aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
احسان دانش کی شاعری عوامی شاعری کی اس روایت کی تجدید و ارتقا ہے جس کا اولین نقش نظیر اکبر آبادی کی شاعری تھی لیکن نظیر کی طرح احسان دانش صرف تماشائی نہیں بل کہ ان کی نظموں میں دل سوزی اور درد مندی کے گہرے نقش موجود ہیں ۔ حضرت احسان دانش کی شاعری مزدور اور کسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے نیز جاگیردار اور صنعت کار کے مظالم کا شعور بھی ہے۔ ان کی شاعری میں اخلاقی قدروں اور مشرقی روایات کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔دینی اور ملی احساس کے پردے میں وطن پرستی کے جذبات بھی جھلکتے ہیں ۔ان کے یہاں حمدو نعت کے مضامین بھی بڑے دل کش اور دلربا ہیں۔ احسان دانش بنیادی طور پر انقلابی شاعر ہے۔ ان کی شاعری کا موضوع وہ مفلوک الحال طبقہ ہے جو ننگا اور بھوکا ہے جو جھونپڑی میں زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہوتے ہوئے زندہ رہنے کی دھن میں سسک رہا ہے اور بے رحم سماج کے ہاتھوں زندہ درگور ہے۔احسان دانش ایسے تباہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کے طبقے سے اس قدر قریب رہے ہیں کہ ان کے دھڑکتے دلوں کی آواز خوب سن سکتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کا سب سے پہلا شعری مجموعہ ہے جو "حدیث ادب" کے نام سے شائع ہوا۔اس مجموعہ کے تعارف کے تحت وہ خود لکھتے ہیں"میں اپنے ان خیالات کا ناچیز مجموعہ جنھوں نے آلام و مصائب کے مختلف اوقات میں احساس کی بیدار کن چٹکیوں سے اشعار کی صورت اختیار کرلی ہے"۔
एहसानुल-हक़ (1914-1982)ज़िन्दगी का हौसला और जोश बढ़ाने वाली शाइरी के लिए मशहूर। कान्धला, मुज़फ़्फ़र नगर (उत्तर प्रदेश) में जन्म। ग़रीबी ने चौथी क्लास से आगे न पढ़ने दिया। घर चलाने के लिए मज़्दूरी करने लगे। 15 साल की उम् में लाहौर जा बसे और वहाँ भी मज़्दूरी, चौकीदारी और बाग़बानी जैसे काम किए। फिर एक बुक डिपो में नौकरी मिल गई। इन सब कामों के बीच पढ़ाई भी की और शाइरी भी। ‘ताजवर’ नजीबाबादी के शागिर्द थे।
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets