Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

زیر نظر کتاب فارسی میں ہے۔ جس میں مندرجہ ذیل مشہور صوفیا و علما کرام کے ملفوظات و مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے۔ ۱۔ مکتوبات حضرت غوث الثقلین ۲۔ میرزا مظہر جان جانان شہید (مکاتیب) ۳۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (مکتوبات) ۴۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (مکتوبات) ۵۔ حضرت شاہ غلام علی شاہ (مکتوبات) ۶۔ رسالہ شیخ شہاب الدین سہروردی (اسرار العارفین و سیر الطالبین)

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

شیخ عبد القادر جیلانیؒ (تقریباً ۴۷۰ھ / ۱۰۷۷ء تا ۵۶۰ھ / ۱۱۶۶ء) تصوف اور اسلامی روحانیت کی تاریخ میں ایک غیر معمولی مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام محی الدین ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح موسٰی الجیلانی ہے۔ نسب کے اعتبار سے آپ کی ذات حسنی و حسینی شرافت کا سنگم ہے اور اسی بنا پر آپ کو غوث الاعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت ایران کے شہر جیلان میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے بغداد کا رخ کیا جو اُس وقت علمی و دینی اعتبار سے مرکزِ علم تھا۔ بغداد میں آپ نے فقہ، حدیث، تفسیر اور منطق جیسے علوم میں مہارت حاصل کی۔ آپ کا زہد، تقویٰ اور علم جلد ہی اہلِ بغداد کے لیے باعثِ عقیدت بن گیا۔

شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تعلیمات میں شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ آپ نہ صرف باطن کی اصلاح کے قائل تھے بلکہ ظاہری احکامِ شریعت پر بھی سختی سے کاربند رہے۔ ان کا موقف تھا کہ تصوف، قرآن و سنت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آپ کے نزدیک عبادت کا مقصد صرف ظاہر میں قیام نہیں بلکہ دل کی حضوری اور اخلاص کی طلب ہے۔ تصوف کی راہ میں آپ نے توکل، اخلاص، ذکر، مراقبہ اور محبتِ رسول ﷺ کو بنیادی اصول قرار دیا۔ آپ کی خانقاہ بغداد میں روحانی تربیت کا ایسا مرکز بن گئی جہاں مختلف خطوں سے لوگ سلوک و معرفت کے لیے آتے اور آپ کے فیضان سے فیضیاب ہوتے۔

شیخ جیلانیؒ کی علمی خدمات بے حد وسیع ہیں۔ آپ کی تصانیف میں فقہ، روحانیت، اخلاق اور معرفتِ الٰہی جیسے مضامین کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ریختہ کی ویب سائٹ پر آپ سے منسوب چند اہم کتب دستیاب ہیں جن میں غنیۃ الطالبین، اورادِ قادریہ، دیوانِ غوثِ اعظم، سرّ الاسرار، الفتح الربانی والفیض الرحمانی اور فتوح الغیب شامل ہیں۔ غنیۃ الطالبین میں عبادات، اذکار اور دینی احکام کو صوفیانہ تفسیر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سرّ الاسرار ایک مختصر مگر عمیق کتاب ہے جو سالک کے روحانی سفر کی رہنمائی کرتی ہے، جبکہ فتوح الغیب میں نفس کے تزکیے اور قربِ الٰہی کے مراحل کی تشریح ملتی ہے۔ ان کتب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی فکر میں ظاہری علم اور باطنی بصیرت کا گہرا ربط موجود ہے۔

تحقیقی مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے تصوف کو بدعتوں سے پاک کر کے اسے ایک علمی و عملی نظام کی صورت میں پیش کیا۔ آپ کی تحریروں میں عقل، وحی، تجربہ اور مشاہدہ سب یکجا نظر آتے ہیں۔ اہلِ سنت و جماعت کے اصولوں پر استوار ان کی تعلیمات نے تصوف کو ایک منظم اور متوازن جہت عطا کی۔ تاہم جدید تحقیق اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ ان سے منسوب بعض روایات اور تصانیف کے اسناد و متون پر نظرِ ثانی کی جائے تاکہ تاریخی حقائق واضح رہیں۔

شیخ جیلانیؒ کی فکر اور عمل کا محور بندگی، اخلاق اور معرفت ہے۔ ان کے نزدیک ولایت کا مفہوم طاقت یا کرامت نہیں بلکہ خدمت، انکسار اور ایمان کی پختگی ہے۔ آج بھی ان کی تعلیمات مسلمانوں کے فکری و روحانی ارتقا کے لیے رہنما ہیں۔ ان کی درگاہ بغداد میں آج بھی اہلِ دل کے لیے مرکزِ سکون و اطمینان ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی حیات و تعلیمات محض ماضی کا ورثہ نہیں بلکہ ایک ایسی روحانی روایت ہیں جو عصرِ حاضر میں بھی انسان کو حق و صداقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔

.....مزید پڑھئے

 

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (اصل نام سید قطب الدین احمد بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین بن معظم بن منصور، معروف بہ احمد ولی اللہ؛ 21 فروری 1703ء مظفرنگر – 20 اگست 1762ء دہلی) برصغیر کے عظیم محدث، مفسر، فقیہ، فلسفی، الہیات داں، مفکر اور مجدد تھے۔ سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور اپنے والد شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی سے علوم دینیہ اور بیعت و خلافت پائی۔ بعد ازاں حجاز مقدس جا کر شیخ ابوطاہر مدنی اور دیگر اکابر سے حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم و اجازت لی۔ تصوف میں وہ نقشبندی–مجددی سلسلے کے ساتھ ساتھ  نقشبندی ابوالعلائیہ طریقت سے بھی وابستہ تھے اور اس کی روحانی تربیت کو آگے بڑھایا۔ شاہ ولی اللہ نے دین کو عوام تک عام فہم انداز میں پہنچانے کے لیے قرآنِ مجید کا فارسی ترجمہ کیا جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا باقاعدہ ترجمہ تھا۔ ان کی نمایاں تصانیف میں حجۃ اللہ البالغہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، القول الجمیل، فیوض الحرمین اور الانصاف شامل ہیں جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ اور تصوف کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ روحانی تربیت کے ساتھ شریعت و طریقت کی ہم آہنگی اور معاشرتی اصلاح پر زور دیتے تھے اور حکمت و دانائی سے معاشرتی برائیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

 

.....مزید پڑھئے

پیدائش1111ھ و1113ھ مطابق1699ء و1701کے درمیان مرزا جان جاں نام معروف بہ مرزا جان جاناں ۔ ان کے والد دربار عالم گیر میں منصب دار تھے اور یہ نام عالم گیر ہی کا تجویز کیا ہوا ہے اکبرآباد کے رہنے والے تھے پھر دہلی میں آرہے ۔جوانی میں خانقاہوں میں زندگی بسر کی اور اور خدمت سے خود مخدوم ہوگئے وار سیکڑوں لوگ خصوصا روہیلے ان کے مرید ہوگئے ۔عاشق منش صوفی تھے ۔ تحصیل عالم عالمانہ نہ تھی لیکن علم ، حدیث، فقہ، سیر و تواریخ میں مہارت رکھتے تھے۔ تقریر بہت اچھی کرتے تھے ۔ مزاج میں نفاست اور لطافت بہت تھی جس کے متعلق کئی روایات مشہور ہیں ۔ اسی لطافت اور نزاکت نے انہیں زمبان اور شعر کی تراش و حسن پر مجبور کیا اور باوجودیکہ اپنے سن و سال کے لحاظ سے یہ قدما کے طبقۂ دوم میں شمار کئے جاسکتے ہیں لیکن مذاق شعری اور اصلاح زبان کے سلسلے میں طبقۂ سوم ہی میں شامل کیا گیا آزاد ان کے کلام کے متعلق لکھتے ہیں۔ ہیں اور یہ مقام تعجب نہیں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیالی ہیں اور ان کے اصل حاصل‘‘ لیکن آزاد نے ان کے عادات و اطوار کے بیان میں کئی غلط بیانیاں کی ہیں جن کی طرف مصنف گل رعنا اور عبدالرزاق قریشی نے اشارہ کیا ہے ۔ ان کا دیوان فارسی اپنے منتخب کئے ہوئے ایک ہزار اشعار پر مشتمل ہے یہ انتخاب 1170ھ مطابق1756ء میں کیا تھا اردو میں بھی منتخب اشعار ہی ہیں ۔ بہ قول بعض تذکرہ نویسوں کے اپنے محبوب مرید تاباںؔ کے کہنے سے اردو میں غزل گوئی ترک رکدی تھی بعض کہتے ہیں کہ ان کے شاگرد یقینؔ کے اشعار ان سے بہتر ہونے لگے تھے اس لیے تاباںؔ نے ایسا مشورہ دیا( دیوان یقین مرتبہ فرحت اللہ ) ممکن ہے کہ اپنی وظائف سے فرصت نہ ملنے کے باعث ایسا کیا ہو پھر بھی اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے اور وہی زبان استعمال کی ہے جو میرؔ و سوداؔ کی ہے ۔ ایک مختصر انتخاب فارسی گو شعرا کا بھی خریطہ جواہر کے نام سے کیا تھا بیاسی یا چوراسی برس کے تھے کہ7محرم 1195ھ مطابق1780ء کو ایک شخص کے ہاتھوں طپنچہ کا زخم پہونچا۔ 10محروم کو انتقال کیا اور چتلی قبر کے پاس گھر ہی میں مدفون ہوئے جو اب خانقاہ کہلاتی ہے ۔ تاریخ وفات قمرالدین منت نے الفاظ حدیث سے نکالی ۔ ان کے شاگردوں میں یہ مشہور ہیں ۔ انعام اللہ خں ا یقینؔ ، میر محمد باقرؔ حزیں، احسان اللہ بیانؔ ، بساون لال بیدار، ہیبت قلی خاں حسرتؔ ، محمد فقیہہ درمن مصحفی لکھتے ہیں۔(الخ) اس اولیت کا اعتراف قدرتؔ ،میر حسن وغیرہ دوسرے تذکرہ نویسوں نے بھی کیا ہے ۔ مظہرؔ کا کلام زیادہ نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ ابتدائی کلام میں فارسیت زیادہ ہو جس کے متعلق سوداؔ نے اعتراض کیا ہے بعد کے کلام میں تو فارسی آمیزش بہت مناسب اور میرؔ امروز کی ایسی ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے