Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

’’اردو ادب کی دیو پیکر ہستیوں میں شبلی ہی وہ خود دار ہستی ہے، جس نے مغربی علوم و فنون کی تیز و تند آندھی میں بھی مشرقی علوم و فنون کے دیئے کو نہ صرف بجھنے نہیں دیا بلکہ اپنی تلاش و جستجو،تحقیق و تدقیق کے روغن سے اس کی لَو کو بڑھاتی رہی یہاں  تک کہ ’’چراغ خانہ‘‘ ’’شمع انجمن‘‘ کے دوش بدوش کھڑا ہونے کے لائق ہو گیا۔‘‘         
                                                                       آفتاب احمد صدیقی

شبلی نعمانی ان لوگوں میں ہیں، جو سرسیّد احمد خاں  کے اثر اور فیضِ صحبت  کی بدولت مولویت کے محدود اور تنگ دائرہ سے نکل کر ادب کے وسیع میدان میں آئے۔ انھوں نے اردو زبان میں اسلامی تاریخ کا صحیح ذوق پھیلایا۔ تاریخ میں انھوں نے اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیتوں کے حالات زندگی قلم بند کرنے کا اک سلسلہ شروع کیا، جس میں متعدد نامور اسلاف آگئے۔ ان کی سب سے مشہور و مقبول کتاب  خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی سوانح ’’الفاروق‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی آخری تصنیف ’’سیرت النبی‘‘ ان کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی تھی۔ اسے ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے مکمل کر کے شائع کرایا۔ ان تصانیف کے علاوہ شبلی نے بے شمار تاریخی و تحقیقی مضامین لکھے، جس سے تاریخ دانی اورتاریخ نویسی کا عام شوق پیدا ہوا۔ شبلی شاعر اوراعلیٰ درجہ کے سخن شناس و نقّاد تھے۔ اور انھیں اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران شبلی نے پروفیسر آرنلڈ سے بھی فیض حاصل کیا اور ان کے توسط سے مغربی تہذیب اور اس کے معاشرتی آداب سے  واقف ہوئے۔ شبلی نے اس تہذیب  و معاشرت کے محاسن کا اعتراف کیا اور مشرقی تہذیب کے ساتھ اس کی آمیزش بھی کی۔ اس آمیزش نے قدامت پسندوں کو ان سے بدظن کر دیا حتی کہ انھیں ندوہ سے بھی نکلنا پڑا۔ وہ مغرب زدہ حلقوں میں بغیر کسی احساس کمتری کے شریک ہوتے تھے۔ 

شبلی نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی لیکن  دونوں زبانوں کی شاعری کا مزاج مختلف ہے۔ شبلی کی فارسی شاعری میں گرما گرم عشقیہ مضامین ہیں۔ یہ شاعری عوام کی نظر سے کم ہی گزرتی ہے ۔ اردو میں انھوں نے عموماً قومی اور سیاسی قسم کی شاعری کی۔ ان کی فارسی شاعری کے بارے میں حالی نے کہا، ’’کوئی کیوں کر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے، جس نے سیرت  نعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم  جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، غزلیں کاہے کو ہیں، شراب دو آتشہ ہے، جس کے نشہ میں خمار چشم ساقی بھی ملا ہوا ہے۔ غزلیات حافظ کا جو حصہ رندی اور بے باکی کے مضامین پر مشتمل ہے، ممکن ہے  کہ اس کے الفاظ میں زیادہ دلربائی ہو مگر خیالات کے لحاظ سے یہ غزلیں بہت زیادہ گرم ہیں۔‘‘ 

شبلی 1857ء میں اعظم گڑھ کے نزدیک بندول میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ نسلاً راجپوت تھے۔ شبلی امام ابو حنیفہ سے مزاجی قربت رکھتے تھے، اسی لئے  انھوں نے اپنے نام  کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے نعمانی لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد اعظم گڑھ کے نامور وکیل، بڑے زمینداراور نیل و شکر کے تاجر تھے۔ شبلی کو انھوں نے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علماء سے فارسی عربی حدیث فقہ اور دیگر اسلامی علوم حاصل کئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا  نے کچھ دنوں قرق امین کے طور پر ملازمت کی پھر وکالت کا امتحان دیا، جس میں فیل ہو گئے، لیکن اگلے سال کامیاب ہوئے۔ کچھ دنوں مختلف مقامات پر ناکام وکالت کرنے کے بعد مولانا کوعلی گڑھ میں سر سید کے کالج میں عربی اور فارسی کے معلم  کی نوکری مل گئی۔ یہیں سے شبلی کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ علی گڑھ کی ملازمت کے دوران ہی مولانا نے ترکی شام اور مصر کا سفر کیا ۔ ترکی میں سر سید کے رفیق اور عربی و فارسی کے اسکالر کے طور پر ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ عطیہ فیضی کے والد حسن آفندی کی سفارش پر، کہ وہ سلطان عبد الحمید کے دربار میں خاصا رسوخ رکھتے تھے، ان کو ’’تمغۂ مجیدیہ‘‘ سے نوازا گیا۔ واپسی پر انھوں نے المامون اور سیرت نعمان لکھیں۔ 1890ء میں شبلی نے ایک بار پھر ترکی، لبنان اور فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں کے کتب خانے دیکھے۔ اس سفر سے واپسی پر انھوں نے ’’الفاروق‘‘ لکھی۔ 1898ء میں سر سید کے انتقال کے بعد شبلی نے علی گڑھ چھوڑ دیا۔ اور اعظم گڑھ واپس آ کر اپنے قائم کردہ ’’نیشنل اسکول‘‘ (جو اب شبلی کالج ہے) کی ترقی میں مصروف ہو گئے۔ پھر وہ حیدراباد چلے گئے، جہاں کے اپنے چار سالہ قیام میں انھوں نے  الغزالی، علم الکلام، الکلام، سوانح عمری مولانا روم، اور موازنۂ انیس و دبیر لکھیں۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ آ گئے جہاں انھوں نے  ندوۃ العلماء  کے تعلیمی معاملات سنبھالے۔ ندوہ کی مصروفیا ت کے درمیان ہی انھوں نے شعرالعجم لکھی۔1907 میں گھر میں بھری بندوق اچانک چل جانے سے وہ اپنا اک پیر گنوا بیٹھے اور لکڑی کے پیر کے ساتھ باقی زندگی گزاری۔ مولانا نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔ پہلی بیوی کا 1895 میں انتقال ہو گیا۔ 1900ء میں  43 سال کی عمر میں انھوں نے ایک کمسن لڑکی سے دوسری شادی کی، جس کا  1905ء میں انتقال ہو گیا۔ شبلی کا خواب تھا کہ بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے علمی تحقیق و اشاعت کا اک ادارہ ’’دار المصنفین‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے۔ انھوں نے اس کا انتظام پورا کر لیا تھا، لیکن ادارہ کا افتتاح ان کی موت کے بعد ہی ہو سکا۔ مولانا کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے ندوۃ میں ان کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ آخر ان کو اس ادارے سے، جس  کی ترقی کے لئے انھوں نے بڑی محنت کی تھی، الگ ہونا پڑا اور وہ اعظم گڑھ آ کراسکول اور زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ یہاں آ کر ان کی صحت گرنے لگی اور 18 نومبر 1914ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ شبلی نعمانی اک  فعّال اور محنتی آدمی تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے پوری محنت اور لگن سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ اپنی علمیت و شہرت کی بدولت ان کی رسائی اس وقت کی بہت سی ریاستوں کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں تک  تھی، جن سے ان کو اپنے علمی وعملی منصوبوں کے لئے مدد ملتی رہتی تھی۔

شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو اپنی دولاجواب کتابوں’’شعرالعجم‘‘ اور’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ موازنہ میں شبلی نے فن مرثیہ نگاری کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ساتھ  فصاحت، بلاغت، تشبیہ، استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح کی ہے ۔ شعر العجم میں انھوں نے شعر کی حقیقت و ماہیت، نیز لفظ و معنی کے رشتے کو سمجنے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں انھوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف کا محاکمہ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے شاعری کے عناصر حقیقی، تاریخ  و شعر کے فرق اور شاعری اور واقعہ نگاری کے فرق کو واضح کیا ہے۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی چیز سمجھتے تھے جس کی کوئی جامع و مانع تعریف وضع کرنا ممکن نہیں۔ وہ ادراک کے مقابلہ میں جذبہ و احساس کو شاعری کا جوہر حقیقی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جذبات کے بغیر شاعری ممکن نہیں،  تاہم اس کا مطلب ہیجان یا ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔  وہ ہراس چیز کو جو دل پر استعجاب، جوش یا کوئی اور جذبہ پیدا کرے شعر میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے نزدیک آسمان، ستارے، صبح کی ہوا، کلیوں کی مسکان، بلبل کے نغمے، دشت کی ویرانی اور چمن کی شادابی سب شعر میں شامل ہیں۔ اس طرح شبلی نے شعر کے حسّی اور جمالیاتی پہلو پر زور دیا۔ لفظ و معنی کی بحث میں ان کا جھکاؤ لفظ کی خوبصورتی اور اس کے مناسب استعمال کی طرف ہے۔ وہ لفظ کو جسم اور معنی کو اس کی روح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عمدہ معنی عمدہ الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آئیں و زیادہ پُراثر ہوں گے۔ شبلی نعمانی کی علمی خدمات کے اعتراف میں انگریز سرکار نے ان کو شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ ان کے قائم کردہ ادارے شبلی کالج اور دار المصنفین آج بھی علم و تحقیق کے کاموں میں مصروف ہیں۔اردو زبان شبلی کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

.....مزید پڑھئے

اکبر الہ ابادی ہندوستانی زبان اور ہندوستانی تہذیب کے بڑے مضبوط اور دلیر شاعر تھے۔ ان کے کلام میں شمالی ہندوسان میں رہنے بسنے والوں کی تمام ذہنی و اخلاقی قدروں ، تہذیبی کارناموں ، سیاسی تحریکوں ،اور حکومتی کارروائیوں کے بھرپور سراغ ملتے ہیں۔ اکبر کی شاعری زمانہ اور زندگی کا آئینہ ہے۔ ان کا انداز بیان کہیں کہیں قلندرانہ، کہیں شاعرانہ، کہیں تراش خراش کے ساتھ، کہیں سادہ، کہیں روایتی اور کہیں جدت پسندانہ اور انقلابی ہے۔ اکبر روایتی ہوتے ہوئے بھی باغی تھے اور باغی ہوتے ہوئے بھی اصلاحی۔ وہ شاعر تھے ،شور نہیں مچاتے تھے۔ خواص اور عوام دونوں ان کو اپنا شاعر سمجھتے تھے۔ان کی شاعری دونوں کے ذوق کو سیراب کرتی ہے۔ان کا کلام مکمل اردو کا کلام ہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق میر تقی میر کے بعد اکبر الہ ابادی نے اپنے کلام میں اردو  زبان کے سب سے زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اکبر شاعر پہلے تھے کچھ اور بعد میں۔ انھوں نے اپنے عہد میں نہ مولویوں کو منہ لگایا نہ مغرب کی برکات سے مرعوب ہوئے، نہ انگریز حاکموں کی پروا کی اور نہ لیڈروں کو خاطر میں لائے۔ اس عہد میں کوئی شخص ایسا نہ تھا  جس نے انگریز کا ملازم ہوتے ہوئے اس کی ایسی خبر لی ہو جیسی اکبر نے لی۔

اکبر کی شاعری کو محض مزاحیہ شاعری کے کھاتتے میں ڈال دینا اکبر کے ساتھ ہی نہیں اردو شاعری کے ساتھ بھی نا انصافی ہے۔ غزل قطعہ، رباعی اور نظموں کی شکل میں اکبر نے جتنا عمدہ کلام چھوڑا ویسا جدید دور کے کسی شاعر کے ہاں موجود نہیں ۔انھوں نے غزل کی روائتی صنف میں انقلابی تجربے کئے۔وہ ہیئت کے تجربے قبول کرنے میں اتنے آگے نکل گئے کہ ایک ہی نظم میں مختلف بحور اور اصناف کو یکجا کر دیا۔انھوں نے بلینک ورس (معری نظم) میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنے عہد کے دوسرے شاعروں سے بہتر آزاد نظمیں لکھیں۔ اس سلسلہ میں ان کی نظم "ایک کیڑا " معرکہ کی چیز ہے۔ان کی نظموں میں تنوع اور فنکاری کی جو آمیزش ہے وہ اقبال کے سوا اردو کے  کسی شاعر کے ہاں نہیں ملتی۔ اکبر پہلے شاعر ہیں جنھوں نے زبان کے عام الفاظ اونٹ،گاے،شیخ ،مرزا، انجن وغیرہ کا علامتی استعمال کیا اور اردو میں علامتی شاعری کی راہ ہموار کی۔ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے ان کے کلام میں خوش فکری،بذلہ سنجی،زبان و خیال پر قدرت،صنائع لفظی و معنوی سبھی کچھ ہے۔غور و فکر کرنے والوں کے لئے انھوں نے معاشرت اور تمدّن کی پیچیدگیوں اور فلسفہ ء جسم و روح کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے اور سیاست دانوں کوتو انھوں نے  ان کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ اکبر پہلے شاعر ہیں جن کے  ہاں عورت کبھی نازنینان فرنگ اورکبھی  تھیٹر والیوں کی شکل میں ،اپنے پورے وجود کے ساتھ خود کو دکھاتی ہوئی نظر آتی ہے اور جو اردو شاعری کی روائتی محبوباؤن سے بالکل مختلف ہے۔ عشق و رومان کے مقابلہ میں  بصری تلذّذ کا جو انداز اکبر کے یہاں ملتا ہے وہ اردو شاعری میں انوکھی چیز اور اپنی مثال آپ ہے۔ اکبر اردو کے پہلے شاعر ہیں جس کا دل تو بہتوں پر آتا ہے (مرا جس پارسی لیڈی پہ دل آیا ہے اے اکبر *** جو سچ پوچھو تو حسن بمبئی ہے اسکی صورت سے) لیکن جس کی اصل محبوبہ اک شادی شدہ عورت ہے جو اسکی اپنی بیوی ہے (اکبر ڈرے نہیں کبھی دشمن کی فوج سے *** لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے) ۔اکبر کے "فرسٹ" کی فہرست کافی طویل ہے۔

