aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بحیثیت مزاح نگار، ادیب و شاعر ادبی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ اردو کے ممتاز مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کے چچا زاد بھائی تھے۔ مزاح نگاری اور طنزیہ شاعری مرزا عصمت کا نمایاں وصف رہا۔ سنجیدہ مضامین کو مزاح کے پیرایہ میں اس خوبی سے ادا کیا کہ لطافت اور شگفتگی کے پہلو میں کوئی فرق محسوس نہ کیا جا سکا۔ ان کی شخصیت اور فکر و فن میں شمال اور دکن کا خوشگوار امتزاج تھا۔ وہ عہدِ عثمانی کے منتخب باکمال قادرالکلام ادیب، شاعر، معلم انسانیت، طنز و مزاح کے شگفتہ کار مصنف اور فکاہیہ نگار تھے۔ ان کی تصانیف میں رفیق اردوداں ہمارا ہندوستان، زریں حکایات، حکایاتِ جامی و سعدی، فاقہ کیوں؟، آسمان کے بھید اور کاک ٹیل کافی مقبول ہیں۔ بعد از وفات 1955ء میں مرزا عصمت اللہ بیگ کی علمی و ادبی خدمات کو خراجِ عقیدت کے بطور جب ایک عظیم الشان یادگاری جلسہ منعقد ہوا تو اسی وقت ایک یادگاری کمیٹی "عصمت میموریل پبلیکیشنز کمیٹی" کی تشکیل بھی عمل میں آئی جس کے تحت مرزا صاحب کی کتابیں انوارِ تبسم، انوارِ ظرافت، ہمارا پنچ سالہ منصوبہ، گنجینۂ جوہر اور متاعِ ظرافت شائع کی گئیں۔
مرزا عصمت اللہ بیگ دہلی کے ایک شریف خاندان میں پیدا ہوئے مگر ان کی تعلیم و تربیت اور ملازمت کا زمانہ حیدرآباد ہی میں گزرا۔ مرزا صاحب خلیق، سنجیدہ اور شگفتہ مزاج تھے جس کی وجہ سے حیدرآباد کے علمی و ادبی طبقے میں ہردلعزیز اور مقبولِ خاص و عام رہے۔ جس محفل میں جاتے وہاں رونقِ محفل بن جاتے۔ طنز و مزاح آپ کی فطرت میں داخل تھا۔ ان کا مزاحیہ کلام ہو کہ مزاحیہ مضمون، جہاں دلچسپی کا سامان پیدا کرتا ہے وہیں طنز کی ہلکی ہلکی چٹکیاں بھی لیتا ہے۔