aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شیخ فرید الدین عطار کو دیگر علوم کی طرح فن فلسفہ سے بھی دلچسپی تھی۔ شعر وشاعری کے ساتھ ہی تصوف و معرفت میں بھی اعلیٰ رتبہ حاصل تھا ۔ زیر نظر عطار کا ایک چھوٹا سا رسالہ ’’پند نامہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ اردو ترجمہ کے ساتھ ہی اس پر حواشی لگے ہوئے ہیں ۔ مشکل الفاظ اور توضیحات بھی پیش کی گئی ہیں ۔ یہ منظوم رسالہ اخلاق آموز نصائح پر مشتمل ہے۔ دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس مختصر سے کتابچے میں زندگی کا مکمل ضابطہ و دستور ہے۔ زبان کے اعتبار سے اس قدر سہل ہے کہ معمولی فارسی جاننے والا بھی اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے ۔ پھر بھی ترجمہ کے ساتھ اسے شائع کیا جارہا ہے تاکہ افادیت زیادہ عمومی ہوسکے۔ پوری کتاب میں نصائح کا محور یہ بتانا ہے کہ کون سی خامیاں اور برائیاں انسان کو ذلیل و خوار بناتی ہیں اور کن خصوصیات کا حامل انسان باعزت و پروقار زندگی بسر کر سکتا ہے۔ شیخ عطار کی پوری زندگی تجربات کا ایک بحر ناپیدا کنار ہے ،انہیں معاشرتی طور پر گہرا تجربہ حاصل تھا کیونکہ ان کی نصیحتیں انہی تجربات و احساسات کا نچوڑ ہے جو ان کی زندگی میں پیش آئے۔
"Rumi famously quoted, “150 years after the crucifying of Mansoor Hallaj, the spiritual radiance of the former rekindled in the birth of Sheikh Fariduddin Attar.” Attar used to sell medicines and perfumes in the early stages of his life. One day a dervish chanced upon his shop, Attar had such an impression of the Darvesh that he shut his shop then and there and became a dervish himself. Later, Attar would also go on to meet Rumi. Attar wrote about 114 books, out of which only 30 have been found. Due to his liberal and progressive views, Attar also had to face a lot of troubles, his house was looted and was even thrown out. According to some legends, it was the army of Genghis Khan which slayed Attar.
Important works: 1. Pand-Nama 2. Tazkiraat-ul-Auliya 3. Mantiq-Ut-Tair 4. Qasida 5. Musibat-Nama 6. Bulbul-Nama 7. Shutur-Nama "