aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سطور جون1970میں دہلی سے کمار پاشی کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے رسالہ میں یہ لکھا تھا کہ : ’’سطور منٹو کے الفاظ میں کسی خاص ادبی گروہ کا بھونپو نہیں ہے بلکہ اس کی اشاعت کا مقصد ادبی گروہ بندی کے مقابل ادب میں آزاد خیالی، غیر جانب داری، صاف گوئی اور سنجیدہ روی کو فروغ دینا اور جدیدیت سے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی دھند دور کرکے صحیح راستہ تلاش کرنا ہے۔‘‘ سطور بھی جدیدیت ہی کا ترجمان تھا جیسا کہ خطوط کے کالم بازگشت میں شامل انور سدید کے اس خط سے پتہ چلتا ہے: ’’مجھے توقع ہے کہ سطور جدیدیت کو تحریک بنانے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔‘‘ اور رسالہ کے مشمولات سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے۔ اس میں مضامین، نظمیں، افسانے، غزلیں، قطعات، رباعیاں کے علاوہ خصوصی مطالعہ، نئی کتابیں اور باز گشت کے عنوان سے نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ پہلے ہی شمارہ سے ارباب ادب کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہا ۔ خاص طور پر جدیدیت سے حلقہ بہ گوش قلم کاروں میں اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔
کمار پاشی ایک منفرد شاعر ، افسانہ نگار اور سنجیدہ ادیب تھے ۔ ان کا اصل نام شنکر دت کمار تھا۔ وہ بہاولپور میں 03 جولائی 1935 ء کو پیدا ھوئے۔ ان کا خاندان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دلی چھوڑ کر بہاولپور جا بسا تھا۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد وہ دوبارہ دلی آ گئے۔ اس وقت کمار پاشی کی عمر تقریباً 12 برس تھی۔ اس کم سنی میں ہجرت کے دکھ کی وجہ سے سنجیدگی کا عصر ان پر شروع ہی سے غالب رھا۔ تعلیم و تربیت دلی میں ہی ہوئی۔ تمام عمر اسی شہر سے جڑے رھے ۔ دلی شہر سے انہیں بہت انسیت اور لگاؤ تھا۔ ملازمت کے لئے بھی انہوں نے دلی شہر کا ھی انتخاب کیا تھا۔ وہ دلی سے باہر جا کر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی شاعری دلی میں ہی پروان چڑھی اور ایک دن ان کی تصنیف "پرانے موسموں کی آواز" نے تمام اردو دنیا میں شور برپا کر دیا۔ یہ آواز سبھی کو چونکا دینے والی تھی۔ انہیں ہندوستانی اساطیر کا شاعر قرار دیا جاتا ہے۔
کمار پاشی نے بحیثیت افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ھے۔ ادبی رسالے ” سطور ” کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ان کی تصانیف میں "پرانے موسموں کی آواز (1966ء)"، "خواب تماشا(1968ء)"، "انتظار کی رات(1973ء)"، "رو بہ رو(1976ء)"، "اک موسم میرے دل کے اندر ، اک موسم میرے باہر(1979ء)"، "زوالِ شب کا منظر"، "اردھانگنی کے نام(1987ء)"، "چاند چراغ(ان کی وفات کے بعد 1994ء میں)"، "پہلے آسمان کا زوال(افسانوی مجموعہ 1972ء)"،جملوں کی بنیاد (ایک بابی ڈراموں کا مجموعہ 1974ء)"، "کلیاتِ کمار پاشی" شامل ہیں۔ 16 سپتمبر کو وہ اپنا دفتری کام ختم کر کے گھر جا رھے تھے کہ راستے میں بیہوش ھو کر گر پڑے ۔ رات بھر وہ بیہوش رھے اور 17 سپتمبر 1992 کی صبح کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
مقبول ترین رسائل کے اس منتخب مجموعہ پر نظر ڈالیے اور اپنے مطالعہ کے لئے اگلا بہترین انتخاب کیجئے۔ اس پیج پر آپ کو آن لائن مقبول رسائل ملیں گے، جنہیں ریختہ نے اپنے قارئین کے لئے منتخب کیا ہے۔ اس پیج پر مقبول ترین اردو رسائل موجود ہیں۔
مزید