سید اکبر حسین الہ ابادی 16 نومبر 1846ء کو ضلع الہ اباد کے قصبہ بارہ میں پیدا ہوئے۔والد تفضل حسین نائب تحصیلدار تھے۔ اکبر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔آٹھ ،نو برس کی عمر میں انھوں نے فارسی اور عربی کی درسی کتابیں پڑھ لیں۔پھر ان کا داخلہ مشن اسکول میں کرایا گیا۔لیکن گھر کے مالی حالات اچھے نہ پہونے کی وجہ سے ان کو اسکول چھوڑ کر پندرہ سال کی ہی عمر میں ملازمت تلاش کرنا پڑی۔ اسی کم عمری میں ان کی شادی بھی خدیجہ خاتون نام کی اک دیہاتی لڑکی سے ہو گئی لیکن بیوی ان کو پسند نہیں آئیں۔ اسی عمر میں انھوں نے الہ اباد کی طوائفوں کے کوٹھون کے چکر لگانے شروع کر دئے۔ الہ اباد کی شاید ہی کوئی خوبصورت اور خوش گلو طوائف ہو جس کے پاس وہ نہ گئے ہوں، انھوں نے اک طوائف بوٹا جان سے شادی بھی کر لی لیکن اس کا جلد ہی انتقال ہو گیا جس کا اکبر کو صدمہ رہا۔۔ اکبر نے کچھ دنوں ریلوے کے اک ٹھیکیدار کے پاس 20 روپے ماہوار پر ملازمت کی پھر کچھ دنوں بعد وہ کام ختم ہو گیا۔ اسی زمانہ میں انھوں نے انگریزی میں کچھ مہارت حاصل کی اور 1867ء میں وکالت کا امتحان پاس کر لیا۔انھوں نے تین سال تک وکالت کی جس کے بعد وہ ھائی کورٹ کے مسل خواں بن گئے۔ اس عرصہ میں انھوں نے ججوں وکیلوں اور عدالت کی کارروائیوں کو گہرائی کے  ساتھ سمجھا۔ 1873 میں انھوں نے ہائی کورٹ کی وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا تقرر منصف کے عہدہ پر ہو گیا۔ اسی زمانہ میں ان کو شیعہ گھرانے کی ایک لڑکی  فاطمہ صغری پسند آ گئی جس سے انھوں نے شادی کر لی اور پہلی بیوی کو الگ کر دیا لیکن اس کو معمولی خرچ دیتے رہے۔ پہلی بیوی سے ان کے دو بیٹے تھے لیکن ان کی تعلیم و تربیت کی کوئی پروا نہیں کی۔ اور انھوں نے بڑی عسرت میں زندگی گزاری۔ ایک بیٹا تو باپ سے ملنے کی آرزو لئے دنیا سے چلا گیا لیکن وہ اسے دیکھنے نہیں گئے۔1888ء میں انھوں نے سب آردینیٹ جج اور پھر خفیفہ عدالت کے جج کے عہدہ پر رقی پائی۔اور علی گڑھ سمیت مخلف مقامات پر ان کے تبادلے ہوتے رہے۔ 1905ء میں وہ سیشن ججج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور باقی زندگی الہ اباد میں گزاری۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انکی دوسری بیوی زیادہ دن زندہ نہیں رہیں ۔اکبر اس صدمہ سے سنبھل نہیں پاے تھے کہ دوسرے بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والا ان کا جواں سال بیٹا،جس سے ان کو بہت محبت تھی، چل بسا۔ ان صدمات نے ان کو پوری طرح توڑ کر رکھ دیا اور وہ مسلسل بیمار رہنے لگے۔فاطمہ صغری سے اپنے دوسرے بیٹے عشرت حسین کو انھوں نے لندن بھیج کر تعلیم دلائی۔ پہلی بیوی خدیجہ خاتون 1920ء تک زندہ رہیں لیکن ان کو "ؑعشرت منزل" میں قدم رکھنے کی کبھی اجازت نہیں ملی۔ 1907 میں حکومت نے اکبر کو "خان بہادر" کا خطاب دیا اور ان کو الہ باد یونیورٹی کا فیلو بھی بنایا گیا۔ اکبر نے 9 ستمبر 1921ء میں وفات پائی۔

