس نے پہلے تو اخلاقاً منظور کر لیا لیکن جب دیکھا کہ ان کو شب و روز سرکاری عمارت میں رہنا ہو گا تو کسی حیلہ سے انکار کر دیا۔ بادشاہ سے وابستگی، اس کی کل وقتی ملازمت، شاہی مکان میں مستقل سکونت دنیوی ترقی کی ضمانتیں تھیں۔ بادشاہ اپنے خاص ملازمین کو خطابات دیتے تھے اور دولت سے نوازتے تھے۔ لیکن انیس نے شاہی ملازمت قبول نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر کے ان کا رزق چھینا تھا وہی ان کو پندرہ روپے ماہوار وظیفہ اس لئے دیتے تھے ک کہ وہ میر حسن کے پوتے تھے جن کی مثنوی فورٹ ولیم کالج کے نصاب اور اس کی مطبوعات میں شامل تھی۔ 

جس طرح انیس کا کلام سحر آمیز ہے اسی طرح ان کا پڑھنا بھی مسحور کن تھا۔ منبر پر پہنچتےہی ان کی شخصیت بدل جاتی تھی۔ آواز کا اتار چڑھاؤ آنکھوں کی گردش اور ہاتھوں کی جنبش سے وہ اہل مجلس پر جادو کر دیتے تھے اور لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں ان سے بڑھ کر ماہر کوئی نہیں پیدا ہوا۔ آخری عمر میں انہوں نے مرثیہ خوانی بہت کم کر دی تھی۔ 1874 ء میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے تقریباً 200 مرثئے اور 125 سلام لکھے، اس کے علاوہ تقریباً 600 رباعیاں بھی ان کی یادگار ہیں۔ 

انیس ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت تھے۔ اگر وہ مرثیہ کی بجائے غزل کو اظہار کا ذریعہ بناتے تب بھی ان کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا۔ غزل پر توجہ نہ دینے کے باوجود ان کے کئی شعر خاص و عام کی زباں پر ہیں۔ 

خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
 چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

انیس کا کلام اپنی فصاحت، منظر نگاری اور زبان کے ساتھ ان کے خلاقانہ برتاؤ کے لئے ممتاز ہے۔ وہ ایک پھول کے مضمون کو سو طرح پر باندھنے پر قادر تھے۔ ان کی شاعری اپنے عہد کی نفیس زبان اور تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے مرثیہ کی تنگنائے میں گہرائی سے غوطہ لگا کر ایسے بیش بہا گوہر نکالے جن کی اردو مرثیہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے