aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نام:
شیخ احمد بن عبد الاحد بن زین العابدین، لقب: مجددِ الفِ ثانی، امامِ ربانی،
تاریخِ پیدائش: 14 شوال 971ھ / 26 مئی 1564ء، مقامِ پیدائش: سرہند (موجودہ ضلع فتح
گڑھ صاحب، پنجاب، بھارت)، تاریخِ وفات: 28 صفر 1034ھ / 10 دسمبر 1624ء، مدفن:
سرہند شریف، پنجاب۔
شیخ
احمد سرہندی کا تعلق ایک جلیل القدر علمی اور صوفی خانوادے سے تھا۔ ان کے والد شیخ
عبد الاحد سلسلۂ چشتیہ و نقشبندیہ کے بزرگ تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل
کی، بعد ازاں سُلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے علمی مرکز اجمیر اور
پھر سِیالکوٹ میں ممتاز علما مثلاً مولانا کمال الدین کشمیری اور مولانا یعقوب
کشمیری سے علومِ عقلیہ و نقلیہ میں کمال حاصل کیا۔ ان کی ذہانت اور تبحّرِ علمی کا
اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ سترہ برس کی عمر میں قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ اور منطق میں
مہارت حاصل کر چکے تھے۔
اکبر
بادشاہ کے دور میں "دینِ الٰہی" اور مذہبی رواداری کے نام پر اسلامی
شعائر اور شریعت کے اثرات کو کمزور کیا جا رہا تھا، ایسے ماحول میں شیخ احمد
سرہندی نے علمی و روحانی مجاہدہ کیا اور دینِ اسلام کی تطہیر و تجدید میں بنیادی
کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف علمی سطح پر اصلاح کی بلکہ روحانی و اخلاقی میدان
میں بھی مسلمانوں کو بیدار کیا۔
انہوں
نے اسلامی عقائد کی تجدید کرتے ہوئے وحدت الوجود کی غلط تعبیرات کی اصلاح کی اور
"وحدت الشہود" کا نظریہ پیش کیا، جو صوفیانہ عقائد کو شریعت کے قریب
لاتا ہے۔ دربارِ مغلیہ میں بھی ان کا اصلاحی اثر نمایاں ہوا۔ اکبر کے جانشین
جہانگیر کے زمانے میں انہوں نے اپنے مکتوبات و مراسلات کے ذریعے اسلامی اصولوں کی
اہمیت اجاگر کی۔ اگرچہ کچھ عرصہ قید میں بھی رہے، مگر بعد ازاں بادشاہ نے ان کی
قدر کی اور ان کے اثرات قبول کیے۔
شیخ
احمد سرہندی نے واضح کیا کہ طریقت دراصل شریعت کے تابع ہے۔ انہوں نے تصوف میں پائی
جانے والی بے راہ روی کے خلاف جہاد کیا اور فرمایا کہ "جس تصوف میں شریعت نہ
ہو، وہ گمراہی ہے۔" ان کی مشہور تصنیف "مکتوباتِ امامِ ربانی" تین
جلدوں پر مشتمل ہے، جن میں عقائد، تصوف، فقہ، اخلاق، سیاست اور اصلاحِ باطن پر
گہری بصیرت ملتی ہے۔
شیخ
احمد سرہندی نقشبندی سلسلہ سے وابستہ تھے اور ان کے شیخ حضرت باقی باللہ دہلویؒ
تھے، جو دہلی میں نقشبندیہ سلسلے کے بانی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے تصوف کو قرآن و
سنت کے مطابق رکھنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک کشف و کرامت کا کوئی اعتبار نہیں جب
تک وہ شریعت کے تابع نہ ہو، تصوف کا مقصد قربِ الٰہی اور اصلاحِ نفس ہے، نہ کہ
خرقِ عادت دکھانا، اور روحانیت کو عقل، علم اور شریعت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
انہوں نے صوفیوں میں یہ تصور رائج کیا کہ "وحدت الوجود" (سب کچھ خدا ہے)
کی بجائے "وحدت الشہود" (خدا کو ہر چیز میں دیکھنا) زیادہ درست ہے
کیونکہ یہ شریعت اور توحید کے عین مطابق ہے۔
شیخ
احمد سرہندی نے برصغیر کے فکری، دینی، اور روحانی مزاج پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے
مکتوبات نے ترکِ بدعات اور احیاءِ سنت کی تحریک پیدا کی۔ بعد کے علما، مثلاً شاہ
ولی اللہ دہلویؒ، ان کے فکری وارث سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں "مجددِ الفِ
ثانی" اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے دوسرے ہزار سال (ہجری) کے آغاز میں امتِ
مسلمہ میں دینی بیداری پیدا کی۔
ان
کے چند معروف اقوال یہ ہیں: “طریقت بغیر شریعت کے باطل ہے، اور شریعت بغیر طریقت
کے ناقص۔” اور “احکامِ شریعت کی پیروی ہی سب سے بڑی ولایت ہے۔”
یوں
شیخ احمد سرہندیؒ نہ صرف ایک عظیم عالم، مصلح اور صوفی تھے بلکہ برصغیر کے فکری
اور روحانی احیا کے سب سے بڑے علمبردار بھی تھے۔ ان کی تجدیدی کوششوں نے تصوف کو
شریعت کے سانچے میں ڈھال کر اسلام کو ایک نئی روح عطا کی، اور اسی بنا پر وہ
تاریخِ اسلام میں ہمیشہ "امامِ ربانی" اور "مجددِ الفِ ثانی"
کے لقب سے یاد کیے جاتے رہیں گے۔
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here