اکبر کو اردو شاعری میں طنز ظرافت کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ان سے پہلے اردو شاعری میں طنز و مزاح ،ریختی یا ہجویات کے سوا،کوئی اہمیت اور تسلسل نہیں حاصل کر سکا تھا۔اکبر نے تیزی سے بدلے ہوے زمانہ کو ہوشیار کرنے کے لئے طنز و مزاح کی نئی وضع اختیار کی۔اکبر کی ظرافت  کا مقصد تفریح نہیں بلکہ اس میں اک خاص مقصد ہے۔اکبر کی دور اندیش نگاہوں نے دیکھا کہ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور اس وقت جو طبقہ پیدا ہو رہا ہے اس کو مغرب پرستی بہاے لئے جا رہی ہے اور لوگ اپنی  ہندوستانی اقدار کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کو ملک و قوم کی خدمت کی طرف موڑتے ہوئے اک نیا انداز اختیار کیا جس میں بظاہر تمسخر اورظرافت ہے لیکن اس کے باطن میں نصیحت اور تنقید ہے۔وہ اپنی شاعری کو جس رخ پر اور جس مقصد کے لئے لے کر چل رہے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ لب و لہجہ نیا ،دلکش اور دلپزیر ہو۔یہ اک ایسے شخص کا کلام ہے جس کے چہرہ پر شگفتگی اور تمسخر کے آثار ہیں مگر آواز میں ایسی آنچ ہے جو ظرافت کو پگھلا کر ،دلنشیں ہونے تک، متانت کا درجہ عطا کر دیتی  ہے۔ اکبر کے طنز کا ہدف کوئی فرد خاص نہیں ہوتا ۔ہر شخص اولا" یہی سمجھتا ہے کہ طنز کسی اور کی طرف ہے لیکن ہنس چکنے کے بعد زرا غور کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اکبر نے ہم سبھوں کو مخاطب کیا تھا۔اور جس کو ہم مذاق سمجھ رہے تھے اس کی تہہ میں تنقید و نصیحت ہے۔بات کو اس نتیجہ تک پہنچانے میں اکبر نے بڑی صناعی سے کام لیا ہے۔ اکبر نے اردو شاعری کے تشنہء اظہار گوشوں کو پُر کیا ، اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کیا اور مستقبل کے شاعروں کے لئے نئی راہیں ہموار کیں۔ان کی  شاعری کی اہمیت ان کی شاعری کی خوبیوں سے بڑھ کر ہے۔

.....مزید پڑھئے

محمد علی نام، جوہر تخلص۔ لقب ’’رئیس الاحرار‘‘۔۱۸۷۸ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور لنکن کالج، آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ ریاست ہائے بڑودہ اور رام پور میں ملازم رہے۔ ترک ملازمت کے بعد کلکتہ سے ہفتہ وار’’کامریڈ‘‘ اخبار جاری کیا۔دہلی میں ’’ہمدرد‘‘ کے نام سے اردو میں بھی اخبار کا اجرا کیا۔ ۱۹۱۴ء میں برطانوی پالیسی کے خلاف لکھنے پر آپ کو نظر بند کیا گیا۔۱۹۱۹ء میں رہائی کے بعد تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ گاندھی کی معیت میں ملک کی آزادی وتحریک خلافت کی تنظیم وتبلیغ کی غرض سے تحریک موالات میں حصہ لیا جس کی وجہ سے دوبار جیل جانا پڑا۔ ۱۹۴۳ء میں رہا ہوئے اور اسی سال کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ بعض ہندوؤں کی ذہنیت کی وجہ سے مولانا کانگریس سے الگ ہوگئے۔مولانا گول میز کانفرس میں شرکت کے لیے لندن گئے اور وہیں ۴؍جنوری ۱۹۳۱ء کو انتقال کرگئے۔ بیت المقدس میں دفن ہوئے۔ شاعری میں داغ کے شاگرد تھے۔ دیوان ’’جوہر‘‘ شائع ہوگیا ہے۔ محمد علی جوہرؔ انگریزی زبان کے صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بہت بڑے علم بردار اور مسلمانوں کے محبوب لیڈر تھے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے