aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تصوف و فلسفہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ایک دوسرے کا معاون کہنا زیادہ مناسب معلوم پڑتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ عمومی تصوف اور عمومی فلسفہ میں بہت سی چیزی ایک دوسرے سے مخالف نظر آتی ہیں مگر پھر بھی یہ دونوں ایک دوسرے کے اتنا قریب ہیں کہ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد دونوں ایک جیسی ہی معلوم پڑتی ہیں۔ ان میں سے ایک کے حصول کا تعلق تعلیم و تعلم ہے اور دوسرے کا تعلق عبادت و ریاضت سے ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی دونوں میں غور و خوض اور مراقبہ ضروری ہے اور دونوں کا مقصد حقیقت کی تلاش ہے۔ اسی لئے ابو سعید ابو الخیر جو کہ ایک معروف صوفی ہیں وہ معروف فلسفی ابن سینا کے متعلق فرماتے ہیں کہ "میں جو کچھ دیکھتا ہوں ، یہ جانتے ہیں " اور ابن سینا ، ابو سعید کے بارے میں کہتے ہیں کہ" میں جو کچھ جانتا ہوں ، یہ دیکھتے ہیں"۔ یعنی فلسفہ و تصوف کا اتنا قریب کا رشتہ ہے کہ منزل دونوں کی ایک ہی ہے ۔ اس کتاب میں ان اختلافات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو فلسفہ میں ہمیشہ مختلف فیہ رہے ہیں اور جن کا تعلق براہ راست تصوف سے ہے۔ محد ث دہلوی کی شخصیت ایک فلسفی اور صوفی کی ہے اس لئے انہوں نے ان خیالات میں مماثلت کی کوشش کی ہے جو بظاہر ایک دوسرے کے متغائر نظر آتے ہیں لیکن اگر دیدہ غور سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی ہوتے ہیں مثلا وحدت الوجود اور شہود دو الگ الگ نظریات معلوم پڑتے ہیں مگر محدث دہلوی ان میں مماثلت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ دونوں نظریات صحیح اور درست ہیں صرف لفظی فرق ہے کیونکہ دونوں بزرگوں کا کنکلوزن ایک ہی ہے بس فرق اتنا ہے کہ ابن عربی شخص اکبر کے قائل ہیں اور وہ تمام عالم کو شخص اکبر مانتے ہیں اس لئے ان کے یہاں عالم میں دکھائی دینے والی تمام اشیاء کا وجود نہیں ہے بلکہ یہ وہم ہے جسے فلسفہ " ہمہ اوست" کے نام سے جانا جاتا ہے اور مجدد صاحب شخص اکبر کا ظل کے قائل ہیں اور ان کے یہاں موجودات عالم کا وجود ہے مگر ان کا وجود شخص اکبر کا ظل ہے اور اصل ان سب کا مجموعہ ہے جسے فلسفہ " ہمہ از اوست" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح کے اختلافات کو اس کتاب میں رفع کیا گیا ہے ۔ اس اعتبار سے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیوں کہ مصنف کسی ایک فلسفہ کا طرفدار نہیں ہے بلکہ مصنف کی کوشش رہی ہے کہ دونوں بزرگوں کے نظریات کی تشریح اس انداز میں کی جائے کہ اختلاف رفع ہو جائے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا محمد متین ہاشمی نے کیا ہے۔
Shah Waliullah Muhaddith Dehlavi (birth name Syed Qutb al-Din Ahmad ibn Abd al-Rahim ibn Wajih al-Din ibn Mu'azzam ibn Mansur, commonly known as Ahmad Waliullah; 21 February 1703, Muzaffarnagar – 20 August 1762, Delhi) was one of the greatest scholars, Qur’an exegetes, jurists, philosophers, theologians, thinkers, and reformers of the Indian subcontinent. He memorized the Qur’an at the age of seven and acquired religious knowledge, spiritual training, and authorization (Bay‘ah and Khilafah) from his father, Shah Abd al-Rahim Muhaddith Dehlavi. Later, he traveled to the Hijaz to study Hadith, Fiqh, and Tasawwuf under Shaykh Abu Tahir al-Madani and other eminent scholars, receiving formal authorization in these disciplines. In Sufism, he was affiliated with the Naqshbandi–Mujaddidi order and also with the Naqshbandi Abu’l-‘Ulayyah branch, which he carried forward, upholding its spiritual tradition. To make the Qur'an accessible to the common people, he produced a Persian translation, which was the first comprehensive translation of its kind in the subcontinent. His notable works include Hujjat Allah al-Baligha, Izalat al-Khafa ‘an Khilafah al-Khulafa, al-Qawl al-Jamil, Fuyud al-Haramayn, and al-Insaf, covering Tafsir, Hadith, Fiqh, history, and Tasawwuf. He emphasized the harmony of Shari‘ah and Tariqah alongside spiritual development and played a significant role in reforming society, removing moral corruption and misunderstandings through wisdom and insight.
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here