aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محبوب محبوب الہی امیر خسرو کو خواجہ نظام الدین اولیاء کے رازداروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ انہیں خواجہ صاحب کی صحبت بہت بھلی معلوم پڑتی تھی ۔ اسی لئے جس وقت خواجہ صاحب انتقال ہوا تو خسرو اپنے پیر کے پاس موجود نہ تھے وہ بنگال کے سفر پر تھے جب انہیں خواجہ کے وصال کی خبر ملی تو وہ سب کچھ چھوڑ کر خواجہ کی آرامگاہ کی طرف آ گئے اور دنیاوی مشغولیات کو چھوڑ چھاڑ کر خواجہ کی مزار پر خدمت کرنے لگے اور پھر وہیں پر خود بھی مدفون ہوئے۔ بہت سے لوگ ان کے تصوف پر اعتراض جتاتے ہیں اور ان کی دنیاوی وجاہت سے انہیں صوفی ماننے میں بہت دقت درپیش ہوتی ہے مگر یہ سب باتیں ایک مستقل بحث کا موضوع ہیں ۔ ہم یہاں پر خسر کے تصوف پر بحث کرتے ہیں اور خسرو کو بحیثیت صوفی پیش کرنا ہی اس کتاب کا مقصد ہے۔ خسرو نے متعد کتابیں تصوف کے موضوع پر تحریر کی ہیں جن میں خواجہ صاحب کے ملفوظات لکھنا بھی شامل ہے۔ خسرو کی شاعری کا ایک بڑا حصہ تصوف کے گہرے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں تصوف کے اعلی اقدار موجود ہیں اور وہ جابجا اپنی شاعری میں خسرو کی مجال کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق حقیقی خواہ وہ رسول سے عشق، صوفیہ سے والہانہ لگاؤ ، ان کا خواجہ کی مجالس میں باقاعدگی کے ساتھ شمولیت اور مسائل تصوف کا خوبصورت حل جابجا دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS