Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

रद करें डाउनलोड शेर

लेखक : शैख़ ज़हूरूद्दीन हातिम

संपादक : प्रो. अब्दुल हक़

संस्करण संख्या : 001

प्रकाशक : नेशनल मिशन फॉर मेनुस्क्रिप्टस, नई दिल्ली

मूल : नई दिल्ली, भारत

प्रकाशन वर्ष : 2011

भाषा : Urdu

श्रेणियाँ : शोध एवं समीक्षा, शाइरी

उप श्रेणियां : शायरी, दीवान

पृष्ठ : 464

ISBN संख्यांक / ISSN संख्यांक : 978-93-80829-02-9

सहयोगी : दारुल मुसन्निफ़ीन शिबली अकादमी, आज़मगढ़

deewan zada
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

पुस्तक: परिचय

حاتم کا یہ دیوان 1755میں مرتب ہوا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں شمالی ہندوستان میں جن شعرا کے فیضانِ سخن سے اردو شاعری کا چراغ روشن ہو اُن میں ظہور الدین حاتم خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ دہلی میں اردو شاعری کی ابتدا ایہام گوئی کی ادبی تحریک کے زیرِ اثر ہوئی۔ اس عہد کے بیشتر شعرا(آبرو، حاتم، شاکر ناجی، مضمون، یک رنگ، مظہر، یقین وغیرہ) ہمہ وقت ایسے الفاظ کی کی تلاش و جستجو میں سر گرداں رہتے تھے جو ذو معنی ہوں۔ جس کے نتیجے میں اردو شاعری ایک نوع کی پہیلی اور گورکھ دھندا بن گئی تھی۔ آمد کے بر عکس آورد کے عملِ شدید نے شعر سے داخلی جذبوں، متصوفانہ فکر اور دروں بینی کے میلانات کو پوری طرح بے دخل کر دیا تھاجو اُس وقت کی فارسی شاعری کے نمایاں اوصاف تھے (حالانکہ فارسی شاعری میں بھی ایہام کا استعمال موجود تھا)۔ یہام گوئی کی تمام خامیوں کے با وجود یہ بات بھی سچ ہے کہ اردو زبان اور اُس کی کی شاعری میں ہندی نیز دیسی زبان کے ایسے متعدد الفاظ شامل ہو گئے جو ذو معنویت کی صفت سے متصف تھے۔ لیکن اس ضمن کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ جب 1720میں ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اُس کے مطالعے کے بعد دہلی کے شعرا میں یہ احساس پیدا ہوا کہ شاعری محض ذو معنی الفاظ کے استعمال اور محبوب کے خارجی خد و خال کے اظہار کا نام نہیںبلکہ اس میں ہر نوع کی کیفیت کو بیان کرنے کی غیر معمولی قوت موجود ہے۔ لہٰذا اسی احساس کے نتیجے میں دہلی کے شعری معا شرے میں اصلاحِ زبان کی تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حاتم اور مظہر جانِ جاناں کے نام سرِ فہرست ہیں۔ یوں توحاتم کثیر الاشعار شاعر تھے اور اُنھوں نے اپنا ایک ضخیم دیوان بھی مرتب کیا تھا۔ لیکن اصلاحِ زبان کی تحریک کے بعد اُن پر غزل اور ریختے کے بیچ کا فرق واضح ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ حاتم غزل یا ریختے میں دروں بینی کی اُس روایت کے حامی بن گئے جو ولی دکنی سے شروع ہوتی ہے۔ بقول حاتم “در ریختہ ولی را استاد می داند”۔ شائد یہی وجہ تھی کہ وہ فارسی میں صائب اور اردو میں ولی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ ولی کے اثرات اور اصلاحِ زبان کی تحریک کے نتیجے میں اُنھوں نے اپنے ضخیم اردو دیوان سے ایسے اشعار ِ کثیرہ نکال دیے جن میں یہام اور خارجی معاملات کا اظہار موجود تھا۔ اُنھوں نے نو مرتب دیوان کا نام” دیوان زادہ “رکھا جو مختصر ہے۔ لیکن حاتم نے اس دیوان کا ایک اہم دیباچہ لکھا ہے۔ جس میں میں اُنھوں نے یہام گوئی، اصلاحِ زبان کی تحریک، اور اُ س زمانے کی ادبی تہذیب کی صورتِ حال بیان کی ہے۔ دیکھا جائے تو دیوان زادہ کا یہ دیباچہ نظری نوعیت کی تحریر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس نظری تحریر سے نہ صرف یہ کہ اُس زمانے کی ادبی صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ اس کے توسط سے خود حاتم کے نظریہ شعر کو بھی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

.....और पढ़िए
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

लेखक की अन्य पुस्तकें

लेखक की अन्य पुस्तकें यहाँ पढ़ें।

पूरा देखिए

लोकप्रिय और ट्रेंडिंग

सबसे लोकप्रिय और ट्रेंडिंग उर्दू पुस्तकों का पता लगाएँ।

पूरा देखिए

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
बोलिए