گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو
جو یہ ساماں میسر ہو تو لطف زندگانی ہو
مزہ کیا خضر کی صورت جو عمر جاودانی ہو
ہم اس جینے سے باز آئے جو تنہا زندگانی ہو
گھٹا ہے ساقیا سامان وصل یار جانی ہو
لبالب ہر صراحی میں شراب ارغوانی ہو
خزاں میں کہتے ہیں پیر مغاں سے رند مشرب یوں
بہار آئی کہیں دور شراب ارغوانی ہو
کسی یوسف لقا پر دل جو آئے عہد پیری میں
نئے سر سے زلیخا کی صفت پھر نوجوانی ہو
مجھے شوق شہادت تشنہ لب لایا ہے مقتل میں
پلا دے آب خنجر پیاس اگر قاتل بجھانی ہو
وہ مجرم ہوں کہوں گا حشر میں اللہ سے رو کر
جہنم سے میں بچ جاؤں جو تیری مہربانی ہو
محبت ان بتان سنگ دل سے دیکھ کر کرنا
شب فرقت کی ایذا گر تجھے اے دل اٹھانی ہو
تری تصویر اے جاں کھینچ لے کیا تاب رکھتا ہے
نظر بھر کر اگر دیکھے تجھے بے ہوش مانی ہو
پئے جاتا ہوں خم کے خم وہ مے خانے میں مے کش ہوں
پلائے جا مجھے ساقی جہاں تک مے پلانی ہو
حباب بحر کی صورت نہیں دم بھر ثبات اس کو
مری نظروں میں پھر دنیائے دوں کیونکر نہ فانی ہو
کھڑا ہوں طور پر کب سے مجھے دیدار دکھلا دو
کلیم اللہ جب آئیں تو ان سے لن ترانی ہو
وفاؔ بہر خدا چھوڑو محبت ان حسینوں کی
بتوں کے ہجر میں ایسا نہ ہو ضائع جوانی ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.