aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر آل احمد سرور کا شمار اردو کے نامور ناقدین میں کیا جاتا ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور نے اپنی دانش و بصیرت اور تخلیقی محویت سے اردو زبان و ادب کی بے مثال خدمت کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک صاحبِ طرز شاعر ہیں۔انہوں نے ٹی ۔ایس الیٹ کی طرح ادبی تنقید کو ہمیشہ ایک آزاد اور برگزیدہ علم و فن کی حیثیت سے برتنے کی کوشش کی ہے۔کتاب اقبال کا نظریۂ شعر اور ان کی شاعری دراصل دہلی یونیورسٹی میں ہونے والے تاریخی نظام خطبات کے موقعہ پر دیا گیا خطبہ ہے۔ اقبال کے نظریہ شعر اور شاعری کو سمجھنے کے لیے آل احمد سرور کا خطبہ بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔اقبال کا مطالعہ انہوں نے معروضی فصل اور علمی ضبط و نظم سے کیا ہے جس طرح شعر و ادب کے دوسرے اظہارات اور موضوعات کو انہوں نے نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ اس کتاب کے دو حصوں میں اقبال کی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں اقبال کے نظریۂ شعر کو واضح کیا گیا ہے۔ اور دوسرے حصے میں اقبال کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
सुरूर, आल-ए-अहमद (1911-2002) उर्दू आलोचना को बौद्धिक तेज़ी, वैचारिक फैलाव और दृष्टि की व्यापकता देने वाले प्रमुख आलोचक और बुद्धिजीवी। बदायूँ (उत्तर प्रदेश) में जन्म। उर्दू और अंग्रेज़ी पर समान अधिकार। मुस्लिम यूनिवर्सिटी अलीगढ़ में उर्दू के प्रोफ़ेसर रहे।