سرورق
دیباچہ
پیش لفظ
حمد
ہدیۂ عقیدت ببار گاہ رسالت
ماضی اور حال
پگھل جائے سن لے اگر سنگ خارا
افسانہ زندگی کا سنایا نہ جاسکا
بزم مے سے نہ اٹھا مجھ کو مری جاں تھم جا
شب غم رنج وحسرت میں کٹی وقت سحر آیا
گرجتا گونجتا بادل سر کہسار آپہنچا
زمیں میری زماں میرا نظام آسماں میرا
کہاں سے آئے اس غربت کدے میں ترجماں میرا
قدم یوں بے خطر ہو کر نہ میخانے میں رکھدینا
کبھی درد آشنا تیرا بھی قلب شادماں ہوگا
شرار شمع کو بے سوز پروانوں سے کیا ڈرنا
کریں اپنے لئے ہم التجا کیا
کیا کیا کرم گردش ایام ہوا تھا
نگاہ لطف کے قابل مجھے تم نے اگر جانا
ہوئے دور مجھ سے سب اپنے پرائے قریں تم نہ ہوگے تو پھر کون ہوگا
دل زار و محزوں کی گہرائیوں تک رسا تم نہ ہوگے تو پھر کون ہوگا
آج آنسوان کی پلکوں پر اگر چمکا تو کیا
رسم جنوں عشق کو توڑا نہ جائے گا
یہ کس کا نور چمکا ہے سر کہسار کیا کہنا
رخ اپنا بدل لیتا دریا کا دھارا مگر کاش تیر اسہارا تو ہوتا
یہ خمصۂ سود و زیاں یار رہے گا
جو کچھ ملا تھا ہم کو وہ سب ہم نے کھو دیا
زیست کو پر کیف کرنے کا قرینہ آگیا
تمھارے غم نے شگوفے کھلائے ہیں کیا کیا
پئے جلوہ محفل سجائی گئی ہے کیا جائے گا درد دل کا مداوا
کیا کریں گے ترے دمساز مداوا تیرا
ناگہاں موج نظر سے آج دل ٹکرا گیا
باغ جہاں سے دل کو اکھیڑا نہ جاسکا
یاد ہیں وہ دن کہ ہم تم جب تھے یا ہم آشنا
خبر کیا تھی کہ اک یہ لمۂ مشکل بھی آئے گا
اگر خوئے تحمل ہو تو کوئی غم نہیں ہوتا
قصور کوئی بتاؤ اگر ہمارا تھا
مرے دل پہ اک کوہ اندوہ وغم ہے اگر جان لیتا وہ دلدار اتنا
قلب بریاں دیدۂ حیراں نے کر ہی گیا
رخصت ہوئے ارباب وفا چھٹ گیا میلا
ہر قدم پر میرے سجدے کا نشاں بنتا گیا
اگر محمل کی جانب رخ کرے باد سحر اپنا
بیمار غم کچھ ایسا یکا یک بکھر گیا
سر محفل نقاب رخ اٹھایا جا نہیں سکتا
افسانہ محبت انجام تک نہ پہنچا
تجھ پہ نثار چشم و دل رخ سے نقاب اٹھائے جا
کس طرح غم کو چھپائے دل آزار طلب
دو گھڑی کا اور ہے بیمار اب
اے وہ کہ اقتدار نے تجھ کو کیا ہے مست
کیا پوچھتے ہو مجھ سے مری بیدلی کی بات
مجھ کو یہ رنج کہ کب تک سہوں ان کی بیداد
کیونکر کروں اب تازہ محبت کی روایات
ترے غم میں عمر گزر گئی مری روح آئی نکھار پر
ہنگام سحر آیا ہے دور شراب آخر
بدل ڈالو مری تقدیر کو مجھ سے خفا ہو کر
ہم سفر دور گئے باد یہ پیما ہو کر
لگی تھی آگ سے دل سے جگر تک
اچھا نہیں ہر ایک سے ہردم یہ اختلاط
درو دیواریں مقتل کے مصروف فغاں اب تک
دل پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے سہے جاتا ہے دل
اپنے کیے پہ کوئی پشیماں ہے آج کل
بے وجہ نہیں رہتے ہیں ناشاد وحزیں ہم
بجھتے ہوئے چراغ فروزاں کریں گے ہم
آسمانوں سے ستارے توڑ کر لاتا ہوں میں
لغزشیں واصفؔ کی جو مشہور دوراں ہوگئیں
بیگانہ خلش کا یہاں کچھ بھرم نہیں
وفا کا رشتہ سب احباب داخواں توڑ دیتے ہیں
دل کو جرم عشق سے پھر آشنا کرتا ہوں میں
تجھے بھی روٹھ کے آخر رلاؤں گا اک دن
کوئی رفیق نہیں کوئی غمگسار نہیں
اب عیش کی خواہش نہ مسرت کا ہے ارمان
گردش چشم ناز کیا جانیں
مدت ہوئی کہ ہم پہ کرم کی نظر نہیں
گمنام وکم آمیز ہوں معدوم نہیں ہوں
وار فتگی پہ میری یہ قہر وعتاب کیوں
مفلس میں قناعت نہ سخاوت ہے غنی میں
کافی ہیں وہ حالات جو آنکھوں سے عیاں ہیں
صہبا نہیں مینا نہیں پیما نے نہیں ہیں
نظر ہے مری مہتم جانتا ہوں رقیبوں کی تشنیع و ذم جانتا ہوں
کوئی حکمت مرض عشق میں چلتی ہی نہیں
ہم سفر! تھم تو سہی دل کو سنبھالوں تو چلوں
دم بھر اگر قرار نہ آئے تو کیا کروں
یہ مانا اہل ہوش اکثر مجھے غافل سمجھتے ہیں
آیا ہوں دور سے میں تری جلوہ گاہ میں
فاعلاتن فاعلا تن فاعلا تن فاعلن
مرنے میں تکلف ہم کو نہیں جینا بھی گوارا کرتے ہیں
صحرائے جنون دو حشت میں ایسے کامل مل جاتے ہیں
راز داری بھی رہے آزار میں
برپا نہوں جب فتنے بجتی نہوں زنجیریں
کچھ نہ سوجھا نیک وبد غفلت میں مستی میں ہمیں
اپنی نظروں میں تھی اپنی ہر خطا عین صواب
سمجھتے ہو جن کو اذیت کے آنسو
پردہ ہٹا کے چہرۂ زیبا دکھاؤ تو
غیر کی بات کا لیتے ہو اثر جانے دو
کسے حال اپنا سناؤں خدایا نہو جائے زیر وزبر یہ زمانہ
محشر میں ہم سے پہلے وہ داد خواہ نکلے
اگر دل پر ہے تیری بادشاہی
سفر آج سوئے خرابات ہے
یہ کس کا نغمۂ شیریں رسا گوش گراں تک ہے
ہنستا ہوں میں سب کی دیکھا دیکھی دل کی کسک کوئی کیا جانے
فعل فعولن فعلن فعلن چار بار
پے بہ پے جھونکے صبا کے دل کو تڑپانے لگے
آنسو بھی خشک ہوگئے دل کی متاع بھی جلی
ہم نے کیا کیا کچھ کیا اس مضطرب دل کے لئے
تقدیر میں یہ کار گہ رنج وتعب تھی
آنکھیں برس کے کھل گئیں دل کی فضا نکھرگئی
آج ان کی بارگہ میں پرسش احوال ہے
میں سیہ کا روسیہ روتیرہ قسمت ہی سہی
یہ خوابیدہ تمنعا کو جگانے کون آتا ہے
جب سے غم ساز گاہے پیارے
غم سے جب دل تباہ ہوگا ہے
مرے جنوں کو میسر نہیں کمال ابھی
ناصح ملے رقیب ملے چارہ گر ملے
ملامت گر بھی ہے غماز بھی ہے
مرا پروانۂ دل اپنی منزل یاد رکھتا ہے
خزاں ہو یا بہار آہ وفغاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
یہ راز جنوں کون سمجھا رہا ہے
دل میں داغ عصیاں ہے رخ پہ نور یزداں ہے
کبھی جھلکا طرف حجاب سے کبھی جھانکا گوشۂ بام سے
مدارات لازم اک میہماں کی
وہ گزرے ادھر ناگہاں چلتے چلتے
گلستاں جب آیا نظر اڑتے اڑتے
زمانے میں اسی انسان کی توقیر ہوتی ہے
دامن کو الجھنوں سے بچاتے گزرگئے
چن لیا قدرت نے تجھ کو آزمانے کے لئے
کس تمنا سے در اہل کرم تک پہنچے
کیفیت گداز الم کچھ نہ پوچھئے
ہم اپنی خطاؤں کا اقرار نہیں کرتے
سرگشتۂ سودائے انجام نہیں ہوتے
مسرت کے لئے یہ سعی بے حاصل کہاں تک ہے
کسی کے گیسوؤں کی برہمی دیکھی نہیں جاتی
ہے تمھارے نام سے کامل مرااسلام بھی
تیر کھا کر بھی بسمل نہیں ہونے پاتے
یہیں ہم نے اشک بہائے تھے یہیں خون دل بھی گرا گئے
ہمت عالی سے ہے محروم دیوانہ ابھی
ملتے ہو کسی اور سے شک ہے تو یہی ہے
مجھے جام مے جو عطا ہوا یہ تری نوازش عام ہے
تجھے مستعاراس نے دی ہے یہ دولت یہ اعزازو منصب یہ کاخ اور حویلی
مانا کہ تمھیں ہم سے کوئی بیر نہیں ہے
ہجوم جلوہ میں جلوے سے بے نیاز رہے
جو کسی رازداں کا جو یا ہے
بس اک نظر میں ہی دل دید یا ہے چل جھوٹے
ہر گلی کوچے میں اک ہنگامہ دیکھا جائے ہے
ہوائے یاس وحرماں سے دل سوزاں لرزتا ہے
وائے ناکامی کہ وہ مجھ سے کشیدہ ہوگئے
مائل مری جانب نگہ ناز نہیں ہے
مانگو جو مانگنا ہو اپنے ہی رب سے پہلے
عزت انھیں ملی وہی آخر بڑے رہے
جو حذنگ ناز کے کارواں یونہیں بار بار رواں رہے
پڑے دیکھے ہیں لاشے تونے بے گورو کفن کتنے
ابھی ایجاد ہوں گے دیکھیے طرز سخن کتنے
دن کا تجس راتوں کے نالے کچھ بھی ہمارے کام نہ آئے
بیان اے ہم نشیں!ٗ غم کی حکایت اور ہو جاتی
حریم ناز کو ہم غیر کی محفل نہیں کہتے
جانتا ہوں کہ بخت برہم ہے
تری الفت میں جتنی میری ذلت بڑھتی جاتی ہے
وجہ وفور کلفت احساس وآگہی ہے
روح جب قید عناصر ملیں گرفتار نہ تھی
خدا جانے یہ پیہم کون نشتر سے چبھوتا ہے
آگ حرمانگہ عالم میں لگا دے ساقی
الفت میں جان ودل کا زیاں دیکھتے رہے
سہل ہے مرنا مگر اے دوست مشکل ایک ہے
کسی پہلو چین نہیں مجھے کہ الم سے سینہ فگار ہے
کہاں فرصت کہ رفتار جہاں کچھ اور کہتی ہے
جب میری محبت اسے معلوم ہوئی تھی
ہم نے سمجھا تھا جنھیں دوست وہ دشمن نکلے
کیے لاکھوں ہی پھیرے ہم نے پیہم کوئے قاتل کے
آئے گی اور نہ اب تک آئی ہے
عجیب روگ ہمیں عشق نے لگایا ہے
جفا جو سے محبت آفریں سے
کسک دل کی نہیں جاتی اذیت کم نہیں ہوتی
یہ خون تمنا کہ تو مستور ہے مجھ سے
دل پہلے پہل مجھ سے لگایا ہے کسی نے
کارواں آنکھوں سے اوجھل اور محمل دور ہے
نسیم صبح یوں لے کر ترا پیغام آتی ہے
ہے دیدنی کشا کش پنہاں زندگی
رہی کچھ ایسی معزز کہ ہاتھوں ہات گئی
پیام شوق وہاں میرا بار یاب تو ہے
نزدیک سا ہوا ہے کچھ دور سا ہوا ہے
عداوت سہتے سہتے دل میں نفرت آہی جاتی ہے
ہو میرا شہیدوں میں اگر نام بہت ہے
تضمین بر غزل خواجہ میر درد
نظمیں اور قطعات ورباعیات
بڑی پردرد ہے میری کہانی
ترے فیض توجہ سے تخیل کا مراں میرا
بہ بار گاہ رسالت
قلم جب سرجھکا کر لوح دل کا ترجماں ہوگا
قصیدہ نعتیہ
سجاؤ بزم کو اے ہمد مو! مینا وساغر سے
ستاروں کی طرح دل کے شرارے جگمگا تے ہیں
بالا تر ازقیاس ہے عظمت رسول کی
ملی وقومی نظمیں
اے جہان آباد اے معمورۂ علم وحکم
اے قطب مینار اے خمیازۂ دور شباب
اے گردش ایام بہ تغییر جہاں خیز
گرم رفتار فوجی لاری تھی
جہان آباد میں پھر ابر رحمت شکبار آیا
ہر چار طرف فتنہ بپا دیکھ رہا ہوں
بنگال اور بہار میں قتل عام
اے ہم نشیں وطن کی مرے داستاں نہ پوچھ
بار یابی ہوا گر ان رہبران قوم تک
سن اے ستارۂ صبح وطن مری روداد
خوشی یہ تھی کہ ہمارا یہ لالہ زار وطن
ہائے میری دلّی
ہم سفر تھم تو سہی دل کو ٹھہر جانے دے
گلشن میں جب کلیوں نے چٹک کرجے ہند پکارا
قومی ترانہ
یوں گلہ مند آج ہے شاعر سے ذہن نکتہ چیں
ایک نکتہ چین اور شاعر
اک مفلس نادار سے جب میں نے کہا
ملک اپنا بھی آج ہے آزاد
گلستاں پر بصد حسرت گھٹا پھر اشکبار آئی
اے عازم دربار شہنشاہ مدینہ
منزل آغاز الفت
عشقیہ نظمیں
گزرا ہوا وقت
عید کا چاند
اشک حسرت
ایک منظوم خط
ایک بڑھیا کا عشق ایک نوجوان سے
آرزوئے موہوم
ایک حسرت
خیر باشد
سیاسی نظمیں
جنگ آزادی
عبرت
تہنیت سفارت امریکہ
مدحیہ نظمیں
شکریۂ طبع اول کتاب درس الاسلام
قطعہ تہنیت
مرثیے یاد اجمل
بستر مرگ سے آخری پیغام
اہلیہ مرحومہ کی یاد میں
تاثرات غم
خانہ بربادی
استاد مرحوم نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی یاد میں
شریک زندگی کی یاد
گاندھی جی
بیاد سلطان دہلوی یکے از تلامذۂ واصفؔ
حضرت مفتی اعظم
علامہ اقبال مرحوم
تاریخ وفات مولانا محمد علی جوہرؔ المتوفی۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء
ڈاکٹر فضل الٰہی مخمور دہلوی
والد مرحوم کی یاد میں
حضرت مولانا حافظ محمد اعزاز علی صاحب مرحوم
حضرت نوحؔ ناروی مرحوم
قطعہ تاریخ وفات ریاض الدین کامل نظامی دہلوی
قطعہ تاریخ وفات سلطان بیگم
قطعۂ دیگر
متفرق نظمیں
ایک اجنبی دوست کے نام
اظہار حال
جواب از جاذبؔ صاحب
قصیدہ
خطاب بہ تلامذہ
خطاب بہ اساتذہ
خطاب بہ سیداعجاز حیدر ہیڈ ماسٹر
تاریخ تعمیر جدید مسجد مدرسہ امینیہ اسلامیہ دہلی
سہرا
تہنیت شادی کتخدائی میاں افتخار احمد سلّمہ ابن حکیم انوار احمد صاحب دہلوی
گفتہ آید در حدیث دیگراں
تاریخ تعمیر حوض جامع مسجد فیروز پور جھرکہ
مدوجزر اہتمام
تحصیل عشق و رندی آساں نمود اول صفر المظفر ۱۳۷۵ھ
جانم بسوخت آخر در کسب ایں فضائل
پیش کردہ منشی محمد قمرالدین صاحب دہلوی
بہ تقریب واپسی از حج وزیارت جناب شیخ محمد اسلم صاحب دہلوی متعلم بی اے آنرز دہلی کالج
قطعہ تاریخ تعمیر مسجد ومدرسہ مقام نواگاؤں بورجائی پوسٹ لیمٹ ضلع بھروچ
تہنیت برواپسی از حج وزیارت مولانا فخرالحسن صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند مع اہلیہ محترمہ
ایک ابتلا
اے صبح کے پنچھی!
مجذوب کی بڑ
ابنائے زمانہ
سیاسی ذہنیت اور دینی درسگاہیں
مکتوب بھیجئے
عملیات
حق وفا داری
علمائے سوء
واصفؔ می گوید
سعدی می فرماید
نیابت انبیاء
سعدیؔ می فرماید
واصفؔ می گوید
رباعیات وقطعات
واصفؔ می گوید
عرفیؔ می فرماید
سرورق
دیباچہ
پیش لفظ
حمد
ہدیۂ عقیدت ببار گاہ رسالت
ماضی اور حال
پگھل جائے سن لے اگر سنگ خارا
افسانہ زندگی کا سنایا نہ جاسکا
بزم مے سے نہ اٹھا مجھ کو مری جاں تھم جا
شب غم رنج وحسرت میں کٹی وقت سحر آیا
گرجتا گونجتا بادل سر کہسار آپہنچا
زمیں میری زماں میرا نظام آسماں میرا
کہاں سے آئے اس غربت کدے میں ترجماں میرا
قدم یوں بے خطر ہو کر نہ میخانے میں رکھدینا
کبھی درد آشنا تیرا بھی قلب شادماں ہوگا
شرار شمع کو بے سوز پروانوں سے کیا ڈرنا
کریں اپنے لئے ہم التجا کیا
کیا کیا کرم گردش ایام ہوا تھا
نگاہ لطف کے قابل مجھے تم نے اگر جانا
ہوئے دور مجھ سے سب اپنے پرائے قریں تم نہ ہوگے تو پھر کون ہوگا
دل زار و محزوں کی گہرائیوں تک رسا تم نہ ہوگے تو پھر کون ہوگا
آج آنسوان کی پلکوں پر اگر چمکا تو کیا
رسم جنوں عشق کو توڑا نہ جائے گا
یہ کس کا نور چمکا ہے سر کہسار کیا کہنا
رخ اپنا بدل لیتا دریا کا دھارا مگر کاش تیر اسہارا تو ہوتا
یہ خمصۂ سود و زیاں یار رہے گا
جو کچھ ملا تھا ہم کو وہ سب ہم نے کھو دیا
زیست کو پر کیف کرنے کا قرینہ آگیا
تمھارے غم نے شگوفے کھلائے ہیں کیا کیا
پئے جلوہ محفل سجائی گئی ہے کیا جائے گا درد دل کا مداوا
کیا کریں گے ترے دمساز مداوا تیرا
ناگہاں موج نظر سے آج دل ٹکرا گیا
باغ جہاں سے دل کو اکھیڑا نہ جاسکا
یاد ہیں وہ دن کہ ہم تم جب تھے یا ہم آشنا
خبر کیا تھی کہ اک یہ لمۂ مشکل بھی آئے گا
اگر خوئے تحمل ہو تو کوئی غم نہیں ہوتا
قصور کوئی بتاؤ اگر ہمارا تھا
مرے دل پہ اک کوہ اندوہ وغم ہے اگر جان لیتا وہ دلدار اتنا
قلب بریاں دیدۂ حیراں نے کر ہی گیا
رخصت ہوئے ارباب وفا چھٹ گیا میلا
ہر قدم پر میرے سجدے کا نشاں بنتا گیا
اگر محمل کی جانب رخ کرے باد سحر اپنا
بیمار غم کچھ ایسا یکا یک بکھر گیا
سر محفل نقاب رخ اٹھایا جا نہیں سکتا
افسانہ محبت انجام تک نہ پہنچا
تجھ پہ نثار چشم و دل رخ سے نقاب اٹھائے جا
کس طرح غم کو چھپائے دل آزار طلب
دو گھڑی کا اور ہے بیمار اب
اے وہ کہ اقتدار نے تجھ کو کیا ہے مست
کیا پوچھتے ہو مجھ سے مری بیدلی کی بات
مجھ کو یہ رنج کہ کب تک سہوں ان کی بیداد
کیونکر کروں اب تازہ محبت کی روایات
ترے غم میں عمر گزر گئی مری روح آئی نکھار پر
ہنگام سحر آیا ہے دور شراب آخر
بدل ڈالو مری تقدیر کو مجھ سے خفا ہو کر
ہم سفر دور گئے باد یہ پیما ہو کر
لگی تھی آگ سے دل سے جگر تک
اچھا نہیں ہر ایک سے ہردم یہ اختلاط
درو دیواریں مقتل کے مصروف فغاں اب تک
دل پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے سہے جاتا ہے دل
اپنے کیے پہ کوئی پشیماں ہے آج کل
