سرورق
فہرست
حیات نظام از کلب علی خاں فائق
غزلیات
اگر خود نما وہ خود آرا نہ ہوتا
ردیف الف
تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
یاں کسے غم ہے جو گریے نے اثر چھوڑ دیا
دلا خیال نہ کر اس سے آشنائی کا
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
کیوں کرتے ہو وعدہ جو وفا ہو نہیں سکتا
ایسا تو کسی پر تمہیں غصا نہیں آتا
اک فائدہ تو جھوٹے ترے پیار نے کیا
یہ اپنا حال کیا ایسا انتظار کیا
اس کوچے سے اب میں تو احبا نہیں اٹھتا
بگڑ کر وہ اس کا ادھر دیکھنا
کیا درد میرے دل کا خدایا نہ جائے گا
کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
غیر کا حال گر سنا ہوگا
وہ نہیں آتا گر نہیں آتا
بس تم سے ترک صحبت اغیار ہوچکا
قصد ان کا ہے یاں سے جانے کا
گر دوستوں تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
میری جاں دل مرا منظور ہے تم کو اگر لینا
یوں غیر کا حال زار ہوگا
لگاوٹ سے وہ ہائے کہنا کسی کا
بدنامیوں می ایسا کس کا ہے نام نکلا
میں نے ہی کیوں شکوۂ بے جا کیا
اٹھنا ہی وہاں سے بر محل تھا
ہائے دل اب وہ دوست دار ہوا
یہ جو کہتے ہو تو نے کیا جانا
کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
مرنے کا لطف زیست سے مجھ کو سوا ہوا
صبح کو ان کو کب ٹھہرنا تھا
مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
یوں تو تھا دشمن جاں ایک زمانا میرا
کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
یوں تو مجھ سے ملا نہیں جاتا
کہتے وہ کیوں سنا کے ملیں ہم کسی سے کیا
کیا گلہ ذکر کسی بات کا گر ہم نے کیا
عدو کے ملنے سے اس شوخ کو انکار ہو جاتا
وہ جانتے نہیں مجھے کچھ بھی نظام کیا
یہ لفظ جو تمہارے دھن سے نکل گیا
آپ کو آپ کی تکرار نے سونے نہ دیا
دھوکے سے مانہ بر مجھے خط دے رقیب کا
سچ ہے ناحق تمہیں کیا مجھ سے خفا رہنا تھا
یہ عجب تم نے نکالا سونا
یہ تو مانا کہ وفا آپ کا وعدا ہوگا
رعب ایسا مرے دل پر بہ خدا بیٹھ گیا
تیری فرقت میں مری جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
کیا جذب دل نے اثر تھوڑا تھوڑا
اعدا کی شوخیاں تھیں حسد کا ظہور تھا
تو بہ ابھی نہ کی تھی ارادا بدل گیا
شام سے بھو گئے صبح تک اس کا جانا
آتا ہی مرے پاس وہ کیوں کر نہیں آتا
عدو کو تم سے گلا بھی تو دوستانہ ہوا
تمہیں اپنی خوشی سے کام کیوں غم ہو مرے غم کا
جی میں کچھ اپنے نہ شک لائیے گا
ترے آگے عدو کو نامہ بر مارا تو کیا مارا
دیکھیے تو خیال خام مرا
راضی جو وصل پر بت پیماں شکن ہوا
ہم کو شب وصال بھی رنج ومحن ہوا
آپ سن لیں گے کوئی دم میں جو کچھ یاں ہوگا
قطع امید کا شیوہ ہے بھلا یاں کس کا
مری خاطر سے واں تک دوستو جاتے تو کیا ہوتا
اب تو آ ظلم بھلا کیا وقت ہے تکرار کا
غم میں تیرے مجھے رسواے جہاں ہونا تھا
ابھی آتے ہی جو گھر یاد آیا
سوچ دیکھو یہی اب ہے یہ طریقا کیسا
ربط دشمن سے ہے انکار تو کرنا پھر کیا
یہ تو بتلا دے تو قاصد سامنا کیوں کر ہوا
تصور ہے ہمیں ہر دم تمہارے روے تاباں کا
یہ ہی الفت کا تو یہ اے تندخو ہو جائے گا
فراق میں تو ستاتی ہے آرزوے وصال
ہائے میں بے ساختہ کہہ بیٹھا ہوں آپھی آپ
یہ ہی اک دل کی ہوس ہے وہ اگر آجائے گا
غیر سے بھی کبھی کچھ ذکر مرا کرتے ہو
جب یہ سنا کہ وہ ادھر آکر الٹ گیا
دل تجھ سے بے وفا کو دیا میں نے کیا کیا
غم تو تمہارے ہجر کا جی پہ مرے کمال تھا
بے مروت تو یار ہے کس کا
شب وصال بھی ہم سے وہ بے وفا نہ کھلا
کب بھلا مجنوں کو قضا نے مارا
وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اب تو فراق یار مرا کام کرگیا
مجھ سے کچھ روٹھ کر جو یار اٹھا
شکوۂ رشک دشمناں کیسا
دشمن سے پوچھتے ہو مری بات کا جواب
ردیف ب
دن کی بھی وصل یار میں ہم نے بنائی شب
حال دل سن کر نہ دینا اس ستم گر کا جواب
ساقیا آج پلا دے کسی تدبیر شراب
ردیف چ
جب میں کہتا ہوں کب ملیں گےآپ
کہتے ہیں جائیں گے وہ غیر کے گھر آج کی رات
ردیف ت
یاد آگئی ہے آج مجھے وہ کبھی کی بات
خوشی کیا جو وصلت کی آئے گی رات
خواہش نہ وصل میں بھی بر آئی تمام رات
ہر اک غضب تھی یوں تو شب اس فتنہ گر کی بات
نہ کہنا پھر کہ مری تیغ کی بچائی چوٹ
ردیف ٹ
ہائے یہ میں نے کیا کیا ان سے گلا کیا عبث
ردیف ث
دل ہے کیوں بے قرار کیا باعث
دل ہاتھوں میں تھامے ہوئے وہ آئیں ادھر آج
ردیف ج
بیماریٔ تپ غم ہجراں کا کیا علاج
شب غم کی درازی اس قدر آج ؟
کچھ کل سے کیا نئی ہے شب انتظار آج
میں تو دامن کھینچوں تو شمشیر کھینچ
ردیف چ
ردیف ح
اللہ مجھ کو نیند ہی آئے کسی طرح
یہ شوخی چھوڑ دے او بے وفا شوخ
ردیف خ
ردیف د
اب کہاں کی خبر کہاں قاصد
تم دل آزار ہو تو ہم ہیں دل آزار پسند
میں تو دیکھو اسے کیا ہے کوئی میرا کاغذ ؟
ردیف ذ
ردیف ر
ہوں پشیماں دشمنوں سے ان کے پیماں دیکھ کر
ہوا نادم میں حال دل سنا کر
گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
مطلب کی کچھ کہوں تو کہیں منہ ادھر پھرا
اس کے ملنے میں کچھ مزا ہے اور
تم پہ کیا جان نہ دے گا کوئی اچھا ہو کر
وہ غیر ہوگا جو شب بھر رہا ترے در پر
دوستو لاؤ یقیں تم بھی خدا کے نام پر
ختم ہیں بے رحمیاں اس سنگ دل عیار پر
وہ الٹی سیدھی کہہ کر ناحق مجھے رلا کر
ردیف ش
بھلا ہونے کے ہیں کہیں خاموش
ستم کی ہے فلک رو سیاہ کی گردش
اب جانا ہم نے آپ کو ہو بے وفا غرض
ردیف ض
ردیف ط
یہ تو سچ ہے بات ہوتی ہے تمہاری کم غلط
لو ہمے پیو بھی وصل میں ایسا ہے کیا لحاظ
ردیف ظ
ردیف ف
دل ہے اس شوخ فتنہ گر کی طرف
وصل صنم ہوا نہ ہمیں ایک بار حیف
نہ چھوٹے ہم کسی صورت سے تجھ سے ہائے فراق
ردیف ق
درد سر کہہ کے ہے بندے کا رلانا شب وصل
ردیف ل
اگر کہیے میرے ستانے سے حاصل
مرے کہنے میں گر ہوتا مرا دل
کہتے ہیں کس ادا سے وہ سن ماجرائے دل
کیا کروں آرام آئے کس طرح
ردیف م
جو کہیے آہ کا تم کو اثر نہیں معلوم
ہاں نہ ہوگی مرے دل کی تمہیں حالت معلوم
یاخدا کیسے ملیں اس بت مغرور سے ہم
کہتے ہو لگا لینے کے حق میں ہیں بلا ہم
اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
جھوٹ کہتے ہو کہ عیار ہو تم
آتے ہی یہ تو نہ کہہ جاتے ہیں ہم
اب نہ آئیں گے تیرے سر کی قسم
کہتے ہو یوں ہی ستائیں گے ہم
ردیف ن
جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
دشمنوں سے ان کی پھر ہے دوست داری ان دنوں
جو ہم کبھی بت نا آشنا سے لڑتے ہیں
ہم تو ہر طرح سے تمہارے ہیں
مطلب تو مری بات کا وہ پائے ہوئے ہیں
حال اس شوخ سے اظہار کروں یا نہ کروں
اچھا سہی نہ دل کی بیاں آرزو کریں
موت آئے اگر جدائی میں
صدمہ یہی رہا تو سحر تک بھی ہم نہیں
یا یہاں ہوں میں یا وہاں ہوں میں
دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں
وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
زیست سے ہاتھھ اٹھائے بیٹھے ہیں
اس کا کہنا نہیں نظام نہیں
غیر ہم دوست آپ کا دشمن
کہاں وہ دن رہیں گی یاد یہ ہی عمر بھر باتیں
میں حال دل ان سے کہہ رہا ہوں
نہ آنے کا اپنے سبب کیا کہوں
کیوں کہیں تم سے جو کچھ ہے ہم نے دیکھا خواب میں
اب لطف بھی کرو تو کچھ احسان ہی نہیں
لے کے دل تم تو آشنا ہی نہیں
وہ اپنے حسن کو گر تنگ آکے کوستے ہیں
کہیں کیا دل کے ارماں اپنے اب کیوں کر نکلتے ہیں
بے وہاں جائے بھلا ہم سے رہا جائے کہاں
کس کس سے تم ملے میں کسی سے ملا نہیں
آپ کہتے ہیں مجھے کیا کچھ نہیں
ہر بات پر جو کرتے ہو صاحب نہیں نہیں
تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
غم سے کس دن میں بے قرار نہیں
کیا غضب ہے کہ وہاں آپ میں جا بھی نہ سکوں
اب کے بھی ملیے ایسے پاس نہیں
دل کو میرے اڑائے جاتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں
کچھ مجھ سے مقصد آپ کا ہوتا اگر نہیں
تصویر آپ ہی کی کسی سے کھچاؤں میں
یہی ہیں نام خدا حسن کی بہار کے دن
دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں ؟
دیکھ روتا مجھے اور اس نے دکھائیں آنکھیں
غیر کے بھی جو غم و رنج کو باطل سمجھیں
مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انھیں منظور نہیں
میرے دل دار نہ گھر میں مرے آ تیسرے دن
یہ کس کو پھیر کے منہ آپ ادھر کو کوستے ہیں
اف وہ دینا زباں کا منہ میں
چھیڑنے کو میرے ایسا ذکر چھیڑا وصل میں
تھی ان کے روک رکھنے کی تدبیر ہاتھ میں
واں تو ملنے کا ارادا ہی نہیں
آپ کہتے ہیں مجھے شکوۂ بے جا ہے تمہیں
گر کہیے تم کو پاس محبت ذرا نہیں
کبھی رنج ہیں اور کبھی پیار ہیں
شک نہ کرتا میں کبھی قاصد تری تقدیر میں
غیر تو ہم کو برا کہتے ہیں
جو چاہو کہہ لو کچھ نہ کہیں گے جواب میں
کچھ کہیے ہم بھی کچھ نہ کہیں گے جواب میں
جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
جو دوست میرے ساتھ گیا کوے یار میں
الٰہی اس مصیبت کی یہ کیسی راہ و رسمیں ہیں
کہہ سکتے آپ کو تو دل آزار بھی نہیں
ردیف و
پھر کب آو گے مجھے وقت بتاتے جاؤ
چین ہوتا نہیں ذرا دل کو
یاد ہے چاہتے تھے یوں ہی کبھی تم مجھ کو
زباں غیر پہ اس شوخ کا گلا ہی نہ ہو
مری جان ! میری مصیبت نہ پوچھو
گر آپ کو خیال مرا کچھ نہیں نہ ہو
امکان ہے کہ ان کو ندامت ہوئی تو ہو
دیکھ اپنے قرار کرنے کو
کہہ تو آج شب کے آنے کو
بھلا وہ کیوں کہ جیے جو مریض زار بھی ہو
کیا سناتے ہو یہ ہر بار مری جاں مجھ کو
یہ تم کو کون کہتا ہے کسی کو پیار کرتے ہو
تم کس کے آشنا یہ کسی اور سے کہو
سمجھتا ہوں میں کیوں تم دوستی اظہار کرتے ہو
اس کا گلہ نہیں نہ ہو وعدہ وفا نہ ہو
سو جھگڑے وصل میں بھی ہوں کچھ مدعا نہ ہوا
اب سچ بھی کہے کوئی تو مجھ کو نہ یقیں ہو
آہیں بھرنا ہمیں دن رات اثر ہو کہ نہ ہو
گلوں کی کھینچ کے عطار نے خراب کی بو
رشک عدو کی تم کو شکایت ہی کیوں نہ ہو
اس طرف کو تو اک نظر دیکھو
نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو
تم سے دشمن کو گو شکایت ہو
ہم تو دیکھیں تمہیں چلون کو اٹھا کر دیکھو
کسی کے دل میں محبت مری ہزار نہ ہو
ردیف ہ
ایسے کو شب وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
تنگ آیا ہوں یا خدا توبہ
اب ہیں ہر بات پہ چراتے آنکھ
میرا خط لے کے وہ پوچھے اگر کچھ
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
لو لپٹو بھی دل کی تو وا کی گرہ
ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دل گیر کے ساتھ
کیا کہیے کیوں کہ لبھتی ہے اس کج ادا کے ساتھ
ردیف ی ے
صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے
جیتے جی دل سے یہ الفت کا مزا جاتا ہے
تسلیٔ دل مضطر کا احتمال تو ہے
حال قاصد سے بیاں ہو جائے
شب تو وہ یاں سے روٹھ کے گھر جاکے سو رہے
تکلیف روز سہنی شب انتظار کی
دم مردن بھی وہ گر ہو جائے
کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کرکے سوئیے
حالت ہے بری اب تو خدایا مرے دل کی
پھر تم تو آج پھر گئے قول وقرار سے
گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
کیوں کہتے ہو کہ میری وہ عادت نہیں رہی
ہو کے بس انسان حیران سر پکڑ کر بیٹھ جائے
منظور ہو ہماری ہی خاطر کہیں تجھے
وصل میں بھی یار کا لب پر مرے شکوا تو ہے
کہتے ہو الفت اور کسی سے نہیں مجھے
اس قدر آپ کا عتاب رہے
کہتے ہو صبح دم بھی نہ چھیڑو بس اب مجھے
آرزو تھی کہ کوئی دل کی تمنا نکلے
آپ نے کیوں مرے ملنے کی قسم کھائی ہے ؟
یوں ہم کو کسی بات کا شکوا تو نہیں ہے
محروم مجھ کو یاں سے نہ ایسا اٹھائیے
آج کہتے ہو مدعا کہیے
یہ کیا وہ چلتے وقت سنا کر چلے گئے
تم ہو گئے کچھ اور نہ کچھ اور ہم ہوئے
چلے آنے میں تھے کیے کیسے
مجھ پہ یہ کچھ جو اذیت ہوگی
ذبح کر مجھ کو بت بے پیر اپنے ہاتھ سے
ہم جذب دل سے گر تمہیں اک بار کھینچتے
کسی پر راز دل اپنا عیاں کیجے تو کیا کیجے
میری ہی سی قاصد تو کہے جا مرے آگے
کیا کہیں ہم غم میں تیرے کس قدر رویا کیے
کہتے ہو کہ اب حال ترا اور ہی کچھ ہے
کچھ تو ستائے جاتے ہیں اس جان جاں سے بھی
پھر نہ کہنا کہ مجھے تم نے کہیں دیکھا ہے
واں پر تو احبا مجھے جانے نہیں دیتے
جو جان آکے لب پر کبھو رہ گئی ہے
زیر دیوار ہی رہا کرتے
بیٹھے بیٹھے آپ کیوں اٹھ کر چلے
مریض عشق کو مرنا شفا سے کیا کم ہے
کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
کہنے کو تو وہ مجھ سے ہیں کیا کیا نہیں کہتے
فن عیار میں بھی تو اے ستم گر ! ایک ہے
نہ تجھ کو بھیجتا قاصد اگر یہ جانتا پہلے
سنا ہے آج واں کچھ اور ہی تدبیر میری ہے
نہیں سوجھتا کوئی چارا مجھے
اس ظلم پر بھی تم سے نہیں کچھ گلا مجھے
پھر کیا کہوں وہ ملنے میں کرتا قصور ہے
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
بیان خواہش دل سب تو ہو چکا مجھ سے
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
کچھ کہے سامنے اس کے یہ ہے مقدور کسے
مل جائے جو وہ ھم سے تو کچھ دور نہیں ہے
دوستو اس سے نہ ملنا چاہیے
قاصد کی بات کا کسے یاں اعتبار ہے
کیوں کہا اس سے کہ بگڑی خوبیٔ تقدیر سے
ہوں جان سے خانۂ دلدار کے صدقے
گر آئے بھی تو ایسے وہ بہتان دھر گئے
منتوں سے جو وہ یاں آج ہیں بلوائے ہوئے
دل کی حالت کہی نہیں جاتی
محفل میں آتے جاتے ہیں انساں نئے نئے
امید تجھے سے ایسی بھی اے فتنہ گر نہ تھی
مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
روتے ہیں آگے مرے الفت جتانے کے لیے
ربط کچھ ہم نے بڑھایا تھا بڑی مشکل سے
نہیں ہر بات پر نہیں ہوتی
دنیا کی سر پہ آفتیں لیں تیرے واسطے
ایسے انجان ہوئے ایسے ہی ناداں ہوگے
بے وجہ تم کو میری طرف سے ملال ہے
ظاہر ہوا یہ میری ہی گفتار سے ابھی
اگر کہوں کوئی اتنی جفا بھی کرتا ہے
اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
جو سوگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
مری سانس اب جارا گر ٹوٹتی ہے
تم بگڑو غیر سے ابھی اک ایسی بات ہے
مجھ سے الفت ہے کہہ دیا یہ بھی
درد دل کی مرے گو ان کو دوا آتی ہے
توجہ سہی ہم پہ کم اور بھی
ذکر کس بات کا چھیڑا تو نے
تم سے امید بر آئے کوئی
آپ نے آج نکالی ہے یہ تکرار نئی
ہم کیوں ملیں کسی سے یہ اچھا جواب ہے
جھگڑے شب وصال یہ باہم دگر پڑے
واقف ہی نہیں لذت آزار سے کوئی
کیوں بار بار عرض تمنا کرے کوئی
حجت نکالی خوب یہ تکرار کے لیے
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
یہ کیوں کہیں کچھ اور ارادا نہ کریں گے
دیکھوں تو میرے پاس کہاں تک نہ آئیں گے
ایذائیں وصل میں بھی اٹھائیں نئی نئی
رخ پہ وہ زلف دوتا لوٹ گئی
یا رب ! جو دل دیا ہے تو دل کو قرار دے
میری قسمت بھی کیا بجا ٹھہری
اگر فریب ہمارے بھی تم پہ چل جاتے
ہمارے عشق کی کیا داستان اچھی ہے
لگاوٹ یاد ہے وہ ابتدا کی
یہی کچھ خط ہے جینے کا یہی کچھ لطف ہستی ہے
یہ تو مانا کبھی تم نے نہ مری مانی ہے
سچ ہے بجا ہے مجھ سے شکایت جناب کی
اس نے جو کچھ کہا کیے ہے بنی
دل میں وہ بات تو اے دشمن دیں بیٹھ گئی
آرزو دل کی بر نہیں آتی
تنہا نہ اس کی چاہ نے رسوا کیا مجھے
دل ربائی کا یہی طرز تمہیں یاد رہے
بہم الفت کی باتوں میں کدورت آ ہی جاتی ہے
جان پر اپنی وہ آساں ہے جو مشکل آئے
یہ ہوا سرد چلی اور یہ باد آئے
اجل بھی آئے کہیں انتظار کے بدلے
الفت کی ایسی چوٹ ہے دل پر لگی ہوئی
پھر کہتے ہو ہم پاس کسی کا نہیں کرتے
تمہارے وعدے پہ کیوں دل کو بے قراری ہے
دل دیا ہاں یہ کیا کیا میں نے
بات کس دن آپ نے مانی مری
نظرآتے ہو آج حیراں سے
میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوئی
جو کہیے کچھ خبر تم کو کسی مضطر کی ہوتی ہے ؟
کوئی ہزار طرح اس کا غم بھلائے مجھے
یا جدا دل سے خدایا تپ ہجراں ہو جائے
ناحق میں مجھ سے اہل وفا سے بگڑ گئی
نہیں ملتا کسی ڈھب دل ربا کیجے تو کیا کیجے
جب سے اس بت پہ طبع آئی ہے
کیا پیش جائے ایسے ستم گر کے سامنے
یہ چلتے وقت آپ مجھے کیا سنا چلے
روز محشر سے بھی افزوں شب وعدا دیکھی
بھا گیا ہے لطف ایسا رشک دشمن کا مجھے
نہ گونج بالی کی رخسار سیم بر میں چبھے
کب وہ بال اپنے سنگھاتے ہیں مجھے
دل پھرا ناصح کب اس عیار سے
صاف باتوں میں تو کدورت ہے
واں رسائی ہو تو ذلت ہو جائے
کبھی ملتے تھے ہم سے وہ زمانہ یاد آتا ہے
منظور وصل کب تمہیں وعدا کیا سہی
ادھر آرائشیں ہیں اور ادھر نوحہ ہے زاری ہے
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
گردش ہمیں وطن میں ہے ایذا سفر میں ہے
ذرا سمجھ تو ضد ان کی ہزار باقی ہے
گئے ہیں وہ ابھی یاں سے پتا نہیں ملتا
جو منہ سے کہا ہے وہی اب کرکے اٹھیں گے
دل دھڑکتا ہے وہاں پر جاتے
ہزاروں وہم ہوئے گر ہوا وصال مجھے
اٹھا ہوں اس کی بزم سے جب ہو کے ناامید
قصائد ، قطعات ، سہرے ، قطعات اور غزل (فارسی)
صنعت توشیح
جوشش نشو و نما ہے یہ چمن میں ہر جا
قصیدۂ نو رسیدہ در صنائع و بدائع
فتنۂ زلف کا اندھیر ہے طوفان بلا
غزل
جوہر طبع رسا عرض کروں کس کے حضور
گریز شاعرانہ
اے فلک رتبہ و ذی جاہ و امیرالامرا
مطلع
اشعار دعائیہ
جلوہ گر مطلع امید سے ہے مہر مراد
قصیدہ(2) ، در مدح یوست عہد، ملک خصال، سکندر شوکت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلایا جائے کہاں دل سے وہ بت بے پیر
عجب نصیب ترے اور عجب تری تقدیر
مطلع ثانی
مطلع ثالث
ہوا ہے عہد میں اس کے جواں یہ چرخ پیر
شیل اشک (و) گرد غم سے ہے مکدر آستیں
قصیدہ(3) در مدح عالی جناب معلی القاب گردوں جناب ہلال رکاب۔۔۔۔۔۔۔
قصیدہ(4) در مدح حاجی الحرمین، معلی القاب، گردوں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تری عمر ہو آسماں سے زیادہ
قصیدہ (5) در مدح نواب کلب علی خاں والی ، ریاست رام پور
یہ سچ ہے وقت پھر کبھی آتا ہے جاکے ہاتھ
قطعات (عرض داشت بہ جناب اصغر علی خاں صاحب)
اگر پوچھیں گے ہم سے حشر کے دن احمد مرسل
اے بہادر محمد عثماں خاں
قطعہ (عرض داشت بہ جناب مدار المہام صاحب)
بسنت رائے مہاراج عہد عالی جاہ
قطعہ (عرض داشت بہ جناب مہاراج بسنت رائے)
یہ شادی یہ شادی کا ساماں مبارک
قطعہ مبارک بادی
قطعہ (بہ توصیف جناب مہاراج منّا صاحب بہادر دام اقبالہم)
طالع خفتہ اب تو ہو بیدار
لا صبا پھول کہ تیار کریں ہم سہرا
سہرے
گل فردوس سے حوروں نے تو گوندھا سہرا
سہرا مثلث
اچھی ساعت سے بنا اچھے بنے کا سہرا
کیا طلسمات کے پھولوں کا ہے مالن سہرا
کم خوشی کس کو ہے شادی ہے بڑی سہرے کی
قطعۂ تہنیت عید
فارسی ، قطعہ تاریخ ولد فرزند
ایں عید بہ بندگان عالی
چوں بہ مشکوے عطاء اللہ خاں
غزل (فارسی)
چہ کنم با دل اختیارم نیست
اختلاف نسخ
خاتمہ
مثنوی اور قطعات تاریخ طبع دیوان
زہے طبع والاے حضرت نظام
اغلاط نامہ
YEAR1965
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सय्यद इम्तियाज़ अली ताज,मज्लिस-ए-तरक़्क़ी-ए-अदब, लाहौर
YEAR1965
