aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علی امام کا تعلق ہندوستان کے علمی اور تاریخی اہمیت کے حامل صوبہ بہار کے ضلع نالندہ سے ہے۔ ان کی پیدائش 20 دسمبر 1947 کو مسیاں گاؤں میں ہوئی۔ ان کے والد سید عبد الوحید ابن میر فرزند علی اور والدہ بی بی رسول باندی بنت میر انور حسین تھیں۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق مسیاں بند پلاک، نالندہ سے تھا، تاہم ان کی پرورش و پرداخت نالندہ کے تاریخی قصبے دسنہ (استھانواں بلاک) میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کی مستقل رہائش بہار شریف کی بڑی درگاہ میں رہی اور فی الوقت وہ پٹنہ کے علاقے دریابور، سبزی باغ میں مقیم ہیں۔ علی امام کی ازدواجی زندگی بھی خاصی بامعنی رہی۔ ان کی شادی ایک معزز سادات خانوادے کی تعلیم یافتہ خاتون سعیدہ فردوسی بنت سید شاہ نورالدین احمد فردوسی (سجادہ نشین، منیر شریف) سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک بیٹا یاسر علی وحید اور دو بیٹیاں سارہ علی امام اور سعدیہ علی امام پیدا ہوئیں۔
علی امام نے ابتدائی تعلیم گھر پر والدین کی نگرانی میں حاصل کی، جیسا کہ اُس وقت کے تعلیم یافتہ خاندانوں کا معمول تھا۔ اس کے بعد انھوں نے بی ایس سی، بی ایڈ، ایم ایڈ، ایم اے (سماجیات) اور پی ایچ ڈی (سوشل سائنس) کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی امام نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز انسان اسکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر کیا۔ بعد ازاں وہ اسٹیٹ ریسورس سینٹر فار ایڈلٹ ایجوکیشن (بہار) میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر وہ ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (DIET)، پٹنہ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ان کی تعلیمی خدمات اور تجربات کی بنیاد پر انہیں مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (NCTE) کا نمائندہ بھی منتخب کیا گیا۔
علی امام نے تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اردو اور ہندی رسائل کی ادارت کی ذمہ داریاں بہ حسن خوبی نبھائیں۔ ہندی میگزین "سہہ پاتری" اور "سمپرک" کے علاوہ اردو کے چند رسائل کے بھی مدیر رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں بہار اردو ایڈوائزری بورڈ کا رکن اور بہار اردو اکادمی کے تحت تعلیمی شعبے کا اہم رکن بھی منتخب کیا گیا۔ ادبی سطح پر علی امام کی شناخت ایک سنجیدہ افسانہ نگار کی ہے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1968 میں ہوا، جب پٹنہ کی ادبی انجمن "بزم خلیل" کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے "صد آہنگ" میں ان کی پہلی کہانی "پرائے کمرے میں تنہا آدمی" کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس وقت رضوان احمد، عبید قمر اور شوکت حیات جیسے نامور ادیب بھی ان کے ہمراہ تھے۔
افسانوی ادب میں ان کی نمایاں کتابوں میں پہلا مجموعہ "نہیں" (1985)، اورافسانوں کا دوسرا مجموعہ “ مت بھید (1995)،اور تیسرا مجموعہ “
ہاں میں یہاں ہوں “(2018)
اور ایک ناول “نئےدھان کا رنگ” (2023)میں شائع ہوئے ہیں۔جو کہ قابل قدر ہے۔
رابطہ: علی امام
سابق پرنسپل ڈائیٹ(DIET) اکبر ہاوس،تیسری منزل
دریا پور،سبزی باغ ۔ بیٹنہ،بہار انڈیا
تیز تر رابطہ: 9835293066
برقی رابطہ :
aliimam.Imam@gmail. Com