aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سیماب اکبر آبادی کو اردو ادب میں بیسویں صدی کے نئے شاعروں میں ایک نظریہ ساز شاعرکا درجہ حاصل ہے، جنھوں نے زندگی کے بدلتے مسائل کو اپنی تعمیری اور امکانی فکر کے ساتھ شاعری میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مذکورہ کتاب سدرۃ المنتہیٰ سیماب اکبر آبادی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ جس میں ان کی ۱۹۳۶ سے ۱۹۴۲ تک کی غزلیں شامل ہیں۔جسے مکتبۂ قصرالادب، آگرہ نے ۱۹۴۲ء میں شائع کیا تھا۔ سیماب کی غزلیں دل بستگی اور اثرپذیری کا مادہ رکھتی ہیں۔ وہ ایسے مقام سے کچھ کہتے ہیں کہ دل میں نشتر کی طرح کھٹک جاتا ہے، جس سے تکلیف کے بجائے ایک طرح کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کا خمیر کلاسیکی شاعری کے بطن سے نکلا ہے اور جدید شاعری نے اسے اپنا رنگ روپ عطا کیا ہے۔ سیماب اکبر آبادی کے متعلق عنوان چشتی نے لکھا ہے "سیماب کے شعری تجربے اردو شاعری کی مخصوص جمالیات کے دائرے میں رقص کرتے ہیں، یا یہ کہیے کہ ان کی جڑیں اردو کی قدیم شعری جمالیات کی زمین میں پیوست ہیں۔"
Seemab is considered amongst one of the foremost masters of Urdu poetry. His father, Maulana Mohammad Hussain Siddiqui was a highly educated executive. His father passed away while he was still in college. He left college and got a job in Railways in Kanpur. Seemab started writing poetry during his school days. He became a disciple of Dagh in 1898 and travelled to Ajmer for work after relinquishing his job. In 1921 Seemab founded an institution “ Qasr-ul-Adab” to train new poets. He had also translated the Quran and the persian masnavi of Maulana Rume in Urdu. His first divan was published from Agra in 1936. He came to Pakistan after partition and passed away in Karachi on 31st Jan 1951.
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS