میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں تم چپکے سے آ جاتے ہو
میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں تم چپکے سے آ جاتے ہو
اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو
مستانہ ہوا کے جھونکوں سے ہر بار وہ پردے کا ہلنا
پردے کو پکڑنے کی دھن میں دو اجنبی ہاتھوں کا ملنا
آنکھوں میں دھواں سا چھا جانا سانسوں میں ستارے سے کھلنا
رستے میں تمہارا مڑ مڑ کر تکنا وہ مجھے جاتے جاتے
اور میرا ٹھٹھک کر رک جانا چلمن کے قریب آتے آتے
نظروں کا ترس کر رہ جانا اک اور جھلک پاتے پاتے
بالوں کو سکھانے کی خاطر کوٹھے پہ وہ میرا آ جانا
اور تم کو مقابل پاتے ہی کچھ شرمانا کچھ بل کھانا
ہم سایوں کے ڈر سے کترانا گھر والوں کے ڈر سے گھبرانا
رو رو کے تمہیں خط لکھتی ہوں اور خود پڑھ کر رو لیتی ہوں
حالات کے تپتے طوفاں میں جذبات کی کشتی کھیتی ہوں
کیسے ہو کہاں ہو کچھ تو کہو میں تم کو صدائیں دیتی ہوں
میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں تم چپکے سے آ جاتے ہو
اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو
- کتاب : Kulliyat-e-Sahir Ludhianvi (Pg. 389)
- Author : SAHIR LUDHIANVI
- مطبع : Farid Book Depot (Pvt.) Ltd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.