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सय्यद इम्तियाज़ अली ताज,मज्लिस-ए-तरक़्क़ी-ए-अदब, लाहौर
سرورق
فہرست
حیات نظام از کلب علی خاں فائق
غزلیات
اگر خود نما وہ خود آرا نہ ہوتا
ردیف الف
تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
یاں کسے غم ہے جو گریے نے اثر چھوڑ دیا
دلا خیال نہ کر اس سے آشنائی کا
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
کیوں کرتے ہو وعدہ جو وفا ہو نہیں سکتا
ایسا تو کسی پر تمہیں غصا نہیں آتا
اک فائدہ تو جھوٹے ترے پیار نے کیا
یہ اپنا حال کیا ایسا انتظار کیا
اس کوچے سے اب میں تو احبا نہیں اٹھتا
بگڑ کر وہ اس کا ادھر دیکھنا
کیا درد میرے دل کا خدایا نہ جائے گا
کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
غیر کا حال گر سنا ہوگا
وہ نہیں آتا گر نہیں آتا
بس تم سے ترک صحبت اغیار ہوچکا
قصد ان کا ہے یاں سے جانے کا
گر دوستوں تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
میری جاں دل مرا منظور ہے تم کو اگر لینا
یوں غیر کا حال زار ہوگا
لگاوٹ سے وہ ہائے کہنا کسی کا
بدنامیوں می ایسا کس کا ہے نام نکلا
میں نے ہی کیوں شکوۂ بے جا کیا
اٹھنا ہی وہاں سے بر محل تھا
ہائے دل اب وہ دوست دار ہوا
یہ جو کہتے ہو تو نے کیا جانا
کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
مرنے کا لطف زیست سے مجھ کو سوا ہوا
صبح کو ان کو کب ٹھہرنا تھا
مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
یوں تو تھا دشمن جاں ایک زمانا میرا
کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
یوں تو مجھ سے ملا نہیں جاتا
کہتے وہ کیوں سنا کے ملیں ہم کسی سے کیا
کیا گلہ ذکر کسی بات کا گر ہم نے کیا
عدو کے ملنے سے اس شوخ کو انکار ہو جاتا
وہ جانتے نہیں مجھے کچھ بھی نظام کیا
یہ لفظ جو تمہارے دھن سے نکل گیا
آپ کو آپ کی تکرار نے سونے نہ دیا
دھوکے سے مانہ بر مجھے خط دے رقیب کا
سچ ہے ناحق تمہیں کیا مجھ سے خفا رہنا تھا
یہ عجب تم نے نکالا سونا
یہ تو مانا کہ وفا آپ کا وعدا ہوگا
رعب ایسا مرے دل پر بہ خدا بیٹھ گیا
تیری فرقت میں مری جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
کیا جذب دل نے اثر تھوڑا تھوڑا
اعدا کی شوخیاں تھیں حسد کا ظہور تھا
تو بہ ابھی نہ کی تھی ارادا بدل گیا
شام سے بھو گئے صبح تک اس کا جانا
آتا ہی مرے پاس وہ کیوں کر نہیں آتا
عدو کو تم سے گلا بھی تو دوستانہ ہوا
تمہیں اپنی خوشی سے کام کیوں غم ہو مرے غم کا
جی میں کچھ اپنے نہ شک لائیے گا
ترے آگے عدو کو نامہ بر مارا تو کیا مارا
دیکھیے تو خیال خام مرا
راضی جو وصل پر بت پیماں شکن ہوا
ہم کو شب وصال بھی رنج ومحن ہوا
آپ سن لیں گے کوئی دم میں جو کچھ یاں ہوگا
قطع امید کا شیوہ ہے بھلا یاں کس کا
مری خاطر سے واں تک دوستو جاتے تو کیا ہوتا
اب تو آ ظلم بھلا کیا وقت ہے تکرار کا
غم میں تیرے مجھے رسواے جہاں ہونا تھا
ابھی آتے ہی جو گھر یاد آیا
سوچ دیکھو یہی اب ہے یہ طریقا کیسا
ربط دشمن سے ہے انکار تو کرنا پھر کیا
یہ تو بتلا دے تو قاصد سامنا کیوں کر ہوا
تصور ہے ہمیں ہر دم تمہارے روے تاباں کا
یہ ہی الفت کا تو یہ اے تندخو ہو جائے گا
فراق میں تو ستاتی ہے آرزوے وصال
ہائے میں بے ساختہ کہہ بیٹھا ہوں آپھی آپ
یہ ہی اک دل کی ہوس ہے وہ اگر آجائے گا
غیر سے بھی کبھی کچھ ذکر مرا کرتے ہو
جب یہ سنا کہ وہ ادھر آکر الٹ گیا
دل تجھ سے بے وفا کو دیا میں نے کیا کیا
غم تو تمہارے ہجر کا جی پہ مرے کمال تھا
بے مروت تو یار ہے کس کا
شب وصال بھی ہم سے وہ بے وفا نہ کھلا
کب بھلا مجنوں کو قضا نے مارا
وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اب تو فراق یار مرا کام کرگیا
مجھ سے کچھ روٹھ کر جو یار اٹھا
شکوۂ رشک دشمناں کیسا
دشمن سے پوچھتے ہو مری بات کا جواب
ردیف ب
دن کی بھی وصل یار میں ہم نے بنائی شب
حال دل سن کر نہ دینا اس ستم گر کا جواب
ساقیا آج پلا دے کسی تدبیر شراب
ردیف چ
جب میں کہتا ہوں کب ملیں گےآپ
کہتے ہیں جائیں گے وہ غیر کے گھر آج کی رات
ردیف ت
یاد آگئی ہے آج مجھے وہ کبھی کی بات
خوشی کیا جو وصلت کی آئے گی رات
خواہش نہ وصل میں بھی بر آئی تمام رات
ہر اک غضب تھی یوں تو شب اس فتنہ گر کی بات
نہ کہنا پھر کہ مری تیغ کی بچائی چوٹ
ردیف ٹ
ہائے یہ میں نے کیا کیا ان سے گلا کیا عبث
ردیف ث
دل ہے کیوں بے قرار کیا باعث
دل ہاتھوں میں تھامے ہوئے وہ آئیں ادھر آج
ردیف ج
بیماریٔ تپ غم ہجراں کا کیا علاج
شب غم کی درازی اس قدر آج ؟
کچھ کل سے کیا نئی ہے شب انتظار آج
میں تو دامن کھینچوں تو شمشیر کھینچ
ردیف چ
ردیف ح
اللہ مجھ کو نیند ہی آئے کسی طرح
یہ شوخی چھوڑ دے او بے وفا شوخ
ردیف خ
ردیف د
اب کہاں کی خبر کہاں قاصد
تم دل آزار ہو تو ہم ہیں دل آزار پسند
میں تو دیکھو اسے کیا ہے کوئی میرا کاغذ ؟
ردیف ذ
ردیف ر
ہوں پشیماں دشمنوں سے ان کے پیماں دیکھ کر
ہوا نادم میں حال دل سنا کر
گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
مطلب کی کچھ کہوں تو کہیں منہ ادھر پھرا
اس کے ملنے میں کچھ مزا ہے اور
تم پہ کیا جان نہ دے گا کوئی اچھا ہو کر
وہ غیر ہوگا جو شب بھر رہا ترے در پر
دوستو لاؤ یقیں تم بھی خدا کے نام پر
ختم ہیں بے رحمیاں اس سنگ دل عیار پر
وہ الٹی سیدھی کہہ کر ناحق مجھے رلا کر
ردیف ش
بھلا ہونے کے ہیں کہیں خاموش
ستم کی ہے فلک رو سیاہ کی گردش
اب جانا ہم نے آپ کو ہو بے وفا غرض
ردیف ض
ردیف ط
یہ تو سچ ہے بات ہوتی ہے تمہاری کم غلط
لو ہمے پیو بھی وصل میں ایسا ہے کیا لحاظ
ردیف ظ
ردیف ف
دل ہے اس شوخ فتنہ گر کی طرف
وصل صنم ہوا نہ ہمیں ایک بار حیف
نہ چھوٹے ہم کسی صورت سے تجھ سے ہائے فراق
ردیف ق
درد سر کہہ کے ہے بندے کا رلانا شب وصل
ردیف ل
اگر کہیے میرے ستانے سے حاصل
مرے کہنے میں گر ہوتا مرا دل
کہتے ہیں کس ادا سے وہ سن ماجرائے دل
کیا کروں آرام آئے کس طرح
ردیف م
جو کہیے آہ کا تم کو اثر نہیں معلوم
ہاں نہ ہوگی مرے دل کی تمہیں حالت معلوم
یاخدا کیسے ملیں اس بت مغرور سے ہم
کہتے ہو لگا لینے کے حق میں ہیں بلا ہم
اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
جھوٹ کہتے ہو کہ عیار ہو تم
آتے ہی یہ تو نہ کہہ جاتے ہیں ہم
اب نہ آئیں گے تیرے سر کی قسم
کہتے ہو یوں ہی ستائیں گے ہم
ردیف ن
جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
دشمنوں سے ان کی پھر ہے دوست داری ان دنوں
جو ہم کبھی بت نا آشنا سے لڑتے ہیں
ہم تو ہر طرح سے تمہارے ہیں
مطلب تو مری بات کا وہ پائے ہوئے ہیں
حال اس شوخ سے اظہار کروں یا نہ کروں
اچھا سہی نہ دل کی بیاں آرزو کریں
موت آئے اگر جدائی میں
صدمہ یہی رہا تو سحر تک بھی ہم نہیں
یا یہاں ہوں میں یا وہاں ہوں میں
دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں
وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
زیست سے ہاتھھ اٹھائے بیٹھے ہیں
اس کا کہنا نہیں نظام نہیں
غیر ہم دوست آپ کا دشمن
کہاں وہ دن رہیں گی یاد یہ ہی عمر بھر باتیں
میں حال دل ان سے کہہ رہا ہوں
نہ آنے کا اپنے سبب کیا کہوں
کیوں کہیں تم سے جو کچھ ہے ہم نے دیکھا خواب میں
اب لطف بھی کرو تو کچھ احسان ہی نہیں
لے کے دل تم تو آشنا ہی نہیں
وہ اپنے حسن کو گر تنگ آکے کوستے ہیں
کہیں کیا دل کے ارماں اپنے اب کیوں کر نکلتے ہیں
بے وہاں جائے بھلا ہم سے رہا جائے کہاں
کس کس سے تم ملے میں کسی سے ملا نہیں
آپ کہتے ہیں مجھے کیا کچھ نہیں
ہر بات پر جو کرتے ہو صاحب نہیں نہیں
تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
غم سے کس دن میں بے قرار نہیں
کیا غضب ہے کہ وہاں آپ میں جا بھی نہ سکوں
اب کے بھی ملیے ایسے پاس نہیں
دل کو میرے اڑائے جاتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں
کچھ مجھ سے مقصد آپ کا ہوتا اگر نہیں
تصویر آپ ہی کی کسی سے کھچاؤں میں
یہی ہیں نام خدا حسن کی بہار کے دن
دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں ؟
دیکھ روتا مجھے اور اس نے دکھائیں آنکھیں
غیر کے بھی جو غم و رنج کو باطل سمجھیں
مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انھیں منظور نہیں
میرے دل دار نہ گھر میں مرے آ تیسرے دن
یہ کس کو پھیر کے منہ آپ ادھر کو کوستے ہیں
اف وہ دینا زباں کا منہ میں
چھیڑنے کو میرے ایسا ذکر چھیڑا وصل میں
تھی ان کے روک رکھنے کی تدبیر ہاتھ میں
واں تو ملنے کا ارادا ہی نہیں
آپ کہتے ہیں مجھے شکوۂ بے جا ہے تمہیں
گر کہیے تم کو پاس محبت ذرا نہیں
کبھی رنج ہیں اور کبھی پیار ہیں
شک نہ کرتا میں کبھی قاصد تری تقدیر میں
غیر تو ہم کو برا کہتے ہیں
جو چاہو کہہ لو کچھ نہ کہیں گے جواب میں
کچھ کہیے ہم بھی کچھ نہ کہیں گے جواب میں
جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
جو دوست میرے ساتھ گیا کوے یار میں
الٰہی اس مصیبت کی یہ کیسی راہ و رسمیں ہیں
کہہ سکتے آپ کو تو دل آزار بھی نہیں
ردیف و
پھر کب آو گے مجھے وقت بتاتے جاؤ
چین ہوتا نہیں ذرا دل کو
یاد ہے چاہتے تھے یوں ہی کبھی تم مجھ کو
زباں غیر پہ اس شوخ کا گلا ہی نہ ہو
مری جان ! میری مصیبت نہ پوچھو
گر آپ کو خیال مرا کچھ نہیں نہ ہو
امکان ہے کہ ان کو ندامت ہوئی تو ہو
دیکھ اپنے قرار کرنے کو
کہہ تو آج شب کے آنے کو
بھلا وہ کیوں کہ جیے جو مریض زار بھی ہو
کیا سناتے ہو یہ ہر بار مری جاں مجھ کو
یہ تم کو کون کہتا ہے کسی کو پیار کرتے ہو
تم کس کے آشنا یہ کسی اور سے کہو
سمجھتا ہوں میں کیوں تم دوستی اظہار کرتے ہو
اس کا گلہ نہیں نہ ہو وعدہ وفا نہ ہو
سو جھگڑے وصل میں بھی ہوں کچھ مدعا نہ ہوا
اب سچ بھی کہے کوئی تو مجھ کو نہ یقیں ہو
آہیں بھرنا ہمیں دن رات اثر ہو کہ نہ ہو
گلوں کی کھینچ کے عطار نے خراب کی بو
رشک عدو کی تم کو شکایت ہی کیوں نہ ہو
اس طرف کو تو اک نظر دیکھو
نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو
تم سے دشمن کو گو شکایت ہو
ہم تو دیکھیں تمہیں چلون کو اٹھا کر دیکھو
کسی کے دل میں محبت مری ہزار نہ ہو
ردیف ہ
ایسے کو شب وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
تنگ آیا ہوں یا خدا توبہ
اب ہیں ہر بات پہ چراتے آنکھ
میرا خط لے کے وہ پوچھے اگر کچھ
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
لو لپٹو بھی دل کی تو وا کی گرہ
ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دل گیر کے ساتھ
کیا کہیے کیوں کہ لبھتی ہے اس کج ادا کے ساتھ
ردیف ی ے
صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے
جیتے جی دل سے یہ الفت کا مزا جاتا ہے
تسلیٔ دل مضطر کا احتمال تو ہے
حال قاصد سے بیاں ہو جائے
شب تو وہ یاں سے روٹھ کے گھر جاکے سو رہے
تکلیف روز سہنی شب انتظار کی
دم مردن بھی وہ گر ہو جائے
کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کرکے سوئیے
حالت ہے بری اب تو خدایا مرے دل کی
پھر تم تو آج پھر گئے قول وقرار سے
گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
کیوں کہتے ہو کہ میری وہ عادت نہیں رہی
ہو کے بس انسان حیران سر پکڑ کر بیٹھ جائے
منظور ہو ہماری ہی خاطر کہیں تجھے
وصل میں بھی یار کا لب پر مرے شکوا تو ہے
کہتے ہو الفت اور کسی سے نہیں مجھے
اس قدر آپ کا عتاب رہے
کہتے ہو صبح دم بھی نہ چھیڑو بس اب مجھے
آرزو تھی کہ کوئی دل کی تمنا نکلے
آپ نے کیوں مرے ملنے کی قسم کھائی ہے ؟
یوں ہم کو کسی بات کا شکوا تو نہیں ہے
محروم مجھ کو یاں سے نہ ایسا اٹھائیے
آج کہتے ہو مدعا کہیے
یہ کیا وہ چلتے وقت سنا کر چلے گئے
تم ہو گئے کچھ اور نہ کچھ اور ہم ہوئے
چلے آنے میں تھے کیے کیسے
مجھ پہ یہ کچھ جو اذیت ہوگی
ذبح کر مجھ کو بت بے پیر اپنے ہاتھ سے
ہم جذب دل سے گر تمہیں اک بار کھینچتے
کسی پر راز دل اپنا عیاں کیجے تو کیا کیجے
میری ہی سی قاصد تو کہے جا مرے آگے
کیا کہیں ہم غم میں تیرے کس قدر رویا کیے
کہتے ہو کہ اب حال ترا اور ہی کچھ ہے
کچھ تو ستائے جاتے ہیں اس جان جاں سے بھی
پھر نہ کہنا کہ مجھے تم نے کہیں دیکھا ہے
واں پر تو احبا مجھے جانے نہیں دیتے
جو جان آکے لب پر کبھو رہ گئی ہے
زیر دیوار ہی رہا کرتے
بیٹھے بیٹھے آپ کیوں اٹھ کر چلے
مریض عشق کو مرنا شفا سے کیا کم ہے
کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
کہنے کو تو وہ مجھ سے ہیں کیا کیا نہیں کہتے
فن عیار میں بھی تو اے ستم گر ! ایک ہے
نہ تجھ کو بھیجتا قاصد اگر یہ جانتا پہلے
سنا ہے آج واں کچھ اور ہی تدبیر میری ہے
نہیں سوجھتا کوئی چارا مجھے
اس ظلم پر بھی تم سے نہیں کچھ گلا مجھے
پھر کیا کہوں وہ ملنے میں کرتا قصور ہے
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
بیان خواہش دل سب تو ہو چکا مجھ سے
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
کچھ کہے سامنے اس کے یہ ہے مقدور کسے
مل جائے جو وہ ھم سے تو کچھ دور نہیں ہے
دوستو اس سے نہ ملنا چاہیے
قاصد کی بات کا کسے یاں اعتبار ہے
کیوں کہا اس سے کہ بگڑی خوبیٔ تقدیر سے
ہوں جان سے خانۂ دلدار کے صدقے
گر آئے بھی تو ایسے وہ بہتان دھر گئے
منتوں سے جو وہ یاں آج ہیں بلوائے ہوئے
دل کی حالت کہی نہیں جاتی
محفل میں آتے جاتے ہیں انساں نئے نئے
امید تجھے سے ایسی بھی اے فتنہ گر نہ تھی
مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
روتے ہیں آگے مرے الفت جتانے کے لیے
ربط کچھ ہم نے بڑھایا تھا بڑی مشکل سے
نہیں ہر بات پر نہیں ہوتی
دنیا کی سر پہ آفتیں لیں تیرے واسطے
ایسے انجان ہوئے ایسے ہی ناداں ہوگے
بے وجہ تم کو میری طرف سے ملال ہے
ظاہر ہوا یہ میری ہی گفتار سے ابھی
اگر کہوں کوئی اتنی جفا بھی کرتا ہے
اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
جو سوگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
مری سانس اب جارا گر ٹوٹتی ہے
تم بگڑو غیر سے ابھی اک ایسی بات ہے
مجھ سے الفت ہے کہہ دیا یہ بھی
درد دل کی مرے گو ان کو دوا آتی ہے
توجہ سہی ہم پہ کم اور بھی
ذکر کس بات کا چھیڑا تو نے
تم سے امید بر آئے کوئی
آپ نے آج نکالی ہے یہ تکرار نئی
ہم کیوں ملیں کسی سے یہ اچھا جواب ہے
جھگڑے شب وصال یہ باہم دگر پڑے
واقف ہی نہیں لذت آزار سے کوئی
کیوں بار بار عرض تمنا کرے کوئی
حجت نکالی خوب یہ تکرار کے لیے
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
یہ کیوں کہیں کچھ اور ارادا نہ کریں گے
دیکھوں تو میرے پاس کہاں تک نہ آئیں گے
ایذائیں وصل میں بھی اٹھائیں نئی نئی
رخ پہ وہ زلف دوتا لوٹ گئی
یا رب ! جو دل دیا ہے تو دل کو قرار دے
میری قسمت بھی کیا بجا ٹھہری
اگر فریب ہمارے بھی تم پہ چل جاتے
ہمارے عشق کی کیا داستان اچھی ہے
لگاوٹ یاد ہے وہ ابتدا کی
یہی کچھ خط ہے جینے کا یہی کچھ لطف ہستی ہے
یہ تو مانا کبھی تم نے نہ مری مانی ہے
سچ ہے بجا ہے مجھ سے شکایت جناب کی
اس نے جو کچھ کہا کیے ہے بنی
دل میں وہ بات تو اے دشمن دیں بیٹھ گئی
آرزو دل کی بر نہیں آتی
تنہا نہ اس کی چاہ نے رسوا کیا مجھے
دل ربائی کا یہی طرز تمہیں یاد رہے
بہم الفت کی باتوں میں کدورت آ ہی جاتی ہے
جان پر اپنی وہ آساں ہے جو مشکل آئے
یہ ہوا سرد چلی اور یہ باد آئے
اجل بھی آئے کہیں انتظار کے بدلے
الفت کی ایسی چوٹ ہے دل پر لگی ہوئی
پھر کہتے ہو ہم پاس کسی کا نہیں کرتے
تمہارے وعدے پہ کیوں دل کو بے قراری ہے
دل دیا ہاں یہ کیا کیا میں نے
بات کس دن آپ نے مانی مری
نظرآتے ہو آج حیراں سے
میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوئی
جو کہیے کچھ خبر تم کو کسی مضطر کی ہوتی ہے ؟
کوئی ہزار طرح اس کا غم بھلائے مجھے
یا جدا دل سے خدایا تپ ہجراں ہو جائے
ناحق میں مجھ سے اہل وفا سے بگڑ گئی
نہیں ملتا کسی ڈھب دل ربا کیجے تو کیا کیجے
جب سے اس بت پہ طبع آئی ہے
کیا پیش جائے ایسے ستم گر کے سامنے
یہ چلتے وقت آپ مجھے کیا سنا چلے
روز محشر سے بھی افزوں شب وعدا دیکھی
بھا گیا ہے لطف ایسا رشک دشمن کا مجھے
نہ گونج بالی کی رخسار سیم بر میں چبھے
کب وہ بال اپنے سنگھاتے ہیں مجھے
دل پھرا ناصح کب اس عیار سے
صاف باتوں میں تو کدورت ہے
واں رسائی ہو تو ذلت ہو جائے
کبھی ملتے تھے ہم سے وہ زمانہ یاد آتا ہے
منظور وصل کب تمہیں وعدا کیا سہی
ادھر آرائشیں ہیں اور ادھر نوحہ ہے زاری ہے
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
گردش ہمیں وطن میں ہے ایذا سفر میں ہے
ذرا سمجھ تو ضد ان کی ہزار باقی ہے
گئے ہیں وہ ابھی یاں سے پتا نہیں ملتا
جو منہ سے کہا ہے وہی اب کرکے اٹھیں گے
دل دھڑکتا ہے وہاں پر جاتے
ہزاروں وہم ہوئے گر ہوا وصال مجھے
اٹھا ہوں اس کی بزم سے جب ہو کے ناامید
قصائد ، قطعات ، سہرے ، قطعات اور غزل (فارسی)
صنعت توشیح
جوشش نشو و نما ہے یہ چمن میں ہر جا
قصیدۂ نو رسیدہ در صنائع و بدائع
فتنۂ زلف کا اندھیر ہے طوفان بلا
غزل
جوہر طبع رسا عرض کروں کس کے حضور
گریز شاعرانہ
اے فلک رتبہ و ذی جاہ و امیرالامرا
مطلع
اشعار دعائیہ
جلوہ گر مطلع امید سے ہے مہر مراد
قصیدہ(2) ، در مدح یوست عہد، ملک خصال، سکندر شوکت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلایا جائے کہاں دل سے وہ بت بے پیر
عجب نصیب ترے اور عجب تری تقدیر
مطلع ثانی
مطلع ثالث
ہوا ہے عہد میں اس کے جواں یہ چرخ پیر
شیل اشک (و) گرد غم سے ہے مکدر آستیں
قصیدہ(3) در مدح عالی جناب معلی القاب گردوں جناب ہلال رکاب۔۔۔۔۔۔۔
قصیدہ(4) در مدح حاجی الحرمین، معلی القاب، گردوں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تری عمر ہو آسماں سے زیادہ
قصیدہ (5) در مدح نواب کلب علی خاں والی ، ریاست رام پور
یہ سچ ہے وقت پھر کبھی آتا ہے جاکے ہاتھ
قطعات (عرض داشت بہ جناب اصغر علی خاں صاحب)
اگر پوچھیں گے ہم سے حشر کے دن احمد مرسل
اے بہادر محمد عثماں خاں
قطعہ (عرض داشت بہ جناب مدار المہام صاحب)
بسنت رائے مہاراج عہد عالی جاہ
قطعہ (عرض داشت بہ جناب مہاراج بسنت رائے)
یہ شادی یہ شادی کا ساماں مبارک
قطعہ مبارک بادی
قطعہ (بہ توصیف جناب مہاراج منّا صاحب بہادر دام اقبالہم)
طالع خفتہ اب تو ہو بیدار
لا صبا پھول کہ تیار کریں ہم سہرا
سہرے
گل فردوس سے حوروں نے تو گوندھا سہرا
سہرا مثلث
اچھی ساعت سے بنا اچھے بنے کا سہرا
کیا طلسمات کے پھولوں کا ہے مالن سہرا
کم خوشی کس کو ہے شادی ہے بڑی سہرے کی
قطعۂ تہنیت عید
فارسی ، قطعہ تاریخ ولد فرزند
ایں عید بہ بندگان عالی
چوں بہ مشکوے عطاء اللہ خاں
غزل (فارسی)
چہ کنم با دل اختیارم نیست
اختلاف نسخ
خاتمہ
مثنوی اور قطعات تاریخ طبع دیوان
زہے طبع والاے حضرت نظام
اغلاط نامہ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।