بے وجہ نہیں رہتے ہیں ناشاد وحزیں ہم
بجھتے ہوئے چراغ فروزاں کریں گے ہم
آسمانوں سے ستارے توڑ کر لاتا ہوں میں
لغزشیں واصفؔ کی جو مشہور دوراں ہوگئیں
بیگانہ خلش کا یہاں کچھ بھرم نہیں
وفا کا رشتہ سب احباب داخواں توڑ دیتے ہیں
دل کو جرم عشق سے پھر آشنا کرتا ہوں میں
تجھے بھی روٹھ کے آخر رلاؤں گا اک دن
کوئی رفیق نہیں کوئی غمگسار نہیں
اب عیش کی خواہش نہ مسرت کا ہے ارمان
گردش چشم ناز کیا جانیں
مدت ہوئی کہ ہم پہ کرم کی نظر نہیں
گمنام وکم آمیز ہوں معدوم نہیں ہوں
وار فتگی پہ میری یہ قہر وعتاب کیوں
مفلس میں قناعت نہ سخاوت ہے غنی میں
کافی ہیں وہ حالات جو آنکھوں سے عیاں ہیں
صہبا نہیں مینا نہیں پیما نے نہیں ہیں
نظر ہے مری مہتم جانتا ہوں رقیبوں کی تشنیع و ذم جانتا ہوں
کوئی حکمت مرض عشق میں چلتی ہی نہیں
ہم سفر! تھم تو سہی دل کو سنبھالوں تو چلوں
دم بھر اگر قرار نہ آئے تو کیا کروں
یہ مانا اہل ہوش اکثر مجھے غافل سمجھتے ہیں
آیا ہوں دور سے میں تری جلوہ گاہ میں
فاعلاتن فاعلا تن فاعلا تن فاعلن
مرنے میں تکلف ہم کو نہیں جینا بھی گوارا کرتے ہیں
صحرائے جنون دو حشت میں ایسے کامل مل جاتے ہیں
راز داری بھی رہے آزار میں
برپا نہوں جب فتنے بجتی نہوں زنجیریں
کچھ نہ سوجھا نیک وبد غفلت میں مستی میں ہمیں
اپنی نظروں میں تھی اپنی ہر خطا عین صواب
سمجھتے ہو جن کو اذیت کے آنسو
پردہ ہٹا کے چہرۂ زیبا دکھاؤ تو
غیر کی بات کا لیتے ہو اثر جانے دو
کسے حال اپنا سناؤں خدایا نہو جائے زیر وزبر یہ زمانہ
محشر میں ہم سے پہلے وہ داد خواہ نکلے
اگر دل پر ہے تیری بادشاہی
سفر آج سوئے خرابات ہے
یہ کس کا نغمۂ شیریں رسا گوش گراں تک ہے
ہنستا ہوں میں سب کی دیکھا دیکھی دل کی کسک کوئی کیا جانے
فعل فعولن فعلن فعلن چار بار
پے بہ پے جھونکے صبا کے دل کو تڑپانے لگے
آنسو بھی خشک ہوگئے دل کی متاع بھی جلی
ہم نے کیا کیا کچھ کیا اس مضطرب دل کے لئے
تقدیر میں یہ کار گہ رنج وتعب تھی
آنکھیں برس کے کھل گئیں دل کی فضا نکھرگئی
آج ان کی بارگہ میں پرسش احوال ہے
میں سیہ کا روسیہ روتیرہ قسمت ہی سہی
یہ خوابیدہ تمنعا کو جگانے کون آتا ہے
جب سے غم ساز گاہے پیارے
غم سے جب دل تباہ ہوگا ہے
مرے جنوں کو میسر نہیں کمال ابھی
ناصح ملے رقیب ملے چارہ گر ملے
ملامت گر بھی ہے غماز بھی ہے
مرا پروانۂ دل اپنی منزل یاد رکھتا ہے
خزاں ہو یا بہار آہ وفغاں یوں بھی ہے اور یوں بھی
یہ راز جنوں کون سمجھا رہا ہے
دل میں داغ عصیاں ہے رخ پہ نور یزداں ہے
کبھی جھلکا طرف حجاب سے کبھی جھانکا گوشۂ بام سے
مدارات لازم اک میہماں کی
وہ گزرے ادھر ناگہاں چلتے چلتے
گلستاں جب آیا نظر اڑتے اڑتے
زمانے میں اسی انسان کی توقیر ہوتی ہے
دامن کو الجھنوں سے بچاتے گزرگئے
چن لیا قدرت نے تجھ کو آزمانے کے لئے
کس تمنا سے در اہل کرم تک پہنچے
کیفیت گداز الم کچھ نہ پوچھئے
ہم اپنی خطاؤں کا اقرار نہیں کرتے
سرگشتۂ سودائے انجام نہیں ہوتے
مسرت کے لئے یہ سعی بے حاصل کہاں تک ہے
کسی کے گیسوؤں کی برہمی دیکھی نہیں جاتی
ہے تمھارے نام سے کامل مرااسلام بھی
تیر کھا کر بھی بسمل نہیں ہونے پاتے
یہیں ہم نے اشک بہائے تھے یہیں خون دل بھی گرا گئے
ہمت عالی سے ہے محروم دیوانہ ابھی
ملتے ہو کسی اور سے شک ہے تو یہی ہے
مجھے جام مے جو عطا ہوا یہ تری نوازش عام ہے
تجھے مستعاراس نے دی ہے یہ دولت یہ اعزازو منصب یہ کاخ اور حویلی
مانا کہ تمھیں ہم سے کوئی بیر نہیں ہے
ہجوم جلوہ میں جلوے سے بے نیاز رہے
جو کسی رازداں کا جو یا ہے
بس اک نظر میں ہی دل دید یا ہے چل جھوٹے
ہر گلی کوچے میں اک ہنگامہ دیکھا جائے ہے
ہوائے یاس وحرماں سے دل سوزاں لرزتا ہے
وائے ناکامی کہ وہ مجھ سے کشیدہ ہوگئے
مائل مری جانب نگہ ناز نہیں ہے
مانگو جو مانگنا ہو اپنے ہی رب سے پہلے
عزت انھیں ملی وہی آخر بڑے رہے
جو حذنگ ناز کے کارواں یونہیں بار بار رواں رہے
پڑے دیکھے ہیں لاشے تونے بے گورو کفن کتنے
ابھی ایجاد ہوں گے دیکھیے طرز سخن کتنے
دن کا تجس راتوں کے نالے کچھ بھی ہمارے کام نہ آئے
بیان اے ہم نشیں!ٗ غم کی حکایت اور ہو جاتی
حریم ناز کو ہم غیر کی محفل نہیں کہتے
جانتا ہوں کہ بخت برہم ہے
تری الفت میں جتنی میری ذلت بڑھتی جاتی ہے
وجہ وفور کلفت احساس وآگہی ہے
روح جب قید عناصر ملیں گرفتار نہ تھی
خدا جانے یہ پیہم کون نشتر سے چبھوتا ہے
آگ حرمانگہ عالم میں لگا دے ساقی
الفت میں جان ودل کا زیاں دیکھتے رہے
سہل ہے مرنا مگر اے دوست مشکل ایک ہے
کسی پہلو چین نہیں مجھے کہ الم سے سینہ فگار ہے
کہاں فرصت کہ رفتار جہاں کچھ اور کہتی ہے
جب میری محبت اسے معلوم ہوئی تھی
ہم نے سمجھا تھا جنھیں دوست وہ دشمن نکلے
کیے لاکھوں ہی پھیرے ہم نے پیہم کوئے قاتل کے
آئے گی اور نہ اب تک آئی ہے
عجیب روگ ہمیں عشق نے لگایا ہے
جفا جو سے محبت آفریں سے
کسک دل کی نہیں جاتی اذیت کم نہیں ہوتی
یہ خون تمنا کہ تو مستور ہے مجھ سے
دل پہلے پہل مجھ سے لگایا ہے کسی نے
کارواں آنکھوں سے اوجھل اور محمل دور ہے
نسیم صبح یوں لے کر ترا پیغام آتی ہے
ہے دیدنی کشا کش پنہاں زندگی
رہی کچھ ایسی معزز کہ ہاتھوں ہات گئی
پیام شوق وہاں میرا بار یاب تو ہے
نزدیک سا ہوا ہے کچھ دور سا ہوا ہے
عداوت سہتے سہتے دل میں نفرت آہی جاتی ہے
ہو میرا شہیدوں میں اگر نام بہت ہے
تضمین بر غزل خواجہ میر درد
نظمیں اور قطعات ورباعیات
بڑی پردرد ہے میری کہانی
ترے فیض توجہ سے تخیل کا مراں میرا
بہ بار گاہ رسالت
قلم جب سرجھکا کر لوح دل کا ترجماں ہوگا
قصیدہ نعتیہ
سجاؤ بزم کو اے ہمد مو! مینا وساغر سے
ستاروں کی طرح دل کے شرارے جگمگا تے ہیں
بالا تر ازقیاس ہے عظمت رسول کی
ملی وقومی نظمیں
اے جہان آباد اے معمورۂ علم وحکم
اے قطب مینار اے خمیازۂ دور شباب
اے گردش ایام بہ تغییر جہاں خیز
گرم رفتار فوجی لاری تھی
جہان آباد میں پھر ابر رحمت شکبار آیا
ہر چار طرف فتنہ بپا دیکھ رہا ہوں
بنگال اور بہار میں قتل عام
اے ہم نشیں وطن کی مرے داستاں نہ پوچھ
بار یابی ہوا گر ان رہبران قوم تک
سن اے ستارۂ صبح وطن مری روداد
خوشی یہ تھی کہ ہمارا یہ لالہ زار وطن
ہائے میری دلّی
ہم سفر تھم تو سہی دل کو ٹھہر جانے دے
گلشن میں جب کلیوں نے چٹک کرجے ہند پکارا
قومی ترانہ
یوں گلہ مند آج ہے شاعر سے ذہن نکتہ چیں
ایک نکتہ چین اور شاعر
اک مفلس نادار سے جب میں نے کہا
ملک اپنا بھی آج ہے آزاد
گلستاں پر بصد حسرت گھٹا پھر اشکبار آئی
اے عازم دربار شہنشاہ مدینہ
منزل آغاز الفت
عشقیہ نظمیں
گزرا ہوا وقت
عید کا چاند
اشک حسرت
ایک منظوم خط
ایک بڑھیا کا عشق ایک نوجوان سے
آرزوئے موہوم
ایک حسرت
خیر باشد
سیاسی نظمیں
جنگ آزادی
عبرت
تہنیت سفارت امریکہ
مدحیہ نظمیں
شکریۂ طبع اول کتاب درس الاسلام
قطعہ تہنیت
مرثیے یاد اجمل
بستر مرگ سے آخری پیغام
اہلیہ مرحومہ کی یاد میں
تاثرات غم
خانہ بربادی
استاد مرحوم نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی یاد میں
شریک زندگی کی یاد
گاندھی جی
بیاد سلطان دہلوی یکے از تلامذۂ واصفؔ
حضرت مفتی اعظم
علامہ اقبال مرحوم
تاریخ وفات مولانا محمد علی جوہرؔ المتوفی۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء
ڈاکٹر فضل الٰہی مخمور دہلوی
والد مرحوم کی یاد میں
حضرت مولانا حافظ محمد اعزاز علی صاحب مرحوم
حضرت نوحؔ ناروی مرحوم
قطعہ تاریخ وفات ریاض الدین کامل نظامی دہلوی
قطعہ تاریخ وفات سلطان بیگم
قطعۂ دیگر
متفرق نظمیں
ایک اجنبی دوست کے نام
اظہار حال
جواب از جاذبؔ صاحب
قصیدہ
خطاب بہ تلامذہ
خطاب بہ اساتذہ
خطاب بہ سیداعجاز حیدر ہیڈ ماسٹر
تاریخ تعمیر جدید مسجد مدرسہ امینیہ اسلامیہ دہلی
سہرا
تہنیت شادی کتخدائی میاں افتخار احمد سلّمہ ابن حکیم انوار احمد صاحب دہلوی
گفتہ آید در حدیث دیگراں
تاریخ تعمیر حوض جامع مسجد فیروز پور جھرکہ
مدوجزر اہتمام
تحصیل عشق و رندی آساں نمود اول صفر المظفر ۱۳۷۵ھ
جانم بسوخت آخر در کسب ایں فضائل
پیش کردہ منشی محمد قمرالدین صاحب دہلوی
بہ تقریب واپسی از حج وزیارت جناب شیخ محمد اسلم صاحب دہلوی متعلم بی اے آنرز دہلی کالج
قطعہ تاریخ تعمیر مسجد ومدرسہ مقام نواگاؤں بورجائی پوسٹ لیمٹ ضلع بھروچ
تہنیت برواپسی از حج وزیارت مولانا فخرالحسن صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند مع اہلیہ محترمہ
ایک ابتلا
اے صبح کے پنچھی!
مجذوب کی بڑ
ابنائے زمانہ
سیاسی ذہنیت اور دینی درسگاہیں
مکتوب بھیجئے
عملیات
حق وفا داری
علمائے سوء
واصفؔ می گوید
سعدی می فرماید
نیابت انبیاء
سعدیؔ می فرماید
واصفؔ می گوید
رباعیات وقطعات
واصفؔ می گوید
عرفیؔ می فرماید
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