Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : عامر عثمانی

ایڈیٹر : دانش عامری

ناشر : صائم بک ڈپو، دہلی

سن اشاعت : 1998

زبان : Urdu

موضوعات : طنز و مزاح, مضامين و خاكه

ذیلی زمرہ جات : نثر, مضامین

صفحات : 558

معاون : ریختہ

مسجد سے مے خانے تک
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

ماہنامہ "تجلی" میں ایک مستقل طنزیہ و فکاہیہ کالم "مسجد سے مے خانے تک" کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ مضمون نگار کی حیثیت سے ملا ابن العرب مکی کا نام ہوتا تھا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملا ابن العرب مکی کون بزرگ تھے؟ یہ عامر عثمانی (1920ء – 1975ء) کی ہی تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ اس کالم کے تحت ملا ابن العرب مکی (عامر عثمانی) ہر مہینے "بادہ و ساغر" کے پردے میں "مشاہدہ حق" کی گفتگو کرتے تھے۔ مذہبی طبقے میں یا مذہب کے نام پر پائی جانے والی خرابیاں اور بدعنوانیاں خصوصیت کے ساتھ ان کی تنقیدوں کا نشانہ بنتی تھیں۔ اس کالم کا اچھوتا اور طنز و مزاح سے بھر پور اندازِ بیان ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کالم کے دو ضخیم مجموعے "مسجد سے مے خانے تک" حصۂ اول و دوم، عامر عثمانی کی ہی زندگی میں شائع ہوگئے تھے، اور دونوں حصوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کتاب کے مصنف کی جگہ ابن العرب مکی کا ہی نام درج ہے۔ خیال رہے کہ ماہنامہ "تجلی" کا اجراء 1949ء میں کیا گیا جو عامر عثمانی کی وفات تک یعنی 25سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے کے لیے لوگ "تجلی" کے خریدار بننے لگے اور قارئین میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ اس زمانے میں جو مقبولیت "مسجد سے میخانے تک" کالم کو حاصل رہی، وہ کسی دوسرے رسالے کے کالم کو نہیں حاصل ہوسکی۔ وہی کالم کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہیں، آپ عامر عثمانی کے اسلوب سے ضرور لطف اندوز ہونا چاہئے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

30؍نومبر 1920ء کو ہردوئی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مطلوب الرحمن تھا جو انجنیر تھے۔ آبائی وطن دیوبند تھا، پوری تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی، فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنے لگے، ایک عرصے تک اس کام سے جڑے رہے، لیکن اس سے ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں، اس لئے شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس میں وہ مہارت حاصل کی کہ اچھے اچھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مولانا کے مشہور ماہنامہ "تجلی" کے اکثر سرورق خود مولانا نے بنائے ہیں۔ اس کے بعد مولانا پر وہ دور بھی آیا کہ ان کا قلم ممبئی کی گندی فلم نگری کی طرف مڑ گیا، مگر یہ دنیا مولانا کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی اور والد مرحوم نے یہ بھی کہہ دیا کہ فلم سے کمایا ہوا ایک پیسہ بھی میں نہیں لوں گا۔ اسی لئے جلد ہی مولانا دیوبند لوٹ گئے۔ ذریعۂ معاش کے طور پر ماہنامہ "تجلی" کا اجراء کیا۔ ماہنامہ "تجلی" کا اجراء 1949ء میں کیا گیا جو مولانا کی وفات تک یعنی 25 سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔ حالات و آزمائشوں کے باوجود اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم مدت میں خوب شہرت حاصل کی، منظر عام پر آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، اس کے سلسلہ مضامین کا اہل علم و ذوق شدت سے انتظار کرتے تھے۔
مولانا عامرؔ عثمانی شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں شہرت حاصل کر چکے تھے۔ مرض الموت میں جب انہیں ڈاکٹروں نے چلنے پھرنے سے منع کر دیا۔ سفر کی سخت ممانعت تھی۔ مگر شاید مولانا کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ ان کا آخری سفر ہے۔ پونے کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے مولانا نے پونے کا طویل سفر اختیار کیا۔ اور اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنانے کے دس منٹ بعد ہی 12؍اپریل 1975ء کو جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے